• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایران اورامریکا کے درمیان جاری تنازعےپر ایران نے بالآخر امریکا کے خلاف عالمی عدالت میں جانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ مئی 2018ء میں امریکا کی جانب سے عایدکی جانے والی پابندیاں ایران کی اقتصادیات پر بری طرح اثرانداز ہورہی ہیں۔ اس لیے اب ایران کے پاس زیادہ متبادل ہیں بھی نہیں۔

ایران نے 27؍اگست 2018ء کو عالمی عدالت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت سے درخواست کی ہےکہ ان پابندیوں کوناجائزقراردیا جائےجوامریکا نے جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد اس پرعاید کی ہیں۔ یہ درخواست ایران کے وکیل محسن محبی (MOHEBI) نے دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ امریکا ایران کو زیادہ سے زیادہ اقتصادی نقصان پہنچانے کی کوشش کررہا ہے۔ درخواست میں یہ یاد دلایا گیا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان 1955ءسے ایک معاہدہ موجود ہے جس کی امریکا خلاف ور زی کررہا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے جواب میں امریکا یہی کہے گا کہ اس نے ایران پرجو پابندیاں لگائی ہیں وہ معاہدے کی خلاف ورزی کے ذمرےمیں نہیں آتیں۔

اس سے ایک روز قبل ایران کے وزیر خارجہ،جواد ظریف نے کہا تھا کہ امریکا نے ایران کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر رکھی ہے۔ اسی دوران ایران کی پارلیمان نے اپنے ملک کے وزیر خزانہ مسعود کرباسیان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لاکر انہیں عہدے سے برطرف کردیا تھا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مسعود کرباسیان صرف ایک سال تک اس عہدے پر برقرار رہ سکے۔ انہیں گزشتہ برس اگست کے مہینے میں ایران کے صدر حسن روحانی نے وزیر خزانہ مقرر کیا تھا۔ مسعود کرباسیان اعلی تعلیم یافتہ وزیر تھے۔وہ پی ایچ ڈی ہیںاور اس سے قبل وزیر صنعت و تجارت رہ چکے تھے۔ علی طیب بھی معاشیات کے مضمون میں پی ایچ ڈی تھے اور لندن اسکول آف اکنامکس سے تعلیم یافتہ تھے۔

ایران کی معیشت کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں تقریبا ساٹھ فی صد حصہ سرکاری ہے، جس کی منصوبہ بندی سرکاری سطح پر کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس معیشت میں سب سے بڑا حصہ تیل اور گیس کی پیداوار کاہے اور اس سے منسلک چالیس سے زیادہ صنعتیں ایرانی اسٹاک ایکسچینج کی رکن بھی ہیں۔ ایران کے پاس اس وقت دنیا کے تیل کےکُل ذخائر کا دس اور گیس کے کُل ذخائر کا تقریباً پندرہ فی صد حصہ ہے جو اسے دنیا کی بڑی معیشت بنانے کے لیے کافی ہونا چاہیے، مگرچار عشروں سے ایران اور امریکا کے خراب تعلقات نے ایران کی معیشت کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔

ایران کی معیشت میں ایک اہم کردار ’’بنیاد‘‘ نامی فائونڈیشن اداکرتی ہےجوتیل کےعلاوہ معیشت کے دیگر شعبوں کے ذریعے ایران کی تقریباً بیس فی صد ا قتصا د یا ت پرحاوی ہے۔ اس فاونڈیشن کے ذریعے ایر ا ن کی مجموعی قومی پیداوار کا بڑا حصہ خیراتی اداروںیا چیری ٹیبل ٹرسٹ کو چلا جاتا ہے جو اسلامی جمہوریہ کی مدد کر تے ہیں۔ ان اداروں پر ٹیکس بھی نہیں لگتا اور یہی ایرانی معیشت کی بڑی کم زوری قراردیے جاتے ہیں،کیوں کہ ان کے ذریعے ایرانی معیشت کےپکےہوئےپھل خیراتی اداروں کی گود میں چلے جاتے ہیں جو مبینہ طورپر عوام کی مدد کم کرتے ہیںاور بدعنوانیو ں کازیادہ شکار ہیں۔گو کہ اصل ’’بنیاد‘‘ کا آغاز سابق شاہ ایران، رضا شاہ پہلوی نے کیا تھا، مگر شیعہ اسلامی انقلاب آنے کے بعد امام خمینی کے حکم پر ان خیراتی اداروں کو سرکاری ملکیت میں لےلیا گیا تھا اور ان کے ذریعے ان شہیدوں کے خاندانوں کی مدد کی جانے لگی جو اسلامی انقلاب لانےکے دوران یا اس کے بعد ایران ، عراق جنگ میں جاں بہ حق ہوئے تھے۔ اس طرح شہیدوں کے نام پر بڑے خیراتی ادارے قائم کیے گئے جو اب تک کام کررہے ہیں۔ اس کےعلاوہ غذائی اجناس اور توانائی کے شعبے میں کافی زرِ تلافی دیا جاتا ہے جس سے معیشت پر اضافی بوجھ پڑتا ہے۔ اس قسم کے زرِ تلافی یا سب سڈی (SUBSIDY) سے عوام کو فائدہ ہوتا ہے کیوں کہ انہیں سستے داموں غذائی اشیاء اور توانائی میسر ہوتی ہے، مگر اکثر یہ دیکھنے میں آیاہے کہ جہاں اس طرح زر ِتلافی دیاجاتا ہے وہاں اس کی آڑ میں خوب بدعنوانی بھی ہوتی ہے۔ تاہم ایران کی حکومت نے دس برسوںمیں اس نظام میںبہتر ی لانے کی خاصی کوششیں کی ہیں۔

اس سارے قضیے میں ایک اہم کردار خود صدر حسن روحانی اور ولایتِ فقیہ ،علی خامنہ ای کے حامیوں کی باہمی چپقلش کا بھی ہے۔ ایران میں امام خمینی کے بعد ولایت فقیہ یا نگرانِ اعلیٰ بننے والے علی خامنہ ای ایران میں مکمل طورپر بالادست تصور کیے جاتے ہیں ۔ وہ ہ چاہیں تو ہر فیصلہ خود کرسکتے ہیں، اسی لیےا ن میں اور صدرکے عہدے پر فائز شخص کے درمیان صدر اور وزیراعظم کی طرح رسہ کشی چلتی رہتی ہے۔ ایران کا صدر چوں کہ روزمرہ امورکاذمے دار ہوتا ہے اس لیے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ خود فیصلے کرے، مگر ولایت فقیہ کی جانب سے مداخلت ہونے سے صورتِ حال کشیدہ ہوجاتی ہے۔ایران کے صدرچاہتےہیںکہ معاشرہ آگے کی طرف جائے اور اس میں مثبت تبدیلیاں لائی جائیں، مگر خامنہ ای کے حامی ملک کو مذہبی پابندیوں میں جکڑ کر رکھنا چاہتے ہیں۔ گو کہ ایران کےاکثر صدور مذہبی عالم اور شیعہ راہ نما ہوتے ہیں ،مگروہ عوام کی ترجیحات کوسمجھتے ہوئے معاشرے کو کھولنا چاہتے ہیں جس پرخامنہ ای کی حامی مذہبی قدامت پسند افسرشاہی ان کی راہ میںروڑ ے اٹکاتی ہےاور صدرکے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتی۔ اسی طرح خود ایرانی پارلیمان میں ایسے قدامت پسند عناصر موجود ہیں جو صدر روحانی کے فیصلوں کو پسند نہیں کرتے۔ جب 2015ء میں صدر روحانی نے امریکا کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تھا تو اس وقت بھی خامنہ ای نے برملا کہا تھا کہ اس معاہدے سے گریز کیا جائے کیوں کہ امریکا قابل اعتبار فریق نہیں ہے ،لیکن صدر حسن روحانی نے معاہدہ کر لیا تھا۔

مجموعی طور پر ایران کو اس معاہدے سے فائدہ ہوا تھا کیوں کہ اس معاہدے میں دیگر یورپی طاقتیں بھی شامل ہیںجو معاہدہ برقرار رکھتے ہوئے ایران سے صنعت و تجارت کے شعبوں میں تعلقات بہتر بنانا چاہتی ہیں کیوں کہ اس سے خود انہیں بھی فائدہ ہے۔ اس معاہدے سے ایران کی بین الاقوامی ساکھ بہتر ہوئی اور امریکاکو زیادہ سبکی ہوئی۔ گو کہ علی خامنہ ای تسلسل کے ساتھ اس معاہدے کو غلطی قرار دیتے رہے ہیں،لیکن یہ معاہدہ ایران کے حق میں اچھا ثابت ہوا ہے۔اس کی مثال پاکستان کی تاریخ سے اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ جب وزیراعظم محمد خان جونیجو نے 1988ء میں سوویت یونین کے ساتھ جنیوا معاہدہ کرکے افغانستان سے سوویت افواج کے انخلا کی راہ ہم وار کرنے کی کوشش کی تھی تو جنرل ضیاء الحق نےاس کی شدید مخالفت کی اور کہا تھاکہ سوویت یونین سے مزید ضمانتیں لی جائیں۔ لیکن جو نیجو صاحب نے جنرل ضیاء الحق کی حکم عدولی کرتے ہوئے وہ معاہدہ کرلیا تھا جس کی سزا جنرل ضیاء نے جونیجو کو برطرف کر کے دی تھی۔ مگر اب معلوم ہوتا ہے کہ جونیجو کا معاہدہ کرنے کا فیصلہ درست تھا کیوں کہ اس سے سوویت فوجوں کا انخلا ممکن ہوا اور اس خطے میں امن کی طرف پیش رفت شروع ہوئی۔

اب ایران میںصورت حال یہ ہے کہ مئی 2018ء میں نئی امریکی پابندیاں عاید ہونے کے بعد اس ملک کے اقتصادی حالات مخدوش ہورہے ہیں۔بے روزگاری کی شرح تقریباً تیرہ فی صدہے۔منہگائی کی شرح بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔ایرانی ریال ڈالر کےمقابلےمیںاپنی نصف قدر کھوچکا ہے۔ ان حالات میں ایرانی پارلیمان نے وزیر خزانہ کو برطرف کرکے صدر روحانی کے لیے مزید مسائل پیداکردیے ہیں، کیوں کہ مسعود کر باسیاں مو زو ں وزیرتھےاور ان حالات میں کوئی بھی نیا وزیر کوئی ڈرامائی تبدیلی لانے کے قابل نہیں ہوگا۔

ایران کے ساتھ ہونے والے 2015ء کے جوہری معاہدے میں امریکا کے علاوہ چھ دیگر ممالک بھی شامل تھے ۔امریکا کے علاوہ وہ تمام ممالک اب تک یہ معاہدہ برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔چوں کہ یہ معاہدہ سابق امریکی صدر اوباما کے دور میں ہوا تھا اس لیے صدر ٹرمپ شروع ہی سے اس کے خلاف رہے ہیں۔ آنے والے مہینوں میںامکان ہے کہ صدرٹرمپ ان پابندیوں میں مزید اضافہ کریں گے جس سے ایران کی تیل کی صنعت اور بینکاری کے ساتھ دیگر شعبے بھی متاثر ہوں گے۔ اس معاہدے کے دیگر فریق یعنی برطانیہ، چین ، جرمنی ، فرانس اور روس، سب مل کر امریکی صدر کے فیصلوں کی مذمت کررہے ہیں، مگر ٹرمپ بہ ضد ہیں۔ ایسے میں خود ٹرمپ امریکا کو مزید الگ تھلگ کررہے ہیں ۔اگر عالمی عدالتِ انصاف نے ایران کے حق میں فیصلہ دے دیا تو یہ ایران کی بڑی کام یابی ہوگی اور تمام ممالک ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات برقرار رکھ سکیں گے۔ اس مقدمے کافیصلہ ایک مہینےمیں متوقع ہے اور اس کے بہت دور رس نتائج مرتب ہوں گے۔ ایسے میں پاکستان کو ہم سایہ ملک ایران سے تجارتی تعلقات مزید بہتر کرنے چاہئیں اور تیل کی پائپ لائن کا منصوبہ بھی مکمل کرنا چاہیے۔

تازہ ترین