• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’صحافیوں کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد حکومت نے تفتیش کرائی اور تسلیم کیا تھا کہ جن علاقوؒں میں صحافی گئے وہاں عام لوگوں کو قتل کیا گیا ،مگر اس کے باوجود ان صحافیوں کو نہیں چھوڑا گیا، پھر حکومت نے اپنے اس دعوے پر بھی عمل نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ ان واقعات کے ذمہ داروں اور قاتلوں کو پکڑ کر سزائیں دے گی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ رکھائن کے علاقے پر فوج کا مکمل قبضہ ہے اور کسی غیرمتعلقہ شخص یا صحافیوں کووہاں جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ،اس لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اب وہاں کیا ہورہا ہے‘‘

میانمار کی عدالت نے روہنگیا مسلمانوں پر مظالم سے متعلق حقائق سے پردہ اُتھانے والے غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے دو صحافیوں کو سات سال قید کی سزا سنادی۔عدالت نے صحافیوںکے خلاف ملکی خفیہ رازوںکو افشا کرنے کے قانون کے تحت فیصلہ سنایا ۔انہیں 12دسمبر2017ءکو حراست میں لیا گیا تھا۔دونوں صحافی میانمار کی ریاست خائن میں روہنگیا مسلمانوںکی نسل کشی پر تحقیقاتی رپورٹ پر کام کرہے تھے۔سزا سننےکے بعدصحافی والوں نے کہا،’’میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔مجھے کوئی خوف نہیں ،میں انصاف ،جمہوریت اور آزادی پر یقین رکھتا ہوں‘‘

میانمار یا برما آزادی کے بعد سے (پچھلے ستر سال میں) مسلسل آمریت یا آمرانہ جمہوریت کا شکار رہا ہے۔ جب برما میں جمہوریت کی علم بردار آنگ سان سوچی برسر اقتدار آئیں تو لگ رہا تھا کہ اب برما میں اقلیتوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوجائیں گے جو وہاں کی اکثریتی بدھ آبادی کو ہیں، مگر ایک طرف تو روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری رہا اور دوسری طرف جن صحافیوں نے اپنی حکومت اور برما کی فوج کے عوام پر ظلم و ستم کا پردہ فاش کرنا چاہا، انہیں برما کی حکومت نے قید و بند میں ڈال دیا۔

تین ستمبر کو میانمار کی ایک عدالت نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے روئٹرز کے دو صحافیوں کو یہ سزا سنائی اور ان پر الزام یہ لگایا گیا کہ وہ ملکی رازوں سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کررہے تھے۔ اکثر حکومتیں جو استبداد پر قائم ہوتی ہیں خود انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ملوث ہوتی ہیں اور جب خود اس ملک کے باضمیر اور لکھاری ان خلاف ورزیوں کے خلاف لکھتے ہیں تو فوراً اسے ملک دشمن سرگرمیوں میں شمار کرلیا جاتا ہے،حالاں کہ انسانی حقوق کی پاس داری ہر حکومت اور ریاست کا فرض ہونا چاہئے مگروہ خود اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے ’’ملکی راز‘‘ کا بہانہ کرتی ہیں۔یہ راز تو وہ نام نہاد راز ہوتے ہیں جن سے ملکی سالمیت کو خطرہ ہوتاہے۔ صحافی بے چارے تو ملک کا ضمیر ہوتے ہیں اور یہ ان کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ خود اپنے ملک اور ریاست کی چیرہ دستیوں کو بے نقاب کریں ،ورنہ ریاستی ادارے کسی کو نہیں چھوڑتے۔

ان دونوں صحافیوں کو سزا دینے کے لئے جس قانون کا سہارا لیا گیا ہے وہ نوآبادیاتی دور کا قانون ہے، جس کے تحت ملکی راز فاش کرنے پر چودہ سال تک قید کی سزا دی جاسکتی ہے۔ بتیس سالہ والون (WALONE) اور اٹھائیس سالہ کیاوسو (KYAWSOE) نے خود کو بے قصور قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جن دستاویزات کے ساتھ انہیں گرفتار کیا گیا ہے،وہ خود پولیس نے انہیں فراہم کی تھیں اور پھر انہیں گرفتار کرکے ان دستاویزات کے برآمد ہونے کا مقدمہ بنادیا گیا۔

دونوں صحافیوں کو نو ماہ قبل دسمبر 2017ء میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب میانمار کی راکھائن ریاست میں روہنگیا دیہاتیوں سے مسلمانوں کے قتل عام کے بارے میں معلومات جمع کررہے تھے، والون ایک بہادر صحافی اور فوٹو گرافر ہیں، جو ینگون (سابقہ رنگون) میں رہتے ہیں اور میانمار ٹائمز کے لئے بھی لکھتے رہے ہیں۔ والون کے مضامین اور کالم روئٹرز کی ویب سائٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں، جن میں وہ برما کی حکومت اور فوج کے روہنگیا مسلمانوں پر مظاہرے کے بارے میں مسلسل لکھتے رہے ہیں۔اس برس فروری 2018ء میں ان کے کالموں نے وہ تفصیلات بیان کیں جن سے میانمار کی فوج کی جانب سے دیہات کو آگ لگانے، نہتے لوگوں کو قتل کرنے اور لوٹ مار کرنے کے واقعات کا دنیا کو علم ہوا۔ اس کے علاوہ انہوں نے بدھ مت کے مذہبی پیشوائوں کی طرف سے بھی کئے جانے والے مظالم کا پردہ چاک کیا اور بتایا کہ، کس طرح عدم تشدد کے دعوے دار یہ بدھ مذہبی رہ نما نہتے لوگوں پر تشدد کرتے رہے۔ دراصل مذہبی اور فرقہ وارانہ جنون ایک ایسا مرض ہے جو ہر مذہب اور فرقے کے لوگوں کو ہوسکتا ہے اور اس سے مریض خود اپنی نجات حاصل کرنے کے دھوکے میں دیگر مذاہب اور فرقوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

سزا پانے والے دونوں صحافی نہ صرف شادی شدہ ہیں بلکہ ان کے چھوٹے بچے بھی ہیں مگر عدالت کے جج نے اس طرح کی کسی دلیل کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف ایسے ٹھوس شواہد اور ثبوت حاصل ہوئے ہیں جن سے ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے کا قوی احتمال تھا، اس لئے یہ صحافی کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔گوکہ ان صحافیوں کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد خود حکومت نے تفتیش کرائی اور تسلیم کیا تھا کہ جن علاقوؒں میں صحافی گئے وہاں عام لوگوں کو قتل کیا گیا ،مگر اس کے باوجود ان صحافیوں کو نہیں بخشا گیا۔ پھر حکومت نے اپنے اس دعوے پر بھی عمل نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ ان واقعات کے ذمہ داروں اور قاتلوں کو پکڑ کر سزائیں دے گی۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ رکھائن کے علاقے پر فوج کا مکمل قبضہ ہے اور کسی غیرمتعلقہ شخص یا صحافیوں کووہاں جانے کی اجازت نہیں دی جارہی اس لئے یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اب وہاں کیا ہورہا ہے۔

اس سے قبل اقوام متحدہ کے جاری کردہ ایک تحقیقی مراسلے میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں فیس بک کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا، جس کے نتیجے میں بدھوں نے مسلمانوں کے خلاف بہیمانہ کارروائیاں کیں اور سات لاکھ سے زیادہ افراد جن میں عورتیں بوڑھے اور بچے بھی شامل تھے، نقل مکانی پر مجبور ہوئے،انہوں نےبھاگ کر بنگلا دیش کے سرحدی علاقوں میں پناہ لی۔ واضح رہے کہ برما کے لوگ ان مسلمانوں کو برما کے شہری ماننے پر تیار نہیں اور خود میانمار کی حکومت انہیں بنگالی کہتی ہے، جب کہ یہ مسلمان صدیوں سے رکھائن میں مقیم ہیں جو پہلے ایک خود مختار رجواڑہ، تھا جسے انگریزوں نے برما میں شامل کیا۔

گوکہ فیس بک نے بعد میں دعویٰ کیا کہ تمام نفرت انگیز مواد ہٹا دیا گیا ہے مگر فیس بک یہ کارروائی اسی وقت کرتی ہے جب کسی مواد کے خلاف باقاعدہ شکایت درج کرائی جائے اب بے چارے رکھائن کے مسلمان جو خود دربدر ہیں اور جن کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہیں ،وہ کہاں فیس بک دیکھ کر شکایت درج کراسکتے تھے اس لئے یہ نفرت انگیز مواد نہ صرف موجود رہا بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوتا گیا۔ اقوام متحدہ کی تحقیقی ٹیم نے باقاعدہ ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا، کہ سوشل میڈیا نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر نفرتیں پھیلائیں اور ایسی جعلی خبریں اور تصویر عام کیں جن میں مسلمانوں کو بدھوں پر حملے کرتے دکھایا گیا ،مگر حقیقت میں ایسا نہیں تھا اور اگر تھا بھی تو مسلمانوں کی طرف سے ایسا بہت کم ہوا لیکن بدھوں نے طیش میں آکر خوب بدلے لئے۔اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ فیس بک کے لئے حملہ آواروں نے ایک دوسرے کے ساتھ مسلسل رابطے رکھے اور ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ ان حملوں میں شرکت کرنے کے لئے رکھائن بلائے گئے ،جہاں انہوں نے قتل عام اور لوٹ مار کے علاوہ دیہات بھی جلائے اور املاتو مکمل تباہ کردیں۔

صحافیوں نے جو تحقیقی رپورٹ تیار کی تھی اس یمں غیرشاہدین کے حوالے سے بتایا گیا تھاکہ کس طرح برما کی فوج پولیس اور خود بدھ بھکشوئوں نے ان روہنگیا افراد کو گھیر لیا جو ساحل سمندر پر پناہ لینے کے لئے جمع تھے ،کیوں کہ ان کے پاس کہیں اور جانے کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی اور آگے سمندر تھا۔ ان نہتے لوگوں کا گھیرائو کرکے خود ان سے کہا گیا کہ وہ گڑھے کھودیں پھر انہیں گولیاں مار کر ان گڑھوں میں دفن کردیا گیا۔خود کئی بودھ دیہاتیوں نے اعترافی بیانات بھی دئیے اور فخر سے بتایا کہ، انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا کیا۔ برما کی حکومت ان مقتول لوگوں کو بنگالی دہشت گرد قرار دیتی رہی ہے۔ یہ بھی اکثر ریاستی اہل کاروں کا خاص ہتھیار ہوتا ہے کہ جو بھی ریاستی بیانیے سے اختلاف کرے یا انسانی حقوق کا مطالبہ کرے تو انہیں دہشت گرد قرار دے دیا جائے۔ خود ریاستی اہل کار یہ سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں کہ اس طرح کی حرکتوں سے عوام میں ریاست کے لئے محبت نہیں بلکہ نفرت جنم لیتی ہے اور عوام کو زبردستی کسی حکومت یا ریاست سے محبت کرنے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔

دنیا میں کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں، خاص طور پر پاکستان اور اس کے اردگرد کے ممالک مثلاً چین، بھارت، ایران اور افغانستان سب میں اس طرح کے مسائل موجود ہیں۔ اگر پاکستان میں لوگ غائب کئے جاتے ہیں تو عدالتیں کچھ نہیں کر پاتیں۔ اسی طرح چین میں اگر سنگ یاگ کے الغیور مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا بھارت کشمیر میں ایسا کرتا ہے اس کے خلاف آواز اٹھانی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ ایران میں سنی آبادی پر اور افغانستان میں بھی مخالفین کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جارہا۔

صحافی کسی بھی ملک اور معاشرے کا ضمیر ہوتے ہیں ان کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور ان کی عزت کرنا عوام پر لازم ہے، کیوں کہ اگر صحافی ہی اپنا کام آزادی سے نہیں کرسکیں گے تو ریاست کی غلط حرکتوں سے کون پردہ اٹھائے گا۔ اس صحافیوں کے خلاف ایسے اقدام کی ہر سطح پر ہر ملک میں مذمت کی جانی چاہئے۔

تازہ ترین