• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

اراضی کا تنازعہ، لڑکی پر تیزاب پھینک کر چہرہ مسخ کردیا

اس جدید دور میں انسان آج بھی جاہلانہ رسم و رواج اور طور طریقوں میں جکڑا نظر آتا ہے جس کی واضح مثال تیزاب گردی کے ذریعے معصوم، خوبصورت اور جاذب نظر چہروں کو نشانہ بناکر ان لڑکیوں کو زندہ درگورکردینا ہے۔ چہرے سے انسان کی پہچان اور شناخت ہے اور کسی کا چہرہ بگاڑنا یا اسے مسخ کرنا انتہائی قبیح اور ناپسندیدہ فعل ہے۔ المیہ یہ ہے کہ نوے فیصد سے زائد واقعات میں خواتین ہی نشانہ بنتی ہیں اور سب سے زیادہ متاثر چہرہ ہوتا ہے جو کہ پوری شخصیت کا آئینہ دار ہے اور سارا جسم اسی چہرے پر کھڑا ہوتا ہے۔ کہیں رشتے کا تنازع کہیں زر اور زمین کے جھگڑےیا قریبی رشتے دارباہمی دشمنی میں اتنی دور تک چلےجاتے ہیں کہ انہیں کسی بھی چہرے کو جلا نا یاجھلسا دینا انہیں ایک آسان اقدام لگتا ہے، جس سے ان کےانتقامی جذبات کی تسکین ہوتی ہے۔

اسی سلسلے کا المناک واقعہ سندھ کے تیسرے بڑے شہر، سکھر کے گنجان آبادی والے علاقے نیوپنڈ میں پیش آیا، جہاں پر ایک شخص نے 18سالہ لڑکی پر تیزاب پھینک دیا، جس سے اس کا 30فیصد حصہ متاثر ہوا ہے۔جھلسنے والی لڑکی کو فوری طور پر اسپتال پہنچاکر اس کی زندگی کا چراغ بجھنے سے تو بچالیا گیا مگر اس کا جسم بری طرح جھلس گیا۔سوال یہ ہے کہ تیزاب گردی کا شکار ہونے والی لڑکی اپنی باقی ماندہ زندگی کس طرح گزارے گی؟ اس کے ساتھ جو ظلم ہوا ہے اس کا ازالہ کس طرح کیا جائے گا؟ ہمارے معاشرے میں عام تصور یہ ہے کہ تشدد اور تیزاب سے جھلسنے والی سےخاتون جیتے جی مار دی جا تی ہے۔ اس میں زندگی کی رمق تک نہیں رہتی اور وہ محض زندہ لاش بنی رہتی ہے اور زندگی بھر اسے اس چبھتے ہوئے سوال کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ یہ آپ کا چہرہ، ہاتھ یا گردن سمیت دیگر اعضاء کس طرح جھلس گئے اور یوں وہ اپنی تمام عمر اس طرح کے سوالات کا جواب دیتے گزاردیتی ہے۔

حال ہی میں پیش آنے والےواقعہ کی تفصیلات پر نظر ڈالی جائے تو نیوپنڈ کے علاقے اسلام کالونی میں ملزم گل حسن نے اپنے ساتھی کے ہمراہ اس کے پڑوس میں رہنے والی لڑکی کے گھر میں گھس کر اس پر تیزاب پھینک دیا اور فرار ہوگیا۔ متاثرہ لڑکی کو فوری طور پر سول اسپتال سکھر میں منتقل کیا گیا، جہاں اسے طبی امداد فراہم کی گئی،بعد ازاں واقعے کی اطلاع متعلقہ تھانے پر دی گئی۔ جس کے بعد پولیس نے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا،پولیس ترجمان میر بلال لغاری کے مطابق ایف آئی آر میں نامزد ملزم میر حسن کو گرفتار کیا گیا ہے جب کہ مرکزی ملزم گل حسن کی گرفتاری کے لئے کوششیں کی جارہی ہیں اور جلد اسے گرفتار کرلیا جائے گا۔ایف آئی آرنمبر 57/2018 کے متن کے مطابق عبدالرزا ق نے فریاد درج کرائی ہے کہ میں اسلام کالونی میں رہائش پذیر ہوں، گل حسن عرف گلو مہر جو کہ ہمارا پڑوسی ہے جس سے پہلے ہمارا اراضی کے تنازعےپر جھگڑا ہوا تھا، ہماری بچی کرن کو تنگ کرتا تھا اور دھمکیاں دیتا تھا۔ہم اپنے اہل خانہ کے ہمراہ گھر میں موجود تھے کہ شام کے وقت گھرکے دروازے سے ملزم گل حسن عرف گلو اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ گھر میں گھس آیا اور اس نے کرن پر تیزاب پھینک دیا اور فرار ہوگیا۔ میئر سکھر بیرسٹر ارسلان اسلام شیخ نے نیوپنڈ کے علاقے میں پیش آنے والے تیزاب پھینکنے کے واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ خواتین پر کسی بھی قسم کا تشدد ناقابل برداشت ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ واقعہ میں ملوث ملزمان کو گرفتار کر کے انصاف کے تقاضے پورے کرکے سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ ملزمان کو عبرت حاصل ہوسکے۔ میئر سکھر نے ایم ایس سول اسپتال سے بھی رابطہ کیا اورلڑکی کو بہتر سے بہتر طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

علاوہ ازیں میئر سکھر کی ہدایت پر بلدیہ اعلیٰ سکھر کی خواتین اراکین نے میڈم عذرا جمال کی سربراہی میں متاثرہ لڑکی سول اسپتال جا کر عیادت کی اور ایم ایس سول اسپتال سے ملاقات کر کے متاثرہ خاتون کو آئی سی یو میںمنتقل کروایا تاکہ متاثرہ لڑکی کا بہتر سے بہتر علاج کیا جاسکے اور وہ جلد صحت یاب ہوسکے۔ خواتین کے وفد نے متاثرہ لڑکی کی والدہ کو یقین دہانی کرائی کہ واقعے میں ملوث ملزمان کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔خواتین پرتیزاب پھینکنے کے واقعات نئے نہیں ہیںلیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی ہونے کے باوجود بھی ملزمان قانون کی دس ترس سے آزاد رہ کرقانون کا مذاق اڑا رہے ہیں۔

تیزاب گردی کے واقعات کے ساتھ ساتھ خواتین پر ظلم و تشدد کے واقعات کی روک تھام بھی قانون سازی کے باوجود ممکن نہ ہونا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ خواتین پر تشدد کے خلاف قوانین تو بنادیے گئے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں کرایا جارہا ہے۔خواتین کا اغوا، اجتماعی زیادتی، تشدد، غیرت کے نام پر قتل،زندہ جلانے، تیزاب پھینکنے یا چولہا پھٹنے سے ہلاکت جیسے واقعات عام ہیں۔ خواتین کے حقوق کے تحفظ کا نعرہ لگانے ولی متعدد تنظیمیں خواتین پر ہونے والے ظلم و تشدد کے خلاف آوازیں تو اٹھاتی ہیںلیکن ان کی یہ کاوشیں صرف اور صرف زبانی و کلامی اوراخباری بیانات کی حد تک محدودرہتی ہے۔ 

یہ تنظیمیں خواتین کے عالمی دن سمیت سال میں 2سے 3بار اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لئے بڑے بڑے ہوٹلوں میں سیمینار، ورکشاپس اور پروگرام منعقد کرتی ہیں لیکن وہ علاقے جہاں پر فرسودہ رسومات کے تحت خواتین کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، وہاں پر یہ تنظیمیں کام کرتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ پسماندہ اور دیہی علاقوں میں آج بھی خواتین کو ان کے ناکردہ گناہوں کی سزا کے جرم میں زندگی سے محروم کردیا جاتا ہے۔ حکومتوں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تمام طبقات کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرے میں برداشت اور مساوات کیلئے اپنا اہم کردار ادا کریں۔ حکومت منظور کردہ قوانین پر سختی سے عمل کرائے تاکہ جھوٹی انا کی تسکین کے لئے ہنستے مسکراتے انسان کو بھیانک روپ میں تبدیل کرنے والے عناصر کا قلع قمع کیا جا سکے۔

تازہ ترین
تازہ ترین