• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا ہوتا ہے ’’انصاف‘‘ ہندوستان میں اسلامی دور حکومت کا منصفانہ کردار

سید عبداللہ علوی بخاری اشرفی

ہندوستان کی سر زمین پر سیکڑوں برس مسلمانوں کی حکمرانی رہی۔ اُن کا دور حکومت امن و سلامتی اور مسلم و غیر مسلم کے درمیان رواداری و انصاف کا آئینہ تھے۔ ان ہی حکمرانوں میں سلطان قطب الدین ایبک بھی ایسے ہی ایک نیک اور انصاف پسند حاکم تھے۔ انھوں نے اپنے محل کے باہر زنجیرِ انصاف لٹکا رکھی تھی کہ، اگر کسی کی حق تلفی ہوتی ہے یا اس پر ظلم کیا جاتا ہے تو مظلوم بلا جھجک اوربے خوف و خطر سلطان تک انصاف کی گہار لگاسکے۔ یہی وہ انصاف پسند مسلم فرمانروا تھے،جس نے جرم کی پاداش میں اپنے ہی بیٹے کو قصور وار پائے جانے پر اسلامی احکامِ انصاف پر عمل کرتے ہوئے سر عام کوڑے لگوائے۔

غیاث الدین بلبن ،جن کا دور حکومت امن و سکون اور خوشحالی میں میں ایک مثال رکھتا ہے۔ اُس دور کے ہندوؤں نے خود اُن کے دور حکومت کی تعریف کی ہے، جس پر آج بھی تاریخی شہادت موجود ہے۔ دہلی کے قریب پالم میں 1280 عیسوی کا سنسکرت میں لکھا ایک کتبہ دستیاب ہوا، جس میں غیاث الدین بلبن کے دور حکومت کی تعریف کرتے ہوئے اُس دور کے ہندو مؤرخین کا اعتراف یوں ملتا ہے :’’بلبن کی سلطنت میں آسودہ حالی ہے، اس کی بڑی اور اچھی حکومت میں غور سے غزنہ اور دراوڑ سے رامیشوری تک ہر جگہ بہار کی دل آویزی ہے۔ اس کی فوجوں نے ایسا امن و امان قائم کیا ہے جو ہر شخص کو حاصل ہے۔ سلطان اپنی رعایا کی خبر گیری اتنی اچھی طرح کرتا ہے کہ خود وِشنُو ( ہندوؤں کا دیوتا) دنیا کی فکر سے آزاد ہوکر دودھ کے سمندر میں جا کر سو رہے۔ ‘‘

سلطان علاؤالدین خلجی جن کے متعلق شر پسند طاقتوں نے جھوٹ کے پلندے باندھے اور سماج کے اتحاد کو منتشر کرنے کے لیے نفرتوں کی دیوار کھڑی کرتے ہوئے من گھڑت تاریخ مرتب کروائی، جب کہ ان کے انصاف کی گواہی آج بھی تاریخ کے سینے میں صحیفوں کی شکل میں موجود ہے۔

سلطان محمد بن تغلق بھی تاریخ ہند کے ایسے ہی مسلم فرمانروا تھے، جنھیں اسلام مخالف طاقتوں نے ظالم بادشاہ کے طور پر پیش کیا، جب کہ ان کے انصاف کی گواہی دیتے ہوئے اُس دور کے مؤرخین کا کہنا ہے کہ ،ہفتے میں ایک روز سلطان دربار عام منعقد کرکے مظلوموں کی فریاد رسی کرتے۔ دربار میں چار مفتی مقرر تھے ،جو اسلامی شریعت کی روشنی میں احکام سناتے اور سلطان اس کے مطابق فیصلہ کرتے، حتیٰ کے سلطان نے ان مفتیوں کو متنبہ کر رکھا تھا کہ، اگر کوئی بے قصور ان کے فیصلوں کے سبب تہہ تیغ کو پہنچا تو اس کا خون ناحق ان ہی کی گردن پر ہوگا۔

ہندوستان کے مشہور مسلم فرمانروا ’’ شیر شاہ سوری‘‘ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ شیر شاہ سور ی مساوات اور ہندو مسلم رواداری کا پیکر تھے۔ ان کی رعایا پروری کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوگا کہ انھوں نے یہ اعلان کیاتھا،’’ اگر کسی نے بھی میری رعایا کے کسی فرد پر بھی ظلم کیا تو میں اس پر بجلی بن کر گروں گا اور اس کو مٹا کر ہی دم لوں گا۔ ‘‘

ہندوؤں پر ان کے توجہ اور کر م فرمائیوں کا ثبوت اس اقدام سے ملتا ہے کہ’غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بالکل محفوظ رہیں،۔ ان عبادت گاہوں کی جو مسلم حاکم حفاظت نہیں کرے گا، اسے معزول کر دیا جائے گا۔ ‘‘

مغل اگرچہ باہر سے آئے تھے لیکن شاہان مغلیہ نے ہندوستان کو اپنا وطن بنالیا۔ اس ملک میں انھوں نے اس طرح محبت کی جیسے ایک بادشاہ اپنے مادر وطن سے محبت کرتا ہے اور حکومت بھی ایسی ہی کی ۔ سلطنت مغلیہ کے نامور بادشاہوں نے اپنے اپنے ادوار میں انصاف پسند و مساوات پر مبنی رعایا پرور اورروادارنہ طرز کی مثالی حکومت کی۔

مغلیہ سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر نے اپنی کتاب ’’ تزک بابری ‘‘ میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھاہے کہ ,فوج ’’ بھیرہ ‘‘ سے گزر رہی تھی تو سپاہیوں نے ’’بھیرہ‘‘ والوں کو ستایا، حکام نےفوراً اُن سپاہیوں کو گرفتار کر کے بعض کو سزائے موت کا حکم دیا اور بعض کی ناکیں کٹوا کر تشہیر کرائی۔

مغل بادشاہ ’’ جہانگیر ‘‘ کا معاملہ تو اس سلسلے میں مزید سخت تھا۔ وہ روزانہ دو گھنٹے عوام کی شکایتیں سنتے،یہاں تک کےدوران سفر بھی اس معمول کا اہتما م کرتے ، روزانہ تین تین گھنٹے مظلوموں کی فریاد سنی جاتیںاور ظالموں کو بلا امتیاز و تفریق سزا دی جاتی تھی ۔

مغل بادشاہوں کی تعمیرات میں ’ ’ دیوان عام ‘‘ کی تعمیر اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دربار میں عوام و خواص کو بلا تردد و بلا تامل اپنی شکایات بادشاہ کے روبرو پیش کرنے اور انصاف مانگنے کی اجازت تھی۔ یہاں بادشاہ نہ صرف عوام کی شکایات سنتے بلکہ خود فریقین سے جرح کرتے اور فیصلہ صادر کرتے تھے۔ فیصلوں میں انصاف کا اس قدر اہتمام برتا جاتا کہ اگر مجرم حکومت کا بڑے سے بڑا عہدیدار یا شاہی خاندان کا فرد بھی ہوتا تو اسے بھی سزا دینے سے تامل نہ کیا جاتا۔

مغل بادشاہوں میں شہنشاہ اکبر اعظم، جہانگیر اور تاجدار مغلیہ اورنگ زیب عالمگیر جیسے بادشاہوں نے انصاف و اسلامی رواداری کے وہ ان مٹ نقوش چھوڑے ہیں ،جن پر آج بھی تاریخی شہادتیں موجودد ہیں ۔

شہنشاہ جہانگیر ایک امن پسند، منصف المزاج اور رعایا پرور بادشاہ تھا۔ اس نے اپنے دربار میںاہم عہدوں پر کئی ہندوؤں کو مامور کیا۔ متھرا میں ’’ گوبند دیوی ‘‘ مندر کی تعمیرکے لیے زمین دی۔

اکبر نے ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کو وسیع کرنے کے لیے یہاں کی چھوٹی بڑی غیر مسلم ریاستوں کے راجے، رجواڑوں اور راجپوتوں سے دوستانہ تعلقات قائم کیے، نہ صرف یہ کہ بڑی تعداد میں غیر مسلم سپاہیوں کو اپنی فوج میں جگہ دی بلکہ اعلٰی عہدوں پر انھیں مامور کیا اور اپنے دربار خاص میں بھی انھیں جگہ دی۔ اکبر اعظم نے بیربل اور تان سین جیسی غیر مسلم اور قابل و ہونہار شخصیات اپنے دربار میں رکھیں، یہ ہی نہیں بلکہ اکبر نے ان کے مذہبی سفر سے ٹیکس معاف کیا اور مندروں کی تعمیر کرائی۔

اورنگ زیب عالمگیر ہندوستان کی تاریخ اور مغلیہ سلطنت کا ایسا بادشاہ گزرا ہے،جس پر اسلام دشمن، متعصب اور حاسد مؤرخین نے بے بنیاد اور بے جا الزامات عائد کر کے انھیں ایک ظالم بادشاہ بنا کر پیش کیا ،جب کہ اس کی فوج اور اس کے قلمرو کی ریاستیں جو گواہیاں پیش کرتی ہے ان سے اس پر لگے الزامات کی تردید خود تاریخ پیش کر دیتی ہے۔ یہ تاریخ کے ساتھ ایک بہت بڑا مذاق اور کھیل ہے جو ہر دور میں مخالفین حکمرانوں کی جانب سے کھیلا جاتا رہا ہیں۔ اورنگ زیب عالمگیر اگر ظالم اور ہندو مخالف بادشاہ ہوتا تو اس کی فوج میں نہ ہندو فوجی ہوتے اور نہ ہی اعلٰی عہدوں پر مامور ہندو عہدیدارا۔دایک ہندو مصنف ’’ اچاریہ پرفل چند رائے ‘‘نے اورنگ زیب عالمگیر کی فوج میں ہندو عہدیداران کی تقرری کے حوالے سے لکھا ہے کہ ,’’شہنشاہ اورنگ زیب کے عہد میں سلطنت کے اندر بڑی بڑی ذمہ داری کے عہدے ان کو ملے ہوئے تھے۔ ‘‘وہ ا اگر ایک ظالم اور ہندو مخالف بادشاہ ہوتا تو اس کے پچاس سالہ دور حکومت میں ہندوستان بھر کی ان تمام ریاستوں میں جو ان کی قلمرو میں شامل تھیں ایک بھی مندر نہ ہوتا۔ان پر لگے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے اوراس کی رواداری اور رعایا پروری کے جذبات سے متاثر ہو کر ایک اور ہندو مورخ نےاپنی کتاب ’’ تاریخ ہند ‘‘ میںلکھا ہے کہ،’’کاشی پریاگ اور دوسری عبادت گاہوں کے لیے اس نے جو جاگیریں وقف کیں اور ہندو پیشواؤں کے ساتھ جو رعایتیںبرتیں ، ان سے اس کی انصاف پسندی ثابت ہوتی ہے۔ ‘‘

خوداورنگ زیب عالمگیرکے خطوط ان کے مہربان اور رعایا پرور، انصاف پسند اور روادارانہ حاکم کی حیثیت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں ۔ اسں نے بنارس کے حاکم ’’ ابو الحسن ‘‘ کے نام ایک فرمان جاری کرتے ہوئے جو لکھا ہے وہ ایک تاریخی شہادت ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی رواداری و مساوات پر مبنی ان کے نظام حکومت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ وہ لکھتے ہیں’’ہماری پاک شریعت اور سچے مذہب کی رو سے یہ ناجائز ہے کہ غیر مذہب کے قدیم مندروں کو گرایا جائے، یہ حکم دیا جاتا ہے کہ آئندہ سے کوئی شخص ہندوؤں اور برہمنوں کوکسی وجہ سے بھی تنگ نہ کرے اور نہ اُن پر کسی قسم کا ظلم کرے۔‘‘

مسلم حکمرانوں نے ہندوستان کی سرزمین پر کم و بیش ایک ہزار ایک سو چھیالیس سال حکومت کی اور ہندوستان کو خوب ترقی دی۔ انھوں نے اپنی رعایا میں کبھی ہندو مسلم کا امتیاز نہ برتا، ہندوؤں پر کبھی ظلم نہیں کیا، ان پر ٹیکس کا کبھی جبری بوجھ نہ ڈالا، ان کی جان مال لوٹ کر ان پر زندگی تنگ نہ کی، بلکہ انھیں وہی مراعات مہیا کیں جو مسلمانوں کو حاصل تھیں ، ان کی جان و مال کو کبھی نقصان نہ پہنچایابلکہ انھیں تحفظ مہیا کرنے کا خصوصی اہتما م کیا اور ملک میں بھائی چارہ و مساوات کو پروا ن چڑھایا۔ مسلمانوں کے روادارانہ، انصاف پسند نظام حکومت کی تعریف کرتے ہوئے موجودہ ہندو مؤرخین لکھتے ہیں :’’یوپی میں چھے سو سال تک مسلمانوں کی حکومت رہی لیکن یہاں مسلمان صرف چودہ فیصد ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندو مذہب محفوظ رہا اور جبری اشاعت اسلام نہیں ہوئی۔

مسلم حکمرانوں نے اپنے عہد میں رواداری و مساوات کی فضاء کو قائم ہی نہیں کیا بلکہ اس کو برقرار رکھتے ہوئے اس کی آبیاری بھی کی اور ایک خوشحال و کامیاب ہندوستان کی تعمیر کی۔

تازہ ترین