• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وزیراعظم کا دورہ چین: سی پیک کا منصوبہ اب تیزی سے آگے بڑھے گا

آسیہ بی بی کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کر دی گئی ہے تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان معاہدہ کے نتیجے میں ملکی حالات معمول پر آگئے ہیں لیکن یہ معاہدہ حکومتی و ریاستی رٹ کے بارے میں کئی سوالات چھوڑ گیا ہے۔ سپریم کورٹ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ہے۔ سپریم کورٹ کے بعض سیاسی فیصلوں پر ماضی میں بھی تنقید ہوتی رہی مگر بہرحال اس کی قانونی اور آئینی حیثیت ہوتی ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ کسی کو پسند ہے یا نہیں یہ الگ بات ہے مگر اس پر عمل کرانا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جب آپ لوئر کورٹ اور ہائیکورٹ کے فیصلہ کو تسلیم کرتے ہیں تو سپریم کورٹ کے حق فیصلے کو بھی تسلیم کریں۔ سپریم کورٹ کے ججز لوئر کورٹس کے ججز سے زیادہ تجربہ اور اہلیت رکھتے ہیں انکی ججمنٹ کا احترام کیا جائے۔ فیصلے کے خلاف نظرثانی کا حق استعمال کر لیا گیا ہے۔ حکومت نے معاہدہ میں تسلیم کر لیا ہے کہ حکومت مدعا علیھان کے اس حق پر اعتراض نہیں کرے گی۔ آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ بھی تسلیم کر لیا گیا ہے۔ تحریک لبیک کی قیادت نے اس واقعے کے دوران جس کسی کی بلاجواز دل آزاری یا تکلیف ہوئی ہے ان سے معذرت کر لی ہے۔ اس معاہدے کا اہم نکتہ یہ ہے کہ 30 اکتوبر سے دونومبر تک مظاہروں کے دوران گرفتار کئے گئے کارکنوں کو رہا کر دیا جائے گا۔ سیاسی کارکنوں کو رہا کرنا ماضی میں بھی روایت رہی ہے لیکن ان چار دنوں میں جس طرح بے گناہ شہریوں کے موٹر سائیکل چھین کر نذر آتش کئے گئے ۔ کئی گاڑیوں کو آگ لگائی گئی۔ فیملیز کو گاڑیوں سے نکال کر گاڑیوں کو جلایا گیا۔ بسیں اور ٹرک جلائے گئے۔ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ فیض آباد فلائی اوور بند کر کے اسلام آباد کی دو اہم داخلی شاہراہوں کو بند کر دیا گیا۔ ایکسپریس وے بند کر دی گئی۔ اسلام آباد ہائی وے بین الالضلعی شاہراہ ہے جہاں سے ہیوی ٹریفک بھی گزرتی ہے جو 4 دن بند رہی۔ تعلیمی ادارے بند کرنے پڑے۔ یوں دیکھا جائے تو اربوں روپے کا نقصان ہوا بیرون ملک پاکستان کا امیج خراب ہوگیا۔ انصاف یہ ہے کہ یہ عین اس موقع پر ہوا جب وزیراعظم عمران خان چین کے سرکاری دورے پر تھے۔ وزیراعظم نے سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد قوم سے خطاب میں اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ دھمکیاں دینے اور اکسانے والوں کے خلاف ریاست ذمہ داری پوری کرے گی۔ ریاست عوام کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری پوری کرے گی۔ قومی اسمبلی میں بھی اس معاملے پر بحث کی گئی۔ پہلی مرتبہ یہ ہوا کہ اس ایشو پر اپوزیشن نے حکومت سے تعاون کیا۔ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے خواجہ سعد رفیق نے پی ٹی آئی کو یاد دلایا کہ یہ مذہبی کارڈ ہمارے خلاف استعمال کیا گیا تو آپ نے ہمارا مذاق اڑایا لیکن آج وہی مذہبی کارڈ آپ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ بلاول بھٹو نے بھی واضح طور پر حکومت کو تعاون کا یقین دلایا۔ اپوزیشن کا تعاون ملنے کے بعد وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بھی دو ٹوک انداز میں کہا کہ کوئی دھوکے میں نہ رہے کہ ریاست کمزور ہے۔ پاکستان کو بنانا ری پبلک نہیں بنانے دیں گے ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا بغاوت کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر اس صورتحال کا تجزیہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت تحریک لبیک کے دباؤ میں آگئی اور انکی شرائط پر معاہدہ کر لیا۔ شہری حکومت سے یہ سوال کرنے میں ضرور حق بجانب ہیں کہ آئین اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ پرامن احتجاج بھی تحریک لبیک کا حق ہے لیکن جب تحریک لبیک کے کارکنوں نے تشدد کا راستہ اپنایا اور جلاؤ گھیراؤ کرکے شہریوں کا حق آمدورفت چھین لیا گیا۔ ان کے موٹر سائیکل، کاریں، بسیں اور ٹرک جلا دیئے گئے۔ ٹرکوں اور کنٹینرز کے ذریعے جارنے والا فروٹ اور سبزی ضائع ہوگئی۔ پٹرول پمپوں پر پٹرول اور ڈیزل کی قلت پیدا ہوگئی۔ ان کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز، منتخب وزیراعظم اور سپہ سالار کے بارے میں جو زبان استعمال کی گئی وہ نہایت افسوسناک اور ناقابل قبول ہے۔ جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو قانون نافذ کرنے والے ادارے ریاست اور حکومت کی رٹ قائم کرنے کیلئے کیوں متحرک نہیں ہوئے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں بھی تحریک لبیک کے دھرنے ختم کرنے کیلئے حکومت دعوے کرتی رہی مگر بوجوہ ایکشن سے گریز کیا گیا جس سے حکومت اور ریاستی رٹ کمپرومائز ہوئی اب یہ وہی ہوا یعنی حکومت نے ساری توانائیاں رٹ قائم کرنے کی بجائے تحریک لبیک کی قیادت کو راضی کرنے میں صرف کی۔ اس سے وزیراعظم عمران خان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ یہ دور ایسا ہے جس میں شہروں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وڈیو کلپس چل رہے ہیں۔ آسانی کے ساتھ ان لوگوں کی شناخت کی جاسکتی ہے جنہوں نے تشدد کا راستہ اختیار کیا۔ جلائو گھیرائو کیا۔ آئینی اداروں کے بارے میں ناقابل اعتراض ریمارکس دیئے۔ توہین عدالت کا ارتکاب کیا۔ فوج ہمارا قومی ادارہ ہے اسے بلاوجہ ہر معاملے میں گھسیٹنا بھی افسوسناک بات ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر حکومت ایسا کرنے والوں کی رہائی کیلئے معاہدے پر دستخط کرے گی تو اس سے تو ان تشدد پسند عناصر کے حوصلے مزید بلند ہوں گے۔ عشق رسولﷺ کے بغیر تو ایمان ہی مکمل نہیں ہوسکتا۔ آسیہ بی بی ہو یا کوئی اور کسی کو بھی توہین رسالت کی اجازت نہیں دی جاسکتی توہین رسالت کے معاملے پر احتجاج کرنا تحریک لبیک کا آئینی حق ہے بلکہ قابل تحسین جذبہ ہے ان کی نیک نیتی پر کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا لیکن تحریک لبیک کی قیادت کو ان صفوں میں ایسے لوگ شامل نہ ہوں جو پرتشدد کارروائیوں میں ملوث ہوئے۔ اس سے علمائے کرام اور مذہبی طبقے کا امیج بلکہ مجموعی طور پر اسلام کا امیج متاثر ہوتا ہے۔ عشق رسول کے نام پر دوسرے عاشقان رسول کی املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے۔ حرمت رسول پر ہم سب کی جان قربان مگر ہمیں قانون اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے پرامن احتجاج کرنا چاہئے۔ وزیراعظم عمران خان چین کے دورے سے واپس آگئے ہیں۔ اس دورے میں ان کا گرم جوشی سے خیرمقدم کیا گیا۔ پاکستان اور چین کے درمیان 15 معاہدوں اور مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کیلئے چین نے امدادی پیکج بھی دیدیا ہے۔ سی پیک کا منصوبہ اب زیادہ تیزی سے آگے بڑھے گا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ابتدائی طور پر سی پیک کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن اب حکومت کا سی پیک کے بارے میں رویہ یکسر بدلا ہوا نظر آرہا ہے۔ وزیراعظم پہلے یہ معلوم کریں گے کہ 4 دنوں میں ملکی معیشت کو کتنے ارب کا نقصان ہوا ہے۔ حکومت ایک جانب معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے دوست ممالک سے تعاون حاصل کر رہی ہے دوسری جانب صرف 4 دن میں ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا دیا گیا ہے جن لوگوں کی املاک، کاروبار اور گاڑیاں تباہ ہوئی ہیں ان کے نقصان کا ازالہ کون کرے گا۔ اب یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملے کو سیریس لے۔ تمام سیاسی جماعتوں کا تعاون حاصل کرے۔ پرتشدد مظاہروں سے بچنے کیلئے ایک قومی بیانیہ تشکیل دیا جائے۔ معاشرے میں تشدد کے رجحان کو فروغ دینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس ایشو پر ملک کی سیاسی وعسکری قیادت یکسو ہو کر ملک وقوم کے مفاد میں ایک قومی بیانیہ پر اتفاق کرے۔ حکومت کو یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ وہ بہرحال شہریوں کے جان ومال کا تحفظ نہ کرکے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ جن شرپسند عناصر کی ویڈیوز کے ذریعے شناخت ہوگئی ہے انہیں ہرگز معاف نہ کیا جائے بلکہ کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی ایسی حرکت نہ کرے۔ دینی جماعتوں کی قیادت کو بھی ایسے عناصر سے اعلان لاتعلقی کرنا چاہئے جنہوں نے سڑک سے گزرنے والی موٹر سائیکلیں، کاریں اور بسیں چھین کر انہیں نذر آتش کیا یہاں تک کے کیلے بیچنے والا غریب کے کیلے چھین لئے گئے۔ آنحضرتﷺ کی تعلیمات تو یہ ہیں کہ تم میں سب سے اچھا انسان وہ ہے جو دوسروں کیلئے خیر یعنی بھلائی کا باعث ہو۔ وزیراعظم عمران خان کیلئے اب یہ امتحان ہے کہ وہ جرأت سے پرتشدد رجحان کو ہمیشہ کیلئے ختم کرنے کیلئے عملی اقدامات کرتے ہیں یا ماضی کے حکمرانوں کی طرح مٹی پائو کے مصلحت پسندانہ کمزور رویے کو اپناتے ہیں۔ وہ یہ یاد رکھیں کہ اگر اس وقت درست اور کڑوا فیصلہ نہ کیا گیا تو پھر یہی جلائو گھیرائو کے مناظر خدانخواستہ دوبارہ دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ غیرمقبول فیصلوں کی قیمت ضرور ادا کرنی پڑتی ہے مگر نیت اور جذبہ نیک ہو تو ملک وقوم کے مفاد میں ایسے فیصلے مدبر اور بہادر قیادت کر دکھاتی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین