• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہفتہ رفتہ نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز کی تدفین اور تعزیت کے لئے آنے والوں کی سرگرمیوں پر محیط رہا۔ رواداری اور ہمدردی کا سیاسی جماعتوں نے جو مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ دراصل بیگم کلثوم نواز نے جمہوریت کے لئے اور آمریت کے خلاف جو جدوجہد کی اس کو کوئی بھی جمہوریت پسند نہ تو نظر انداز کرسکتا ہے نہ اس کو جھٹلا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تعزیت کے لئے آنے والوں میں تقریباً ہر سیاسی جماعت کی نمائندگی موجود تھی۔ رائیونڈ ہفتہ بھر نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز اور مریم نواز کی موجودگی میں سیاسی، مذہبی، معاشرتی سرگرمیوں کا مرکز بنا رہا۔ آمریت کے پروردہ رائیونڈ سے ذرا دور ہی رہے۔ نواز شریف جو پانچ دن کے پیرول پر تھے، نے نہایت بردباری اور وضع داری سے اس موقع کو سیاست سے دور رکھا، ورنہ جس طرح کارکنوں کے جذبات کلثوم نواز کی موت پر مشتعل تھے اس موقع کو سیاسی حوالے سے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ شہر سے تقریباً 35سے 40کلو میٹر دور رائیونڈ میں تمام تر دشواریوں، مشکلات اور سخت گرمی کے باوجود جس طرح ہزاروں کارکنوں نے نماز جنازہ میں شرکت کی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اگر یہ جنازہ شہر کے وسط میں ہوتا تو اس میں لاکھوں کا مجمع ضرور ہوجاتا۔ رائیونڈ میں آنے والے تمام کارکن از خود اپنے وسائل اور مرضی سے آئے تھے۔ جماعتی سطح پر کسی کو لانے کا کوئی بندوبست یا انتظام نہ کیا گیا تھا۔ کچھ عہدیداروں اور کارکنوں کی خواہش تھی کہ ائیر پورٹ سے رائیونڈ تک میت کو ایک جلوس کی صورت میں لایا جائے لیکن تمام معاملات کو غیر سیاسی رکھا گیا۔ پانچ دن تک نواز شریف اور مریم نواز کی طرف سے کوئی سیاسی بیان بھی سامنے نہ آیا، ورنہ انتقال کے حوالے سے بہت سی شکایات حکومت اور اداروں کے ذمہ ڈالی جاسکتی تھیں۔ یہ کیا کم بات ہے کہ تمام اداروں اور حکومتی مشینری نے یہ بات یقینی بنائی کہ نواز شریف، مریم نواز آخری وقت میں بیگم کلثوم نواز سے دور رہیں جبکہ اس کے برعکس پرویز مشرف کے ساتھ جو رعایتی سلوک کیا جارہا ہے وہ اس کا دوسرا رخ دکھاتا ہے، بہرحال مسلم لیگ (ن) نے اس موقع پر حکومت کو نہ تو مشکل میں ڈالا نہ ا پنے عمل سے اس کو تنگ کیا،ورنہ نواز شریف کے پاس اپنا بیانیہ بیان کرنے کا ایک موقع ضرور تھا۔ بہرحال یہ ثابت ہوا ہے کہ نواز شریف کی مقبولیت میں کوئی کمی نہ آئی ہے۔ وہ آج بھی سیاست میں ز ندہ و تابندہ ہیں جس طرح سیاسی جماعتوں نے رائیونڈ آکر جمہوریت کے ساتھ اپنی وابستگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ بیگم کلثوم نواز کو خراج عقیدت تھا، جس انداز میں بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے بعد شریف فیملی کے حوالے سے ہمدردی کی لہر آئی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نواز شریف ، مریم نواز کا اب تادیر جیل میں رکھنا حکومت وقت کے لئے ایک بڑا بوجھ ثابت ہوگا۔ 14اکتوبر کو پورے ملک میں ضمنی انتخابات ہورہے ہیں، نواز شریف سے حالیہ ہمدردی کی لہر ان انتخابات پر ضرور اثر انداز ہوگی۔ لاہور سے حلقہ این اے 124سے حمزہ شہباز کی چھوڑی نشست پر مسلم لیگ(ن) سے شاہد خاقان عباسی کا تحریک انصاف کے غلام محی الدین اعوان سے ہوگا۔ یہ حلقہ مسلم لیگ(ن) کا گڑھ ہے۔اسی طرح 131سے عمران خان کی چھوڑی ہوئی نشست پر مسلم لیگ(ن) کے خواجہ سعد رفیق کا مقابلہ ہمایوں اختر سے ہوگا۔ اس حلقے سے تحریک انصاف کے ولید اقبال کو ٹکٹ ملنے کی امید تھی، جب اس حلقے سے پہلے عمران خاں خود امیدوار بنے تھے تو وہ ولید اقبال سے وعدہ کیا گیا تھا کہ کامیابی کی صورت میں اس نشست پر تحریک انصاف کے مخلص اور دیرینہ ساتھی ولید اقبال کو ٹکٹ ملے گا لیکن ایسا نہ ہوا، مصلحت اور دولت سامنے آگی۔ دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کا ووٹر سپورٹر اس معاملے کو کس انداز میں لیتا ہے، کیونکہ یہاں عام انتخابات میں کامیابی کا مارجن چند سو ووٹوں کا تھا اور خواجہ سعد رفیق کے مد مقابل عمران خان تھے، جو وزیر اعظم بننے جارہے تھے۔ اب معاملہ اس سے ذرا مختلف ہے۔ ہمایوں اختر کا تعلق فوجی خاندان سے ہے وہ مسلم لیگ اور پرویز مشرف حکومت کا حصہ رہے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ان کا یہ پروفائل ان کے کتنے کام آتا ہے۔ ادھر حکومت کی جانب سے ایک ماہ کے دوران ملے جلے اقدامات دیکھنے میں آئے۔ بچت ، سادگی کے حوالے سے جو مہم شروع کی گئی ہے اس کی تو مخالفت کون کرسکتا ہے، البتہ ملک کے جو بڑے مسائل ہیں غریب عوام صنعتی حلقے، تنخواہ دار طبقہ ، بے روزگار حلقہ سب منتظر ہیں کہ ہمارے مسائل کی جانب کب توجہ دی جائے گی۔ کابینہ کا حجم سیاسی اور وقتی مجبوریوں اور مصلحتوں کی کہانی سنارہا ہے۔اس حجم میں بچت اور قومی خزانے کو ملحوظ نہیں رکھا گیا۔دراصل عام انتخابات کے نتیجے میں جو حکومتی سیٹ اپ وجود میں آیا ہے، اس میں مخلوط حکومت کے لئے ان سیاسی مصلحتوں کو تو بروئے کار آنا ہی تھا، پنجاب میں رکن کابینہ میں سے23کا تعلق یا تو مسلم لیگ(ق)سے ہے یا مسلم لیگ (ن) کے حال ہی میں چھوڑ کر آنے والے ارکان سے ہے۔ کابینہ کے اکثر ارکان ناتجربہ کار اور نئے ہیں، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ابھی میڈیا سے فاصلہ رکھے ہوئے ہیں، جب انٹرویوز اور دوبدو میڈیا سے آمنا سامنا ہوگا تو ان کے وژن اور مسائل سے آگاہی کا علم و شعور سامنے آئے گا۔ یہ معلوم ہوگا کہ وہ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے کس قدر اور کتنے مختلف ہیں؟ابھی جو اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ان کی تو مثال اس کے مصداق ہے کہ نہ ہینگ لگے نہ پھٹکری جب صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ، سیف سٹی، امن و امان کے مسائل میں اصلاحات سامنے آئیں گی تو معلوم ہوگا کہ پنجاب کے عوام کے مسائل حل ہورہے ہیں یا بڑھ رہے ہیں؟ ابھی تو وہ معاملہ ہے کہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو، فی الحال حکومت کی کارکردگی کو نہ مسترد کیا جاسکتا ہے نہ قبول کیا جاسکتا ہے۔ کارکردگی کا اندازہ لگانے کے لئے کئی ماہ درکار ہوں گے۔ کچھ چیزوں کا اندازہ چھ ماہ میں ہوگا کچھ کے لئے ایک دو سال درکار ہوں گے لیکن آئندہ چھ ماہ میں عوامی شور کی سمت کا اندازہ کرچکا ہوگا۔ گورنر ہائوس کو عوام کے لئے کھولنا اور بڑی گاڑیوں کی نیلامی اور کھانوں کی ڈشوں میں کمی ضرور قابل تعریف ٹھہریں گی لیکن عوام کو جو مسائل درپیش ہیں ان کے لئے اور دروازوں کو بھی کھولنا ہوگا۔ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانا، 50لاکھ گھروں کی تعمیر ایک کروڑ ملازمتوں کی فراہمی کے لئے ابتدا کے چند ماہ میں کتنی پیشرفت ہوتی ہے اس کا اندازہ بھی ابتداکے چند ماہ ہی ہوجائے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ شہبازشریف نے ٹرانسپورٹ کے شعبے میں جو جدت اور سہولت کی فراہمی کی تھی وہ برقرار رکھی جاتی ہے کہ انہیں، لاہور میں اورنج لائن ٹرین کی تعمیر مسلسل سست روی کا شکار ہے۔ اس ضمن میں حکومت پنجاب کو اس پراجیکٹ کو جلد مکمل کرنے کی کوئی جلدی یا پریشانی ظاہر نہیں ہوتی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب پنجاب کے عوام بلیو ٹرین اور ٹرانسپورٹ کے دوسرے منصوبے بھول جائیں ، لیپ ٹاپ کی اسکیم تو موجودہ حکومت نے فی الفور ہی ختم کردی دیکھیں باقی جاری منصوبوں کا کیا بنے گا؟گیس کی مہنگائی سے موجودہ حکومت کی ساکھ ضرور متاثر ہوگی۔

تازہ ترین
تازہ ترین
تازہ ترین