• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شامی صدر، بشار الاسد اپوزیشن کے آخری گڑھ کو بھی فتح کرنے کے لیے آگے بڑھ رہے ہیں۔ یہ ادلب ہے، جہاں اپوزیشن، جنہیں حکومت اور اس کے اتحادی باغی کہتے ہیں، اپنی بقا کی آخری جنگ لڑنے کی تیاری کر رہی ہے۔ شام میں بشار حکومت کی فتح اور مُلک کے تمام علاقوں پر اس کی حکم رانی کا بحال ہونا، درحقیقت کچھ عالمی اور علاقائی کھلاڑیوں کی جیت ، تو کچھ کی شکست ہے۔ بشار حکومت کے مضبوط اور پُرعزم حلیف، ایران اور روس بجا طور پر اپنی اس کام یابی پر مطمئن اور خوش ہیں، کیوں کہ اِس کام یابی میں اُن کی بھرپور فوجی، مالی، سیاسی، سفارتی یعنی ہر طرح کی امداد شامل رہی ہے، پھر یہ کہ اس معاملے میں اُنہیں کسی بڑی فوجی مزاحمت یا رائے عامّہ کی مخالفت کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑا۔ عراق اور افغانستان کی طرح کسی نے یہ کہہ کر اسے عالمی مسئلہ نہیں بنایا کہ’’ ان دو مُلکوں نے آخر کیسے کسی تیسرے مُلک کی خانہ جنگی میں براہِ راست مداخلت کی اور اس کے شہریوں کی ہلاکت میں مقامی فوج کے ساتھ شامل رہے۔‘‘ علاوہ ازیں، ایران کی حمایت یافتہ جنگجو تنظیموں کا بھی اس فتح میں بھرپور کردار رہا، جن میں لبنان کی حزب اللہ سرِ فہرست بتائی جاتی ہے۔ امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں، عرب مُمالک اور تُرکی کی یہ واضح شکست ہے۔ وہ اسے سفارت کاری اور بیانات کے ذریعے خواہ کتنا ہی کم دِکھانے کی کوشش کریں، مگر حقیقت یہی ہے کہ شامی اپوزیشن کو ان کی مدد حاصل رہی ہے۔ گو اس امداد کی نہ کوئی واضح سمت تھی اور نہ ہی عزم۔ اور یہ پُشت پناہی صرف دِکھاوے کی حد تک ہی تھی، جسے نیم دِلانہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان مُمالک نے اپنے شامی حلیفوں کو کُھل کر فوجی اور سیاسی مدد فراہم نہیں کی۔ 

نیز، ان کے اہداف بھی بار بار بدلتے رہے۔ یہاں تک کہ اوباما کے آخری دَور میں تو امداد کا سلسلہ ہی ختم ہوگیا تھا، کیوں کہ اس دَوران امریکا نے اپنی تمام جنگی کارروائیاں داعش کی جانب موڑ دی تھیں۔ اسے ایران سے نیوکلیئر ڈیل کا ایک حصّہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ پھر یہ کہ روس کو خطّے میں کُھل کھیلنے کا موقع دیا گیا۔ شام کی ساڑھے سات سالہ خانہ جنگی میں اقوامِ متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق، پانچ لاکھ شامی ہلاک ہوئے۔ بشار افواج پر بار بار کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا الزام لگتا رہا، بلکہ2014 ء میں تو یہ الزام ثابت بھی ہوگیا تھا، جب روس اور امریکا نے بشار الاسد کو کلین چِٹ دینے کے لیے اقوامِ متحدہ کی ایٹمی ایجینسی سے تحقیقات کروائیں اور کوئی ایکشن نہ لیا۔ اس عرصے کے دَوران ایک کروڑ، تیس لاکھ شامی شہری بے گھر ہوئے، جن میں سے پچاس لاکھ سے زیادہ سرحدوں پر پڑے ہیں یا دوسرے مُلکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ یہ تعداد، کُل مُلکی آبادی دو کروڑ، بیس لاکھ کے نصف سے بھی زاید ہے۔ دمشق کے علاوہ، شاید ہی کوئی شہر ہو، جو کھنڈر کا منظر نہ پیش کر رہا ہو ۔ کہا جارہا ہے کہ ادلب کی فتح کے بعد، بشار حکومت شہروں کی بحالی کی جانب توجّہ دے گی ۔ ساری دنیا کی خواہش ہے کہ ایسا ہی ہو، لیکن کیا وہ زخم مندمل ہوسکیں گے، جن میں لاکھوں افراد کا خون شامل ہے؟ کیا سفارت اور سیاست پر فوجی حل کو سبقت حاصل ہوجائے گی ؟

ادلب کو اپوزیشن یا باغیوں کا آخری قلعہ کہا جا رہا ہے۔ شمال مغرب میں واقع یہ صوبہ، حکومتی افواج اور روسی فضائی بم باری کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے مہاجرین کی پناہ گاہ بن چکا ہے، جس سے اس کی آبادی بڑھ کر تیس لاکھ تک پہنچ چُکی ہے، جو اس نسبتًا دیہی علاقے کے لیے غیر معمولی ہے، خاص طور پر ایسے مُلک کے لیے، جس کی کُل آبادی سوا دو کروڑ کے لگ بھگ ہو۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ شامی حکومت اور روس نے دوسرے علاقوں پر حملوں کے وقت ڈیل کے ذریعے بہت سے لڑنے والوں اور بے بس شہریوں کو شہر بدر کیا۔ یہ افراد مختلف شہروں سے اس علاقے میں آکر بستے رہے۔ یوں یہ اپوزیشن اور مہاجرین کا مستقر بن گیا۔ نیز، یہاں تیس ہزار سے زاید اپوزیشن جنگجو بھی موجود ہیں۔ اسد انتظامیہ باقی علاقوں سے جنگجوؤں کا صفایا کرنے کے بعد اب ادلب میں بھی کارروائی کرنا چاہتی ہے تاکہ اپنی فتح مکمل کرسکے۔ اس معاملے میں اس کے حلیف، روس اور ایران دونوں ہی متفق ہیں، لیکن اُن کا بیانیہ کچھ مختلف ہے۔ 

وہ شہریوں اور اپوزیشن پر حملے کرنے کی بجائے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ذرایع کے مطابق، اس حتمی فوجی کارروائی کے لیے ایک طرف تو شامی افواج صوبے کے گرد گھیرا تنگ کر رہی ہیں اور فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، تو دوسری جانب، روس، شام میں موجود اپنی فضائیہ کے علاوہ، شامی ساحلوں پر بحری قوّت میں بھی اضافہ کر رہا ہے۔ ان میں ایسی کشتیاں شامل ہیں، جو سمندر سے زمین پر میزائل داغنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ فوجی ماہرین کے مطابق، ایک طرح سے یہ اُن امریکی اور یورپی نیول فورسز کو جواب ہے، جو ماضی میں بحرِ روم سے شام کے خلاف میزائل کارروائی کرتی رہی ہیں۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال امریکا، فرانس اور برطانیہ نے اسد فورسز کے مبیّنہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے بعد ایسی ہی ایک کارروائی کی تھی، پھر یہ کہ اس اقدام سے خطرے کے لیول کو بڑھانا بھی مقصود ہوسکتا ہے کہ کہیں مغربی نیول طاقت کا ٹکرائو روس کی بحری طاقت سے نہ ہوجائے اور کوئی بڑی جنگ نہ چھڑ جائے۔ روس اس قسم کے حربے بڑی کام یابی سے استعمال کرتا ہے اور اسی قسم کی عالمی جنگ کے خطرات کا پروپیگنڈا کر کے دنیا کو خوف زدہ کرتا رہا ہے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ امریکا سمیت کوئی بھی بڑی طاقت شامی اپوزیشن کی بڑی فوجی سپورٹ سے گریزاں رہی ہے۔ اسے روس، ایران اور اسد حکومت کی ایک کام یاب حکمتِ عملی بھی کہا جا سکتا ہے، جس سے اس نے دشمن کو بے اثر کیا یا اپنے خلاف ہونے والی کسی بھی بڑی فوجی کارروائی کو روکا۔

ادلب جیسے’’ نو وار زونز‘‘ کا قیام شامی علاقوں میں کیسے ہوا ؟اصل میں یہ سب امریکا اور یورپی طاقتوں کی بے عملی اور دوغلی پالیسیز کا نتیجہ ہے۔ وہ زبانی طورپر تو انتہائی سخت الفاظ میں صدر بشار کی فوجی کارروائیوں کی مخالفت کرتے رہے، بلکہ یہاں تک اصرار رہا کہ کسی بھی شامی حل میں صدر بشار کا کوئی کردار نہیں ہوگا، لیکن عملًا اس کے بالکل برعکس پالیسی اختیار کی۔ پہلی امریکی اور مغربی ناکامی تو ایران کے بعد، روس کی شام میں براہِ راست فوجی مداخلت تھی۔ یاد رہے کہ 2015 ء سے قبل تو روس کی مشرقِ وسطیٰ میں موجودگی بس علامتی سی رہ گئی تھی اور اس کی کچھ بحری فورس، شامی نیول بیس میں متعیّن تھی۔ مِصر، عراق، لبنان اور دیگر سوشلسٹ کہلانے والے عرب مُلکوں میں اس کا نام ونشان تک مِٹ چُکا تھا، لیکن سابق امریکی صدر، باراک اوباما کی مشرقِ وسطیٰ سے پسپائی کی پالیسی نے روس کو دوبارہ قدم جمانے کا موقع دیا۔ یورپ نے اوباما کی پیروی کی، جس سے خطّے میں طاقت کا خلا پیدا ہوا۔جس پر روس نے صدر پیوٹن کی قیادت میں بڑے نپے تلے انداز میں اپنے بم بار طیاروں کو اسد حکومت کی مدد کے لیے شام میں داخل کیا۔ وہ ایران کو اپنا ہم نوا بنا چُکا تھا، جس کی پہلے ہی امریکا سے کش مکش چل رہی تھی۔ دوسرا جواز خود مغرب نے فراہم کیا۔ وہ یہ کہ مغرب نے داعش کی دہشت گردی کو اس قدر اچھالا کہ سب اس کی طرف ہی متوجّہ ہوگئے۔ 

اوباما نے کہا کہ’’ اُن کا ٹارگٹ مشرقِ وسطیٰ، خاص طور پر شام و عراق میں، صرف داعش کو ختم کرنا ہے۔‘‘ مغربی میڈیا نے بھی شامی خانہ جنگی اور شہریوں کی ہلاکت کو کم تر دِکھایا، جب کہ اگر داعش کی کارروائیوں میں قتل ہونے والوں اور شام میں معصوم شہریوں کی ہلاکت کا موازنہ کیا جائے، تو عام شہریوں کی ہلاکتیں کہیں زیادہ ہوئیں۔ شامی خانہ جنگی میں اپوزیشن، تُرکی اور عربوں سے کیے گئے وعدوں کو اس پروپیگنڈے کے شور میں دبا دیا گیا۔ روس اور ایران نے اس کا بھرپور فوجی فائدہ اٹھاتے ہوئے داعش اور دہشت گردی ختم کرنے کی آڑ میں صدر اسد کے جنگی جرائم، جو اُنہوں نے اپنے ہی شہریوں کو ہلاک کرکے اور مہاجر بنا کر کیے، معاف کروا لیے۔ یوں اسد حکومت ساری دنیا کو قابلِ قبول نظر آنے لگی، لوگ لاکھوں شہریوں کے قتلِ عام کو بھی بھول گئے کہ یہ تو دہشت گردی کے خلاف جنگ سمجھی گئی۔ اس سے شامی خانہ جنگی پس منظر میں چلی گئی۔ تُرکی نے ادلب جیسے’’ پیس زونز‘‘ قائم کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ جب اُس نے دیکھا کہ امریکا بے عمل ہوچُکا ہے، تو اُس نے تہران اور ماسکو سے بات چیت اور غیر رسمی قسم کی ڈیل کی۔ ادلب جیسے زونز قائم کرنے کے دو مقاصد تھے۔ اوّل، مہاجرین کے سیلاب کو تُرکی میں آنے سے روکا جائے، جہاں پہلے ہی28 لاکھ کے قریب شامی مہاجرین موجود ہیں۔ دوسرا مقصد انسانی المیوں کو کم سے کم کرنا تھا۔ یہ ایسے’’ نو وار زونز‘‘ تھے، جن کے متعلق خیال تھا کہ فریقین فوجی کارروائیوں، خاص طور پر فضائی بم باری سے پرہیز کریں گے۔ اُنھیں پناہ گزینوں اور شہروں سے بھاگنے والوں کے لیے محفوظ پناہ گاہیں ہونا تھا، لیکن ان میں سے سوائے ادلب کے، سب پر شامی افواج، روسی بم باری کے سائے تلے قابض ہوچکی ہیں۔

تُرکی نے ادلب کو سُرخ لکیر قرار دیا ہے۔ تُرک وزیر خارجہ بار بار تنبیہ کرچُکے ہیں کہ اس پر حملہ کرنے کا مطلب، براہِ راست ٹکرائو ہوگا۔ بہ ظاہر تو یہ بہت سخت بیان ہے اور یہ روس اور ایران سے اس کے تعلقات میں تنائو کا بھی احساس دِلاتا ہے۔ نیز یہ مفادات کے ٹکرائو کا بھی واضح پیغام ہے، لیکن تُرکی اِن دنوں جس قسم کے مسائل میں گِھرا ہوا ہے، اس کے لیے ایسا کوئی سخت قدم اٹھانا ممکن بھی ہوگا؟ یہ دیکھنے کی بات ہے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ نے اپنے حالیہ دورۂ عراق میں ادلب کو فوجی طاقت سے خالی کروانے کی بات کی ہے۔ کچھ اسی قسم کے بیانات روسی وزیرِ خارجہ بھی دے چُکے ہیں۔ روس اور ایران کی خواہش یہ بھی ہے کہ بغیر لڑے بِھڑے ادلب کو اپوزیشن سے خالی کروا لیا جائے۔ ایک طرف تو ماضی کی ہولناکیوں سے خوف دلایا جا رہا ہے، تو دوسری طرف اس ضمن میں غیر معمولی سفارتی کوششیں بھی جاری ہیں۔ روس، تُرکی اور ایران کے وزرائے خارجہ بغداد اور تہران میں ملاقاتیں کرچُکے ہیں، لیکن لگتا یہی ہے کہ ادلب پر حملے کا فیصلہ ہوچُکا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دھمکی نُما بیان بھی دیا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ شامی حکومت، روس اور ایران، ادلب پر حملے سے باز رہیں۔‘‘ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ’’ یہ ایک فاش غلطی ہوگی، جس میں لاکھوں جانوں کے زیاں کا خطرہ ہے۔‘‘تاہم اس بیان سے یہ واضح نہیں کہ اگر کسی ڈیل کے ذریعے قبضہ ہو جاتا ہے، تب امریکا کا ردّ ِعمل کیا ہوگا۔ روس کا اصرار ہے کہ وہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے تیار ہے اور اس جنگ میں اسد حکومت پوری طرح اس کے ساتھ ہے، لیکن پھر بھی ماسکو، امریکا کا ردّ ِعمل دیکھ رہا ہے، خصوصاً وہ کسی نئی اقتصادی پابندی کے لیے تیار نہیں کہ اس کی معیشت پہلے ہی بدحال ہوچُکی ہے۔ 

اُدھر اقوامِ متحدہ بھی اس معاملے میں ملوّث ہونا نہیں چاہتی۔ بس وہ فریقین، خاص طور پر تُرکی اور روسی صدر کی ملاقات سے توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔ بہ ظاہر یہی لگتا ہے کہ باقی’’ پیس زونز‘‘ کی طرح ادلب بھی آسانی سے شامی افواج کے قبضے میں چلا جائے گا۔ امریکا نے دھمکی تو دی ہے، لیکن اسے کیمیائی ہتھیاروں کے حملے سے مشروط کردیا ہے۔ یعنی اگر اس نوعیت کا حملہ ہوا، تو وہ ایکشن لے گا۔مبصّرین کے مطابق، یہ بھی امریکا اور مغرب کی شامی اپوزیشن کے لیے ایک زبانی ہم دَردی ہی ہے۔ عملی طور پر وہ اسد حکومت کی فتح کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوچُکے ہیں۔ پیوٹن، کریمیا اور شام میں امریکا اور یورپ کی بے عملی دیکھ چُکے ہیں۔ نیز، مغربی مُمالک کی رائے عامّہ بھی مسلم مُلکوں میں کوئی فیصلہ کُن فوجی قدم اٹھانے کے خلاف ہے۔ اُنہیں مسلم مُمالک میں ہونے والی تباہی سے کوئی دِل چسپی نہیں۔ اُن کے عوامی ایوان بھی اس سلسلے میں زبانی حد تک رہنے کی حکمتِ عملی پر گام زَن ہیں۔ ظاہر ہے، ایسی صُورت میں ادلب میں صدر اسد اور اُن کے روسی اور ایرانی حلیفوں کی کام یابی بڑی حد تک یقینی ہے۔ پھر یہ بھی کہ عرب مُمالک میں کوئی خاص اتحاد نظر نہیں آتا۔ شام سے ملحق مُمالک اردن، لبنان، عراق پہلے ہی شامی مہاجرین کی آمد سے تنگ آچکے ہیں، اس لیے اُن کی بھی یہی خواہش ہے کہ مہاجرینِ شام واپس چلے جائیں۔ یورپ کا کردار بھی اب اس معاملے میں نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ جرمنی کی چانسلر کو شامی مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کی جو سیاسی قیمت چُکانی پڑی، اس کے بعد شاید ہی کسی یورپی حکومت میں شامی مہاجرین کے لیے ہم دردی کے بول بولنے کا دَم خم ہو۔ اسی لیے یورپی ماہرین، چاہے وہ فوجی ہوں یا سیاسی، سب کو کسی بھی شکل کا فوجی شامی حل قابلِ قبول ہو گا۔ وہ انسانی حقوق کے لمبے چوڑے دعووں سے اپنے مفادات کی خاطر صَرفِ نظر کرنے پر راضی ہیں، کیوں کہ خود شامی خانہ جنگی نے اُن کے ہاں بھی ایک بحران کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اب ادلب کی شکست و فتح، شاید ہی ان کے لیے کوئی معنی رکھتی ہو۔

شام کے پُرامن حل کی تمام امیدیں دَم توڑ چُکی ہیں۔ جنیوا وَن اور ٹو مذاکرات ناکام رہے۔ شامی حکومت اور اس کے حلیفوں نے بڑی کام یابی سے اُنہیں شروع ہی سے بے اثر رکھا۔ اقوامِ متحدہ سوائے مہاجرین کیمپس قائم کرنے کے، کوئی کردار ادا نہ کرسکی۔ سلامتی کاؤنسل، مسئلے کا حل تلاش کرنا جس کی ذمّے داری تھی، بار بار روسی ویٹو کی وجہ سے معطّل رہی۔ پھر مسلم دنیا میں بھی اس مسئلے کے حل میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے کی سکت ہے اور نہ ہمّت۔ او آئی سی اور اقوامِ متحدہ کئی قرار دادیں مظور کر چُکی ہیں، جن کا لب لباب یہی ہے کہ شام میں عبوری حکومت قائم کی جائے، انتخابات ہوں اور جو اکثریت حاصل کرے، اُسے اقتدار منتقل کردیا جائے، لیکن شاید اب یہ قراردادیں اور ممکنہ حل کی باتیں خواب بن چُکی ہیں۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا ادلب کی فتح کے بعد، شام کا بحران ختم ہوجائے گا؟ جن علاقائی اور بین الاقوامی طاقتوں کو مُلکوں میں براہِ راست فوجی مداخلت کرکے اپنے مفادات حاصل کرنے کی عادت پڑ گئی ہے، وہ یہیں رُک جائیں گے؟ پھر باقی طاقتیں، جو بہ ظاہر اس محاذ سے پسپا ہو رہی ہیں، وہ خاموش بیٹھنے پر تیار ہوں گی؟ 

تازہ ترین