• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تعلیم کو کسی بھی معاشرے کی تعمیر و ترقی کا ضامن تصور کیا جاتاہے۔ تعلیم اور انسانیت کا تعلق اتنا ہی پراناہے جتنی کہ انسانی تاریخ ۔ رفتہ رفتہ انسان مختلف علوم میں ترقی کرتا رہا اور آج کی دنیا سائنسی علوم کی بدولت چاند اور مریخ کو مسخر کرچکی ہے۔

پاکستان نے جب اپنے سفر کا آغاز کیا تو اس وقت پورے ملک میں صرف ایک ہی یونیورسٹی تھی، جسے ہم جامعہ پنجاب کے نام سے جانتے ہیں۔ اِس وقت پاکستان میں 192یونیورسٹیاں اور اعلیٰ تعلیم ادارے ہیں، جن کی تعداد تیزی سے اور بھی بڑھ رہی ہے۔ ان میں سے 114سرکاری یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیںجبکہ باقی نجی شعبے میں قائم ہیں۔

1947ء سے لےکر 2002ء تک پاکستانی یونیورسٹیوں کی جانب سے 3,000پی ایچ ڈی ڈگریاں جاری کی گئیں۔ حالیہ برسوں میں پی ایچ ڈی ڈگریوں کے اجراء میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن 2001ء میں قائم ہوا جبکہ 2013 ء میں 1,211پی ایچ ڈی فارغ التحصیل ہوئے، 2014ء میں 1,325افراد کو پی ایچ ڈی کی ڈگریاں ملیں۔

پاکستانی یونیورسٹیز اور اعلیٰ تعلیمی ادارے بشریات، زراعت، خلائی سائنس، فشریز، سمندری حیات، کمپیوٹر سائنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، بزنس اینڈ مینجمنٹ، انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، ویٹرنری سائنسز، نفسیات پر ادارہ جاتی اور تحقیقی پروگرام متعارف کروا رہے ہیں۔ پاکستان کی پہلی ورچوئل یونیورسٹی مکمل طور پر جدید انفارمیشن اور ٹیکنالوجی سے لیس یونیورسٹی ہے، جو اکیڈمک پروگرامز کے ساتھ سیٹیلائٹ اور انٹرنیٹ ٹی وی بھی استعمال کر رہی ہے۔ اسی طرح انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کو بھی مت بھولیں جہاں پر اعلیٰ ٹیکنالوجی کی تحقیق اور کاروباری تنظیم کاری کا بہترین ماحول تمام تر سہولیات کے ساتھ فراہم کیا جاتاہے۔

اس وقت پاکستان کی سرکاری و نجی یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 40ہزار کے قریب اساتذہ تعلیمی فرائض سرانجام دے رہے ہیں، جن میں صرف 10ہزار پی ایچ ڈی ہیں جو کہ پاکستانی یونیورسٹیوں کے تدریسی عملے کا 25فیصد بنتاہے۔ ایچ ای سی کے قیام کے بعد پاکستان میں طلباء اور اساتذہ دونوں کو ملکی اور غیرملکی اسکالرشپس مل رہی ہیں۔

امریکااور برطانیہ میں دنیا کی معروف یونیورسٹیاں قائم ہیں، اسی لیے ایچ ای سی کے تحت وہاں کیلئے بھی اسکالر شپس دی جارہی ہیں جبکہ کیوبا کی حکومت نے 2005ء کے زلزلوں کے بعد پاکستانی طلباء کو میڈیکل میں اسکالر شپس کی پیشکش کی تھی۔ یہ اسکالرشپس ایچ ای سی کے ذریعے دی جاتی ہیں۔

اگرچہ گزرتے ماہ و سال میں پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی شعبے کے بنیادی ڈھانچے میں بہتری اور پی ایچ ڈی اسکالرز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے سبب حیرت انگیز ترقی دیکھنے میں آئی ہے، اس کے باوجود سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا پاکستان کے حقیقی مسائل حل کرنے کے لیے محققین اور سائنسدانوں کو مناسب ماحول اور وسائل دستیاب ہیں؟ دیگر سوالات نئے علوم، محققین کی تعداد بڑھانے، تحقیقی لیبارٹریز، تھنک ٹینکس کی تعداد کے علاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی میں نمایاں کامیابیوں سے متعلق ہیں۔ یہ ساری بحث اس بڑے سوال کے گرد گھومتی ہے کہ کیا پاکستان کی یونیورسٹیاں پہلی اسلامی ایٹمی طاقت کے سماجی معاشی منظر کو تبدیل کرنے کا مرکز ثابت ہورہی ہیں۔ ہمارے اساتذہ عموماً یونیورسٹیوں میں وسائل کی فراہمی کے ساتھ تحقیق کی ضرورت پر زور دیتے رہتے ہیں۔

یونیورسٹیوں کی کارکردگی اور تحقیق کا جائزہ لینے کے لیے مختلف معیارات قائم کیے گئےہیں۔ تھوڑی سی تبدیلی کے بعد ان معیارات کو قومی تعلیمی ادارے مثلاً ایچ ای سی اور بین الاقوامی ادارے مثلاً کیو ایس ورلڈ یونیورسٹیز رینکنگ اور ورلڈ یونیورسٹیز رینکنگ ٹائم ہائرایجوکیشن استعمال کررہی ہیں۔ پاکستان میں بین الاقوامی پس منظر کے ساتھ طلباء اور اساتذہ کو یہی تعلیمی، تدریسی، تحقیقی ماحول اور اس کے اثرات،بشمول مختلف جائزوں کے ساتھ فراہم کیے جارہے ہیں۔

کارکردگی کے معیارات

پاکستانی یونیورسٹیوں میں تقریباً تمام شعبہ ہائے علوم میں تحقیقی مراکز قائم کیے جاچکے ہیں۔ تاہم یونیورسٹیوں میں تحقیقی کام کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ یونیورسٹیوں کی کارکردگی جانچنے کا عمل بہت پیچیدہ اور کسی ایک معیار پر پر منحصر نہیں ہے۔ ہر یونیورسٹی مختلف ہے، جس کی کارکردگی اس کے مشن اور نقطۂ نظر کے مطابق جانچی جاتی ہے۔ کسی یونیورسٹی کی کارکردگی جانچنے کیلئے تحقیقی کتاب کی اشاعت محض ایک عنصر ہے جبکہ اس میں دیگر عناصر مثلاً پوسٹ گریجویٹ طلباء کی تعداد، پروگرامز، طلباء کو دیئے گئے تحقیقی کاموں کی نوعیت، ملازمین اور بین الاقوامی شراکتی اداروں سے تعاون بھی شامل ہیں۔ پاکستان میں اس وقت سائنس اور ٹیکنالوجی پر وہ توجہ نہیں دی جارہی، جس کی فی زمانہ ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ علمی معیشت کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جارہاہے۔ تحقیق کیلئے فنڈز بھی فراہم نہیں کئے جارہے جس کے باعث تحقیقی کام بہت مشکل ہوگیا ہے۔ یونیورسٹیوں کی کارکردگی اور نتائج کو جانچنے کیلئے فیکلٹی کے تحقیقی مقالے بہترین ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہ بات اہم نہیں ہے کہ یونیورسٹی نے کتنے تحقیقی مقالے پیش کئے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کتنے تحقیقی مقالوں کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔ نظریاتی فزکس کے پروفیسر ڈاکٹر کامران کہتے ہیں کہ تحقیقی نتائج کا انحصار انڈر گریجویٹ ، ایم فل یا پی ایچ ڈی کرنے والے طلباء کی صلاحیتوں پر ہے۔ اس کے علاوہ، یونیورسٹی کی طرف سے جاری کیے گئے پیٹنٹ بھی کارکردگی جاننے کیلئے بہترین

ذریعہ ہیں۔اس وقت اعلیٰ تعلیم کو معیاری بنانے کیلئے نہایت سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں، یونیورسٹیوں کو پاک چائنا اقتصادی راہداری کے پس منظر میں بھی طویل المدت منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ یونیورسٹیوں کو پانی کی کمی اور توانائی کے بحران پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ پاکستان کو نینو ٹیکنالوجی اور بائیوٹیکنالوجی کے شعبوں میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی یونیورسٹیوں میں تحقیق کے معیار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہےتاکہ پاکستانی صنعت کے شعبے کو درپیش مسائل کو حل کیا جاسکے اور معلوماتی معاشرے (Information Society)کو علمی معاشرے (Knowledge Society)میں بدلا جاسکے۔ یونیورسٹیوں میں اختراعات اور کاروباری ماحول کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ 

تازہ ترین