• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کھیت کے کنارے گرے ہوئے ایک درخت کے تنے پر بیٹھا میں جانے کب سے محویت کے عالم میں اسے دیکھے جا رہا تھا۔ پانچ چھ سال کا وہ بچہ اپنے آپ اور ماحول میں کچھ ایسا مگن تھا کہ اس نے مجھ پر توجہ ہی نہیں دی۔ گندم کے سر سبز کھیت میں وہ کبھی ادھر جاتا کبھی ادھر بھاگتا۔ ایک ٹانگ پر اچھلتے ہوئے کتنی ہی دور چلا جاتا اور پھر بازو پھیلائے، اپنے معصوم قدموں سے گندم کے پودے روندتا ہوا، رقص کی سی کیفیت میں میرے قریب سے گذر جاتا۔ جانے کیوں، بالکل غیر ارادی طور پر میں اپنے اندر پھیلی کرب انگیز اداسیوں کا موازنہ اس کے چہرے کی سچی خوشی، اس کی بے لوث ہنسی سے کررہا تھا۔ ہونا نہیں چاہیے تھا لیکن مجھے لگا میرے حصے کی خوشیاں بھی اس بچے کو دے دی گئی ہیں۔ عجیب کیفیت تھی، میں اسے دیکھ کر خوش بھی ہو رہا تھا اور عین ان ہی لمحات میں مجھے لگا حسد کی تیز رو میں بہتا جا رہا ہوں۔ میں بیک وقت اسے اسی طرح ہنستا کھیلتا دیکھنا چاہتا تھا اور اپنے دکھ کی پرچھائیاں بھی اس کے چہرے پر دیکھنے کا خواہش مند تھا۔اچانک اندر سے اٹھتے ایک طاقت ور مثبت جذبے نے تحریک دی ۔" کیوں نہ میں بھی اس کی خوشیوں میں شریک ہو جاؤں" میں نے سوچا۔ 

اب کی بار وہ اچھلتے کودتے میرے قریب سے گذرنے لگا تو میں نے یکدم اس کا راستہ روک لیا ۔"میں بھی کھیلوں گا" میرے اندر کے بچے نے اس کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ اس کی ہنسی، اس کا بچپن اچانک اس کے چہرے سے غائب ہو گیا۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹا اور چیختے ہوئے بولا " ہرگز نہیں۔ میں بس اپنے پاپا کے ساتھ کھیلوں گا۔ " ۔۔۔۔ "پاپا کے ساتھ؟ لیکن آپ کے پاپا ہیں کہاں؟" میں نے دور تک پھیلے گندم کے کھیت پر نظر دوڑاتے ہوئے پوچھا۔ " وہاں، ان درختوں کے سائے میں، میری امی کہتی ہیں وہ وہاں آرام کر رہے ہیں لیکن مجھے یوں لگتا ہے جیسے وہ میرے ساتھ ہوں۔" اس نے دور درختوں کے ایک جھنڈ کی طرف انگلی اٹھاتے ہوئے کہا۔ میں ابھی اس کی بات سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ وہ روہانسی آواز میں بولا " انکل وہ مجھے نظر کیوں نہیں آتے، میں بہت دنوں سے یہاں ان کو دیکھے بغیر ان سے کھیلتے کھیلتے تھک گیا ہوں۔" ۔۔۔۔ مجھے یوں لگتا ہے وہ لمحہ، اس کا وہ لہجہ، وہ درد، وہ پکار میرے اندر کہیں جم کر رہ گئی ہے۔ آج 40 سال بعد بھی میں اسی کھیت کے کنارے، اسی درخت کے تنے پر بیٹھا ہوں، شاید وقت ٹھہر گیا ہے

(منیر انور)

تازہ ترین