• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ایئر مارشل نور خان‘‘ پاک فضائیہ کی عظمت کانشان

1965ء میں جب پاکستان معاشی طور پر مستحکم ہونے کی جدوجہد میں مصروف تھا تو اسے اپنی بقا کیلئے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن سے مقابلہ کرنا پڑا کیونکہ جنگ ستمبر میں بھارتی فضائیہ کو عددی اور تکنیکی ہر لحاظ سے برتری حاصل تھی۔ بھارت کے پاس476لڑاکا اور60بمبار طیارے تھے جبکہ پاکستان محض 104 لڑاکا طیارے اور26بمبار طیارے رکھتا تھا۔ اس کے باوجود پاکستانی ہوابازوں کی پیشہ ورانہ مہارت نے دشمن کا غرور خاک میں ملادیا، دنیا آج بھی پاکستانی سپوتوں کی جرأت وبہادری پر حیران ہے۔ تیز و تند ہوائوں کے مخالف دشمنوں کے چنگھاڑتے جہازوں پر عقابی نظر رکھنا اور پھر پلک جھپکتے ہی ان کو خاک کا ڈھیر بنادینا ہمارے جوانوں کا وہ کارہائے نمایاں تھا جسے دیکھ کر ہمالیہ کی چوٹی بھی حیران وششدر رہ گئی۔ پاک فضائیہ کی اس بے مثال کارکردگی کے پیچھے ایک ایسا لیڈر تھا جس نے انھیں مقابلہ کرنا اور دشمن کو چِت کرنا سکھایا، وہ شخصیت تھیں ایئر مارشل نور خان!

مختصر سوانح

نور خان22فروری 1923ء کوسابقہ اٹک اور موجودہ ضلع چکوال کی تحصیل تلہ گنگ کے نواحی علاقے ٹمن میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے جنوری 1941ء میں برٹش انڈین ائیر فورس میں کمیشن حاصل کیا، 23جولائی 1965ء سے 1969ء تک وہ پاکستان ائیر فورس کے کمانڈرانچیف رہے۔1965ءکی جنگ میں نور خان نے انتہائی بہادری کے ساتھ دشمن افواج کا مقابلہ کیا، وہ اگست 1969ء میں مغربی پاکستان کے گورنر بنے۔ انہیں ان کی خدمات کے صلے میں ستارہ جرأت اور ہلال جرأت سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے ہلال شجاعت، ہلال قائداعظم اور ستارہ پاکستان کے اعزازات حاصل کئے۔ وہ ہاکی میں چیمپئنز ٹرافی ٹورنامنٹ کے بانی تھے۔ نور خان 1985ء سے 1988ء تک قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ انہوں نے12دسمبر 2011ء کو وفات پائی۔

65ء کی جنگ کا کچھ احوال

23جولائی کو قیادت سنبھالنے کے بعد ائیر مارشل نو ر خان اگلے دن اس وقت پاک فوج کے کمانڈر انچیف جنرل موسیٰ سے ملنے گئے جنہوں نے آپریشن جبرالٹر شروع کرنے کی تصدیق کی۔ آپریشن جبرالٹر کی منصوبہ بندی عجلت میں اور آغاز اس سے کہیں زیادہ عجلت میں کیا گیا۔ جس میں سب سے مشکل کام سی130کے ذریعے دشوار گزار وادی میں محصور جوانوں کو سامان رسد پہنچانا تھا، یہ ایک نہایت خطرناک پرواز تھی۔ اس کی حساسیت کے پیش نظر ائیر مارشل نو ر خان ونگ کمانڈر زاہد بٹ کے ہمراہ سی130پر خود گئے۔ انہوں نے معاون ہواباز کی حیثیت سے پرواز کی تاکہ ایسی دیگر پروازوں میں درپیش خطرات اور مشکلات کا خود مشاہدہ اور اندازہ کر سکیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ کچھ پُر خطر مہمات میں کمانڈر ایئر فورس نور خان نے خود بھی حصہ لیا اور ایسی روشن مثالیں قائم کیں کہ پوری ایئر فورس کے اندر جوش و جذبہ بھر گیا۔

65ء کی جنگ کے دوران ایئر مارشل نور خان نے جنرل موسیٰ پر بھروسہ کرنے کی بجائے کشمیر کے افق پر ابھرتے ہوئے طوفان کا اندازہ لگاتے ہوئے اپنے ذاتی تجزیے کے مطابق،ایئر فورس کو ہائی الرٹ کر رکھا تھا تاکہ اچانک جنگ کی صورت میں ایئر فورس اپنا بھر پور کردار ادا کرسکے۔حالات کے پیشِ نظر نور خان نےIکور کے ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا اور کمانڈر جنرل رانا سے استفسار کیا کہ کیا ان کے دستوں کو ایئر فورس کے تحفظ کی ضرورت نہیں،کیونکہ وہ دریائے توی کے کنارے کھلے آسمان کے نیچے موجود تھے۔ جنرل نے جواب دیا کہ بھارت جنگ میں تیزی سے بچنےکے لیے اپنی ایئر فورس کا استعمال نہیں کرے گا۔جونہی ایئرمارشل نور خان وہاں سے روانہ ہوئے بھارتی ایئر فورس نے جنرل رانا کے فوجی دستوں پر حملہ کردیا۔ بھارتی ایئر فورس نے پٹھان کوٹ کے اڈے سے پانچ پانچ منٹ کے وقفے سے کل بارہ لڑاکا ویمپائرطیارے اپنے دستوں کی فضائی مدد کے لیے بھیجےلیکن لیفٹیننٹ ہر بخش سنگھ اور جنرل جو گندر سنگھ کی ڈائریوں کے مطابق ان جہازوں نے اپنے ہی فوجیوں پر بمباری کردی، جس نے ان کو کافی نقصان پہنچایا۔

ایئر مارشل نورخان کی قیادت میں پاک فضائیہ کا ردِ عمل فوری اور تیز تھا۔ پی اے ایف کے نمبر ایک لڑاکا پائلٹ سرفراز رفیقی اور امتیاز بھٹی نے چار بھارتی ویمپائر جہازوں کو للکارا۔ اگلے دو تین منٹ کے اندر سرفراز نے دوبھارتی جہازوں کو مار گرایا۔ تیسرے کو امتیاز بھٹی نے شکار کر لیا اور چوتھا گولیاں کھا کر لنگڑاتا ہوا واپس بھاگ گیاجبکہ پانچواں اس سے پہلے اینٹی ایئر کرافٹ گن کا نشانہ بن چکا تھا۔ بریگیڈیئر امجد چودھری نے میدانِ جنگ سے پیغام دیا کہ پی اے ایف کے لڑاکا جہازوں کی شاندار کارکردگی نے ہمارے حوصلے اور ولولے کو جوان کردیا اور ہمیں بھارتی فضائیہ کے حملوں کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں رہی۔ بھارتی ویسٹرن کمانڈ کے کمانڈنگ افسر جنرل جوگندر سنگھ نے پاکستانی فضائیہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا،’’آسمان کی فضائوں میں پاکستان ایئر فورس کی حکومت قائم تھی۔ ‘‘

یہ ایئر مارشل نورخان کی جارحانہ حکمت عملی اور بصیرت ہی تھی جس نے پاک فضائیہ کو پیشگی طور پر الرٹ رکھا ورنہ شاید آج نتائج مختلف ہو تے ۔ان کی زیر قیادت ہمارے ہوابازوں کے کارنامے اس قدر طلسماتی تھے کہ جب ایم ایم عالم نے5طیارے ایک ساتھ مار گرائے تو پہلے نورخان نے ماننے سے انکار کردیا لیکن جب اس کارنامے کی تصدیق ہوئی تو انہوں نے ایم ایم عالم کو شاباش دی۔ 

تازہ ترین