• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئیے ہمارے ساتھ ایک ’’انتساب‘‘ پڑھیے۔’’اپنے پیارے منّے بھائی (عظیم بیگ چغتائی مرحوم کے نام)۔’’مگر مَیں تو آپ کے نام سے اپنی کتاب نہیں معنون کروں گی۔‘‘مَیں نے جواب دیا۔ ’’کیوں؟پھر کس کے نام سے کرو گی؟‘‘میرے جلنے پر وہ بڑے طنز سے ہنستے تھے۔ ’’خود اپنے نام سے۔ آپ کے نام کیوں کروں، اتنی کتابیں لکھیں اور ابھی جی نہیں بَھرا۔‘‘پگلی!کوئی اپنی کتاب خود اپنے ہی نام سے بھی معنون کرتا ہو گا۔‘‘ اُن کے ہنسنے پر بڑی جلن آتی تھی ۔ اور مَیں جل گئی۔ ’’کچھ بھی ہو، آپ کے نام تو کبھی نہ کروں گی۔‘‘مگر اب؟بس نہیں چلتا کہ کیا کچھ نہ اُن کے نام کر دوں ! کاش کوئی جا کر اُنہیں اتنا بتا سکتا۔ مرنے والے کس قدر بے رحم ہوتے ہیں۔ عصمت چغتائی۔‘‘ یہ انتساب ایک بہن نے اپنے مرحوم بھائی کے نام کیا ہے۔ بہن عِصمت چغتائی ہیں، جو 1941ء میں اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں ہیں اور اپنا ناولٹ، ’’ضدّی ‘‘ منظرِ عام پر لا رہی ہیں اور درج بالا مکالماتی انتساب میں جس شخصیت سے مخاطب ہیں، وہ اُن کا مرحوم بھائی ہے۔ یہ مرحوم بھائی اُردو ادب کا ایک تابندہ نام ہے، جو ’’مرزا عظیم بیگ چغتائی‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔عِصمت چغتائی نے اپنے مرحوم بھائی سے مخاطب ہو کر ’’اتنی کتابیں لکھیں‘‘ بھی کہا، تو عظیم بیگ چغتائی کی اتنی کتابیں کچھ یوں ہیں۔’’چینی کی انگوٹھی اور لوٹے کا راز‘‘ (ناولٹ، طویل مختصر افسانے)، ’’کولتار‘‘(ناول)، ’’قدر دان‘‘(افسانوی مجموعہ)،’’خطوط کی ستم ظریفی‘‘ (ناولٹ، طویل مختصر افسانے)،’’شریر بیوی‘‘(ناول)، ’’کُھرپا بہادر‘‘(ناول)،’’ویمپائر‘‘(ناول)،’’پُھریری‘‘ (افسانوی مجموعہ)، ’’چمکی‘‘ (ناول)، ’’سوانہ کی روحیں‘‘ (ناولٹ، طویل، مختصر افسانے)، ’’فُل بوٹ‘‘(ناول)، ’’لفٹننٹ‘‘ (ناولٹ، طویل مختصر افسانے)،’’شہزادی‘‘(ناولٹ، طویل، مختصر افسانے)، ویمپائر (ناول)،’’کم زوری‘‘(ناول)،’’قرض مقراض محبت است‘‘ (ناولٹ، طویل ،مختصر افسانے) اور’’مسز کڑھلے‘‘(ناول) وغیرہ۔ تاہم، یہ فہرست بھی مکمّل نہیں ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی تحریروں میں ’’قرآن اور پردہ‘‘، ’’حدیث اور پردہ ‘‘،’’رقص و سرود‘‘ اور ’’تفویض ‘‘ شامل ہیں۔ اُن کی ادبی کُتب کو تو اُن کے شگفتہ طرزِ بیان کی وجہ سے بے حد سراہا گیا۔ تاہم، مذہبی تحریروں کے باعث شدید مخالفتوں کا سامنا رہا۔ وجہ یہ تھی کہ عظیم بیگ چغتائی عورت کی ایسی آزادی کا پرچار کرتے تھے کہ جس میں کوئی بھی اُس کے حقوق سلب نہ کر سکے۔ یہ طرزِ فکر اُس وقت کے قدامت پرست معاشرے کے ایک مؤثر طبقے کے بر خلاف تھا، چناں چہ اُس کی وسیع پیمانے پر اور بہ شدّ و مَد مخالفت کی گئی۔ اُن کے خلاف مظاہرے کیے گئے، اُن کی کتابوں کو آگ لگائی گئی، جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں اور قاتلانہ حملہ تک کیا گیا۔ مخالفت کے اس طوفان کو ختم کرنے کے لیے خواجہ حسن نظامی، مُلّا واحدی، شاہد احمد دہلوی اور نواب بھوپال نے اپنا کردار ادا کیا۔ یوں یہ ہنگامے سرد ہوئے۔ عظیم بیگ چغتائی کی زندگی مختصر اور کام تیز تر رہے۔طبعی عُمر محض 43برس ،جب کہ ادبی عُمر فقط 11برس پر مشتمل تھی۔

عظیم بیگ چغتائی اگست 1898ء میں غیر منقسم ہندوستان کی ریاست، یوپی (اُتر پردیش) کے ضلعے، غازی پور میں پیدا ہوئے۔ جدِّ امجد چغتائی خاں تھے، جو چنگیز خاں کے بیٹے تھے۔ ایک بیٹا ہلاکو خاں تھا، تلوار جس کا کردار اور لڑنا مَرنا اور دُنیا کو زیر و زبر کرنا شعار تھا۔ اُس کے بالکل برعکس چغتائی خاں علم و ادب کا دل دادہ اور پرستار تھا۔ یوں’’ چغتائی ‘‘ عظیم بیگ چغتائی کا خاندانی نام قرار پایا۔ خاندان گزری صدیوں میں عراق کے مشہور شہر، کنعان سے ہجرت کر کے ہندوستان آیا تھا۔ آبائو اجداد اہلِ علم و منصب رہے، سو معاشی خوش حالی اور بلند اقبالی خاندان کے اکثر افراد کے ہم رکاب رہی۔ عظیم بیگ چغتائی کے والد، قسیم بیگ چغتائی یوں اہلِ علم و دانش میں شمار کیے جاتے کہ ہندوستان کی عظیم علمی درس گاہ، علی گڑھ سے گریجویشن کے بعد یو پی سے سِول سروس کا امتحان پاس کیا اور ڈپٹی کلکٹر کے عُہدے پر فائز ہوئے۔ سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران جب وہ ’’دہلی دربار‘‘ سے وابستہ ہوئے، تو انہیں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب بھی عطا کیا گیا۔ اُن کی اہلیہ، نصرت خانم سُلجھی ہوئی ، باشعور خاتون تھیں اور امورِ خانہ داری کو بہتر طور پر انجام دینے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ مزید براں، بچّوں کی تربیت کا بھی خاص خیال رکھتیں۔ اُنہیں اچّھی اچّھی اور سبق آموز کہانیاں سناتیں، تاکہ بچّوں میں عُمدہ خیالات اور احساسات جنم لے سکیں۔ عظیم بیگ چغتائی کے نانا، منشی امراؤ علی اپنے زمانے کے مشہور ناول نگار تھے اور ’’رزم بزم‘‘ اور ’’البرٹ بل‘‘ اُن کی شناخت کا ذریعہ تھے۔ نیز، تایا اور چچا بھی ادبیات اور سماجیات سے جُڑے ہوئے تھے۔ یوں انہیں ابتدا ہی سے لکھنے پڑھنے کی فضا میسّر آئی۔

عظیم بیگ چغتائی کے 5بھائی اور 4بہنیں تھیں۔ چوں کہ وہ پیدایش کے وقت نہایت ہی کم زور تھے، تو ماں باپ کی توجّہ کا مرکز قرار پائے۔ ابتدائی طور پر اُنہیں مکتب کی تعلیم دلوائی گئی۔ یہ 1903ء تھا۔ پھر اُردو قاعدہ پڑھنے اور تختی لکھنے کی مناسب مشق بھی کروا دی گئی۔ بچّہ پڑھنے لکھنے میں دِل چسپی لینے لگا۔ 1908ء آتے آتے قرآنِ پاک ختم کر لیا۔ وقت کچھ اور آگے بڑھا ۔1914-15 ء کا زمانہ آیا۔ طبیعت میں لکھنے کی خواہش پروان چڑھ چُکی تھی۔ سو، دسویں درجے میں بھی نہ پہنچے تھے کہ ’’قصرِ صحرا‘‘ کے عنوان سے بچّوں کے لیے ایک کہانی تحریر کر دی، جسے خاصا پسند بھی کیا گیا۔ یہ پسندیدگی مزید لکھنے کے لیے طبیعت کو مہمیز دینے لگی۔ ایک پریشان کُن بات البتہ یہ تھی کہ بچپن ہی سے لاحق رہنے والی کم زوری، مختلف عوارض کی شکل اختیار کرنے لگی تھی۔ اسی اثنا میں عظیم بیگ چغتائی نے اوٹاوہ سے میٹرک کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ یہ1918-19ء تھا۔ ہندوستان تبدیلی کے دَور سے گزر رہا تھا۔ قسیم بیگ کو سرکاری ملازمت اور اس سلسلے میں ہونے والے تبادلوں نے کسی ایک جگہ کو مستقل طور پر اپنانے کی اجازت نہ دی تھی۔ سو، ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کا عمل جاری رہتا۔ تاہم، اس کا عظیم بیگ چغتائی کو یہ فائدہ ضرور ہوا کہ مختلف علاقوں کی معاشرت کو برتنے اور سمجھنے کی عادت ہو گئی۔ سلسلۂ تعلیم جاری ہی تھا کہ1922ء میں رام پُور سے تعلق رکھنے والے ایک پٹھان خاندان میں شادی ہو گئی۔ اخراجات بڑھے، تو ایک ملازمت اختیار کر لی۔ تعلیم کا سلسلہ البتہ منقطع نہ ہونے پایا۔سو، دِن میں کالج اور شام میں فیکٹری کی ملازمت۔ بیماری تو سائے کی طرح ساتھ چل ہی رہی تھی، اتنی محنت شروع ہوئی، تو اُس نے اپنا رنگ دِکھانا شروع کیا۔ اسی اثناء میں صاحبِ اولاد تو ہو ہی چُکے تھے، یوں اخراجات مزید بڑھ گئے۔ کبھی کبھار تو نوبت یہاں تک آ جاتی کہ بیوی بچّوں کو میکے روانہ کر دیا جاتا۔ تاہم، شب و روز کی محنت رنگ لائی اور 1927ءمیں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے بی اے اور 1929ءمیں ایل ایل بی کی سند بھی حاصل کر لی۔

قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اُسی کے مطابق کام کرنے کا منصوبہ بھی بنایا اور یوں جودھ پور، یوپی میں وکالت کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ ہی دِنوں میں وکالت چل نکلی۔ جنوری 1930 ء میں مشہور ادبی پرچے، ’’نیرنگِ خیال‘‘ میں اُن کا اوّلین افسانہ، ’’انگوٹھی کی مصیبت‘‘ شایع ہوا، جو ادبی دنیا میں اُن کی فوری شناخت کا ذریعہ بن گیا۔ گویا ادب اور وکالت ہم رشتہ ہو چُکے تھے۔1932 ء میں ’کولتار‘‘ منظرِ عام پر آیا۔ ’’ساقی‘‘ میں افسانے کے طور پر شایع ہونے کے بعد اُس کے مدیر، شاہد احمد دہلوی کے مشورے سے اُسے بعد میں ناول کی شکل دی گئی اور اُسے بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اب لوگ اُن کی تحریروں کے منتظر رہنے لگے۔ اتنی مصروفیات کے باوجود بھی عظیم بیگ چغتائی بہن، بھائیوں کی طرف سے غفلت نہ برتتے اور اُنہیں پڑھانے لکھانے کی مقدور بھر کوشش جاری رکھتے۔ ملازمت کی مصروفیات کے باعث وہ پہلے آگرہ پھر رام پُور اور پھر جودھ پُور چلے آئے۔ کچھ ہی وقت گزرا تھا کہ جاورہ کے نواب نے اُنہیں اپنے ہاں آنے کی دعوت اس پیش کش کے ساتھ کی وہ ریاست میں چیف جج کا عُہدہ قبول کر لیں۔ گو ،والد نے اُنہیں منع کیا کہ وہ ملازمت سے انکار کر دیں اور وجہ یہ تھی کہ انہیں نوّابین کی ملازمت پسند نہیں تھی۔ تاہم، عظیم بیگ چغتائی کو یہ پیش کش پسند آئی اور یوں وکالت سے منصفی کے منصب پر فائز ہو گئے۔ وہاں ہر طرح کا آرام میسّر تھا۔ سو، وہ روز و شب ذہنی و مالی آسودگی کے ساتھ بسر ہونے لگے۔ وہیں اُنہوں نے ’’کُھرپا بہادر‘‘ تحریر کیا۔ اپنے اثر و رسوخ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے عظیم بیگ چغتائی نے بڑے بھائی کو جاورہ ہی میں سیکریٹری کی ملازمت دلوا دی اور عِصمت چغتائی کو نہ صرف جاورہ میں اپنے پاس بُلا لیا، بلکہ رہنے کو گھر الگ کمرا بھی مہیّا کر دیا۔ یہی وہ وقت تھا کہ جب اُنہیں اپنی چھوٹی بہن، عِصمت چغتائی میں ادیبانہ اور باغیانہ خیالات نظر آئے۔ سو، اُنہوں نے بہن کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ عِصمت چغتائی کی تعلیم مکمّل ہوئی، تو اسکول میں ملازمت دلوانے میں بھی معاونت کی۔ چھوٹے بھائی، جسیم بیگ کی خواہش تھی کہ وہ انگلستان جائے، مگر والد رضا مند نہ تھے۔ عظیم بیگ چغتائی نے اپنے خرچ پر چھوٹے بھائی کو باہر بھیجا۔ کچھ ہی وقت گزرا کہ اُن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اب وہ بہن، بھائیوں کی پہلے سے زیادہ دیکھ بھال کرنے لگے۔ تاہم، محض دو سے تین برس ہی ہونے کو آئے تھے کہ آب و ہوا نے اپنا ستم ڈھانا شروع کیا اور بچپن ہی سے بیماریوں سے نبرد آزما، عظیم بیگ چغتائی کو لاحق سانس کا عارضہ ایک بار پھر شدّت اختیار کر گیا۔ اطبّاء نے صلاح دی کہ جائے قیام کا بدلنا ضروری ہے۔ یوں ملازمت سے استعفیٰ دے کر ایک بار پھر جودھ پُور کا رُخ کیا اور وکالت کا سلسلہ دوبارہ شروع کردیا۔

جودھ پُور میں وکالت کے ساتھ اپنی کتابوں کی اشاعت کے لیے ’’دفترِ کتابت‘‘ قائم کیا۔ وہ سرِ ورق سے جِلد بندی تک کے مراحل خود سر انجام دیتے۔ بیماری ایک بار پھر عود کر آئی۔ کچھ خانگی مسائل بھی درپیش ہوئے۔ بھائیوں کی جانب سے بھی معاندانہ رویّے کا سامنا کرنا پڑا۔ نیز، اہلیہ خود مریض بن گئیں۔ یوں عظیم بیگ چغتائی چومکھی لڑتے لڑتے بالآخر 20 اگست 1941 ء کو دُنیا سے رخصت ہو گئے۔ اُن کے انتقال کے بعد شاہد احمد دہلوی کی ادارت میں نکلنے والے ادبی جریدے، ’’ساقی‘‘ کے اگست 1942 ء کے شمارے میں محمد حسن عسکری نے اُن پر تحریر کیے گئے مضمون میں لکھا کہ’’چغتائی نے اپنے زمانے کے لڑکوں اور لڑکیوں کی نیم شعوری اور دَبی ہوئی آرزوؤں کو گویائی بخشی اور اُنہیں اِن خواہشات اور مطالبات کے جائز اور برحق ہونے کا یقین دلایا۔ چغتائی صرف مقبول اور ہر دِل عزیز ہو کر نہیں رہ گیا۔ اپنے زمانے کے جوان ہوتے ہوئے لڑکوں اور خصوصاً لڑکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کی ذہنی اور جذباتی تعمیر میں بھی اُس کا ایک خاموش اور چُھپا ہوا حصّہ ہے، جو اتنا گہرا ہے کہ پہلی نظر میں دکھائی نہیں دیتا۔‘‘

اگست کا مہینہ اور 1915ء کا سال تھا کہ جب عِصمت چغتائی یوپی کے مشہور شہر، بدایوں میں پیدا ہوئیں۔ کُنبہ کثیر العیال تھا کہ عِصمت اپنے ماں باپ کی نویں اولاد تھیں۔ بہن، بھائیوں کی ترتیب کچھ یوں بنتی ہے۔ رفعت خانم، نسیم بیگ چغتائی، عظیم بیگ چغتائی، فرحت خانم، عظمت خانم، وسیم بیگ چغتائی، جسیم بیگ چغتائی، بسیم بیگ چغتائی، عصیم بیگ چغتائی۔ عُمر کا ابتدائی دَور بہنوں کی بہ جائے بھائیوں کی سنگت میں گزرا۔ وجہ یہ رہی کہ عِصمت کی نو عُمری ہی میں بڑی بہنیں بیاہی جا چُکی تھیں۔ اب کبھی ہاکی تھی، تو کبھی فُٹ بال اور کبھی گلی ڈنڈا۔ عِصمت کو کبھی یہ احساس ہی نہ ہوا کہ یہ لڑکیوں کے کھیل نہیں ہیں۔ بات بات پر شرمانا، لجانا اور سِمٹنا سِمٹانا، جو عمومی طور پرکم سِن لڑکیوںکے انداز سمجھے جاتے ہیں، عِصمت کو چُھو کر بھی نہ گزرے۔ جودھ پُور، آگرہ، علی گڑھ وہ جگہیں تھیں کہ جہاں عِصمت کے روز و شب بسر ہوئے اور وجہ اُن کے والد کی مختلف مقامات پر ہونے والی سرکاری تعیّناتی تھی۔ ابتدائی طور پر اور گھریلو اور سماجی روایات کے عین مطابق، عِصمت کو بھی پہلے قدم کے طور پر مولوی صاحب کے ذریعے تدریس کا سلسلہ شروع کروایا گیا۔ تاہم، عِصمت اس سلسلے سے ذہنی طور پر ہم آہنگ نہ ہو سکیں ،تو اُن کا داخلہ آگرہ کے دھن کوٹ اسکول کے چوتھے درجے میں کروا دیا گیا۔ یہ 1920-21ء کے آس پاس کا زمانہ تھا۔ ذہانت کے باعث ڈبل پروموشن کر دی گئی۔ یعنی ایک کی بہ جائے دو جماعتیں آگے کر دیا گیا۔ اسکول کی بنیادی تعلیم آگرہ میں مکمّل ہوئی، تو عِصمت نے مزید پڑھنے کا ارادہ کیا اور گھر والوں کی مخالفت کے باوجود علی گڑھ سے مِڈل کا امتحان بھی پاس کر لیا۔

1925-26 ء کا سال آیا۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ جب متوسّط طبقے میں عورت کی زیادہ تعلیم کو بہ خوشی قبول نہیں کیا جاتا تھا۔ یوں مزید تعلیم کا خواب عِصمت کو بکھرتا نظر آنے لگا۔ اسی اثنا میں لکھنے کا شوق بھی پیدا ہو چلا۔1928 ء کا سال تھا کہ جب عِصمت چغتائی نے پہلی بار افسانہ تحریر کیا۔ تاہم، گھر کی معاندانہ فضا کو دیکھتے ہوئے اُسے اپنے نام کی بہ جائے اپنی ایک سہیلی کے نام سے شایع کروایا۔ تحریر شایع ہوئی، تو بے حد خوشی ہوئی اور مزید لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ پُشت پر بڑے بھائی، عظیم بیگ چغتائی، جو ایک بڑے قلم کار بھی تھے، حوصلہ افزائی کے لیے موجود تھے۔ یہ1930-31ء تھا اور عِصمت کے خیالات جس سمت جا رہے تھے، اُن کا الفاظ میں اظہار خود کو دشواریوں میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ سو، کچّی عُمر کے خام خیالات بِن کِھلے ہی مُرجھا کے رہ گئے۔ ساری تحریریں آگ کی نذر کر دی گئیں۔ اب عِصمت کی مزید تعلیم کی لگن ضد کی شکل اختیار کر گئی۔ گرچہ والدہ سمجھ دار اور جہاں دِیدہ خاتون تھیں، تاہم عِصمت کی بے باکی سے حد درجہ نالاں تھیں۔ یوں انہوں نے عِصمت کی مزید تعلیم حاصل کرنے کی خواہش پر پہرے بٹھانے کی کوشش کی، نتیجتاً گھر کی فضا مکدّر ہو چلی۔ ایسا اس گھر میں دوسری مرتبہ دیکھنے میں آ رہا تھا۔ پہلا موقع وہ تھا کہ جب عِصمت کے بڑے بھائی، مرزا عظیم بیگ چغتائی نے اپنی اہلیہ کا پردہ ختم کروایا تھا۔ اس واقعے پر گھر میں گویا بھونچال سا آ گیا تھا۔ سب سے زیادہ مخالفت اور غصّے کا اظہار ماں کی طرف سے کیا گیا تھا۔ تاہم، عظیم بیگ چغتائی کے اٹل ارادے کے آگے کچھ نہ چل سکا۔ اب یہ دوسرا موقع تھا اور ماں بیٹی آمنے سامنے تھیں۔ ماں نے کہا کہ ’’لڑکی کی حرکتیں ہماری آنکھ نیچی کروا کے رہیں گی۔ سو، مَیں اسے مزید پڑھنے نہ دوں گی۔‘‘ نتیجہ خوف ناک شکل میں سامنے آیا۔ عِصمت نے دھمکی دے دی کہ اگر مزید تعلیم کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے، تو وہ نہ صرف گھر چھوڑ دے گی، بلکہ عیسائی مذہب بھی اختیار کر لے گی۔ باپ نے موقعے کی نزاکت دیکھتے ہوئے عِصمت کو آگے پڑھنے کی نہ صرف اجازت دے دی، بلکہ تعلیم کے لیے معمول سے زیادہ رقم بھی فراہم کر دی۔ یہ عِصمت کے لیے سرشاری کا مقام تھا۔

علی گڑھ میں تعلیم پاتے ہوئے بورڈنگ ہائوس میں رہنا پڑا۔ تاہم، عِصمت نے اپنی محنت اور لگن سے 1932ء میں سیکنڈ ڈویژن میں میٹرک کا امتحان پاس کر لیا۔ کتابیں پڑھنے کی لَلَک تھی، جو کبھی ختم ہونے ہی میں نہ آتی تھی۔ اُردو افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں سے فرصت ملی، تو پہلے انگریزی ادیب اور پھر روسی ادیب بھانے لگے۔ ہارڈی، برناڈشا، برانٹی سسٹرز، چیخوف، غرض ایک سے ایک ادیب عِصمت کا دل موہ لیتا۔ جس چیز سے عِصمت کو سب سے زیادہ نفرت تھی، وہ تھی عورت کا اپنے آپ کو بے بس جاننا۔ وہ عِصمت جو بچپن ہی سے عورت اور مرد کی کسی خاص تخصیص کی قائل نہ تھی، نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے تو ہندوستانی سماج کی عورت کے سلسلے میں روا رکھی جانے والی ظالمانہ رسوم و قیود کو شاید ایک لمحہ بھی برداشت کرنے پر آمادہ نہ تھی۔ اس پورے عرصے میں باغی اور ضدّی عِصمت کے ساتھ ایک قلم کار عِصمت چغتائی برابر چل رہی تھی۔ گرچہ اب تک تحریر نے اشاعت کا لبادہ نہیں اوڑھا تھا۔1934 ء تھا کہ جب عِصمت نے علی گڑھ سے ایف اے کا امتحان بھی پاس کر لیا۔ علی گڑھ ہی میں بی ایڈ کرتے ہوئے ڈرامے کا شوق ہوا اور اس کا سبب دراصل برناڈ شا کے ڈرامے تھے کہ جن سے عِصمت کو اوائلِ عُمری ہی سے لگاؤ تھا۔ مختصر ڈرامے لکھ لکھ کر اپنی ہم جماعتوں سے اسٹیج کرواتیں۔ یہاں تک ہوا کہ لڑکیاں عِصمت کو برناڈ شا کہہ کر بُلانے لگیں۔ 1935-36ء میں عِصمت کی ملاقات رشید جہاں سے ہوئی اور پھر عِصمت کے دل و دماغ پر گویا رشید جہاں نے قبضہ کر لیا۔ رشید جہاں ’’انگارے‘‘ کی وجہ سے ادبی حلقوں میں مشہور ہو چُکی تھیں۔ شیخ محمد عبداللہ کی صاحب زادی، رشید جہاں ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھیں اور واضح ترقّی پسندانہ سوچ اُن کا طُرّۂ امتیاز تھا۔ بھائی، عظیم بیگ چغتائی کے بعد یہ دوسری ہستی تھی کہ جو عِصمت کے دِل و دماغ پر چھا چُکی تھی اور عِصمت نے گویا اُنہیں اپنا گرو مان لیا۔ انجمن ترقی پسند مصنّفین کا اوّلین اجلاس ہوا، تو عِصمت اُس وقت بی اے کی طالبہ تھیں۔ رشید جہاں سے اُن کی ملاقاتیں رنگ لا رہی تھیں۔ ذہن کے بند دریچے وا ہوا ہی چاہتے تھے۔ رشید جہاں ہی کے اصرار پر عِصمت اپنی چند سہیلیوں کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوئیں اور پریم چند سمیت دیگر بڑے ادیبوں اور شعراء کو دیکھا۔ 1938 ء میں ازابیلا تھوبرن،کالج، لکھنٔو سے بی اے کی سند حاصل کی۔ وہ بھی ایسے عالم میں کہ گھر والے اور عزیز و اقارب حسبِ سابق عورتوں کی تعلیم اور خصوصاً عصمت چغتائی کی اعلیٰ تعلیم کے حق میں نہیں تھے۔ اسی سال ’’ساقی‘‘ میں اُن کی اوّلین تحریر، ’’بچپن‘‘ شایع ہوئی۔

یہ ساری مشغولیات اور ہنگامے چل ہی رہے تھے کہ 1939 ء میں ڈراما، ’’فسادی‘‘ منظرِ عام پر آیا اور اسے خاطرہ خواہ پزیرائی ملی۔ یہ بھی ’’ساقی‘‘ ہی میں شایع ہوا۔ کچھ ہی وقت میں کہانی ’’نیّرہ‘‘ کی اشاعت ’’ساقی‘‘ میں اور ’’گیندا‘‘ کی اشاعت ’’نیا ادب‘‘ لکھنٔو میں ہوئی۔ اب لوگ عصمت کے نام اور کام سے واقف ہو چلے تھے۔ اس کے اگلے ہی برس یعنی 1940ء میں ’’ٹیچر ٹریننگ‘‘ کی سند بھی حاصل کر لی۔ ’’تکملہ‘‘،’’ڈائن‘‘،’’کیوں رے کتّے‘‘، ’’بچّہ‘‘ اور دیگر افسانے گاہے گاہے مختلف معروف ادبی پرچوں کی زینت بنے۔1941 ء کا سال آیا، تو عِصمت ’’سپرنٹنڈنٹ آف میونسپل گرلز اسکول، بمبئی‘‘ کے طور پر کام کرنے لگیں۔ اسی سال جب اُن کے برادرِ بزرگ، عظیم بیگ چغتائی کا انتقال ہوا، تو عِصمت نے ’’دوزخی‘‘ کے عنوان سے’’ساقی‘‘ میں اُن کا خاکہ تحریر کیا، جس نے بے انتہا شُہرت حاصل کی۔ تحریر کو اس حد تک سراہا گیا کہ سعادت حسن منٹو جیسے روایت شِکن افسانہ نگار نے ’’دوزخی‘‘ پڑھنے کے بعد اپنی بہن سے کہا کہ’’اگر میری موت پر تم ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کرو، تو خدا کی قسم! مَیں آج مرنے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ اسی سال ’’ضدّی‘‘ کی اشاعت ہوئی اور یہ وہی کتاب تھی کہ جس کا انتساب عِصمت نے اپنے مرحوم بھائی، عظیم بیگ چغتائی کے نام کیا تھا۔ عِصمت کا پہلا افسانوی مجموعہ، ’’کلیاں‘‘ بھی اسی سال زیورِ اشاعت سے آراستہ ہوا۔1942 ء وہ سال تھا کہ جب عِصمت چغتائی کا افسانہ، ’’لحاف‘‘ احمد ندیم قاسمی کی ادارت میں نکلنے والے مشہور ادبی پرچے، ’’ادبِ لطیف‘‘ میں شایع ہوا۔ افسانہ، ’’لحاف‘‘ کیا شایع ہوا، ہندوستان کے طول و عرض میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ عِصمت کے مخالفین کو تو موقع ملا ہی ملا، خود عِصمت کے حمایتی بھی اُن کی حمایت سے کترانے لگے۔ اور تو اور، ترقّی پسند مصنّفین بھی دنگ رہ گئے۔ افسانے کی اشاعت کو زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ میں طلبی ہو گئی۔ یہی وہ سال بھی تھا کہ جب عِصمت کو شاہد لطیف کی صورت میں ایک شریکِ زندگی مل گیا۔ اب زندگی کے رشتوں میں ایک نیا رشتہ شوہر اور زندگی کے رنگوں میں ایک نیا رنگ یعنی ازدواجی رنگ بھی شامل ہو گیا۔ گویا زندگی حسین نظر آنے لگی۔ شاہد لطیف بمبئی جیسے مصروف ترین تجارتی شہر میں وہاں کی بہ ظاہر رومانی نظر آنے والی فلمی دُنیا سے بہ حیثیت ڈائریکٹر اور مکالمہ نویس وابستہ تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو خاصے وقت سے جانتے تھے اور ذہنی ہم آہنگی کا یہ سفر ایک رشتے کی صورت منزل تک پہنچ گیا۔ گرچہ گھر والے اس رشتے سے خوش نہ تھے اور بڑے بھائی تو اس حد تک خفا تھے کہ آیندہ زندگی میں انہوں نے بہن سے کلام تک نہ روا رکھا۔ تاہم، عِصمت اپنے لیے جو مناسب سمجھتیں، کر گزرتیں۔ شادی نئی نئی ہوئی تھی کہ ’’لحاف‘‘ پر مقدّمے کا معاملہ شروع ہو گیا۔ شاہد اس صورتِ حال سے بہت کبیدہ خاطر ہوئے۔ میاں بیوی میں خاصی تکرار بھی رہی۔ تاہم، بات زیادہ نہیں بگڑی ۔’’لحاف‘‘ کے عنوان سے عِصمت نے ’’بیگم جان‘‘ نامی ایک ایسی خاتون کی کہانی رقم کی کہ جسے ایک عیّاش نواب شوہر کی جانب سے مسلسل عدم توجّہی کا سامنا رہا۔ بہرحال، وقت گزرا تو یہ ہنگامہ بھی بہت سے دیگر ہنگاموں کی طرح سرد پڑ گیا۔ تحریروں کاسلسلہ جاری تھا ۔ قارئین عِصمت کی تحریروں کے بے تابی سے منتظر رہتے۔ مئی 1944ء میں عِصمت کا ناول، ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ شایع ہو کر مقبولیت کی انتہا تک پہنچا۔ جدید اُردو تنقید کے سربر آوردہ اصحاب میں سے ایک، خلیل الرحمٰن اعظمی کے بہ قول، ’’عِصمت کا سب سے اہم کارنامہ اُن کا ناول، ٹیڑھی لکیر ہے۔‘‘ کتاب کا انتساب شاید اس حد تک منفرد تھا کہ اُس نوعیت کا انتساب پیش تر ازیں کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔ عِصمت نے انتساب کچھ یوں کیا کہ’’اُن یتیم بچّوں کے نام، جن کے والدین بقیدِ حیات ہیں۔‘‘یہ ناول کسی حد تک عِصمت کی آپ بیتی بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

اپنے شوہر، شاہد لطیف کی وساطت سے عِصمت فلم انڈسٹری سے بھی وابستہ ہو گئیں اور یوں فلمز کے لیے کہانیاں لکھنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔1961ء میں ناول، ’’معصومہ‘‘ کی اشاعت ہوئی۔ تقسیمِ ہند کے پس منظر میں تحریر کیا گیا یہ ناول ایک گھر کی کہانی ہے کہ جس میں باپ ،اپنی بیوی اور بچّوں کو ہندوستان چھوڑ کر پاکستان چلا جاتا ہے اور یہ امید دِلاکر جاتا ہے کہ وہاں ملازمت حاصل کرتے ہی گھر والوں کو پاکستان بُلا لے گا، مگر باپ نے وہاں پہنچ کر 18برس کی لڑکی سے شادی رچا لی۔ اِدھر ماں اپنے بچّوں کے ساتھ شوہر کی راہ تکتی ہے، مگر جب یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہاں شوہر نے اپنی بیٹی کی ہم عُمرلڑکی سے شادی کر لی ہے، تو وہ اپنے بچّوں کی کفالت کے لیے اپنی بڑی بیٹی کو جسم فروشی کی راہ دکھا تی ہے اور یوں اپنی دانست میں بے وفا شوہر سے انتقام لیتی ہے۔ عِصمت کے موضوعات اور اندازِ تحریر پر اعتراضات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا۔ مَرد، خواتین، نقّاد، مولوی حضرات غرض ہر سُو ایک شور تھا۔ تاہم، عِصمت سب سے بے نیاز اپنے قلم سے ہندوستانی سماج کی عورت مخالف بنیادوں کو جَڑ سے اُکھاڑ پھینکنے میں مصروف تھیں۔ ناول، ’’سودائی‘‘ 1964 ء میں شایع ہوا۔1967 ء وہ سال تھا کہ جس میں عِصمت کے شوہر انتقال کر گئے۔ 1970ء کے عشرے میں اُن کا ناول، ’’ایک قطرۂ خون‘‘ سامنے آیا۔ واقعۂ کربلا کے پس منظر میں تحریر کیا گیا یہ ناول دراصل میر انیسؔ کے مرثیوں سے متاثر ہو کر اور دشتِ کربلا میں حسین ابنِ علیؓ کے6ماہ کے بچّے، علی اصغر کی حُرملا کے تیر سے ہونے والی شہادت کی یاد میں لکھا گیا تھا۔

ممتاز ترین نقّاد، مجنوں گورکھ پوری نے عِصمت کی تحریروں پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ’’نہ موضوع کے اعتبار سے وہ کسی کی خوشہ چیں کہیں جا سکتی ہیں، نہ اسلوب کے اعتبار سے۔ دونوں ان کی اپنی ذہانت اور طبّاعی کی پیداوار ہیں اور باہم مل کر ایک پورا مزاج بن گئے ہیں۔‘‘ عِصمت نے افسانوں، ناولوں اور ڈراموں کے علاوہ’’ہم لوگ‘‘ کے عنوان سے خاکے بھی تحریر کیے۔ اُردو ادب کی ایک اور بے بدل مصنّفہ، قراۃ العین حیدر نے عِصمت چغتائی کو ’’لیڈی چنگیز خاں‘‘ کا نام دیا تھا۔24 اکتوبر 1991ء کو ممبئی میں جس وقت عِصمت کا انتقال ہوا، تو وہ ایک بار پھر خبروں کا موضوع قرار پائیں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اُن کی وصیّت تھی کہ اُنہیں دفنانے کی بہ جائے ہندووانہ رسم کے تحت نذرِ آتش کیا جائے اور راکھ کو گنگا ، جمنا کے پانیوں میں بہا دیا جائے۔ ذوویہ حمید الدّین کے مطابق ، عِصمت چغتائی کی خواہش تھی کہ اُنہیں اپنی بہن کے پہلو میں دفن کیا جائے، مگر اُن کے نواسے اشیش نے ایسا نہ ہونے دیا اور ہندوانہ رسم کے مطابق اُنہیں نذرِ آتش کر کے ایک تنازعے کو جنم دیا۔ وصیّت کی صداقت سے قطع نظر عِصمت چغتائی کی پوری زندگی ہنگامہ خیزی سے پُر ہے اور واقعات کا نہ ختم ہونے والا بہاؤ ادب کے قاری کو اپنے ساتھ بہائے لیے جاتا ہے۔

اگر عظیم بیگ چغتائی کی اولاد کی بات کی جائے، تو اُن کے 3بیٹے اور 3بیٹیاں تھیں۔ سب سے بڑی بیٹی کا نام نزہت چغتائی تھا۔ وہ تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ علی گڑھ سے بی اے اور بی ٹی سی تک تعلیم پائی۔ اُن کے شوہر کا نام، حمید الدّین تھا۔ اُن کی اولاد میں ایک بیٹا اور بیٹی شامل ہیں۔ بیٹی، ذوویہ حمید نے اپنے نانا کی میراث یعنی قلم کا عَلَم بلند کیا ہوا ہے۔ نیویارک میں مقیم، ذوویہ انگریزی زبان میں افسانے تحریر کرتی ہیں ،جو کتابی شکل میں شایع ہو چکے ہیں۔ دوسری بیٹی، مدحت چغتائی کی شادی، سعید حسن خاں سے ہوئی۔ اُن کی اولاد میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں شامل ہیں۔ خاور سعید، کوثر سعید بیٹیاں اور فرہاد خاں اور انجم خاں بیٹے ہیں۔ تیسری بیٹی، طلعت چغتائی کو عظیم بیگ چغتائی کی بہن نے گود لے لیا تھا۔ اُن کی شادی ڈاکٹر آفاق حسین برلاس سے انجام پائی۔ بیٹے کا نام داؤد برلاس ہے۔ عظیم بیگ چغتائی کے تین بیٹوں میں مرزا زعیم بیگ، مرزا نجیم بیگ چغتائی اور مرزا علیم بیگ شامل ہیں۔ مرزا زعیم بیگ کی شادی شاہین خاں سے ہوئی۔ اولاد میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔ مرزا نجیم بیگ چغتائی کی شادی شمیم مرزا سے ہوئی۔ ان کی اولاد میں ندرت چغتائی، نصرت چغتائی اور تسنیم چغتائی شامل ہیں۔ مرزا علیم بیگ چغتائی نے کراچی یونی ورسٹی سے ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کی اور مُلک کے ممتاز قانون دانوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی شادی عقیلہ خاتون سے انجام پائی۔ اولاد میں ایک بیٹی شامل ہے، جس کا نام نکہت چغتائی ہے۔ عِصمت چغتائی کی شادی 1942 ءمیں شاہد لطیف سے ہوئی۔ اُن کی اولاد میں سیما اور سبرینا شامل ہیں۔ سیما کی شادی ایک غیر مسلم سے انجام پائی اور وہ اب حیات نہیں ہیں، جب کہ سبرینا ایک پارسی ڈاکٹر کے ساتھ کام کرتی تھیں اور اُسی ڈاکٹر سے شادی کی۔ (تصاویر: بہ شکریہ، راشد اشرف)

تازہ ترین