• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواجہ رضی حیدر

’’قائدِاعظم اور پاکستان کی نظریاتی اساس‘‘، ایک ایسا موضوع ہے، جو اپنی وسعت اور معنویت میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ نیز، اپنی وضاحت میں پاکستان کی نظریاتی حیثیت کو ظاہر اور متعیّن بھی کرتا ہے۔ اس عنوان کے دو حصّے ہیں۔ پہلا حصّہ قائدِاعظم، مُحمّد علی جناح کی جدّوجہد، دُور اندیشی، حکمتِ عملی اور فراست و بصیرت سے متعلق ہے، جب کہ دوسرا حصّہ، پاکستان کی نظریاتی اساس کے بارے میں ہے۔ اور یہ دونوں حصّے، باہم لازم و ملزوم ہیں۔ جب تک آپ ایک حصّے کا تاریخی طور پر فہم پیدا نہیں کریں گے، اُس وقت تک دوسرے حصّے کی حقیقت و معنویت منکشف نہیں ہوسکے گی۔ پہلے قائدِ اعظم، مُحمّد علی جناح کی حیات و خدمات کا تذکرہ، پھر اُن کی تقاریر کے اقتباسات کی روشنی میں پاکستان کی نظریاتی اساس پر بات ہوگی۔

بانیٔ پاکستان، قائدِ اعظم، مُحمّد علی جناح کا شمار عہدِ جدید کی اُن عظیم شخصیات میں ہوتا ہے، جو اپنی حیات وخدمات کی روشنی میں تاریخ کا ایک ایسا باب بن جاتی ہیں کہ آنے والی صدیاں اُن کے تذکرے سے گونجتی رہتی ہیں۔ قائدِاعظم نے اپنی زندگی کے تقریباً چوالیس سال ہندوستان کے عوام، خصوصاً مسلمانوں کی ترقّی، خوش حالی، سیاسی بالادستی، ثقافتی تحفّظات اور حصولِ آزادی کے لیے بسر کیے۔ اگرچہ ،بعض مراحل پر اُنھیں اپنوں اور غیروں کی جانب سے سخت مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا، مگر اُن کی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں اور ناقابلِ تسخیر سیاسی بصیرت نے بالآخر یہ بات طے کردی کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے وہ ہی بلاشرکتِ غیرے’’ قائدِ اعظم‘‘ ہیں۔ جون 1937 ء میں شاعرِ مشرق، علّامہ اقبال نے قائدِاعظم کے نام اپنے ایک خط میں اسی سیاسی بصیرت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ’’ اِس وقت جو طوفان، شمال مغربی ہندوستان اور شاید پورے ہندوستان میں برپا ہونے والاہے، اُس میں صرف آپ ہی کی ذاتِ گرامی سے مسلمان قوم محفوظ رہنمائی کی توقّع کا حق رکھتی ہے۔‘‘ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ1935 ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے نفاذ سے قبل، ہندوستان کے مسلمانوں کی سیاسی وحدت نہ صرف انتشار کا شکار تھی، بلکہ اُن کی نمایندہ سیاسی جماعت،’’ آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ بھی ٹکڑوں میں بٹ گئی تھی۔ لہٰذا تاریخ کے اس انتہائی نازک موڑ پر، جب مسلمان اپنی بقا اور سلامتی سے بڑی حد تک مایوس ہوچکے تھے، قائدِاعظم، مُحمّد علی جناح نے تدبّر، فراست، غیر متزلزل عزم، سیاسی بصیرت اور بے مثل قائدانہ صفات سے کام لے کر مسلمانوں کو سیسہ پلائی دیوار کی طرح متحد و منظّم کردیا کہ 23 مارچ 1940 ء کو لاہور میں نہ صرف ایک علیٰحدہ مسلم وطن کی قرارداد منظور ہوگئی بلکہ14 اگست1947 ء کو پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔

قائدِاعظم کی سیاسی زندگی کے آخری پندرہ سال، مسلم ہندوستان کی آئینی اور سیاسی بالادستی کے حصول کے حوالے سے بسر ہوئے۔ انہی پندرہ برسوں کے دَوران جہاں اُنہوں نے مسلمانوں کے منتشر ہجوم کو ایک قوم کی صُورت دی، وہاں اُن کو یہ بھی باور کروایا کہ وہ مسلمان ہونے کی حیثیت میں ایک عظیم تاریخی وَرثے کے مالک ہی نہیں، بلکہ ایک ایسے مذہب کے پیروکار بھی ہیں، جو مکمّل ضابطۂ حیات ہے۔ قائدِاعظم نے تحریکِ پاکستان کے دَوران اپنی تقاریر، بیانات اور خطوط کے ذریعے جہاں دو قومی نظریے کی وضاحت کی، وہاں مطالبۂ پاکستان اور نظریۂ پاکستان کی حقانیت کا بھی اعلان کیا۔ یہ تقاریر، بیانات اور خطوط ایسی بنیادی سچائیاں ہیں، جن کی تفہیم اور تفتیش سے ہم نہ صرف قائدِاعظم کے تصوّرِ پاکستان، حکمتِ عملی اور سیاسی بصیرت سے آشنا ہوسکتے ہیں، بلکہ اپنے مُلک کی ترقّی و خوش حالی اور استحکام کے لیے ایک حتمی لائحۂ عمل تک رسائی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ نیز، جب تک ان تقاریر، بیانات اور خطوط کا مطالعہ نہیں کریں گے اور اُن کا فہم پیدا نہیں کریں گے، اُس وقت تک نظریاتی تحفّظ اور قومی وحدت کے حوالے سے بہت سے سوالات ہمیں قومی مستقبل کے حوالے سے ڈراتے رہیں گے۔ جہاں تک1949 ء میں منظور ہونے والی’’ قراردادِ مقاصد‘‘ کا تعلق ہے، تو اُسے قائدِاعظم کی تقاریر اور بیانات کے آئینے میں پاکستان کے آئین کی تشکیل کی جانب پہلا قدم کہا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا قدم، جس میں وہ وعدے اور دعوے پورے ہوتے دِکھائی دیے، جو قائدِ اعظم اور مسلم لیگ کے رہنمائوں نے تحریکِ پاکستان کے دَوران متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں اور قیامِ پاکستان کے بعد، پاکستان کے عوام سے کیے تھے۔ قائدِاعظم نے جہاں اپنی تقاریر سے مسلمانوں کے جذبۂ قومیت کو فروغ دیا، وہاں متعدّد بار اس اَمر کا اعادہ کیا کہ پاکستان کا آئین قرآن و سنّت کے مطابق ہوگا اور ہم پاکستان کو حقیقی معنی میں ایک اسلامی، فلاحی مملکت بنائیں گے۔ یہی نہیں، اُنہوں نے مطالبۂ پاکستان کو مسلمانوں کی ملّی و فکری بیداری کی تحریک بھی قرار دیا اور 2 مارچ 1941 ء کو لاہور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا،’’ مجھے اپنے مسلمان ہونے پر فخر ہے۔‘‘ یہ فخر، تاریخی شعور اور ملّی احساسِ وراثت کی دلیل تھا، جس کا قائدِ اعظم بار بار اعلان کیا کرتے تھے۔30 ستمبر 1943 ء کو ایک پیغام میں اُنہوں نے فرمایا، ’’ہم ایک عظیم الشّان تاریخ اور درخشاں ماضی کے وارث ہیں۔ ہمیں خود کو اسلام کی حقیقی نشاۃِ ثانیہ کے لیے وقف کردینا چاہیے۔‘‘ اسی طرح’’ مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ‘‘ میں، جب اُن سے سوال کیا گیا کہ’’ پاکستان کا آئین کس طرح کا ہوگا؟‘‘ تو اُنھوں نے جواب میں کہا،’’مَیں کون ہوتا ہوں آپ کو آئین دینے والا! ہمارا آئین ہمیں تیرہ سو سال پہلے ہی ہمارے عظیم پیغمبرﷺ نے دے دیا تھا۔ ہمیں تو صرف اس آئین کی پیروی کرتے ہوئے اسے نافذ کرنا ہے اور اس کی بنیاد پر اپنی مملکت میں اسلام کا عظیم نظامِ حکومت قائم کرنا ہے اور یہی پاکستان کا مقصد ہے۔‘‘ 8 نومبر 1947 ء کو مسلم افواج کے حفاظتی دستوں اور راول پنڈی کے عوام کے نام ایک پیغام میں فرمایا، ’’ہم کو خطرات درپیش ہیں، لیکن آپ سب کامل اتحاد اور یک جہتی کے ساتھ کام کریں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم پاکستان کا وقار پہلے سے زیادہ بلند رکھتے ہوئے اور اسلام کی عظیم روایات اور قومی پرچم کو بلند کیے ہوئے، ان خطرات سے کام یابی کے ساتھ گزر جائیں گے۔‘‘

اس کے علاوہ، قائدِاعظم نے قیامِ پاکستان کے بعد 25 جنوری 1948 ء کو ان الزامات اور شکوک و شبہات کی، جن کے تحت بعض حلقوں کی طرف سے کہا جاتا تھا کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست ہوگا اور بعض حلقے یہ کہتے تھے کہ پاکستان ایک تھیوکریٹک ریاست ہوگی، براہِ راست اور واضح طور پر تردید کرتے ہوئے کہا، ’’مَیں ان لوگوں کی ذہنیت کو نہیں سمجھ سکتا، جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ پاکستان کا دستور شریعت کی بنیاد پر نہیں بنایا جائے گا۔ اسلامی اُصول آج بھی اسی طرح قابلِ نفاذ ہیں، جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ اسلام محض رسوم و روایات کا مجموعہ یا روحانی ضابطہ نہیں، بلکہ ہر مسلمان کے لیے زندگی کا ایک ضابطہ بھی ہے، جو سیاست، معیشت اور اسی طرح کے دوسرے معاملات میں اس کے رویّے کو منضبط کرتا ہے... مَیں صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں، بلکہ غیر مسلموں کو بھی کسی قسم کا خوف نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دیا ہے۔ کسی کو ایسی جمہوریت سے خوف کیوں لاحق ہو، جو انصاف، رواداری اور مساوی برتائو کے اُصولوں پر قائم کی گئی ہو۔‘‘ ’’ان کو کہہ لینے دیجیے۔ ہم دستورِ پاکستان بنائیں گے اور دُنیا کو دِکھائیں گے، یہ رہا ایک اعلیٰ آئینی نمونہ۔‘‘ فروری 1948 ء میں امریکی عوام کے نام اپنے نشری خطاب میں فرمایا،’’ مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان کے آئین کی حتمی صُورت کیا ہوگی۔ البتہ مجھے اتنا یقین ہے کہ پاکستان کا آئین جمہوری طرز کا ہوگا اور ساتھ ہی ساتھ، اسلام کے تمام ضروری اور بنیادی اُصولوں پر مبنی ہوگا۔‘‘19 فروری 1948 ء کو آسٹریلیا کے عوام کے نام نشری خطاب میں فرمایا،’’پاکستان کے عوام کی عظیم اکثریت مسلمان ہے۔ ہم رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ ہم اُس اسلامی ملّت اور برادری کے رُکن ہیں، جس میں حقوق، وقار اور خودداری کے تعلق سے سب برابر ہیں۔ ہم میں اتحاد کا ایک خصوصی اور گہرا شعور موجود ہے۔ لیکن غلط نہ سمجھیے، پاکستان میں کوئی نظامِ پاپائیت رائج نہیں ہوگا۔ اسلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم دیگر عقائد کو گوارا کریں۔‘‘

یہاں قائدِاعظم کی تقاریر سے یہ اقتباسات درج کرنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اس طرح جہاں قائدِ اعظم کی اُس فکر تک رسائی ممکن ہوسکے، جو اپنی معنویت میں اسلام دوستی پر مبنی تھی، وہاں یہ بھی معلوم ہوسکے کہ وہ پاکستان کے آئین کے حوالے سے کیا عزائم رکھتے تھے۔ 14 اگست 1947 ء کو انتقالِ اقتدار کی تقریب میں، جب ہندوستان کے وائسرائے، لارڈ مائونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں پاکستان میں آباد اقلیتوں کے ساتھ سلوک کے حوالے سے مغل شہنشاہ، اکبر اعظم کی مثال دی، تو قائدِاعظم نے مجلس دستور ساز پاکستان کے افتتاح کے موقعے پر مائونٹ بیٹن کو مخاطب کرتے ہوئے اپنی جوابی تقریر میں واضح طور پر کہا کہ’’ اکبر اعظم نے تمام غیر مسلموں کے ساتھ رواداری اور حُسنِ سلوک کا جو مظاہرہ کیا تھا، وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کی ابتدا تو ہمارے پیغمبر، حضرت مُحمّد مصطفیٰ ﷺ نے کردی تھی۔ آپ ﷺ نے زبان ہی سے نہیں، بلکہ اپنے عمل سے یہود و نصاریٰ پر فتح حاصل کرنے کے بعد نہایت اچھا سلوک کیا۔ اُن کے ساتھ رواداری برتی اور اُن کے عقائد کا احترام کیا۔ مسلمان جہاں کہیں بھی حکم ران رہے، ایسے ہی رہے۔ مسلمانوں کی تاریخ دیکھی جائے، تو وہ ایسے ہی انسانیت نواز اور عظیم المرتبت اُصولوں سے بَھری ہوئی ہے۔ اِن اُصولوں کی ہم سب کو تقلید کرنا چاہیے۔‘‘ قائدِاعظم نے 8 مارچ 1944 ء کو مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ میں طلبہ کو باور کروایا کہ’’ پاکستان کے مطالبے کا جذبۂ محرّکہ جہاں دیگر مذہبی اور ثقافتی وجوہات رہی ہیں، وہاں اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ یہ مطالبہ جداگانہ قومیت کی بنیاد پر اسلام کا بنیادی مطالبہ ہے۔‘‘14 فروری 1948 ء کو سبّی دربار، بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ میرا عقیدہ ہے کہ ہماری نجات انہی سنہری قوانین کی پابندی کرنے میں ہے، جو ہمارے شارحِ اعظم، پیغمبرِ اسلام ﷺ نے ہمارے لیے متعیّن کیے۔ آئیے! ہم اپنی جمہوریت کی اساس صحیح اسلامی تصوّرات اور اُصولوں پر استوار کریں۔‘‘12 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج، پشاور کے ایک استقبالیے میں فرمایا،’’ہم ایک ایسی مملکت تعمیر کررہے ہیں، جو پورے عالمِ اسلام کی تقدیر سازی میں بھرپور کردار ادا کرے گی۔‘‘ یہاں قائدِ اعظم کی اس تقریر کا حوالہ بھی برمحل ہوگا، جو اُن کے تصوّرِ پاکستان کے حوالے سے نہ صرف معروف ہے، بلکہ جسے ایک مخصوص مکتبۂ فکر ذاتی تاویلوں اور عذرِ بے جا کے ذریعے متنازع بنانے کی دانستہ کوششوں میں مصروف ہے۔ ہماری مُراد 11 اگست 1947 ء کی اس تقریر سے ہے، جو قائدِاعظم نے قیامِ پاکستان سے قبل کراچی میں مجلسِ دستور ساز کے افتتاح کے موقعے پر کی تھی اور جو واضح طور پر1949 ء میں مجلسِ دستور ساز میں منظور کی جانے والی قراردادِ مقاصد کو استناد فراہم کرتی ہے۔ اس تقریر کو مِن وعَن نقل کرنا تو یہاں ممکن نہیں، لیکن جزوی طور پر اس کے مفہوم کو پیرا وائز (Parawise) ضرور بیان کیا جا سکتا ہے۔

1۔پاکستان کے لیے دستور مرتّب کرنا۔

2۔وفاقی قانون ساز ادارے کو کامل، خود مختار ادارے کی شکل دینا۔

3۔امن و امان کو برقرار رکھنا تاکہ مملکت اپنے عوام کی جان و مال اور اُن کے مذہبی عقائد کو مکمّل طور پر تحفّظ دے سکے۔

4۔رشوت ستانی اور بدعنوانی کا خاتمہ۔ یہ ایک زہر ہے، اس کا سختی سے قلع قمع کرنا پڑے گا۔

5۔غذائی اجناس اور اشیائے ضرورت کی چور بازاری اور گرانی کا خاتمہ۔

6۔اقربا پروری، احباب نوازی اور ذاتی مفادات کے حصول کی لعنت کا خاتمہ۔

7۔فرقہ وارانہ ہم آہنگی۔

8۔اپنی عبادت گاہوں میں جانے کا آزادانہ حق۔

9۔پاکستان کو خوش حال بنانے کے لیے عوام کی فلاح و بہبود پر توجّہ۔ عوام سے مُراد عامۃ النّاس اور غریب عوام ہیں۔

10۔ذات پات کے نظام اور صوبائی عصبیتوں کا خاتمہ۔ (یہاں ہم یہ پوچھنے میں شاید حق بہ جانب ہیں کہ اِن دس نکات میں سے ہم نے کس پر اور کہاں تک عمل کیا؟)

قائدِاعظم نے اِن نکات کو بیان کرنے کے بعد فرمایا،’’ اب آپ آزاد ہیں۔ اس مملکتِ پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔ اپنے مندروں میں جائیں، اپنی مساجد میں جائیں یا کسی اور عبادت گاہ میں۔ آپ کا کسی مذہب، ذات پات یا عقیدے سے تعلق ہو، کاروبارِ مملکت کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘ آخر میں یہ بھی فرمایا کہ ’’جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا، نہ ہندو، ہندو رہے گا، نہ مسلمان، مسلمان ... مذہبی اعتبار سے نہیں، کیوں کہ یہ ذاتی عقائد کا معاملہ ہے، بلکہ سیاسی اعتبار سے اور مملکت کے شہری کی حیثیت سے۔‘‘ یہی دو پیراگراف ہیں، جن کی بنیاد پر کچھ لوگ پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ تصوّر کرنے کے حق میں ہیں۔ لیکن وہ اس حقیقت سے آشنا نہیں کہ یہ دونوں پیراگراف،’’ میثاقِ مدینہ‘‘ میں بھی موجود ہیں۔ دراصل یہ پیراگراف ،اقلیتوں سے معاملات کی نشان دہی کرتے ہیں۔ یہ بات ہم نہیں کہہ رہے، بلکہ یہ تحقیق، قائدِاعظم اور تحریکِ پاکستان کے ضمن میں بین الاقوامی شہرت یافتہ محقّق، پروفیسر شریف المجاہد کی ہے اور جسے گزشتہ بیس سال کے دَوران کسی جانب سے بھی رَد نہیں کیا گیا۔ اسی نوعیت کی ایک تحقیق، معروف قانون دان اور محقّق، سیّد شریف الدّین پیرزادہ نے بھی اپنے ایک مضمون میں درج کی تھی۔ پروفیسر شریف المجاہد اور سیّد شریف الدّین پیرزادہ کے مضامین روزنامہ’’ ڈان‘‘ میں شایع ہوچکے ہیں۔ یہاں یہ عرض کرتے چلیں کہ قائدِاعظم، مُحمّدعلی جناح نے تحریکِ پاکستان کے دَوران یا قیامِ پاکستان کے بعد اپنی تقاریر میں کبھی نظریاتی حوالے سے’’ سیکولر‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ افسوس یہ کیسا غیر اخلاقی رویّہ ہے کہ ایک ایسا لفظ قائدِاعظم کے نظریات سے منسوب کیا جاتا ہے، جو کبھی آپ نے لادینی معانی میں اپنی زبان سے ادا ہی نہیں کیا۔ قائدِاعظم کے کسی بیان یا نکتۂ نظر سے سیاسی روایت کے پیشِ نظر یا آزادیٔ اظہار کی تائید میں اختلاف تو کیا جاسکتا ہے، لیکن اُس کی حقیقی معنویت کو تاویلات میں اُلجھا کر یا اُس میں اپنے نکتۂ نظر کی مماثلت تلاش کرنے کی کوشش ایک واضح بددیانتی ہے۔ ایک مخصوص مکتبۂ فکر قائدِاعظم کے خیالات کو اپنے نظریات کے آئینے میں پیش کرتا ہے، جو یقیناً بابائے قوم کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔ شاید اسی لیے یہ مخصوص طبقہ، قراردادِ مقاصد کو بھی مطعون کرتا رہتا ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت سے انکاری ہے، جب کہ قراردادِ مقاصد اپنے متن میں قائدِاعظم کی حقیقی فکر کی ترجمان ہے۔

قراردادِ مقاصد، قائدِاعظم کے انتقال کے تقریباً چھے ماہ بعد یعنی 12 مارچ 1949 ء کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں پیش کی گئی۔ پاکستان کی آئین سازی کی تاریخ میں’’ قراردادِ مقاصد‘‘ ایک بنیادی دستاویز ہے۔ اس قرارداد میں نہ صرف قوم کے مخصوص تاریخی وَرثے کی عکّاسی کی گئی ، بلکہ اس میں قائدِاعظم، مُحمّد علی جناح کے افکار و خیالات کی روشنی میں قومی نصب العین کا تعیّن بھی کیا گیا ۔ قراردادِ مقاصد میں اُن اُصولوں کی نشان دہی کی گئی ہے، جن کی بنیادوں پر مستقبل میں پاکستان کا آئین مرتّب کیا جانا تھا۔ اسی لیے اس قرارداد کو آئین ساز اسمبلی نے منظور کرکے پاکستان کے مجوّزہ آئین کے دیباچے کی حیثیت دے دی اور پاکستان کے تمام آئین اسی قرارداد کی روشنی میں مرتّب کیے گئے ۔یہاں اس قرارداد کے نکات کی تفصیل بیان کرنا ممکن نہیں، لیکن یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر یہ قرارداد منظور نہ کی جاتی، تو پاکستان کے آئین کو قرآن و سنّت اور قائدِاعظم کے افکار کے مطابق خطوط میسّر نہ آتے اور وہ طبقہ، جو انگریزوں اور ہندوئوں کے زیرِ اثر پاکستان کو ایک سیکولر ریاست بنانے کے لیے کوشاں تھا، اپنے مقاصد میں کام یاب ہوجاتا اور ہم تحریکِ پاکستان اور مطالبۂ پاکستان کے حقیقی مقاصد سے رُوگردانی کے مرتکب ہوجاتے۔ اس قرارداد نے پاکستان کی نظریاتی حیثیت کا تعیّن کیا اور ہمیں اپنی نومولود ریاست کو’’ اسلامی جمہوریۂ پاکستان‘‘ کہنے کا اعزاز بخشا۔ یہ سب کچھ بانیٔ پاکستان کی دُور اندیشی، بصیرت اور اپنے مقاصد سے گہری اور ناقابلِ شکست وابستگی کے نتیجے میں ہوا۔ اور ہم اس پر فخر مند ہیں کہ یہی قرارداد قائدِاعظم کے افکار و خیالات کی روشنی میں پاکستان کی نظریاتی اساس ہے۔

تازہ ترین