• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جنگ ستمبر میں’’صحافتی محاذ‘‘ کا ایک عکس‘‘ چونڈہ کے محاذ سے

وثیق شیخ

 چونڈہ کا محاذ اس لحاظ سے بہت منفرد اہمیت کا حامل ہے کہ باون سال گزرنے کے بعدبھی اس میدان جنگ کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ یہ وہ محاذ ہے۔ جہاں 1965 میں دنیا کی دوسری بڑی ٹینکوں کی جنگ لڑی گئی۔ آج بھی قصبہ چونڈہ کے جوان ان ہی میدانوں میں سیر کرتے ہوئے اپنے بزرگوں سے جنگ کی ولولہ انگیز داستانیں سن کر اپنے خون کو گرماتے ہیں۔ جہاں بھارتی اور پاکستانی افواج آٹھ روز تک ایک دوسرے سے نبردآزما رہیں۔

چند روز پہلے سٹاف کالج کوئٹہ کے زیرِ تربیت میجر رینک کے ساٹھ افسران پر مشتمل ایک وفد نے چونڈہ کا دورہ کیا۔ چونڈہ کے نوجوانوں نے اپنے بزرگوں کے ہمراہ پاک فوج کے آفیسرز کا پرتپاک خیرمقدم کیاا وراُنہیں محاذ چونڈہ کا دورہ کروایا۔ ہر مقام پر بزرگ جنگ کا آنکھوں دیکھا حال سناتے اور فوجی جوان چشم تصور میں ان مناظر کو دیکھتے جب ان میدانوں میں حق وباطل کا معرکہ لڑا جا رہا تھا۔ خوبصورت سفید داڑھی اور گورے چٹے 81سالہ رحمت اﷲ بٹ سٹاف کالج کی ٹیم کے ہمراہ اسی ریلوے لائن پر آہستہ آہستہ چھڑی ہاتھ میں لئے چہل قدمی کر رہے تھے۔ ایک فوجی افسر نے کہا ’’جناب جنگ کے بارے میں کچھ بتائیے۔‘‘ بزرگ نے ایک لمبا سانس لیا، آنکھیں نیم وا کیں جیسے چشمِ تصور سے محاذ جنگ پر جا پہنچے ہوں اور یوں گویا ہوئے: ’’صبح سویرے اہلیان قصبہ چونڈہ کی آنکھ ٹینکوں کے فائر کی آواز سے کھلی۔ لوگ ہڑبڑا کر اُٹھ گئے اور اپنے اہلِ خانہ کو اکٹھا کر کے تسلیاں دینے لگے کچھ نہیں ہو گا، لیکن اندر سے کچھ پریشان ہو گئے۔ گھر سے باہر صورت احوال جاننے کے لئے نکلے تو پاک آرمی کے جوان گلی گلی قصبہ خالی کرانے کا کہہ رہے تھے۔ مساجد میں اعلان ہو رہا تھا کہ بھارت نے حملہ کر دیا ہے، سب لوک قصبہ خالی کر دیں اور محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں۔ نوجوانوں نے اپنے اہل و عیال کو روانہ کیا اور خود قصبے کے باہر دفاع پر تعینات فوج کے شانہ بشانہ وطن پر جان دینے کے لئے شامل ہو گئے۔ فضا دھول اور دھوئیں سے تاحد نظر دھندلا گئی تھی۔‘‘

’’اﷲ اکبر کے نعروں سے گونجتی فضا میں فوجی جوان فائر کرنے میں مصروف تھے۔ ہر فوجی جوان اپنی جگہ ہمت و شجاعت کی ایک مثال بنا ہوا تھا۔ اہلیان قصبہ اپنے جوانوں کی ہر طرح مدد کر رہے تھے۔ سامنے بھارتی ٹینک قطار در قطار آہنی دیوار بنائے چلے آ رہے تھے۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ بھارتی ٹینکوں نے دھوکہ دینے کے لئے اپنے ٹینکوں پر پاکستانی پرچم لگائے ہوئے تھے۔ تاکہ پاک فوج کو دھوکہ ہو کہ پاکستانی ٹینک ہیں۔ بہت جلد پاک فوج نے بھانپ لیا یہ دشمن کی چال ہے۔‘‘

بٹ صاحب مزید بولے کہ ’’پاک فوج کا ایک سپاہی بشیر جب پھلورہ کے پاس بھارتی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوا تو اس کو گرفتار کرنے والا بھارتی کرنل سپاہی بشیر کا کلاس فیلو تھا۔دونوں دوست بہت جذباتی طریقہ سے ملے، لیکن دشمن دشمن ہوتا ہے۔ بھارتی کرنل نے سپاہی بشیر کو کہا کہ افسوس میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا۔ سپاہی بشیر نے کہا مجھے کوئی گلہ نہیں اپنا فرض ادا کرو۔ لیکن دوسرے دن سپاہی بشیر بھارتی قید سے فرار ہو گیا اور دوبارہ اپنی فوج کے ساتھ مل گیا۔ چونڈہ کے اندر مساجد سے مسلسل سائرن کی آواز بلند ہو رہی تھی۔ جنگ کا ماحول چھایا ہوا تھا۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’بٹ صاحب کیا ٹینکوں کے نیچے بم باندھ کر لیٹنے والی کہانی سچی ہے؟ بٹ صاحب کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے گویا وہ ماضی میں اس لمحے کو دیکھ رہے تھے۔ بٹ صاحب نے اپنی سفید ڈاڑھی پر ہاتھ پھیرا اور بتایا: ’’میں وہ لمحہ کبھی نہیں بھول سکتا جب 17ستمبر 1965 کو دوپہر کے وقت بھارتی حملہ بھرپور طریقے سے جاری تھا اور لگتا تھا کہ بھارتی فرسٹ آرمڈ ڈویژن اب ریلوے لائن عبور کر لے گا تو پاکستانی کمانڈر بریگیڈیئر عبدالعلی نے اپنے جوانوں کو ریلوے اسٹیشن پر اکٹھا کیا اور ایک مختصر تقریر میں کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اﷲ کی نصرت کے لئے اپنے وطن پر جان قربان کر دیں اور دشمن کو پیچھے دھکیل دیں۔ کون کون اپنے وطن پر جان قربان کرنا چاہتا ہے؟ تمام فوجی جوانوں نے بیک وقت ہاتھ اٹھا دیئے۔ کمانڈر صاحب نے چند جوانوں کا انتخاب کیا اور ان کو دشمن کی صفوں میں گھس جانے کا ہدف دیا۔ پلک جھپکتے وہ سرفروش آنکھوں سے اوجھل ہو گئے اور دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔ فضا بھاری دھماکوں سے گونج اٹھی اور بھارتی سنچورین ٹینکوں کے پرخچے اڑنے لگے۔ دشمن کا حملہ اچانک رک گیا وہ جگہ آج بھی نشان عبرت ہے جہاں بھارتی تین سو فوجی اجتماعی طور پر دفن کئے گئے جن کی لاشیں بھارتی فوج اٹھانا بھول گئی اور ان کی لاشیں گدھ اور کوے نوچتے رہے۔ جب تعفن زیادہ پھیلنے لگا تو پاک فوج نے وقتی طور پر ایک بڑا سا گڑھا کھود کر ان بھارتی سورمائوں کی لاشیں ایک ہی جگہ دبا دیں۔ چونڈہ ریلوے اسٹیشن کے پاس آج بھی وہ جگہ جوں کی توں موجود ہے۔‘‘ بعد میں ان لاشوں کو پورے فوجی احترام سے واپس کیا گیا۔

جنگی نقطہ نظر سے چونڈہ کی جنگ کا اگر تجزیہ کیا جائے تو داستان کچھ یوں ہے۔

8ستمبرکو بھارتی فرسٹ آرمڈ ڈویژن نے چھ مائونٹین ڈویژن، 14انفنٹری ڈویژن اور کئی انفنٹری بریگیڈز کی مدد سے تین کالم کی فارمیشن بناتے ہوئے چار واہ، باجرہ گڑھی اور نخنال سے پاک سرزمین پر اپنے ناپاک ارادوں کے ساتھ حملہ کر دیا۔ رینجرز کے محافظ چند گھنٹے داد شجاعت دے کر پیچھے ہٹ گئے۔ بھارتی ابھی چند سو گز کا فاصلہ طے کر پائے تھے کہ پاک فوج کے شیردل مجاہد قہر بن کر اپنے وطن کے دفاع کے لئے دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ جنرل جگن ناتھ چوہدری (جس نے کبھی محاذ کا دورہ تک نہیں کیا تھا) کا بنایا گیا وار پلان جو چند گھنٹوں میں سیالکوٹ ڈسکہ روڈ پر پہنچنے کا تھا، اس کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوا۔ پاک فوج کے تین ہزار فوجی جوان ہزاروں بھارتی فوجیوں اور چار سو ٹینکوں کے آگے اپنی جانوں کی پروا نہ کرتے ہوئے سینہ سپر ہو گئے۔ نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی کا جذبہ دل میں لئے شہادت کے طلب گار یہ جوان وہ کارنامہ سرانجام دینے جا رہے تھے کہ تاریخ کا طالب علم ہمیشہ انگشت بدنداں رہے گا۔ 325 ٹینک اور ساری فوجی قوت صرف چند ہزار گز کا فاصلہ طے کر کے رک گئی اور بھارتی فوجی اپنے افسروں کا منہ دیکھنے لگے۔ گویا یہ سوال پوچھ رہے ہوں سر آپ تو کہتے تھے کہ پاکستانی اتنی بڑی قوت کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں کریں گے، یہ تو ہمارے ہی ٹینکوں پر سوار ہو گئے ہیں، سر اَب کیا کریں؟

بھارتی کمانڈر پی کے دون نے مزید فوجی اور ٹینک ری انفورس کرنے کی اپیل کی جو منظور کر لی گئی۔ بھارتی فوج دو دن کی جنگ کے بعد گڈگور تک پہنچ گئی۔ پاک فوج اپنے کم وسائل اور کم نفری کے باوجود’’ لاسٹ مین لاسٹ بلٹ‘‘ کا ماٹو لئے دفاع کر رہی تھی۔ کرنل عبدالرحمن اپنی بٹالین کے شانہ بشانہ میدان میں ڈٹے ہوئے تھے اور لمحہ بہ لمحہ اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ گڈگور سے آگے پھلورہ کے مقام پر بھارتی سورمائوں اور پاک فوج کے شیروں کے درمیان گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ کرنل عبدالرحمن نے اپنی جان وطن پر قربان کر دی اور ستارۂ جرأت حاصل کیا۔ بھارتی 17پونا ہارس کو پھلورہ حاصل کرنے کا ہدف ملا۔ کرنل تارہ پوری نے دو دن سرتوڑ کوشش کی لیکن کامیابی نہ ملی۔ پاکستانی ایئرفورس نے اپنی فوج کا بھرپور ساتھ دیا اور دشمن کی صفوں میں کھلبلی مچائے رکھی۔ پھلورہ حاصل کرنے کے بعد بھارتی فوج نے چونڈہ کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ وہ کہاں جانتے تھے کہ چونڈہ بھارتی ٹینکوں کا قبرستان بننے جا رہا ہے۔

چونڈہ کی جنگ اپنے اندر ہزاروں داستانیں سمیٹے ہوئے ہے۔ ایسی داستانیں جن پر یقین کرنا محال ہے لیکن ہر داستان کے پیچھے صرف اور صرف حقیقت اور سچائی ہے۔چونڈہ کی جنگ جو سات دن جاری رہی اور یہ تو دنیا نے دیکھا کہ کس طرح افواج پاکستان اور چونڈہ کے نوجوان شانہ بشانہ دفاع کرتے رہے اور جب وقت آیا تو فوجی جوان اپنے سینوں پر بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے نیچے لیٹ گئے۔

14 تاریخ صبح چھ بجے لڑائی شروع ہوئی۔ 17پونا ہارس نے بھرپور حملہ کر دیا اور مدمقابل تھی پاک فوج کی 25کیولری (Men of Steel) پھلورہ کو بھارتی فوج نے کمان ہیڈکوارٹر بنا لیا۔ بریگیڈیئر علی اپنی تین رجمنٹوں اور تین بہادر کمانڈروں کے ساتھ چونڈہ کے دفاع کے لئے موجود تھے۔ بریگیڈیئر علی چونڈہ کے دربار کے ٹیلے پر کھڑے سارا میدان جنگ دیکھ رہے تھے اور اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے۔ کرنل جمشید مغربی سمت کی طرف اپنی کمان سنبھالے ہوئے تھے تاکہ دشمن سیالکوٹ کی طرف بڑھنے کی جرأت نہ کر سکے۔ مشرقی طرف سے بھی افواج پاکستان نے بھارتی فوج کو گھیر رکھا تھا۔ فرسٹ آرمڈ ڈویژن جو بھارت کی سب سے بڑی جنگی مشین تھی، کسی سہمے ہوئے پرندے کی طرح چونڈہ کے پاس سے ریلوے لائن عبور کر نے کی سرتوڑ کوشش کر رہی تھی جو کسی طور کامیاب نہ ہو رہی تھی۔

بھارتی 17پونا ہارس رجمنٹ نے جو فرسٹ آرمڈ ڈویژن کا حصہ تھی، تین بڑے حملے کئے اور ہر بار کرنل نثار کی 25کیولری نے ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لہٰذا 17پونا ہارس اپنے تیس ٹینک صرف ان تین حملوں میں تباہ کروا کر ہانپنے لگی۔ کرنل تارہ پوری چونڈہ ریلوے سٹیشن کے پاس کرنل نثار کے ٹینک کے فائر کی زد میں آیا اور جان گنوا بیٹھا۔ جنگ کے بعد بھارت نے اپنی خفگی مٹانے کے لئے ناکام کمانڈر کرنل تارہ پوری کو بھارتی فوج کا سب سے اعلیٰ اعزاز ’’پرم ویر چکرا‘‘ دیا۔

سرزمین چونڈہ کے وہ میدان اور ریلوے لائن آج بھی جوں کی توں موجود ہیں جو بھارتی کمانڈر اور فورس کو ماضی کی عبرتناک شکست کی یاد دلاتے ہیں۔

اے سرزمین چونڈہ تجھے سلام!

پاک فوج تیری عظمت کو سلام!

اے وطن تو ہمیشہ سلامت رہے!

تازہ ترین