• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

’’جیو نیوز‘‘ کی بانی ٹیم میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے، اسپورٹس نیوز، اینکر، دانش انیس

گفتگو: محمد ہمایوں ظفر

(عکّاسی :اسرائیل انصاری)

زبان، تلفظ، جملوں کی ادائیگی، برجستگی اور لفظوں کی نشست و برخاست کا بھرپورسلیقہ رکھنے والےمعروف اسپورٹس نیوز اینکر، ’’دانش انیس گزشتہ 14برس سے ’’جیونیوز نیٹ ورک‘‘ سے منسلک ہیں۔عالمی حالات و واقعات،خصوصاً دنیا بھر کے کھیل کھلاڑیوں اور اسپورٹس کی خبروں کے پس منظر و پیش منظرپر ان کی گہری نظر ہے ۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز بہ حیثیت نیوز کاسٹر کیا۔

اس کے بعد’’جیو نیوز‘‘ سے ایک سال تک مارننگ شو، ’’جیو پاکستان‘‘ کی میزبانی کے علاوہ ملکی و بین الاقوامی الیکشن کیمپینز سمیت مختلف لائیو شوز کے کام یاب تجربات بھی کیے۔ آج کل ’’جیو نیوز‘‘ میں بہ حیثیت اسپورٹس جرنلسٹ/ نیوز اینکرخدمات انجام دے رہے ہیں۔گزشتہ دنوں ہم نےان سے ایک تفصیلی ملاقات کی۔جس میں انہوں نے ہمارے عام سے سوالات کے جوابات بھی بہت دانش مندانہ انداز سے دیئے۔ملاحظہ کیجیے، دانش انیس سے ملاقات کا احوال۔

’’جیو نیوز‘‘ کی بانی ٹیم میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے، اسپورٹس نیوز، اینکر، دانش انیس
نمایندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے

س: خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرےآباء و اجداد کا تعلق بھارت کے مردم خیز شہر، حیدر آباد دکّن کے علاقے ’’کوکن‘‘ سے ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد والدین نے پاکستان ہجرت کی، تو کراچی کو اپنا مسکن بنایا۔ میری پیدائش اسی شہر کی ہے۔ میرا تقریباً پورا خاندان طب کے شعبے سے وابستہ ہے۔ والد، ڈاکٹرانیس احمد شیخ، جنرل فزیشن ہیں، انہوں نے لانڈھی نمبر4،کراچی میں 35 سال پریکٹس کی۔ اب گزشتہ چند برسوں سے امریکا میں مقیم ہیں۔ ہم تین بھائی اور ایک بہن ہیں۔ مَیں گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے گھر بھر کا لاڈلا ہوں۔ بڑے بھائی، ڈاکٹرخرّم شیخ ڈینٹسٹ ہیں اور والد صاحب کے ساتھ امریکا میں مقیم ہیں۔ ان کے بعد بہن، فرحین شیخ ہیں، جو آنکھوں کی ڈاکٹر ہیں،پھر ایک اور بھائی عاصم شیخ، کنسٹرکشن کی فیلڈ سے وابستہ ہیں اور پھر میں۔ میرے تین بچّے ہیں، ایک بیٹا، دو بیٹیاں، سب سے بڑا عالیان دانش، اس کے بعد بیٹی حمنہ دانش اورپھر سب سےچھوٹی میری کیوٹ سی، ہانا دانش۔ میں نے بچپن ہی سے گھر میں سب کو ڈاکٹر بنتے، میڈیکل کی مشکل تعلیم کے لیے دن رات سخت محنت کرتے دیکھا، مگر میں پڑھائی میں کچھ اتنا اچھا نہیں تھا، البتہ گفت و شنید، کمیونیکیشنز اسکلز وغیرہ بہترین تھیں۔ اور پھر فیملی کی طرف سے بھی مکمل حمایت حاصل تھی، تو ابتدائی تعلیم سینٹ پال اسکول سے حاصل کرنےاور سینٹ پیٹرکس سے اولیول بعد زیبسٹ، کراچی سے مارکیٹنگ میں بیچلرز کیا اور پھر میڈیا کی طرف آگیا۔

س: صحافت / چینل میں کیسے آنا ہوا، جیو نیوز کب جوائن کیا؟

ج:’’جیو‘‘ میں نے 2004ء میں جوائن کیا، یہ وہ وقت تھا، جب ’’جیو نیوز‘‘، ’’جیو انٹرٹینمنٹ‘‘سے الگ ہوکر’’ نیوز چینل‘‘ کے طور پر سامنے آرہا تھا۔ اس طرح مجھے جیو نیوز کی بانی ٹیم کا حصّہ بننے کا اعزاز حاصل ہے۔ صحافت میں اس طرح آیا کہ جب زیبسٹ یونی ورسٹی میں زیرِتعلیم تھا، تو ہمیشہ غیرنصابی سرگرمیوں میں آگے آگے رہتا۔ تقریری مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتا۔ ان ہی دنوں 2002ء میں ریڈیو ایف ایم پاکستان جوائن کیا۔ کچھ ابتدائی تربیت وہاں سے ہوئی۔ پھر’’جیو‘‘ میں اپلائی کیا اور بآسانی منتخب ہوگیا۔ جیو میں آنے کے بعد بہ حیثیت اینکر، پہلا پروگرام ’’میٹرو لائٹس‘‘ کیا۔ اس پروگرام کو ثناء بچہ پروڈیوس کرتی تھیں۔

س: آپ کا شمار بہترین اسپورٹس نیوز اینکرز میں ہوتا ہے، کیسا لگتا ہے؟

ج: ظاہر ہے، بہت اچھا لگتا ہے۔ جیو میں شروع کے آٹھ نو سال تک میں نے اسپورٹس اینکرنگ نہیں کی۔ دیگرمختلف پروگرامز کی میزبانی کرتا رہا۔ بہرحال، سارے دشت کی اچھی طرح سیّاحی کے بعد بالآخر میں نے اپنی راہ متعیّن کرلی اوراب مستقل اسپورٹس اینکر ہوں۔

س: کیمرے کے سامنے کوئی دل چسپ واقعہ پیش آیا، جو لائیو بھی چلا گیا ہو؟

ج: عموماً بہت سے دل چسپ واقعات لائیو چلے جاتے ہیں، میرے ساتھ اس طرح کے زیادہ تر واقعات ’’میٹرولائٹس‘‘ کے دوران پیش آئے۔دراصل، اس وقت زیادہ تجربہ، سمجھ بوجھ نہیں تھی۔ ان ہی دنوں کی بات ہے، ایک پروگرام میں ثناء طارق ساتھ تھیں، ہم بریک سے واپس آچکے تھے، لیکن اس بات سے بے خبر تھےکہ آن ایئر ہیں، توبدستور آپس میں ہنسی مذاق کررہے تھے۔ پھر جیسے ہی اس بات کا احساس ہوا، توبڑی ندامت ہوئی۔ بہرحال، فوراً ہی سنبھل کر ٹریک پر آگئے۔

س: ایک اسپورٹس نیوز اینکر میں کون کون سی خوبیاں ہونی چاہئیں؟

ج: ایک اینکر کو بے شمار خوبیوں کا حامل ہونا چاہیے۔ تاہم، اسپورٹس سے وابستہ اینکر کے لیے سب سے پہلے کھیلوں سے لگائو اورتمام تر کھیلوںسے متعلق بنیادی معلومات کا ہونا بہت ضروری ہے۔ پھر بھرپورتوانائی اور چابک دستی ہونی چاہیے۔میں اگرآج اس فیلڈ میں کام یاب ہوں، تو اس کی ایک وجہ میری انرجی بھی ہے۔ لوگوں میں ایک غلط فہمی ہے کہ انرجی کا مطلب زورزور سے بولنا ہے۔ ایساہرگز نہیں ہے۔دراصل، ریڈیو کے تجربے کی بناء پر میں چیزوں کو محسوس کرکے بیان کرنا جانتا ہوں اور شاید اسی وجہ سے میرا انداز مقبولِ عام بھی ہے۔

س: زندگی کی پہلی کمائی کتنی تھی؟اور پیسا خرچ کرتے وقت سوچتے ہیں؟

ج: میں نے بارہ سال کی عمر میں زندگی کی پہلی کمائی کی۔دراصل، ہماری بلڈنگ میں ایک فوٹو گرافر رہتے تھے، انہوں نے ایک فارماسیوٹیکل کمپنی کے اشتہار کےلیے میری کچھ تصاویر کھینچیں اور ان کا معاوضہ 1500روپے دیا۔اس وقت وہ رقم میرے لیے بہت بڑی تھی۔ہاں، پیسا میں سوچ سمجھ کر ہی خرچ کرتا ہوں، فضول خرچ نہیں ہوں۔

س: جیو میں اسپورٹس نیوز اینکر کے علاوہ بھی کچھ ذمّے داریاں نبھاتے ہیں؟

ج: میں نے اسپورٹس نیوز اینکرنگ میں آنے سے قبل جیو پر متعدد سٹی بیس پروگرامز کیے۔دو الگ الگ قسم کے مارننگ شوز کیے۔ جیو کا پہلا ورچوئل بھی میں نے ہی کیا، خبریں پڑھیں، اہم واقعات کی نیوز رپورٹنگ کی۔الیکشن سمیت دیگر اہم مواقع پر خصوصی نشریات کی میزبانی کے علاوہ مختلف پروگرامزکرتا رہا۔ یوںکہیے، کوئی ایسا ٹاسک نہیں، جو جیو نے دیا ہو اورمیں نے پورا نہ کیا ہو۔

س: مستقبل میں خود کو کہاں دیکھ رہے ہیں؟

ج: اس کا جواب بہت مشکل ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک ادارے سے طویل عرصے تک وابستگی رہے، تو گروتھ رک جاتی ہے،لیکن میرے دماغ میں بہت سے آئیڈیاز پل رہے ہیں۔ مَیں مستقبل میں ٹیچنگ کی طرف جانا چاہتا ہوں۔ویسے مَیںتعلیم سے متعلق کئی ورکشاپس بھی کرواچکاہوں۔ بہ حیثیت ٹرینر بھی سرٹیفائیڈ ہوں۔

س: پسندیدہ کھیل کون سا ہے یا کس کھیل سے دل چسپی رکھتے ہیں؟

ج: مجھے بچپن ہی سے کرکٹ بہت پسند ہے، اور میں نے بہت اچھی کرکٹ کھیلی بھی ہے، انڈر 16میں سندھ ریجن کا کپتان رہ چکا ہوں۔

س: پسندیدہ کھلاڑی، جس سے بہت متاثر بھی ہوں؟

ج: کرکٹرسعید انور ۔ میں نے سعید انور کو بہت فالو کیا۔ ان کی طرح کھیلنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔

س: کوئی یادگار میچ یا کسی میچ کا کوئی یادگار لمحہ، جو فراموش نہ کرسکے ہوں؟

ج: ویسے تو بہت سی باتیں یادداشت کا حصّہ بن کر دماغ میں محفوظ ہوجاتی ہیں،اورپھربھلائے نہیں بھولتیں، لیکن آئی سی سی چیمپینز ٹرافی 2017ء کے فائنل میں بھارت کے خلاف پاکستان کی فتح مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ اس میچ کے کئی لمحات یادگارتھے، جن میں فخر زمان کی سنچری کے علاوہ محمد عامر کا شان دار باؤلنگ اسپیل، اظہر علی کے ہاتھوں ویرات کوہلی کا کیچ ڈراپ ہونا اورپھر اس سے اگلی ہی گیند پر کیچ آئوٹ ہونا وغیرہ۔ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ ٹی وی پر یہ میچ دیکھ رہا تھا، ویرات کوہلی کے آئوٹ ہونے پرہم کوئی پندرہ بیس منٹ تک خوشی سےاچھلتے رہے۔ اس کے علاوہ پاک، بھارت کا وہ میچ بھی میں نہیں بھلاسکتا، جس میں سعید انور نے چنائے میں 194رنز بنائے ۔

س:کبھی ڈراموں یا فلموں میں کام کی آفر ہوئی، اگر ہوئی تو کیا قبول کرلیں گے؟

ج: چوں کہ جیو نیوز میں میری مستقل ملازمت ہے، تو ہمیں کچھ اور کرنے کی اجازت نہیں۔ویسےڈراموں کی تو نہیں، البتہ کمرشلز کی آفرز ضرورہوئیں، لیکن جیو میں مستقل ملازمت کی وجہ سے کر نہیں پایا۔ البتہ میں نے بڑے بڑے برانڈز کے لیے وائس اوورز ضرورکیے۔ بہ حیثیت وائس اوورآرٹسٹ، مختلف کمرشلز کے لیے اب بھی کام کرتا ہوںاور مجھے اس کام میں مزہ بھی بہت آتا ہے۔

س: پاکستانی سیاست کے بارے میں کی خیال ہے؟

ج: سچ پوچھیں، میری نظر میں تو پاکستانی سیاست محض ایک مذاق ہے۔پتا نہیں، نوجوان طبقہ ان سیاست دانوں کی اندھی تقلید کیوںکررہا ہے۔

س:اگر کوئی اہم سرکاری عہدہ مل جائے، تو پہلا کام کیا کریں گے؟

ج: اوّل تو یہ ممکن نہیں، لیکن پھر بھی اگرکبھی ایساکوئی موقع آیا، توسب سے پہلے ایک اچھی ٹیم بناکرتعلیم، صحت اور اسپورٹس پر مکمل فوکس کروں گا۔

’’جیو نیوز‘‘ کی بانی ٹیم میں شمولیت کا اعزاز حاصل ہے، اسپورٹس نیوز، اینکر، دانش انیس
اپنے بچوں عالیان، حمنہ اور ہانا کے ساتھ خوشگوار موڈ میں

س: ایک زمانہ تھا کہ جب پاکستان کرکٹ، ہاکی، اسکواش سمیت دیگر کھیلوں میں سرِفہرست تھا، لیکن آج اسپورٹس کے حوالے سے صورتِ حال تسّلی بخش نہیں، آپ کے خیال میں پاکستان میںان کھیلوں کو کس طرح فروغ دیا جاسکتا ہے۔

ج: اس کے لیے سب سے پہلے تو نوجوانوں کو سیاست سے دور کرنے کی ضرورت ہے، جہاں تک ان کھیلوں کو فروغ دینے کی بات ہے، تو جس طرح کرکٹ کی حالیہ لیگ ہونے کے بعد کرکٹ کا ٹیلنٹ آنا شروع ہوا،اسی طرز پر ہاکی، فٹ بال سمیت دیگر کھیلوں کے لیے بھی لیگز شروع کرکے ان کھیلوں کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔

س: مستقبل قریب میں پاکستان کس کھیل میں آگے جاسکتا ہے؟

ج: میرا خیال ہے کہ کرکٹ ہی وہ واحدکھیل ہے، جس میں پاکستان بہت آگے جاسکتا ہے اوراگر دیگر کھیلوں میں بھی کام یابی حاصل کرنی ہے، تو حکومتی سطح پر پیسا لگانا ہوگا اور کوئی ایسی مربوط اسپورٹس پالیسی لانی ہوگی،جس کے دور رس اور ٹھوس نتائج سامنے آئیں۔

س: کوئی ایسی معروف شخصیت، جس سے مل کر اچھا لگا ہو؟

ج: فلم اسٹار، ندیم سے مل کر مجھے بہت اچھا لگاتھا۔ وہ انتہائی شان دار شخصیت کے مالک ہیں۔ اسی طرح گلوکار عالم گیر سے مل کر بھی بہت اچھا لگا۔

س:کتب/ شاعری سے شغف ہے؟ کس مصنف یا شاعر کو پڑھنا پسند کرتے ہیں؟

ج: شعراءمیں جون ایلیا بہت پسند ہیں۔ ان کی ایک غزل ’’حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی.....شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی‘‘ دل چھوگئی۔ فراز کو بھی بہت پڑھا ہے۔ اگرچہ اردو ادب کا زیادہ مطالعہ نہیں کیا، مگرایک زمانے میں انگلش لٹریچر بہت پڑھا، پھرمیڈیا میں آنے کے بعد پڑھنے کی عادت کم اور کرنٹ افیئرز کی طرف رجحان زیادہ ہوگیا ہے۔

س: تاریخِ پیدائش کیا ہے، سال گرہ مناتے ہیں؟

ج: میری تاریخِ پیدائش 31جنوری 1982ء ہے۔ جہاں تک سال گرہ کا تعلق ہے، تو اپنے بچّوں کے ساتھ ہلکے پھلکے انداز میں منالیتا ہوں۔

س: بچپن کیسا گزرا؟ شرارتی تھے یا سنجیدہ؟

ج: مَیں بچپن میں اس قدر شرارتی تھاکہ لوگ میری شرارتوں سے تنگ آجاتے تھے، لیکن اس حوالے سے میں اپنے والدین کو کریڈٹ دینا چاہوں گا، کہ انہوں نے ہم پر کبھی بلاوجہ کوئی روک ٹوک نہیں کی،نتیجتاً میں عمر کے ساتھ ساتھ خود بخود سدھرتا چلا گیا۔

س: بچپن کی کوئی دوستی، جو آج بھی قائم ہے؟

ج: دوست دراصل وہی ہوتے ہیں، جو اسکول، کالج کے دَورمیں بنتے ہیں۔ میرے اسکول کے زمانے کے دوستوں میں اویس، طلحہ، علی اقبال اور سمیر اقبال شامل ہیں،اوران سے آج بھی دوستی برقرار ہے، اگرچہ سب ہی بیرونِ ملک مقیم ہیں،مگر سب ہی رابطےمیں ہیں۔

س: زندگی کا کون سا دَور سب سے اچھا لگتا ہے؟

ج: موجودہ دَور۔

س: شادی پسند سے کی یا ارینجڈ، اہلیہ کا تعلق کہاں سے ہے؟

ج: شادی 2008ء میں گھر والوں کی پسند سے کی، اہلیہ کا تعلق خاندان ہی سے ہے۔

س: کھانا پکانے میں دل چسپی ہے یا صرف کھانے میں؟ کون سی ڈشز اچھی لگتی ہیں یا خود بناسکتے ہیں؟

ج:مجھے کھانا بنانے کا جنون کی حد تک شوق ہےاور الحمدللہ، مَیں کہیں کوئی سا بھی کھانا کھائوں،گھر آکر اسے پکاسکتا ہوں۔ دعوتیں کرنے، کھانےپلانے کابے حد شوقین ہوں۔اور جہاں تک پسندیدہ کھانے کی بات ہے، تو مجھے باربی کیو اور چائنیز بہت پسند ہے۔ جب کہ محبت سے جو کچھ بھی بنا ہو، سب مزے سے کھالیتا ہوں۔

س: اپنی کون سی عادت سب سے زیادہ پسند ہے؟

ج: اپنے کام سے کام رکھنا۔

س: اسٹائل وقت کے ساتھ بدلتے ہیں یا اپنی پسند سے؟

ج: اگر آپ نہ بھی چاہیں ،تب بھی وقت، حالات اور تجربے کے ساتھ شخصیت میں بدلائو آہی جاتا ہے۔

س: پریشانی سے نکلنے کے لیے کیا کرتے ہیں؟

ج: موسیقی سنتا ہوں۔اپنے بچّوں کے ساتھ وقت گزارتا ہوں۔

س: تنقید کے کس حد تک قائل ہیں؟ کوئی آپ پر تنقید کرے تو کیسا لگتا ہے؟

ج: اگر تنقید مثبت ہو، تو ٹھیک ہے، اس سے بہتری کی راہ ہم وار ہوتی ہے، لیکن بلاوجہ کی تنقید برداشت نہیں ہوتی۔

س: والدین کی محبت کو کس طرح بیان کریں گے؟ خصوصاً ماں کی محبت کو؟

ج: والدین کی محبت لازوال ہے۔ اس کے بیان کے لیے تو الفاظ ہی نہیں ملتے۔

س: آپ کا کوئی راز؟

ج:بتادیا، تو پھر وہ رازتھوڑی رہے گا۔

س: پہلی بار سنیما میں فلم کب دیکھی تھی؟

ج: یہ تو یاد نہیں، سنیما میں پہلی فلم کون سی دیکھی، ہاں یہ یاد ہے کہ بچپن میں والد صاحب نے مجھے بہت سی پاکستانی فلمیں ضرور دکھائیں۔

س: فارغ اوقات کے کیا مشاغل ہیں؟

ج: فارغ وقت میں عموماً ٹی وی ہی دیکھتا ہوں اور زیادہ تر انٹرنیشنل سیریز شوق سے دیکھتا ہوں۔

س: کوئی ایک دعا، تمنّا یا پیغام....؟

ج: دعا یہی ہے کہ زندگی میں سکون رہے اور تمنّا یہ ہے کہ بچّوں کی خوشیاں دیکھ پائوں، ان کو خوشیاں دے پائوں۔ جب کہ پیغام یہ ہے کہ اپنے کام سے کام رکھنا سیکھیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین