• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں 8 ستمبر کو ’’عالمی یوم خواندگی‘‘ منایا گیا‘ پاکستان میں بھی یہ دن منایا جاتاہے‘ مگر رسمی حدتک‘ ایک آدھ ورکشاپ‘ دوچار سیمینار‘ پندرہ بیس روایتی طرز کے بیانات مثلاً ’’ہم یہ کردیں گے‘ وہ کردیں گے‘ یہ ہوجائے گا‘ وہ ہوجائے گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ 1966ء سے‘ جب یہ دن منانے کی ابتداء ہوئی‘ آج تک یہی وتیرہ چلارہاہے۔یہ دن آتا ہے اور گزرجاتا ہے‘ لیکن ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ یہ دن منانے کا آخر مقصد کیا ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس دن کے حوالے سے گزشتہ برس کی کارکردگی کاجائزہ لیاجاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ قومی ذمے داریاں کس حدتک پوری کی گئیں‘اگر کہیں کوئی خامی‘کوئی کمی باقی رہ گئی ہو‘ تو اسے آئندہ سال کے اہداف میں شامل کرلیاجاتا ہے۔گویا اس دن کو منانے کا اصل مقصد یہ ہوتا ہے کہ اپنا احتساب خود کیاجائے۔

پاکستان میں یوں تو تمام شعبہ ہائے زندگی تنزلی یا انحطاط کا شکار ہیں‘ لیکن تعلیم کے شعبے میں جو بگاڑ پایاجاتا ہے‘ اس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔یہ ملک کا سب سے زیادہ نظرانداز کیاجانے والا شعبہ ہے‘ لیکن سب سے زیادہ لوٹ کھسوٹ‘ بدعنوانی اسی شعبے میں ملتی ہے۔گزشتہ کئی عشروں سے حکمراں طبقات نت نئے‘ بے مقصد اور بے معنی تجربات کے ذریعے تعلیم کا حلیہ بگاڑتے چلے آرہے ہیں۔اساتذہ خصوصاً پرائمری اسکولوں کے اساتذہ کی بھرتی‘اسکولوں کی عمارتوں کی تعمیر و مرمت‘نصابی کتابوں کی چھپائی اور تقسیم‘ فرنیچر اور سائنسی آلات کی خریداری کے نام پر ہرسال کروڑوں روپے خرد برد کرلیے جاتے ہیں۔ہر دس پندرہ برس بعد قومی تعلیمی پالیسی کا غلغلہ بند ہوتا ہے۔بلند بانگ دعوئوں سے مزین پالیسیز سامنے آتی ہیں‘ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات کی صورت نکلتا ہے۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم آج تک یہ تعین ہی نہیں کرسکے کہ ملک میں حقیقی شرح خواندگی کیاہے‘ اس حوالے سے پیش کیے جانے والے اعداد وشمار میں بڑا تفاوت پایا جاتا ہے یہی حال ہمارے دعوئوں کا ہے۔1992ء کی تعلیمی پالیسی میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 2002ء تک شرح خواندگی ستر فی صد ہوجائے گی‘ مگر جب 1998ء میں ایک نئی پالیسی کا اعلان ہوا‘تو یہ ہدف آٹھ سال آگے تک بڑھادیا گیا‘ پھر 2009 میں پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں جنرل پرویز مشرف کے دور کی قومی تعلیمی پالیسی پیش ہوئی تو اس میں یہ دعویٰ کیاگیاتھا کہ 2015ء تک شرح خواندگی چھیاسی فی صد ہوجائے گی۔2015ء میں شرح خواندگی چھیاسی فی صد تو نہ ہوسکی اور سرکاری اعداد وشمار کے مطابق صرف ساٹھ فی صد بیان کی جاتی رہی‘ لیکن حیرت انگیز طور پر 2016ء میں یہ شرح گھٹ کر اٹھاون فی صد بتائی گئی۔سرکاری طور پر یہ اعداد و شمار اکنامک سروے آف پاکستان کے ذریعے جاری کیے جاتے ہیں لیکن 2017 اور 2018ء میں یہ اعداد وشمار جاری نہیں کیے گیے‘ بلکہ یہ صراحت کی گئی کہ مردم شماری اور خانہ شماری کے سبب متعلقہ سروے نہیں کرایا گیا لہذا 2016ء‘ 2015ء کی شرح خواندگی کے اعداد و شمار موجودہ سال کے لیے بھی تصور کیے جائیں۔ہے نادل چسپ بات‘ گویا سرکاری بابوئوں کو اعداد و شمار کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے اور وہ اسے ایک کلریکل تیکنیک کے طور پر لیتے ہیں۔

پڑھنے‘ لکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت کا نام ’’خواندگی‘‘ ہے۔عالمی معیار کے مطابق جو فرد اپنا نام لکھ اور پڑھ سکتا ہے اسے خواندہ قرار دیاجائے گا۔اب اگر پاکستان میں شرح خواندگی اٹھاون فی صد تسلیم کرلی جائے تو اس کا غالب ترین حصہ ایسے ہی افراد پر مشتمل نکلے گا۔اس پیمانے کو تعلیم یافتہ افراد پر منطبق نہیں کیاجاسکتا۔2016ء میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق دنیا کی آبادی میں ہر پانچ میں سے ایک شخص ناخواندہ ہے‘ اس کا مطلب یہ ہوا ہے کہ کل آبادی کا بیس فی صد حصہ ناخواندہ افراد پر مشتمل ہے‘ان ناخواندہ افراد کا دوتہائی حصہ یعنی چھیاسٹھ فی صد خواتین ہیں۔بدقسمتی سے ہمارا ملک دنیا کے اس خطے میں واقع ہے‘ جہاں خواندگی کی شرح سب سے کم ہے۔اگر عالمی اعداد و شمار تسلیم کرلیے جائیں‘ تو پاکستان، شرح خواندگی کے لحاظ سے بعض افریقی ملکوں سے بھی پیچھے ہے۔جنوبی ایشیا میں شرح خواندگی کی سب سے اونچی شرح مالدیپ کی بیان کی جاتی ہے‘ جو ننانوے فی صد ہے‘ اس کے بعد سری لنکا کا نمبر ہے‘ جہاں شرح خواندگی بانوے فی صد ہے‘ بنگلہ دیش‘ بہتر فی صد‘ بھارت ستر فی صد‘ نیپال تریسٹھ فی صد‘ بھوٹان انسٹھ فی صد اور افغانستان میں شرح خواندگی تیس فی صد بتائی جاتی ہے۔اس طرح آس پاس کے ملکوں میں پاکستان‘ صرف افغانستان سے بہتر شرح خواندگی رکھتا ہے۔ایک ایسا ملک جو اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور اس مذہب کی ابتدا پہلی وحی ’’اقرا‘‘ کے لفظ یعنی ’’پڑھ‘‘ کی تاکید سے ہوئی ہو‘ وہاں خواندگی کی شرح کا کم تر ہونا اپنی جگہ خود ایک المیہ ہے۔ایسا نہیں کہ پاکستان کے معماران تعلیم کی اہمیت سے غافل تھے۔سرسید نے مسلمانوں میں تعلیم کے حصول کا جو جذبہ بیدار کیا تھا اور جدید تعلیم کے حصول کی جو روح ان میں پھونکی تھی۔تحریک پاکستان کی اٹھان اسی روح اور جذبے پر ہوئی تھی۔یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ بانیان پاکستان‘ تعلیم کی اہمیت سے ناواقف یاغافل ہوں۔نومبر 1947ء یعنی قیام پاکستان کے صرف تین ماہ بعد‘ کراچی میں قومی تعلیمی کانفرنس منعقد ہوئی تھی‘ کیوں کہ اس وقت ایک نوزائیدہ مملکت میں ایک نئی قوم کی تشکیل اور اس کی کردار سازی کا مرحلہ درپیش تھا۔ یہ مرحلہ ایک بامقصد نظام تعلیم اور نصاب کے بغیر طے نہیں ہوسکتاتھا۔یہی وجہ ہے کہ بابائے قوم محمد علی جناح نے کانفرنس کے منتظمین کے نام اپنے تہنیتی پیغام میں واضح کیا تھا ’’ہمیں اپنی تعلیمی پالیسی اور نظام کو ان اصولوں پر ڈھالنا چاہئے‘ جو ہمارے مزاج کے مطابق اور ہماری تاریخ اور تہذیب سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ دور جدید کے حالات اور تغیرات کا لحاظ رکھتے ہوں‘‘۔ اس پیغام میں بابائے قوم نے اس ضرورت پر بھی زور دیا تھا کہ ’’قوم کو سائنسی اور تکنیکی تعلیم دی جائے تاکہ ہماری معاشی زندگی کی تعمیر ہوسکے اور ہماری تعلیم میں یہ اہتمام بھی ہونا چاہیے کہ اس کے ذریعے سائنس‘ تجارت ‘کاروبار خصوصاً منظم صنعتوں کا قیام ممکن ہوسکے‘‘۔ان واضح رہنما خطوط کی روشنی میں ایک بامقصد نظام تعلیم کی تشکیل‘ ناممکن یا مشکل نہ تھی‘ لیکن ہمارے سیاسی نسلی‘ علاقائی‘ ثقافتی اور لسانی اختلافات نے اس اہم کام کو مشکل تر بنادیا‘پہلا سوال یہ اٹھا کہ نصاب تعلیم میں پاکستان کی تاریخ کی ابتداء کہاں سے کی جائے‘ برصغیر میں عربوں کی آمد سے‘14 اگست 1947ء سے یا موہن جودڑو کی تہذیب سے۔قائداعظم کا فرمان تھا کہ پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا‘ جب برصغیر کا پہلا فرد مسلمان ہوا تھا ۔لیکن کچھ طبقوں کو یہ توضیح منظور نہ تھی وہ ماضی میں پانچ ہزار سال پہلے کی طرف دیکھتے رہے۔ان میں کون سا نظریہ درست ہے یا غلط‘ ہم یہ طے نہ کرسکے لیکن اس فکری انتشار کی وجہ سے ایک بامقصد‘ مربوط اور متفقہ نظام تعلیم کے قیام کا خواب ادھورا رہ گیا۔دوم ہمارے سیاسی اختلافات اور جغرافیائی حالات بھی آڑے آئے۔زبان کے تنازعے نے بھی سراٹھایا اردو اور بنگالی زبان ایک طرف رہی‘ علاقائی اور مادری زبانوں میں تعلیم دینے یا نہ دینے کا سوال بھی آڑے آیا۔ یہ مباحث آج بھی جاری ہیں اوران کاکوئی ٹھوس حل نہیں نکل سکا۔

خواندگی کی راہ میں یہ ساری رکاوٹیں اپنی جگہ پر ہیں‘ لیکن اب بات بہت آگے نکل چکی ہے۔انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جہاں دنیا کو گلوبل ولیج میں بدل دیا ہے وہاں بہت سے بنیادی حقائق بھی تبدیل ہوگئے ہیں۔خواندگی آج بھی علم تک رسائی کا پہلا زینہ ہے‘ لیکن اس کی شکل تبدیل ہوگئی ہے۔تختی‘ سلیٹ اور کاپی کا استعمال کرنے والے بچوں کو ان کی مادری زبان میں لکھنا پڑھنا سکھاکر انہیں کنوئیں کا مینڈک بنایاجائے یا وہ تعلیم دی جائے‘جس کا پوری دنیا میں رواج ہے۔جدید ایجادات نے انسان کو بہت سے مغالطوں سے آزاد کردیاہے لیکن ہم آج بھی بہت سے مغالطوں میں گھرے ہوئے ہیں۔اردو میڈیم میں پڑھیں‘انگلش میڈیم میں‘اپنی مادری زبان میں پڑھیں یا قومی زبان میں‘ قومی زبان میں کیوں پڑھیں‘ جب ہماری اپنی زبان موجود ہے۔انگریزی میں کیوں پڑھیں۔ یہ تو کافروں کی زبان ہے۔بچوں کو مدرسے میں داخل کروائیں تاکہ وہ پکا مسلمان بن کر نکلے‘ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ وہاں روٹی بھی مل جاتی ہے۔بچوں کو کیوں پڑھائیں‘ کسی چھوٹی موٹی نوکری یا کام دھندے پر نہ لگادیں۔ روز کے پچاس ساٹھ روپے تو کمالائے گا۔گویا ہم ایک ایسی قوم ہیں جو آگے تو بڑھنا چاہتی ہے مگر اپنی گردن پیچھے موڑ کر۔یہ فکری مغالطے صرف فرد ہی کو درپیش نہیں ہیں۔ہماری حکومتیں‘ہمارے حکمراں ہمارے رہنما‘سب ہی کسی نہ کسی فکری انتشار میں مبتلا ہیں۔جن کا پرتو ہر جگہ نظرآتا ہے۔اگر کچھ نظرنہیں آتاتو ٹھوس اقدام، سچی اور مخلصانہ کوششیں‘مربوط حکمت عملی‘ قوم کو آگے لے جانے کا عزم‘ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کی بصیرت اور صلاحیتیں۔کیاوجہ ہے ہمارے سوا دو کروڑ سے زائد بچے اسکول ہی نہیں جاتے‘ حالاں کہ ہمارے آئین کے مطابق پانچ سے سولہ برس کی عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔پھر یہ بھی دیکھیے‘ ہم اپنے بچوں کو پڑھاتے کیا ہیں۔سائنس کا طالب علم اردو یا سندھی پڑھنے پر مجبور ہے۔خواہ اس کی مادری زبان ہویا نہ ہو۔اسلامیات بھی پڑھنا ضروری ہے۔ مطالعہ پاکستان کے بغیر بھی گاڑی آگے نہیں بڑھتی۔ہرسال لاکھوں طلبہ درس گاہوں سے نکل کر عملی زندگی میں آتے ہیں‘لیکن غیریقینی مستقبل کے ساتھ‘ کیوں کہ وہ جس نظام تعلیم کے تحت علم حاصل کرتے ہیں‘ وہ عملی زندگی کے تقاضے پورے نہیں کرتا۔فنی مہارت اور پیشہ وارانہ تربیت کے بغیر کوئی کیسے آگے بڑھے گا۔گھر کا فیوز اڑجائے تو میٹرک سائنس کا طالب علم دو تار نہیں باندھ سکتا۔سلائی مشین میں معمولی خرابی پیداہوجائے تو بی ایس سی یا ایم ایس سی خاتون خانہ‘ ٹھیک نہیں کرسکتی۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ روایتی نصاب تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کو ایسی تعلیم کی بھی ضرورت ہے جو عملی زندگی میں کام آئے۔ڈگری برائے ملازمت تو ہر جگہ کام نہیں آتی۔

ہم بنیادی خواندگی کے گرداب میں الجھے ہوئے ہیں اور دنیا اب ڈیجیٹل لٹریسی کی طرف بڑھ گئی ہے۔ڈیجیٹل لٹریسی سے مراد یہ ہے کہ انسان جدید ڈیوائسز لیپ ٹاپ‘ ٹیبلیٹ‘ کمپیوٹر‘انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے لکھے اور پڑھے، انفارمیشن ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے کسی چیز کو تلاش کرنا‘مواد تخلیق کرنا اور اسے دوسری جگہ منتقل (شیئر) کرنا ڈیجیٹل لٹریسی ہے۔ترقی یافتہ ملکوں میں بچوں کو پرائمری کی سطح پر ڈیجیٹل لٹریسی سے آشنا کیاجاتا ہے‘ لیکن ہمارے ملک کے لیے مدتوں ایک خواب ہی رہے گا۔ڈیجیٹل لٹریسی کی خواہش رکھنے والے لاکھوں ملیں گے لیکن انہیں پڑھانے والے اساتذہ کہاں سے آئیں گے۔تاہم پاکستان میں کچھ ادارے ڈیجیٹل لٹریسی کے فروغ کے لیے محدود سطح پر کوشاں ہیں‘ جن کے مثبت نتائج کے بارے میں ہم کچھ امید رکھ سکتے ہیں۔ڈیجیٹل لٹریسی کا فروغ دراصل ایک خاموش انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ڈیجیٹل لٹریسی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعے بچے نصابی سرگرمیوں کے علاوہ غیرنصابی سرگرمیوں میں دل چسپی لیتے ہیں اور ان کے اندر اعتماد پیدا ہوتاہے۔دوسرے وہ ایسے ہنربھی سیکھ لیتے ہیں‘ جن کے ذریعے وہ معاشی چیلنجز کا سامنا کرسکتے ہیں۔خصوصاً غریب اور متوسط طبقے کے طلبہ جو محدود وسائل کی بناء پر تعلیمی مسائل کا سامنا کرتے ہیں۔وہ کم وسائل کے باوجود اپنی زندگی خود سے بناسکتے اور ترقی کرسکتے ہیں‘لہذا اب یہ بہت ضروری ہے کہ پاکستان میں اکیڈمک لٹریسی کی جگہ ڈیجیٹل لٹریسی کے فروغ کے اقدام کیے جائیں۔خواندگی‘مہارت میں بدلے گی تو اس کے اثرات بڑے دُور رس ہوں گے۔پائیدار ترقی کا خواب پوراہوگا۔لوگوں کے معاشی اور سماجی حالات تبدیل ہوں گے۔آج پورے ملک میں ’’نیاپاکستان‘‘ اور ’’تبدیلی‘‘ کے نعرے بلند ہورہے ہیں۔نئی ترجیحات طے کی جارہی ہیں‘ روایتی طرز سیاست ترک کرنے کی بات ہورہی ہے۔ایسے میں تعلیم کے ذریعے نئے پاکستان میں تبدیلی کا آغاز کیاجائے‘ ہنرمندی اور خواندگی کے امتزاج سے ایک بامقصد نظام تعلیم کی بنیاد رکھی جائے تو بہت سے مسائل کا حل نکل سکے گا۔

تازہ ترین