• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

خُدّامِ مسجد کے لیے چندہ

سوال: ہماری مسجد کے امام وخطیب بارہ سال سے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں ،موجودہ مسجد کمیٹی چار سال پہلے منتخب ہوئی۔ امام صاحب عیدین کی نمازوں میں مسجد کی صفوں میں بطور عیدی یا مسجد کے خادمین کو عمرہ کرانے کے لیے رقم جمع کرتے ہیں ،جب کہ خادمین صاحبِ حیثیت ہیں ، اُن کا یہ رقم جمع کرنا کیسا ہے اور جمع شدہ رقم کا مصرف کیا ہے؟ نیز مسجد کمیٹی کے اراکین بھی خادمین میں شامل ہیں یا نہیں ؟ (جنرل سیکریٹری جامع مسجد خضریٰ ،کراچی )

جواب: ہمارے ہاںبعض اداروں میں رمضان المبارک اور عید کے موقع پر ملازمین کو بونس یعنی ایک اضافی تنخواہ دینے کا رواج ہے اور بعض مساجد کے منتظمین بھی اپنے عملے کو رمضان وعید کے موقع پر بونس دیتے ہیںاور یہ اچھی بات ہے ،شاید اسی کے پیشِ نظر بعض مساجد میںخادمین یا عملے کے لیے الگ سے چندہ کرنے کا رواج رہاہے،اس لیے اسے اُس سوال پر محمول نہیں کیاجاسکتا ، جس کی احادیثِ مبارکہ میں ممانعت آئی ہے ، کیونکہ اس کا مصداق وہ لوگ ہیں،جو اپنے آپ کو فقیر ومسکین اور مفلس ظاہر کرکے سوال کرتے ہیں ،بعض اپنی ہیئتِ کذائی (وضع قطع) ایسی بناتے ہیں کہ لوگوں کو ان پر ترس آئے اوروہ انہیں کچھ نہ کچھ دےدیں ،ان میں سے بعض حقیقی مستحقین بھی ہوسکتے ہیں اور بعض پیشہ ور مانگنے والے ہوتے ہیں۔تاہم نہ مسجد کے عملے کے لیے جمع کیے جانے والے چندے پراس کا اطلاق ہوتا ہے ،نہ عملے کے لوگ مفلسانہ وضع اختیار کرکے سوال کرتے ہیں ،بلکہ وہ اسے ایک طرح سے ملازمت سے حاصل مالی سہولت کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں مساجد میں عملے کی تنخواہیں بالعموم عوام کے چندے سے ہی پوری کی جاتی ہیں اوریہی عرف ہے ،پس بہتریہ ہے کہ مسجد کے عمومی فنڈ سے ہی مسجد کے عملے کو بونس دیاجائے، الگ سے مسجد کے عملے کے لیے جھولی پھیلانا باوقار طریقہ نہیں ہے۔ہمارے ہاں خیراتی اسپتالوں میںڈاکٹر صاحبان سمیت تمام عملے (یعنی یعنی میڈیکل وپیرا میڈیکل اسٹاف) کو تنخواہیں عوام کے عطیات کی رقم ہی سے دی جاتی ہیں،یہ تاثر درست نہیں کہ ایک شعبے میں ہم ایک شِعار کو درست اور دوسرے شعبے میں نادرست سمجھیں ۔

مسجد کی انتظامی کمیٹی ،خواہ انجمن ہو یا ٹرسٹ ہو، مسجد کی مُتولّی ہوتی ہے او ر چندہ دینے والوں کی امین ہوتی ہے ،اس لیے اُس کے ارکان کو مسجد کا چندہ اپنے اوپر استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ہاں !اگرکسی نے خود مسجد کے لیے زمین وقف کی ہو اور اس میں آمدنی کا کوئی مستقل ذریعہ بھی قائم کیا ہو اور وقف کرتے وقت قراردیاہو کہ وہ خود مُتولّی ہوگا ،مسجد کی انتظامی خدمت بجالائے گا اور مسجد کی آمدنی سے معروف طریقے سے اپنی ضروریات کے لیے بھی لے گا ،تویہ جائز ہے ،لیکن ایسی صورتیں ہمارے ہاں کمیاب بلکہ نایاب ہیں۔عمرے کے نام پر جھولی پھیلا کر چندہ جمع کرنا درست نہیں ہے ، یہ عمل وقار اور عزتِ نفس کے بھی خلاف ہے۔عمرہ صاحبِ استطاعت کے لیے سنّت ہے ،اگرکوئی شخص مسجد کے امام یا مؤذّن یا خادم کو عمرے پر بھیجنا چاہتاہے ، تو وہ کسی تشہیر کے بغیر ایساکرے ، تشہیر میں ریا کا شائبہ ہوتاہے۔اب ہمارے ہاں تَنزُّل کاعالم یہ ہے کہ سیاست دان اور حکمران بیت اللہ شریف اور روضۂ رسولؐ پر حاضری کی تشہیر ضروری سمجھتے ہیں ،اس کی فلمیں بناکر میڈیا پر دکھائی جاتی ہیں اور بعض مذہبی رہنما بھی ایساہی کرتے ہیں،کاش کہ ایسانہ ہوتا ۔

تازہ ترین