• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ گجو سے دائیں طرف نہر کے کنارے چلیں، تو دومیل کے بعد ایک پہاڑی پر گنبد دکھائی دے گا۔ یہ گنبد ایک قدیم ترین قبرستان میں واقع ہے۔ جس کے متعلق لوگوں کا خیال ہے کہ اس میں شہدا مدفون ہیں،جو اسلامی فتوحات کے آغاز میں یہاں پہنچے تھے اور مختلف معرکوں میںحصہ لینے آئے تھے۔ گجو سے ٹھٹھہ کا فاصلہ تقریباًبارہ میل ہے، جس جگہ پر یہ قبرستان واقع ہے، وہاں کی آبادی ’’دیہہ حاجی ترابی کہلاتی ہے۔‘‘

حاجی ترابی کون تھے؟ تاریخ کی متعدد کتابوں کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ وہ خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں علی بن عیسیٰ بن ہامان کی گورنری کے دور میں سندھ آئے ، یہ بھی کہا جاتا ہے ،کہ انہوں نے میرپور ساکرو اور تھرڑی کے قلعوں کو فتح کیااوران اضلاع کے حاکم بن گئے۔ صوبہ سندھ کا گزیٹیر مرتبہ ای ۔ایچ۔ اٹیکن میں لکھا ہے کہ ’’ایک بڑے شیخ نے جن کا نام ابو تراب تھا، بھکر کا اہم قلعہ فتح کیا اور کئی بہادری کے کام کئے۔ یہ بزرگ ہمارے لئے دل چسپی کا موجب ہیں، اس لئے کہ ان کی قبر موضع گجو( تعلقہ میرپور ساکرو) سے قریباً دومیل کے فاصلے پر اب بھی موجود ہے۔ اس قبر پر 171ھ مطابق 788ء کا کتبہ ہے۔ ‘‘اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے، کہ سندھ پر ایک زمانے میں جس طرح بنی امیہ کا تسلط رہا تھا، خلفائے عباسی بھی برسر اقتدار رہے ہوں گے اور انہوں نے مختلف سپہ سالاروں کو تسخیر ممالک کی مہم پر سندھ بھیجا ہو گا، جس میں ابو ترابی جن کا نام غالباً شیخ ابو تراب تھا، شامل تھے، انہوں نے پہلے بکھر کا قلعہ فتح کیا، لیکن بعد میں مختلف حوادث کے نتیجے میں ، دریائوں نے رخ بدلا، زلزلوں اور موسمی تغیرات نے متعدد آبادیوں اور شہروں پر اثر ڈالا تو لوگوں کی بڑی تعداد ٹھٹھہ کی طرف آ نکلی ،جو اس وقت اسلامی شان و شوکت سےآراستہ تھا۔ حاجی ابو ترابی بھی ٹھٹھہ آ گئے ، پھر انہوں نے کسی معرکےمیں میرپور ساکرو کے قریب اپنے ساتھیوں سمیت شہادت پائی ، لوگوں نے انہیں، ان کے ساتھیوں کے ہمراہ اس قبرستان میں سپرد خاک کر دیا۔حاجی ابو ترابی کی خانقاہ اس قدیم قبرستان میں واقع ہے، یہ خانقاہ باہر سے بوسیدہ نظر آتی ہے، لیکن اندر سے اس کی حالت بہت اچھی ہے ،قبر کا گنبد قدیم زمانے کی دلیل ہے ،کتبے پر حاجی صاحب کے نام کے علاوہ جام علاؤالدین کا نام بھی لکھا ہوا ہے، جس سے اس بات کی نشا دہی ہوتی ہے کہ وہ کتبے اس کے دورِ حکومت میں لگایا گیا، جب کہ نقش و نگار بعد میں بنائے گئےہیں ۔ 

عام لوگوں کا خیال ہے کہ حاجی ابو ترابی جاموں (سمون) کے دور کے بزرگ ہیں۔ پروفیسر محمد شفیع لکھتے ہیں کہ ’’ جس جام علائو الدین کا ذکر کتبے پر کیا گیا ہے ،وہ بہ ظاہر شاہی خاندان سے تعلق رکھتا تھا، چوں کہ نہ صرف حاکم ٹھٹھہ بلکہ اس کے گھرانے کے تمام افراد جام کہلاتے تھے۔ جب جام انڑ کا انتقال ہوا تو سمہ قبیلہ کے ایک شخص جام جونہ (علائو الدین) کو ’’جام‘‘ کا لقب دیا گیا، اس نے سارے سندھ کو فتح کرنے کی خواہش کی اور اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیےاپنے بھائیوں اور عزیزوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آنے لگا ، جب اس کے بھائی اور عزیز مختلف علاقوں پر حاکم مقرر ہو گئے، تو انہوں نے بکھر اور اس کے گردو نواح کے علاقوں میں تباہی پھیلا دی ، بکھر کے حاکموں اور ان کے درمیان بڑی خونریز لڑائیاں ہوئیں، جس کے نتیجے میں بکھر کے حاکم قلعہ خالی کر کے فرار ہونے پر مجبور ہو گئے، بعد ازاںجام علائو الدین بکھر پہنچ گئے، اوروہاں قابض ہوگئے ،جب علائو الدین خلجی کو اس صورتحال کی خبر ہوئی ،تو اس نے اپنے بھائی، الخ خاں کو جام جو نہ کی سرکوبی کے لئے بھیجا ،لیکن الخ خاں کے بکھر پہنچنے سے پہلے ہی جام علائو الدین فوت ہو گیا ،جام علائو الدین نے طویل عرصے تک حکومت نہیں کی تھی ،تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ جام جونہ، نے تخت نشین ہوتے ہی اپنے عزیزوں اور بھائیوں کو متعدد علاقوں کی طرف بھیج دیا تھا، اسی بنا پر خیال کیا جاتا ہے کہ ان میں سے ایک شخص موسیٰ بن شاہجہان میرپور ساکرو یا گجو پہنچا تھا ،جہاں اس نے مذکورہ قبرستان میں حاجی ابو ترابی کی قبر دیکھی، جس پر سنہ 171ھ کا کتبہ لگا ہوا تھا، اور جام جونہ کی اجازت سے اس پر مقبرہ بنا کر اس پر اپنے والد اور جام جونہ کے نام کا کتبہ بھی تحریر کرا دیا، بہرحال یہ حقیقت ہے کہ حاجی ابو ترابی کا شمار سندھ کے صوفیا کرام میں ہوتا ہے،ان ہی کے دور میں دوسرے بے شمار بزرگ سندھ میں تبلیغ و اصلاح کے لیےوارد ہوئے۔

تازہ ترین