• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مرثیہ کیا ہے؟اس بارے میںممتاز محقّق ،ادیب اور ہمہ جہت شخصیت،مولانا شبلی نعمانی اپنی مشہور کتاب’’ شعر العجم‘‘ میں یوں گویا ہوتے ہیں’’عرب میں شاعری کی ابتدا رَجِز سے ہوئی۔ یعنی میدانِ جنگ میں دو حریف مقابلے کے لیے بڑھتے تو جوش میں فخریہ موزوں فقرے ان کی زبان سے نکلتے تھے۔ یہ دو چار شعر سے زیادہ نہ ہوتے تھے۔ لیکن طبلِ جنگ کا کام دیتے تھے۔ اس کے بعد مرثیہ شروع ہوا۔یعنی جب کوئی عزیز یا دوست مر جاتا ،تو اس کی لاش پر نوحہ کرتے تھے۔ ‘‘ڈاکٹر شجاعت علی سندیلوی کو اُردو ادب کا ایک معتبر نام مانا جاتا ہے۔ خواجہ الطاف حسین حالیؔ پر لکھا گیا اُن کا مقالہ اہلِ علم و ادب سے داد سمیٹ چکا ہے۔ چالیس سے زیادہ کتابیں تصنیف و تالیف کیں اور ادب کی تقریباً تمام ہی اصناف پرکچھ نہ کچھ لکھا۔ وہ مرثیے کے بارے میں اپنی کتاب’’تعارفِ مرثیہ‘‘ میں یوں گویا ہوتے ہیں’’اُردو شاعری میں مرثیے کا اطلاق زیادہ تر واقعاتِ کربلا پر ہوتا ہے۔ اس لیے مرثیے کے اصطلاحی معنی یہی رہ گئے ہیں کہ واقعاتِ کربلا یعنی امام حسینؓ اور دیگر شہدائے کربلا کی شہادت اور اس سلسلے میں ان پر جو مصائب پڑے، جس طریقے سے اُنہوں نے مقابلہ کیا، ان سب کا ذکر کیا جائے۔ گویا مرثیہ اور واقعاتِ کربلا لازم و ملزوم ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اُردو شاعری میں مرثیے کو جو مقبولیت حاصل ہوئی، وہ کسی اور صنف کو نہیں ہو سکی۔‘‘یہ بات ایک حقیقت ہے کہ تقریباً ہرباشعور قوم نے اپنی ملکی اور قومی جنگوں اور لڑائیوں کو نظم کیا ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ اپنے مُلک کو بچانے میں جن لوگوں نے جان کی بازی لگا دی ہو، اُن کے ذکر کو ہمیشہ باقی رکھنے کے لیے شاعر اُن پر کبھی گیت لکھتے ہیں، تو کبھی نوحے۔ فردوسی کا لافانی رزمیہ ’’شاہ نامہ‘‘ شاید ایک صدی سے بھی کچھ پہلے تک مسلمانوں اور خصوصاً ایرانیوں کے نصاب میں شامل تھا۔خود برّصغیر میں امراء و سلاطین کی صحبتوں میں اسے محض اس غرض سے پڑھا اور پڑھایا جاتا تھا کہ ’’شاہ نامہ ‘‘پڑھ کر خون جوش میں آئے گا اورو طن پر مر مِٹنے اور شہادت کے رُتبے پر فائز ہونے کا موقع نصیب ہو گا۔ ’’شاہ نامہ‘‘ تو محض ایک رزمیہ تھا،جب کہ ’’واقعۂ کربلا‘‘ ایک حقیقت اور ایسی حقیقت کہ جس میں رسولﷺ کے ایک اُمّتی نے رسولﷺ ہی کے جان سے زیادہ پیارے نواسے ؓکو تین دن کی بھوک پیاس کے ساتھ معہ اہل و عیال محض اس لیے تہہِ تیغ کر دیا تھا کہ نواسہؓ، نانا ﷺ کے پہنچائے ہوئے دین میں کسی قسم کا تغیّر و تبدّل گوارا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ سو، ایسے عظیم واقعے کی یاد میں شعراء کا قلم کیوں نہ متحرّک ہوتا، سو قلم رواں ہوا اور اس جذبے کے ساتھ رواں ہوا کہ ایک صنف کی بنیاد قرار پایا اور یوں’’مرثیہ‘‘ وجود میں آیا، جو عرب و ایران سے ہوتا برّصغیر تک آ پہنچا۔

برّصغیر میں اُردو مرثیے کے آغاز کے سلسلے میں محقّقین کی تقریباً متفقہ رائے ہے کہ دکّن وہ جگہ تھی ،جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی ۔ سلطنتِ گولکنڈہ کے حکم راں، قلی قطب شاہ کو اُردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر قرار دیا جاتا ہے۔ اُن کے دیوان میں پانچ مرثیے بھی شامل تھے۔ قلی قطب شاہ کے دربار سے وابستہ، ملّا وجہی اور غواصی بھی اچھے شاعر تھے۔ دونوں کے کلام میں مرثیے شامل ہیں۔ مُلّا وجہی کو اپنی کتاب’’سب رَس‘‘ کی وجہ سے ایک امتیازی شان بھی حاصل ہے۔ دکّن میں مرثیے کی روایت اس حد تک مضبوط ہوئی کہ وہاں سے آگے بڑھ کرشمالی ہند اور پھر ہندوستان کے دارالحکومت دلّی تک پہنچ گئی۔ یہاں اس صنف کا پہنچنا تھا کہ گویا اس کو پَر لگ گئے۔ پَر لگنے کی وجہ کچھ اور نہیں، بلکہ خود دلّی تھی ،کون سی دلّی ؟بہ قول میرؔ ’’دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب‘‘۔ گویا عالم میں منتخب شہر کو جب ایک نئی صنفِ سُخن سے واسطہ پڑا، تو سب نے اُسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ صنف چوں کہ پاکیزہ تھی اور نواسۂ رسولﷺ کی بے نظیر قُربانی کی یاد تازہ کرتی تھی، لہٰذا شعراء نے موضوع وسیع جانتے ہوئے کلام کہنے کا سلسلہ شروع کیا۔محمّد شاہ کا عہد تھااور عہد کے نام وَر شاعروں، شاہ مبارک آبروؔ، علی قلی ندیمؔ،شاہ حاتمؔ، مصطفیٰ خاں یکرنگؔ، سراج الدّین خاں آرزوؔ اور دیگر شعراء نے صنفِ مرثیہ کو مستقل طور پر اپنالیا۔ یوں دکّن سے دلّی آتے آتے، مرثیہ اور مستحکم ہو گیا۔ اب عہد اور آگے بڑھا اور پھر ایک عہد ساز نے مرثیے کا دامن تھام لیا۔ یہ عہد ساز شاعر،مرزامحمد رفیع سوداؔ تھے۔ عبدالرؤف عروجؔ نے ’’اردو مرثیے کے پانچ سو سال‘‘میں تحریر کیا ہے’’یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اردو مرثیے کی ترقّی کا زمانہ سوداؔ سے بہت پہلے شروع ہو چکا تھا۔ اسے فنی حیثیت دینے میں سوداؔ کی کوششیں نہ صرف ترجیحی ہیں، بلکہ اُنہوں نے ہیئت اور اسلوب کے اعتبار سے بھی کئی تجربے کیے ہیں۔‘‘ایک مسدّس میں سوداؔ کہتے ہیں؎کس سے اے چرخ کہوں جا کے تری بیدادی…ہاتھ سے کون نہیں آج ترے فریادی…جو ہے دنیا میں سو کہتا ہے، مجھے ایذا دی…یاں تلک پہنچی ہے ملعون تری جلّادی…کوئی فرزندِ علیؓ پر یہ ستم کرتا ہے…کیوں مکافات سے اس کی تُو نہیں ڈرتا ہے…سوداؔ اب چشمِ محبّاں کو ہے یہ نظم جِلا…پاوے گا اس کا محمدؐ سے تُو محشر میں صلا…تجھ کو جنّت میں ہر اِک بیت پہ گھر دیں کے دلا…سُننے سے جس کے یہ اشک آنکھوں سے آتا ہے پلا…سُن کے اس مرثیہ کو بزم میں جو رو دے گا…آبِ چشم اس کا گناہوں کو ترے دھو دے گا۔ سوداؔ ہی کے ساتھ اُن کے ہم عصراور اُردو شاعری کے میرِ کارواں، میر تقی میرؔ نے بھی اس صنف کی طرف بھرپور توجّہ کی۔ یوں ان دو عظیم معاصر شعراء کے سلسلۂ سخن وَری میں مرثیہ بھی ایک لازمی صنف قرار پایا۔اسی عنوان سے میرؔ کا رنگِ شاعری بھی ایک نظر دیکھتے ہیں۔؎سنو یہ قصّۂ جانکاہ کربلائے حسینؓ …رکھو ادھر کو بھی ٹک گوش از برائے حسینؓ …جہاں سے واسطے امّت کے جیسے جائے حسینؓ … ہزار حیف کہ امّت نہ ہو فدائے حسینؓ …محرّم کا نکلا ہے پھر کر ہلال…قیامت رہیں گے دلوں کو ملال۔

ان دونوں کامل اساتذہ کے علاوہ بھی اُس دور میں دیگر مرثیہ نگار مرثیے کہتے رہے، تاہم میرؔ اور سوداؔ کے شاگردوں نے اس ضمن میں مرثیے کی رفتار کو اور آگے بڑھایا۔ اب مرثیے کی وسعت اور رفتار دونوں بڑھ گئی۔ ایک سے بڑھ کر ایک شاعر اس صنفِ سُخن میں سُخن وَری کے جوہر دکھانے لگا۔ مرثیے کو ایک نیا رنگ اور عنوان اُس وقت ملا، جب اہلِ لکھنؤ نے اس صنف میں قدم رکھا۔کچھ ناقدین کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ مرثیے کی اصل نشوونما ہی لکھنؤ میں ہوئی اور یہی وہ جگہ تھی کہ جہاں اس صنفِ سُخن نے میدانِ ادب میں اَبَد تک کے لیے اپنی حیثیت منوا لی۔ ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری جنہیں’’اودھ میں اردو مرثیے کا ارتقاء‘‘ پر ڈی لٹ کی سند حاصل ہوئی، تحریر کرتے ہیں’’ اردو مرثیہ لکھنؤ کی تہذیب وتمدّن کا سرمایۂ حیات ہے۔‘‘ سکندرؔ، گداؔ، ناظمؔ، افسردہؔ وہ شعراء تھے، جنہوں نے مرثیوں سے پورا پورا انصاف کیا۔ ان ہی میں میر ضمیرؔ، خلیقؔ، فصحیحؔ اور دلگیر ؔ وغیرہ وہ نام تھے، جنہوں نے مرثیہ نگاری میں بہت نام کمایا۔ مرثیے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ میر ضمیرؔ نے مرثیے کے کُل اجزاء کو ایک حُسنِ ترتیب عطا کی، جس نے آگے چل کر صنفِ مرثیہ کو ایک کامل حیثیت اور صُورت سے نوازا۔ یہ حُسنِ ترتیب مرثیے کے اجزاجیسے’’چہرہ، سراپا، رزم، واقعہ نگاری، بین‘‘ وغیرہ پر مشتمل ہے۔ اُردو کے صاحبِ طرز ادیب اور انشاء پرداز، مولانا محمّد حسین آزادؔ کی بے نظیر کتاب’’آبِ حیات‘‘اس عنوان سے یہ اطلاع فراہم کرتی ہے’’اس وقت تک مرثیہ تیس سے پینتالیس، حد پچاس بند تک ہوتا تھا۔ میر ضمیرؔ مرحوم نے ایک مرثیہ لکھا ؎ ’’کس نُور کی مجلس میں مری جلوہ گری ہے‘‘، اس میں شاہ زادہ علی اکبر کی شہادت کا بیان ہے۔ پہلے ایک تمہید سے مرثیے کا چہرہ باندھا۔ پھر سراپا لکھا۔ پھر میدانِ جنگ کا نقشہ دِکھایا اور بیانِ شہادت پر خاتمہ کر دیا۔ چوں کہ پہلی ایجاد تھی، اس لیے تعریف کی آوازیں دُور دُور تک پہنچیں۔ تمام شہر میں شہرہ ہو گیا۔ اور اطراف سے طلب میں فرمائشیں آئیں۔ یہ ایجاد مرثیہ گوئی کے عالم میں اِک انقلاب تھا کہ پہلی روش متروک ہو گئی۔‘‘ گویا میر ضمیرؔ نے مرثیے کی عمارت کے لیے بنیاد فراہم کرنے کا اہم ترین کام انجام دیا۔ اُن کی مرثیے کے لیے انجام دی جانے والی خدمات کا کُھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے مرثیے کی تاریخ پر وقیع کام کرنے والی ایک بڑی شخصیت، مسعود حسن رضوی ادیب ؔ نے یہ رائے قائم کی تھی’’ اگر ضمیرؔ نہ ہوتے، تو دبیرؔ کا وجود ہوتا اور نہ انیسؔ کا۔‘‘

بالآخر انیسؔ و دبیرؔ کا زمانہ آ گیا۔ اب مرثیہ ایک مضبوط ترین صنفِ سُخن بن چکا تھا۔ پہلے کے شعراء نے اس صنف کے لیے زمین مہیّا کی، چناں چہ انیسؔ و دبیرؔ کو اپنی مہارت ثابت کرنے کے لیے صنفِ مرثیہ کو زمین سے آسمان تک پہنچانا تھا۔ انیسؔ و دبیرؔ نے یہ کام اس خوش اسلوبی سے کیا کہ اُردو مرثیہ اور انیسؔ ودبیرؔ لازم و ملزوم ہو گئے۔ اُنہوں نے اس حد تک اس صنف سے اُلفت کا ثبوت دیا کہ مرثیوں یا رثائی ادبیات سے دِل چسپی نہ رکھنے والوں کو بھی اتنا ضرور معلوم ہو گیا کہ انیسؔ و دبیر ؔ نے مرثیہ گوئی کو معراج عطا کر دی۔’’تاریخِ ادبِ اُردو‘‘اُردو ادب کی ایک مشہور کتاب ہے، جسے رام بابو سکسینہ نے تصنیف کیا۔اس کتاب میں مرثیے پر گفتگو کے لیے اُنہوں نے پورا ایک باب’’مرثیہ اور مرثیہ گو‘‘ کے عنوان سے مختص کیا۔ وہ یہ بحث قائم کرتے ہیں کہ مرثیے سے اُردو زبان و ادب کو کیا فائدہ ہوا،چناں چہ وہ یوں گویا ہوتے ہیں’’ اگر غور سے دیکھیے تو آزادؔ، حالیؔ اور سرورؔ وغیرہ کی دل چسپ اور زوردار نظمیں سب مرثیے ہی کی خوشہ چین اور رہینِ منّت ہیں، کیوں کہ زمانۂ حال کے طرز میں وہ سب خصوصیات موجود ہیں، جو مرثیے میں پائی جاتی ہیں۔‘‘ اس کے علاوہ وہ دو اور نتائج نکالتے ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ رثائی ادب انسان میں اعلیٰ اخلاقی اوصاف کو جنم دیتا ہے اور دوسرا اُن کے الفاظ میں’’لڑائیوں کے ہو بہو نقشے، اسلامی نبرد آزماؤں کے تنہا مقابلوں کی جیتی جاگتی تصویریں، مبارزوں کی پُرجوش رجز خوانیاں، مخالفین کے جوابات، کفّار کا قتل و قمع، کم زوروں کی اعانت و مدد، یہ سب ایسی چیزیں ہیں، جو مرثیے کی بدولت ہماری اردو نظم میں صنف ’’ایپک‘‘(رزمیہ)کا بیش بہا اضافہ کرتی ہیں۔جس کی اس میں اب تک کمی تھی۔ہمارے اردو مرثیہ نگار اکثر ایسے مکمّل مُرقّعے پیش کرتے ہیں، جو بلاتکلّف دنیا کی بہترین رزمیات سے مقابلے کے لیے تیار ہیں‘‘۔گویا اُردو زبان و ادب کی تہی دامانی کو مرثیے نے پُر کر دیا۔

کچھ مماثلتیں تلاش کرتے ہیں۔ سب سے پہلے نام، میرببّر علی انیسؔ(چار الفاظ پر مشتمل)۔ ولادت 1803ء۔ صنف،مرثیہ۔عہد،انیس ویں صدی۔ عُمر، لگ بھگ ستّر، اکہتّر برس۔ وفات 1874 ء۔ نام،مرزا سلامت علی دبیرؔ(چار الفاظ پر مشتمل)۔ولادت،1803 ء۔ صنف، مرثیہ۔ عہد، انیس ویں صدی۔عُمر، لگ بھگ ستّر، اکہتّر برس۔ وفات، 1875ء۔ انیسؔ کے انتقال سے محض ایک سال کے اندر۔ ان مماثلتوں سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ جن دو شعراء کی بات کی جا رہی ہے، وہ اُردو ادب کی ایک پاکیزہ صنف، یعنی صنفِ مرثیہ کے آفتاب و ماہ تاب ہیں۔ یہ مماثلتیں ہی تھیں کہ جن کی بِنا پر شبلی نعمانی نے’’موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ‘‘ تحریر کر کے صنفِ مرثیہ کو ادبی مباحث کا ایک وسیع میدان مہیّا کر دیا۔ یہ الگ بات ہے کہ خود شبلی نعمانی کو اس عنوان سے بہت سی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑا کہ موازنہ کچھ ناقدین کے مطابق بہت حد تک یک طرفہ تھا اور شبلی نے انیسؔ کو فوقیت دینے کے معاملے میں دبیرؔ کے ساتھ بہت حد تک ناانصافی کا مظاہرہ کیا۔ مماثلتوں سے ہٹ کر اپنی الگ الگ حیثیتوں میں بھی دونوں باکمال شعراء اپنی پاکیزہ تخلیق نگاری کو کلاسیکی رنگ کی ایک ایسی منزل پر پہنچا گئے کہ جس سے آگے کا سفر وہیں تھم گیا اور جب اگلی منزل آئی، تو مرثیہ، مرثیہ نہ رہا، بلکہ جدید مرثیے کا قالب اختیار کر گیا۔ پروفیسر شارب ردولوی نے سیّد طاہر حسین کاظمی کی کتاب’’اردو مرثیہ میر انیسؔ کے بعد‘‘ کا دیباچہ تحریر کرتے ہوئے ایک مقام پر یوں اظہارِ خیال کیا ہے’’مرثیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ بہت عرصے تک مرثیہ، انیسؔ و دبیر ؔ کے اثر سے باہر نہیں آ سکا۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ فنی طور پر انیسؔ و دبیرؔ نے مرثیے کو اتنا جامع اور مکمل کر دیا تھا کہ اس میں کسی اور اضافے کی گنجائش باقی نہیں رہ گئی تھی۔ انیسؔ و دبیرؔ کے بعد آنے والے مرثیہ گوؤں کے لیے بھی ان کی اپنی شناخت کا ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ اسی لیے انیسؔ کے بعد شعراء نے مرثیے میں کئی طرح کی جدّتیں یا تجربات کیے۔ کبھی اس میں ساقی نامے کا اضافہ کیا گیا اور کبھی بعض عناصر کی ترتیب بدل کر یا کم کر کے نیا پن پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔‘‘

میر انیس ؔ کے آبا و اجداد ہرات سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے اور پرانے وقتوں کی دلّی میں اپنی دنیا آباد کر لی۔ اگلی نسلیں وہاں سے اوّل فیض آباد اور پھر لکھنؤ جا کے بس گئیں۔ انیسؔ کے مورثِ اعلیٰ، میر امامی تھے۔ ان کے بعد میر ہدایت اللہ ، پھر میر عزیز اللہ تھے اور پھر یہ سلسلہ میر ضاحکؔ تک آیا، جو میر انیسؔ کے پردادا تھے۔یہ وہی میرضاحکؔ تھے کہ جو مرزا رفیع سوداؔ کے ہم عصر تھے اور جن کی سوداؔ سے معاصرانہ چشمکیں بہت مشہور تھیں۔ اگرچہ وجہِ شہرت ہزل اور ہجو تھے، تاہم غزلیں بھی کہتے ؎ درپیش اگر روزِ ازل آہ نہ ہوتا… قصّہ تھا محبت کا یہ کوتاہ نہ ہوتا۔ ضاحک ؔکے بیٹے میر حسنؔ تھے ،جو میر انیسؔ کے دادا تھے۔یہ وہی میر حسنؔ تھے کہ جنؔ کی ’’مثنوی سحر البیان‘‘ کا اُردو ادب میں آج تک کوئی مقابلہ نہ کر سکا ۔ اُن کی غزل کا انداز کچھ یوں ہے؎ گر عشق سے کچھ مجھ کو سروکار نہ ہوتا… تو خوابِ عدم سے کبھی بیدار نہ ہوتا۔ میر حسنؔ کے بیٹے، میرمستحسن خلیق ؔتھے، جو انیسؔ کے والد ہونے کے ساتھ مرثیہ گوئی میںبھی طاق تھے۔یہ وہی میر خلیقؔ تھے کہ جن کا ایک مشہور واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ فیض آباد میں ایک مشاعرے کا انعقاد ہوا۔ نامی گرامی شعراء کے بیچ، خواجہ حیدر علی آتشؔ بھی جلوہ افروز تھے۔ خلیقؔ نے مطلع پڑھا ؎رشکِ آئینہ ہے ،اس رشکِ قمر کا پہلو … صاف اِدھر سے نظر آتا ہے ،اُدھر کا پہلو۔ آتشؔ نے یہ کہہ کر اپنی غزل پھاڑ دی کہ’’ جب ایسا شخص یہاں موجود ہے، تو میری غزل کی ضرورت کیا ہے۔‘‘ دراصل، یہ انیسؔ کے والد میر خلیقؔ ہی کی تربیت اور نگرانی تھی کہ انیسؔ کو الفاظ سے اُنس ہو گیا۔ اُردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے نام وَر باپ سے حاصل کی۔ والدہ نے بھی تربیت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ عربی، فارسی، اُردو کی تعلیم کے ساتھ، فنِ سپہ گری سے بھی لگاؤ پیدا ہوا۔ شمشیر زَنی، پٹا، بانا، بنوٹ، شہہ سواری، غرض ایک دُھن تھی کہ کچھ نہ کچھ سیکھنا ہے۔ نصاب کے علاوہ بھی کتاب سے اکتساب کا موقع ضایع نہ جانے دیا جاتا۔ جانوروں کی عادات و خصائل سے بھی دِل چسپی تھی اور خصوصاً شیر سے تو اس حد تک الُفت تھی کہ اُس کے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے، شکار کرنے، جیسے معاملات کو گہری نظر سے دیکھا اور آگے چل کر اپنے مرثیوں میں ان ہی معلومات کو اعجاز بیانی کے ساتھ نظم کر دیا۔ یہی کچھ عمل انیسؔ کی شاعری میں گھوڑے کے ساتھ بھی نظر آتا ہے کہ جسے اُنہوں نے جانور میں وفاداری کی شان بتانے کے لیے استعمال کیا ہے۔ شعر گوئی تو گویا گُھٹی میں پڑی تھی۔ موزونیِ طبع کا آغاز چھے، سات برس کی عُمر سے ہوا۔ خاندان پُشت ہا پُشت سے میدانِ سُخن وَری میں اپنی زبان دانی کے جھنڈے گاڑے ہوئے تھا۔ اسی احساسِ تفاخُر کو انیسؔ نے یہ کہہ کر شعر میں نظم کیا تھا؎ عُمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں… پانچویں پُشت ہے شبّیرؓ کی مدّاحی میں۔ سندِ زبان کے اعتبار سے انیسؔ کا گھرانہ یکتا شمار کیا جاتا تھا۔خاندان میں کئی نسلوں سے سُخن وَری کی مختلف اصناف میں، جن میں غزل، مثنوی، قصیدہ، ہجو وغیرہ شامل تھے، سلسلۂ کلام کارِ معمول تھا، تاہم گھرانے کی امتیازی حیثیت اور اختصاص مرثیہ نگاری تھا۔ ابتدا میں میر انیسؔ کا تخلّص حُزیںؔ تھا۔’’واقعاتِ انیسؔ‘‘ کے مصنّف، میر مہدی حسن لکھنوی تحریر کرتے ہیں’’شیخ حسین بخش صاحب سے دریافت ہوا کہ ایک روز میر انیسؔ اپنے والد بزرگوار کے ساتھ شیخ ناسخؔ کی خدمت میں حاضر تھے اور صحبتِ شعر و شاعری گرم تھی۔ شیخ صاحب نے میر انیسؔ سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ میاں صاحب زادے کچھ اپنا کلام پڑھو۔ میر صاحب نے اپنے والد کے اصرارسے یہ مطلع پڑھا؎ کھلا باعث یہ اُس بے درد کے آنسو نکلنے کا… دھواں لگتا ہے آنکھوں میں کسی کے دل کے جلنے کا۔ شیخ صاحب جھومنے لگے اور میر خلیقؔ سے فرمایا کہ یہ فرزند رشید آپ کے یادگار خاندان ہوں گے اور یاد رکھیے، ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ان کی زبان اور ان کی شاعری کی عالم گیر شہرت ہو گی، کیوں کہ عُنفوانِ شباب میں ان کی ترقّی پسند طبیعت اپنی بے چینیاں دِکھا رہی ہے،مگر بجائے حُزیںؔ ان کا تخلّص کچھ اور ہو، تو بہتر ہے۔ میر خلیقؔ نے فرمایا کہ پھر آپ ہی ان کے لیے کوئی تخلّص تجویز فرمائیے۔ شیخ صاحب نے تھوڑا سکوت کیا اور پھر فرمایا کہ مجھے تو انیس ؔ پیارا معلوم ہوتا ہے۔ میر انیسؔ نے بکمالِ ادب سلام کیا اور اُس روز سے انیسؔ ہو گئے۔‘‘خلیقؔ کا انیسؔ کے سلسلے میں شیخ امام بخش ناسخؔ سے رجوع کرنا عین قرینِ عقل تھا کہ ناسخؔ اصلاحِ زبان میں سند کی حیثیت رکھتے تھے۔ ناسخؔ کی شاعرانہ عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ غالبؔ جیسا یکتائے فن، جو بہ مشکل ہی کسی کو گردانتا تھا، ناسخؔ کی سُخن وَری کا کُھلے دل سے قائل تھا اور اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا؎غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ ؔ …آپ بے بہرہ ہے، جو معتقدِ میر ؔ نہیں۔

مرزا دبیرؔ کے اجداد ایرانی النّسل تھے۔ جدّ ِ امجد، ملّا ہاشم شیرازی تھے، جن کے بھائی، شیخ محمّد اہلی شیرازی ایران کے نام وَر شاعر تھے اور اُن کی مثنوی ’’سحر حلال‘‘ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد اجداد نے ہندوستان کا سفر اختیار کیا اور اوّل دہلی اور پھر آگرے میں ڈیرے ڈال دیے۔دبیرؔ کے دادا، مرزا غلام محمّد، شہنشاہِ دہلی، شاہ عالم کے دربار سے وابستہ ایک صاحبِ احترام شخص تھے۔ دبیرؔ کے والد، مرزا غلام حسین تھے، جو کم عُمری ہی میں والدہ کے سائے سے محروم ہوگئے۔ والد نے دوسری شادی کی، تو سوتیلی ماں نے روایتی سوتیلی ماں کا کردار ادا کرتے ہوئے مرزا غلام حسین کو ستانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ اگرچہ باپ نے بھرپور کوشش کی کہ معاملات سُلجھ جائیں، تاہم مسائل درپیش آتے رہے، یہاں تک کہ چند ہی برس میں جب کہ غلام حسین شاید تیرہ چودہ برس کے رہے ہوں گے، مرزا غلام محمّد بھی دنیا سے چل بسے۔ سوتیلی ماں نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر مال و اسباب اور اثاثہ جات پر قبضہ کر لیا اور یوں مرزا دبیرؔ کے والد کو بے سروسامانی کے عالم میں دہلی سے نکل کر لکھنؤ کا رُخ کرنا پڑا۔ اگرچہ مرزا غلام حسین خود بہت زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے، تاہم ہر باپ کی طرح اُن کی بھی یہی خواہش تھی کہ اولاد ضرور زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو۔ لکھنؤ میں قیام کرنے کے باعث اور کچھ اپنے اجداد سے آنے والے وراثتی اثرات کے تحت ،شاعری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ دبیرؔ کی شاگردی کے سلسلے میں بھی ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ جب مرزا دبیرؔ لگ بھگ بارہ برس کی عُمر کو پہنچے، تو باپ اُنہیں لے کر میر ضمیرؔ کی خدمت میں آئے(وہی میر ضمیرؔ کہ جنہوں نے مرثیے کے کُل اجزاء کو ایک حُسنِ ترتیب عطا کی) اور کہا کہ میرے صاحب زادے کو مدّاحیِ اہلِ بیت کا شوق ہے۔ اگر آپ شاگردی میں لیں گے، تو دل کو طمانیت ہو گی۔ ضمیرؔ نے کہا کہ صاحب زادے کچھ سنائیے۔ مرزا دبیرؔ نے قطعہ پڑھا؎کسی کا کندہ، نگینے پہ نام ہوتا ہے…کسی کی عُمر کا لبریز جام ہوتا ہے…عجب سَرا ہے یہ دنیا کہ جس میں شام و سحر…کسی کا کُوچ ،کسی کا مقام ہوتا ہے۔ حاضرینِ محفل معہ میر ضمیرؔ بچّے کی شاعرانہ صلاحیت پر جھوم اٹھے۔نظر یہ آنے لگا کہ اُفقِ شعر پر دیگر کواکب کے ساتھ، ایک اور کوکب طلوع ہونے کو ہے اور جوجلد ہی ’’کوکبِ دُرّی‘‘ کی شکل اختیار کر لے گا۔ مرزا دبیرؔ کا تخلّص ’’دبیرؔ‘‘ میر ضمیرؔ ہی کا تجویز کردہ ہے۔

انیسؔ کی ابتدائی تعلیم و تربیت میں میر نجف علی فیض آبادی اور مولوی حیدر علی فیض آبادی کے نام لیے جاتے ہیں۔اوّل الذکر علومِ متدادلہ میں دَرَک رکھنے کے ساتھ علمِ طب کے بھی ماہر تھے۔یہی نہیں شاعر و ادیب بھی تھے۔ پورے فیض آباد میں اُن کے صد ہا شاگرد ،استاد کی علمیت اور شرافت کا دَم بھرتے تھے۔ انیس کوؔ عربی وفارسی سے یک گونہ اُنسیت تھی۔ مرزا دبیرؔ کے اساتذہ میں مولوی غلام علی ضامن،مولوی میر کاظم علی اور ملّا مہدی وغیرہ شامل تھے۔ان اساتذہ سے دبیر نے عربی و فارسی کے علاوہ صرف و نحو، منطق،ادب، حکمت، دینیات، حدیث و فقہ وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔گویا تحصیلِ علم کے سلسلے میں بھی اپنے وقت کے دو بڑے شاعر ایک دوسرے کے مقابل بھی تھے اور مماثل بھی۔فیض آباد اور لکھنؤ کی فضا کا پوچھنا ہی کیا۔ مستقل محافل، مجالس اور مشاعرے۔کبھی مصرعۂ طرح پر کچھ کہنا،تو کبھی کسی رئیس یا نواب کے گھر از صبح تا شام شاعرانہ صحبتیں۔ انیسؔ و دبیرؔ کا ابتدائی زمانہ ان ہی صحبتوں میں بسر ہوا اور رفتہ رفتہ دونوں اپنے، اپنے رنگ میں طاق ہو گئے۔ شہرت شہر سے باہر نکل گئی۔مصرعے پرواز کرنے لگے۔ پھر تو ایک سے بڑھ کر ایک مرثیے سامنے آنے لگے۔ جب اپنے وقت کے دو عظیم استادانِ فن ایک ہی صنف میں کلام کہنے لگے اور چاہنے والوںاور تلامذہ کا حلقہ وسیع تر ہو چلا، تو دونوں کے حمایتی دو گروہوں میں بٹ گئے۔ اُردو ادب کی تاریخ میں ایک نئی اصطلاح وجود میں آئی اور یوں انیسؔ کے پرستار’’انیسیے‘‘ اور دبیرؔ کے پرستار ’’دبیریے‘‘ کہلائے جانے لگے۔ یہ اُردو مرثیے کی تاریخ کا روشن ترین دَور تھا۔ اُردو مرثیہ ’’ہلال‘‘ سے سفر کرتے کرتے ’’بدرِ کامل‘‘ بن چکا تھا اور ایسا صرف اور صرف، انیسؔ و دبیرؔ کی بہ دولت تھا۔انیسؔ کی طبیعت میں پاکیزگی، شائستگی،متانت، طہارت اس غضب کی تھی کہ اُن کا کلام بھی اُن ہی کی مثل پاکیزہ و طاہر بن گیا اور اُنہوں نے جن پاک و طاہر شخصیات کے لیے اپنا قلم استعمال کیا ،وہ معجز بیانی کا ایک شاہ کار بن گیا۔ایسا ہرگز نہیں تھا کہ وہ محض گھر ہی کی محدود چہار دیواری میں مقیّد تھے۔وہ گھر سے باہر کی لکھنوی فضا کا حصّہ بھی بنتے۔ لوگوں سے گفتگو بھی کرتے۔ بزرگوں کی صحبتوں کاپوری طرح سے فیض بھی اٹھاتے۔مشاعروں اور مجالس میں بھی شریک ہوتے۔ غزل اور مرثیے پڑھنے کا ایک سلسلہ بھی جاری تھا۔انیسؔ ہی کے مانند مرزا دبیرؔ بھی متانت ،شائستگی اور اعلیٰ اخلاق کا مُرقّع تھے۔ قناعت پسندی اُن کی طبیعت کا جوہر تھی۔انیسؔ کے لکھنؤ آنے سے بہت پہلے مرزا دبیرؔ اُس تہذیب و ادب پرور شہر میں اپنی مرثیہ نگاری کی دھاک قائم کر چکے تھے۔ معاصرانہ چشمکوں سے ہٹ کر دونوں شعراء ایک دوسرے کا بہت احترام کرتے۔ وقت کے دو عظیم معاصر شعراء نے سلام، منقبت، رُباعی، مرثیے اور دیگر اصناف میں بھی یکساں صنّاعیِ قدرت کا مظاہرہ کیا۔ گویا تخلیقی و تصنیفی میدان میں بھی دونوں حریف، ایک دوسرے کو مبارزت دینے میں طاق تھے۔

دبیر ،عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنیٰ کاتب،مصنّف، انشاء پرداز کے ہیں۔ انیس بھی عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی، اُنس رکھنے والے، محبّت کرنے والے ،دوست اور ہم دَم کے ہیں۔درج بالا سطور میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ شبلی نعمانی کی ’’موازنۂ انیسؔ و دبیرؔ‘‘کو اکثر نقّادان ِ فن کی تنقید کا سامنا اس وجہ سے کرنا پڑا کہ اُن کی دانست میں شبلی نے انیسؔ کو بہترتر اور دبیرؔ کو بہت کم تر دِکھایا ہے۔ دونوں شعراء میں سے اعلیٰ کون اور ادنیٰ کون کی متنازع بحث میں جائے بغیر، عمومی رائے یہی رہی کہ انیسؔ کو دبیرؔ کے مقابلے میں بہت سی باتوں میں سبقت حاصل ہے۔سیماب ؔ اکبر آبادی ادب میں نہ صرف منفرد شاعرانہ حیثیت کے مالک ہیں، بلکہ شاعری کے متوالوں اور مبتدین کے لیے ’’رازِ عروض‘‘ کے عنوان سے ایک عُمدہ کتاب کے مُصنّف بھی ہیں۔ وہ ایک مقام پر ’’آمد ‘‘اور ’’آورد‘‘ کے سلسلے میں یوں رقم طراز ہیں’’جب طبیعت نئے مضامین اور اچھوتے خیال پیدا کرنے لگتی ہے، تو اُسے آمد کہتے ہیں۔جب تک مضمون معمولی اور خیال نئے نہیں ہوتے،کلام میں آورد رہتی ہے اور ہمیشہ دوسروں کے خیال نظم ہوتے رہتے ہیں۔جو ایک بڑا عیب ہے۔ ‘‘اسی کے ساتھ سیماب ’’آورد سے بچنے کا طریقہ ‘‘بھی بتاتے ہیں’’شعر کہنے سے پہلے ایک خیال قائم کرو، جو کسی قافیے کے ساتھ نظم کیا جا سکے۔ پھر اس خیال کو چھوڑ دو۔ دوسرا خیال اُسی قافیے کے ساتھ پیدا کرو۔ اُسے بھی چھوڑ دو۔ اب اُسی قافیے کے ساتھ، جو تیسرا خیال یا مضمون دماغ میں آئے گا، وہ ضرور نیا یا اچھا ہو گا۔ بس اُسی کو نظم کر لو۔‘‘ صاحبِ فرہنگِ آصفیہ نے اپنی مرتّب کردہ انتہائی معتبر لغت میں لفظ ’’دبیر‘‘ کے معنی تحریر کرتے ہوئے یہ کہنا بھی ضروری سمجھا ہے’’مرزا سلامت علی مرثیہ گو ولد میاں غلام حسین لکھنوی، شاگرد مظفّر حسین ضمیر کا تخلّص ۔ اُن کے مرثیوں میں نازک خیالی، عالی دماغی اور آورد پائی جاتی ہے اور ان کے ہم عصر میر انیسؔ کے کلام میں آمد۔‘‘

دبیرؔ کو انیسؔ کے مقابلے میں زندگی کی نامساعدت کا شدّت سے سامنا کرنا پڑا۔ مزیدبراں، انیسؔ کے مقابلے میں اُن کا شاعرانہ نَسَب، افتخار کی اُن بلندیوں پر فائز نظر نہیں آتا، تاہم متذکرہ عوامل کے باوجود انیسؔ کے پہلو بہ پہلو دبیرؔ کا نام لیا جانا، دبیرؔ کی نام وَری کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ مرزا غالبؔ کا زمانہ وہی ہے، جو انیسؔ و دبیرؔ کا ہے۔ اس لحاظ سے وہ انیسؔ و دبیرؔکے ہم عصر قرار پاتے ہیں۔غالبؔ نے ایک مرثیے کے تین بند بھی کہے تھے اور جو رنگ اختیار کیا تھا، وہ سراسر ’’دبیری مزاج‘‘ کاآئینہ دار تھا۔ ؎ ہاں اے نَفَسِ بادِ سَحَر شعلہ فشاں ہو…اے زمزمۂ قم، لبِ عیسیٰ ؑ پہ فغاں ہو… اے دجلۂ خوں چشمِ ملائک سے رواں ہو… اے ماتمیانِ شہِ مظلوم،کہاں ہو۔بیان کیا جاتا ہے کہ غالبؔ نے مرثیے کے تین بند کہنے کے بعد یہ کہہ کر ہاتھ سے قلم رکھ دیا تھا کہ اس میدان میں مرزا دبیرؔ ہی اپنا رنگ جما سکتے ہیں۔اُردو اصنافِ سخن میں مرثیے کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس صنف پر ابتدا ہی سے محقّقوں، تذکرہ نگاروں اور نقّادوں نے گفتگو جاری رکھی۔محقّقین نے قدیم مرثیوں کی بازیافت کے ذریعے، تذکرہ نگاروں نے اس صنف کو ادب کا ایک ستون جانتے ہوئے اور نقّادوں نے پوری سنجیدگی سے اس کے مختلف پہلوؤں پر مسلسل اظہارِ خیال کرتے ہوئے اس بارے میں تحریری متن مہیّا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا، جو آج بھی اسی رفتار سے جاری ہے۔آج جب کہ مرثیہ پورے طور پر جدید مرثیہ بن چکا ہے اور اپنے عہد سے پیوستہ رہ کر اپنے وجود کا احساس دلا رہا ہے، یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل رہے گی کہ اُردو مرثیہ جس قدر بھی ترقّی کر جائے اور اُسے جتنے بھی قد آور تخلیق کار اور مرثیہ نگار میسّر آ جائیں، اُردو مرثیہ انیسؔ و دبیرؔ کے ذکر کے بغیر ادھورا اور خالی خالی محسوس ہو گا۔

جب میر انیسؔ نے دنیا سے کُوچ کیا، تو مرزا دبیرؔ نے قطعۂ تاریخ کہا ؎آسماں ،بے ماہِ کامل، سدرہ، بے روح الامیں…طورِ سینا، بے کلیم اللہ ،منبر بے انیس۔ؔ

تازہ ترین