• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فاخرہ تحریم

عکاسی:بابر وسیم ۔ عرفان نجمی۔ افضل عباس

بیگم کلثوم نواز کا جہد مسلسل کا سفر اختتام پذیر ہو گیا اور ہر آنکھ کو اشک بار کر گیا۔ یوں تو وہ ایک گھریلو خاتون تھیں اور تین بار خاتون اول بن کر بھی انہوں نے اپنے گھر کو اور بچوں کو ترجیح دی لیکن ان کی گھریلو زندگی نے بالآخر انہیں حالات میں ڈولتی کشتی کو سہارا دینے کیلئے سیاست میں لے آئی جس میں آنے کا انہوں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا لیکن شاید اپنے شوہر کی انتخابی مہم چلاتے چلاتے سیاست کے سبق سے آشنا ہو چکی تھیں اور جمہوریت کی افادیت کو سمجھتے ہوئے اور اپنے شوہر کے جیل جانے پر وہ عملی سیاست میں یوں اتریں کہ آج ان کے مخالف بھی جمہوریت کے لئے ان کی کاوشوں کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ سیاست کا حصہ بننا نہیں چاہتی تھیں جدہ سے واپسی پر اپنے شوہر میاں نواز شریف کی انتخابی مہم کے دوران اکثر کمر میں درد کی شکایت کرتی تھیں لیکن ان کا مسکراتا ہوا خوبصورت چہرہ ان کے اس درد کو بیان نہ ہونے دیتا۔ 

گزشتہ روز ان کی نماز جنازہ میں شراکت کے لئے آنے والی خواتین نے کہا کہ جہد مسلسل کا ایک باب ختم ہو گیا ہے۔ انہوں نے خواتین کو سیاسی سبق پڑھایا کہ وہ کس طرح جمہوریت کے لئے جدوجہد کر سکتی ہیں بظاہر ایک نرم خو اور خوش گفتار نظر آنے والی خاتون پر جب مشکلات پڑیں تو وہ چٹان بن گئیں۔ 

شعروسخن کا ذوق رکھنے والی ایک پراثر خاتون تھیں ان کی کوشش ہوتی کہ وہ کسی کا دل نہ دکھائیں۔ جنازہ میں آنے والی خواتین ان کا آخری دیدار کرنا چاہتی تھیں لیکن انکی یہ خواہش پوری نہ ہو سکیں۔ سفر آخرت پر رخصت کرنے کے لئے آنے والی خواتین میں جہاں ورکرز تھیں وہاں پارٹی کی عہدیدار بھی، جہاں نوجوان لڑکیاں جو پارٹی کی رکن تھیں وہاں بزرگ رہنما بھی کسی سے پیچھے نہ تھیں۔ 

سابق وفاقی اور صوبائی وزراء، پارلیمنٹرین کوئی خاتون بھی پیچھے نہیں رہی بلکہ نماز جنازہ میں بھی شریک ہو گئیں۔ وہ جہاں بیگم کلثوم نواز کے بچھڑ جانے پر افسردہ تھیں وہاں وہ اس موقع پر مریم نواز سے نہ ملنے پر بھی رنجیدہ نظر آئیں۔ بیگم ذکیہ شاہنواز، بیگم نجمہ حمید، حمیدہ وحید الدین، عائشہ غوث پاشا، طاہرہ اورنگزیب، ریما ایاز، نسرین بھٹی، عظمیٰ بخاری، نزہت عامر غرض کوئی ایسی خاتون نہیں تھی جو بیگم کلثوم کے ساتھ گزرے لمحات کو یاد نہ کرتی رہی ہو۔ 

نجمہ حمید نے کہا کہ وہ تو اتنی سادہ تھیں کہ ہم فرش پر کھانے کے لئے بیٹھتے تو وہ ہمارے ساتھ نیچے فرش پر بیٹھ جاتی تھیں۔ عملی سیاست میں جب آئیں تو بیماری نے انہیں اتنی مہلت بھی نہ دی کہ وہ اپنی انتخابی مہم چلا پاتیں اور جب منتخب ہوئیں تو حلف اٹھانے کی مہلت بھی نہ ملی۔ آخری وقت میں بھی شوہر اور بیٹی کو نظروں کے سامنے دیکھنے کی جدوجہد میں ہی زندگی سے رشتہ ٹوٹ گیا اور مسلسل جدوجہد کا یہ باب ختم ہو گیا۔

تازہ ترین