• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1985کے عام انتخابات کا موقع تھا ۔ میں سکول کا طالب علم تھا کہ پتہ چلا کہ انتخابی مہم کے سلسلے میں میاں نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ ہمارے علاقے میں تشریف لائی ہیں۔ بچہ تھا لیکن سیاست کا شوق بھاگم بھاگ وہاں پہنچ گیا کہ جہاں پر بیگم صاحبہ موجود تھیں۔ ایک باوقار چہرہ جس کی نرم گفتاری ٹھٹ کے ٹھٹ لگائے وہاں موجود خواتین کو اپنے حصار میں لے رہی تھیں۔ یہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ کا پہلا اثر ان سے آخری ملاقات تک قائم رہا۔ پھر جب 1999کی آمریت قائم ہوئی تو بڑے بڑے طوطا چشم ہو گئے لیکن انہوں نے حوصلہ نہ ہارا اور میدان میں کود پڑی۔ اس دن کے بعد سے جلا وطنی تک ان کی ذات تھی اور جمہوریت کی شمع۔ میری ان سے پہلی ملاقات 2003 میں سعودی عرب میں ہوئی اور یہ محسوس کیئے بناء نہ رہ سکا کہ ان کی ذات پر اس تمام مقام و مرتبے کے باوجود عاجزی اور شفقت کا پہلو نہایت نمایاں تھا۔ انہوں نے اپنی آمریت کے خلاف جدوجہد کے ایام کو اپنی ڈائری میں قلمبند کر رکھا تھا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان دنوں کے واقعات کو جاننا پاکستانیوں کا حق ہے۔ لہٰذا اس ڈائری اور اس دوران کی گئی تقاریر کو کتابی شکل میں چھاپنے کا فیصلہ کیا گیا اور اس خاکسار کے ذمے معاونت کی ذمہ داری رکھی گئی۔ ہمیشہ اس پر فخر رہے گا۔ "جبر اور جمہوریت "کے نام سے یہ کتاب چھاپنے کی ذمہ داری پیر امین الحسنات شاہ کے ادارے ضیاء القرآن پبلشر کو دی گئی۔ پیر صاحب کے بھائی میجر صاحب نے جوش و خروش سے یہ کام اپنی نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ پاکستان میں کتاب کی تقریب رونمائی کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی اور مشرف نے ہتھکنڈے آزمانا شروع کر دیئے کہ یہ تقریب نہ ہو سکی۔ تفصیل پھر سہی لیکن ہم یہ تقریب کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ کیپٹن صفدر نے مجھے بتایا کہ بیگم کلثوم نواز صاحبہ بہت خوش ہوئیں اور ڈھیروں دعائوں سے نوازنے لگیں۔ 2009 میں میری والدہ داغ مفارقت دے گئی تو انہوں نے تعزیت ایسے کی کہ جیسے میرا غم ان کا غم ہے۔ مائیں سب سمجھتی ہیں۔ 2016 میں میاں نوازشریف عارضہ قلب کے علاج کی غرض سے لندن مقیم تھے۔ یار لوگوں نے اس پر بھی بہت باتیں بنائیں۔ میاں نوازشریف سے لندن ملاقات کے لئے حاضر ہوا۔ بیگم کلثوم نواز صاحبہ اور حسن نواز بھی موجود تھے۔ وہ چیزوں کا کتنا احساس رکھتی تھیں جب جام معشوق علی اپنی آمر کا بتانے لگے تو بیگم صاحبہ نے بتایا کہ یہ تو ہسپتال بھی تیمار داری کے لئے آئے تھے۔ وہ میاں نوازشریف سے جڑی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی دھیان میں رکھتی تھیں ۔ ان کے ملاقاتیوں سے لے کر دوائی، ڈاکٹر ، فزیو تھراپی غرض سب کچھ ایک مشرقی شریک حیات کی مانند ان کے شانہ بشانہ تھی۔ ان کے اہل خانہ سے تعزیت کے لئے میں بیگم صاحبہ کے ہی الفاظ استعمال کرونگا جو انہوں نے اپنی والدہ کے انتقال پر تحریر کیے تھے۔ " 15 دسمبر کو ماں کی مامتا سے بھی صدا کی جدائی ہو گئی اور میں اپنے آپ کو لمحوں میں اس بچے کی طرح محسوس کرنے لگی جو کارواں سے کسی جنگل ، بیاباں میں بچھڑ جائے" خدا اس بچھڑنے پر ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے کہ لمحات نہایت تکلیف دہ ہے۔

تازہ ترین