• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
, ,

قبائلی علاقوں میں پہلی بار لاکھوں کے ترقیاتی منصوبے شروع ہوں گے

سلطان صدیقی

خیبر پختونخوا کی نومنتخب حکومت نے وزیراعلیٰ محمود خان کی قیادت میں کام کا آغاز کر دیا ہے ‘ تحریک انصاف حکومت کے ابتدائی 100دن کے پلان اور پارٹی چیئرمین وزیراعظم عمران خان کے 5سالہ ویژن کے تناظر میں تمام سرکاری محکموں سے تجاویز اور سفارشات طلب کی گئی ہیں‘ جن پر عاشورہ محرم کے بعد ہونے والے کابینہ کے اجلاس میں عملدرآمد کیلئے غور کیا جائیگا ‘ صوبے میں تحریک انصاف کے اپنے نامزد گورنر شاہ فرمان نے بھی حلف اٹھا کر اپنی ذمہ داریاں سنبھا ل لی ہیں‘ ماضی میں خیبرپختونخوا کا گورنر وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کیلئے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت رکھتا تھا اور اس بنیاد پر ان کے پاس بے پناہ اختیارات ہوتے تھے تاہم فاٹا کے علاقوں کے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد یہ اختیارات بھی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو منتقل ہوگئے ہیں‘ فاٹا کے ان علاقوں کو اب ٹرائبل ڈسٹر کٹس کا نام دیاگیا ہے جبکہ انضمام منصوبے کے تحت ان علاقوں کی ترقی کیلئے دس سالہ خصوصی ترقیاتی پیکج کے تحت ایک ہزار ارب یعنی سالانہ ایک سو ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز مختص ہونے ہیں‘ توقع ہے کہ صوبے میں پہلی بار ایک ہی جماعت کی حکومت اور ایک ہی جماعت کے گورنر ہونے کے باعث ٹرائبل ڈسٹرکٹس میں خصوصی ترقیاتی فنڈز کے استعمال پر گورنر اور وزیراعلیٰ کے مابین اختلافات نہیں ہونگے بلکہ یہ فنڈز گورنر شاہ فرمان اور وزیراعلیٰ محمود خان سمیت قبائلی اضلاع سے منتخب ہونے والے ارکان پارلیمنٹ کی مشاورت سے ہر علاقے کی ضرورت اور ترجیح کے مطابق ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونگے اور قبائلی علاقوں میں پہلی بار ایسے منصوبے شروع ہونگے جو نظر بھی آئیں گے اور عام عوام کو اجتماعی طور پر مستفید کرینگے ‘ صوبائی حکومت رواں مالی سال کے باقی ماندہ آٹھ ماہ (نومبر 2018 ءتا جون 2019ء) کیلئے بجٹ کی تیاریوں میں بھی مصروف ہے جس کیلئے اکتوبر کے مہینے میں اسمبلی کا بجٹ اجلاس طلب کیا جائیگا ‘ ساتھ ہی 14اکتوبر کو ضمنی انتخابات بھی ہو رہے ہیں ‘ یہ انتخابات ایک طرف اے این پی کے رہنما‘ بلور خاندان کے چشم و چراغ بیرسٹر ہارون بشیر بلور اور ڈیرہ اسماعیل خان کی گنڈاپور فیملی کے سابق صوبائی وزیر محمد اکرام اللہ خان گنڈاپور کی انتخابی مہم کے دوران دہشتگردوں کے خودکش حملوں میں شہادت کے باعث پی کے 78پشاور اور پی کے 99ڈیرہ کے حلقوں سمیت تحریک انصاف کے 6اور اے این پی کے ایک منتخب ہونے والے فرد کی جانب سے خالی ہوئی تھیں اے این پی کے صوبائی صدر سابق وزیراعلیٰ امیر حیدر ہوتی نے قومی اسمبلی کی نشست رکھ کر پی کے 53مردان کی نشست خالی کر دی ہے‘ اسی طرح تحریک انصاف کےرہنما ‘ سابق وزیراعلیٰ اور وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک نے پی کے 61اور 64کی نشستیں ‘ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر نے پی کے 44صوابی‘ قومی اسمبلی کے ارکان ڈاکٹر حیدر علی نے پی کے 3سوات‘ علی امین گنڈا پور نے پی کے 97ڈیرہ اور صوبائی وزیر ڈاکٹر امجد نے پی کے 7سوات کی نشست خالی کر دی ہے‘ ڈاکٹر امجد صوبائی اسمبلی کی دو نشستوں پر کامیاب ہوئے تھے ‘ صوبائی اسمبلی کی ان نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی نشست این اے 35بنوں میں بھی 14اکتوبر کو ضمنی انتخابات ہونگے‘ یہ حلقہ وزیراعظم عمران خان نے خالی کیا ہے‘ صوبائی اسمبلی کی ایک اور نشست پی کے 71پشاور گورنر شاہ فرمان نے بھی خالی کی ہے تاہم اس حلقے کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی شیڈول الگ سے جاری کرنے کا اعلان کیا جائیگا‘ اگرچہ ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کی تمام جماعتوں ایم ایم اے‘ پیپلز پارٹی ‘ اے این پی اور مسلم لیگ (ن) نے مشترکہ حکمت عملی تیار کی ہے اور مشترکہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کیلئے عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنے والی اپوزیشن جماعت کو سیٹ دینے کا فیصلہ کیاگیا ہے البتہ ہارون بلور کی شہادت کے بعد پی کے 78کی نشست اپوزیشن جماعتوں نے یک زبان ہو کر ہارون بلور کی بیوہ ثمر ہارون بلور کیلئے مختص کی ہے‘ اس نشست پر تحریک انصاف نے اےاین پی بالخصوص بلور فیملی کی اس درخواست کو قبول نہیں کیا کہ یہ نشست دیگر جماعتوں کی طرح وہ بھی چھوڑ دیں‘ ضمنی انتخابات کے نتائج کیا ہونگے اور کس جماعت کو کامیابی نصیب ہوگی اس کا اندازہ پی کے 23شانگلہ میں ہونیوالی ری پولنگ سے بخوبی ہو چکا ہے‘ پی کے 23شانگلہ کے عام انتخابات میں تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی کو کامیابی نصیب ہوئی تھی تاہم اس حلقے میں خواتین ووٹرز کی شرح کم ہونے کے باعث الیکشن کمیشن نے یہ انتخاب کالعدم قرار دیا تھا اور ری پولنگ کا حکم دیا تھا ‘ ری پولنگ میں اپوزیشن کی جماعتوں نے متفقہ فیصلے کے تحت عام انتخابات میں دوسرے نمبر پر آنیوالے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار رشاد خان کی حمایت کا اعلان کیا تھا اور ری پولنگ میں ان کے ووٹ 15 ہزار سے بڑھ کر 19ہزار ہوگئے تاہم تحریک انصاف کے شوکت یوسفزئی کے ووٹ بھی ری پولنگ میں 17ہزار سے بڑھ کر 42ہزار تک پہنچ گئے ‘ مقامی سطح پر اپوزیشن جماعتوں کے مقامی رہنمائوں اور ورکروں کی اکثریت نے اپنی جماعتوں کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا اور تحریک انصاف کو سپورٹ کیا چنانچہ ضمنی انتخابات میں بھی اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد موثر دکھائی نہیں دے رہا‘ اپوزیشن جماعتوں نے ابھی تک صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب پر بھی اتفاق نہیں کیا ‘ ایم ایم اے نے سابق وزیراعلیٰ اور سابق وفاقی وزیر اکرم خان درانی کو پارلیمانی لیڈر اور اپوزیشن لیڈر کے طور پر نامزد کیا ہے جبکہ اے این پی کا موقف ہے کہ گزشتہ دور میں انہوں نے ابتداء میں مسلم لیگ (ن) کے سردار مہتاب احمد خان عباسی کی اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے حمایت کی تھی اور ان کے گورنر بننے کے بعد جے یوآئی کے مولانا لطف الرحمن کی اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے حمایت کی تھی اس لئے اب کی بار ‘ باری اے این پی کی بنتی ہے ‘ اے این پی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اپوزیشن لیڈر کیلئےا نہیں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حمایت حاصل ہے‘ اپوزیشن جماعتوں کے مابین اس اختلاف کے اثرات بھی ضمنی انتخابات کے نتائج پر پڑیں گے اور فائدہ حکمران جماعت تحریک انصاف کو ہوگا ۔

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین