• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ونگار‘‘ خوب صورت روایت جو دم توڑتی جارہی ہے

کنول احمد

یہ روایت اس وقت دیکھنے میں آتی ہے، جب کوئی اجتماعی کام کیا جارہا ہو جیسے مختلف فصلوں جیسے گنے یا گندم کی کٹائی، کپاس کی چنائی یا نہر کی کھدائی کی جا رہی ہو۔اس موقعے پر گاؤں کے کے ہر گھر سے ایک یا 2 افراد شرکت کرتے ہیں یوں لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع ہو کر اس کام کو انجام دیتی ہے۔یہ کام بلا معاوضہ کیا جاتا ہے اور کام کرنے والے اس کی کوئی اجرت طلب نہیں کرتے۔ یہ کام مردوں اور خواتین کے الگ الگ گروہ انجام دیتے ہیں۔ونگار کی روایت ایک دوسرے کی مدد کرنے، اور ایک دوسرے کے کام آنے کی بہترین مثال ہے کہ کس طرح گاؤں والے تمام مذہبی و لسانی اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔سندھ کے دیہاتوں میں جب کوئی اکیلا شخص کام زیادہ ہونے کی وجہ سےاپنا کام مکمل نہیں کرسکتا تھا ،تو وہ گاؤں کے لوگوں کو کام کے لیے دعوت دیتا ، گاؤںوالے اس کا ہاتھ بٹانے فوری چلے آتے۔ کپاس کی چنائی کے لیےحسب معمول گاؤں والے جمع ہوتے اور مل جل کرکٹائی کرتے۔اس موقعے پر کام کرنے والے افراد کے لیے کھانے کا بندوبست بھی کیا جاتا ، جسے کام کے دوران یا کام مکمل ہونے کے بعد ایک ساتھ بیٹھ کر کھایا جاتا ۔یہ روایت اب بھی کئی جگہ جاری ہے، لیکن اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ زمانے نے ترقی کا پہناوا پہنا اور اب لوگ ایک دوسرے کے کام تو دور کی بات ایک دوسرے سے دور بھی ہونے لگے، جہاں کبھی کام اور دکھ درد سانجھے ہوتے تھے ،اب یہ سارے سلسلےانفرادی بن گئے۔اس ترقی کے دور میں لوگ اپنوں سےقریب ہوکر بھی بہت دور ہو چکے ہیں اور باہمی میل جول اب ایک خواب بن کررہ گیا ہے۔

ونگار صرف کھیتوں میں ہاتھ بٹانے کو ہی نہیں کہا جاتا بلکہ کھیتوں کی تیاری، گندم کی کٹائی، گندم کی گہائی، شادی بیاہ کی تقریبات،علاقے کے فلاحی کام جیسے کنویں کی کھدائی وغیرہ سب مل جل کرکرنے کو بھی ونگار ہی کہتے ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگر ونگار کسی ایک شخص کی زمین پر کیا جارہا ہو، تو کھانے کا انتظام اس کی ذمے داری ہوتی ہے، اگر مختلف افراد اپنی مدد کے لیے گاؤں والوں کو بلاتے ہیں ،تو کھانے کا انتظام بھی وہ مل جل کر کرتے ہیں۔جس شخص نے ونگار لینا ہوتی ،وہ شام کو ہی گاؤں میں اطلاع کر دیتا کہ صبح اس کا کون ساکام ہے، کوئی فرد انکار نہیں کرتا تھا ، سب لوگ خوشی خوشی صبح اجتماعی طور پر کام کے لیے چلے جاتے، جس سے دنوں کا کام لمحوں میں ہوجاتا تھا اور اتفاق، اتحاد اور محبت بھی قائم رہتی تھی۔ خواتین ونگار میں کام تو نہیں کرتی تھیں، لیکن لوگوں کے لیے خالص دیسی مزیدار کھانے پکانے کا انتظام کرتی تھیں، کھانا ہمیشہ روایتی اور دیسی ہوتا تھا جس میں موسم کے لحاظ سے سالن، چٹنی ، لسی، مکھن کے ساتھ گڑ شکر لازمی شامل ہوتے۔ 

جس سے ونگار میں شریک ہونے والے کام کےساتھ ساتھ کھانے سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے۔ونگار جیسی باہمی محبت و یگانگت کی ختم ہوتی رسم کی اہم اور بڑی وجہ معاشی حالات ہیں۔پہلے ایک گاؤں یا بستی کے لوگ اپنے گاؤں تک محدود تھے، اب روزگار کے حصول کےلیے ،وہ بڑے شہروں اور دیگر علاقوں کا رخ کرچکے ہیں۔پہلے لوگوں کی ضروریات محدود تھیں، وہ گھر کی سبزیاں، دودھ اور دیگر سادہ غذاؤں اور عام طرز زندگی گزارتے تھے۔جیسے جیسے وقت نے کروٹ لی ضروریات بھی بدلتی گئیں، جس کے لیے محنت بھی زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ اس کے علاوہ اب معاشرتی رویوں میںبھی تبدیلی آچکی ہے ،جس کی وجہ سے ونگار جیسی روایات دم توڑ چکی ہیں۔ایک وہ دور تھا، جب ایک دوسرے کے دکھ درد کو محسوس کیا جاتا اور اس میں سب اس طرح شریک ہوتے کہ وہ دکھ درد تکلیف سب بانٹ لیتےتھے۔یہ وہ زمانہ تھا، جب دلوں میں خلوص، لہجوں میں اپنائیت، دوستوں میں مروت اور رشتوں میں محبت باقی تھی،جب بڑوں میں شفقت اورچھوٹوں میں ادب کی خوب صورت عادت تھی۔

جدید گلوبلائزیشن کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ ،ان کے فوائد سے بھی انکار ممکن نہیں، لیکن ہم اپنائیت سے دور ہوتے جارہے ہیں۔انٹرنیٹ کے ایک کلک سے کسی کے دکھ درد میں شامل ہو کر ہم بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ضرور کیا جائے ،لیکن اپنی ثقافت اور اقدار کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے۔سندھ کی یہ ثقافت اب تقریباً دم توڑ رہی ہے اور اس کے ساتھ اتحاد، اتفاق اور یگانگت کا سلسلہ بھی ختم ہو رہا ہے۔اس افراتفری کے دور میں، جب شہروں میں پڑوسی بھی پڑوسی سے بے خبر ہوتا ہے، ونگار ایک ایسی روایت ہے ،جو معاشرے کو مل کر کام کرنے، اختلافات بھلانے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا سبق دیتی ہے۔

تازہ ترین