• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرکارِ دوجہاں، محسنِ انسانیت، سرورِ کائنات،امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذاتِ گرامی کو اللہ تعالیٰ نے جو بلند مقام، عظمت و محبوبیت عطا فرمائی، اس میں کوئی آپؐ کا شریک نہیں۔عظیم المرتبت صحابی رسول ،حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’اولادِ آدم کا خلاصہ (منتخب اور مقدّس ہستیاں) پانچ ہیں۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم،حضرت موسیٰ،حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور میں، یعنی حضرت محمد ﷺ اور محمدﷺ ان میں سب سے افضل مقام پر فائز ہیں۔‘‘(ابنِ عساکر)

اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’جبرائیلؑ نے مجھ سے کہا کہ’’میں نے مشرق و مغرب میں آپ ﷺ سے افضل اور بُلند مرتبہ کسی کو نہیں دیکھا۔‘‘ (حاکم؍ المستدرک)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق سے پہلے تمہارے نبی ﷺ کا نُور اپنے نُور سے پیدا فرمایا۔ اُس وقت نہ لوح تھی، نہ قلم، نہ جنّت، نہ دوزخ، نہ فرشتے، نہ زمین ،نہ سورج، نہ چاند، نہ جِن، نہ انسان‘‘(مسندِ عبدالرزاق)

حضرت ابو سعید خدریؓسے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جبرائیل امینؑ میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ سے کہا، میرا اور آپؐ کا رب مجھ سے سوال کرتا ہے کہ میں نے کس طرح آپؐ کا ذکر بلند کیا؟میں نے عرض کیا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جب میرا ذکر کیا جائے گا تو میرے ساتھ آپؐ کا بھی ذکر کیا جائے گا۔(الدر المنثور)

حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے’’مقاماً محمودا‘‘ کی تفسیر میں منقول ہے کہ یہ محمد ﷺ کے پروردگارِ عالم کی طرف سے ایک عظیم مقام ہے، جس میں نہ کوئی نبی مرسل کھڑا ہو گا اور نہ مقرب فرشتہ۔ اس مقام پر فائز فرما کر اللہ تعالیٰ آپؐ کا فضل و شرف ساری مخلوق اور اوّلین و آخرین پر ظاہر فرمائے گا۔‘‘( الوفاء باحوال المصطفیٰ ؐ)

گویا وہ تمام فضائل و کمالات جو پروردگارِ عالم نے متفرق طور پر حضرت آدمؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک تمام انبیائے کرامؑ اور رسولوں کو علیحدہ علیحدہ عطا فرمائے تھے، وہ یک جا اور مکمل طور پر افضل الانبیاء، سیّد المرسلین ﷺ کے دامنِ رحمت میں ودیعت کر دیے گئے۔آپﷺ کی تعظیم و توقیر، ادب و احترام اور آپﷺ سے غایت درجہ عقیدت و محبت اور وارفتگی کا جذبہ بھی اہلِ دل کی متاع حیات اور اہلِ ایمان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے۔

حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک صاحبِ ایمان نہیں ہو سکتا، جب تک کہ میں اس کے نزدیک، اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جائوں۔‘‘(بخاری و مسلم)

رسولِ اکرم ﷺ سے عقیدت و محبت کے اظہار میں اسلامی تاریخ کے ہر دور میں اہلِ ایمان نے بے مثال تاریخ رقم کی۔ تاہم عہدِ نبویؐ میں صحابۂ کرامؓ نے آپﷺ کی ذاتِ گرامی سے جس وارفتگی، عقیدت و محبت اور جاں نثاری و فداکاری کے مظاہر پیش کیے، پوری انسانی تاریخ میں اس کی دوسری مثال نہیں ملتی۔

6 ہجری میں ’’صلح حدیبیہ‘‘ کے موقع پر مکے کے نام ور اور جہاں دیدہ سردار عروہ بن مسعود ثقفی جو اس وقت تک دائرۂ اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے، وہ اہلِ مکہ کی جانب سے سفیر اور ان کے نمائندے بن کر بارگاہِ نبویؐ میںحاضر ہوئے، وہاں انہوں نے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے صحابۂ کرامؓ کی عقیدت و محبت، حد درجہ تعظیم و توقیر اور وارفتگی و جاں نثاری کا جو منظر دیکھا، اہلِ مکہ کے سامنے اس کی منظر کشی کرتے ہوئے انہوں نے بیان کیا: ’’اے میری قوم، بخدا، میں کئی بادشاہوں کے دربار میں حاضر ہوا ہوں، مگر بخدا، میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا، جس کی تعظیم و تکریم اس کے رفقاء اور درباری اس حد تک کرتے ہوں۔ جس حد تک محمد ﷺ کے صحابہؓ ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں۔ ان کے ساتھی محمدﷺ کا لعابِ دہن نیچے نہیں گرنے دیتے ،بلکہ وہ کسی نہ کسی کی ہتھیلی پر گرتا ہے اور وہ حصولِ برکت کے لیے اسے اپنے چہرے اور جِلد پر مل لیتا ہے اور جب وہ انہیں کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل میں جلدی کرتے ہیں اور جب محمد ﷺ وضو کرتے ہیں، تو وضو کے مستعمل پانی کو حاصل کرنے کے لیے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ باہم لڑ پڑیں گے، اور جب آپؐ گفتگو کرتے ہیں تو سب کی آوازیں پست ہوجاتی ہیں اور حد درجہ ادب ،محبت اور تعظیم کے باعث وہ آپؐ کی جانب نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔‘‘ (صحیح بخاری)

انصارؓ کی ایک خاتون جس کا باپ، بھائی، شوہر اور جگر گوشہ غزوۂ اُحد میں شہید ہوگئے تھے، انہوں نے صحابہ کرامؓ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کس حال میں ہیں؟ صحابہؓ نے کہا کہ رسولِ اکرم ﷺ بخیروعافیت ہیں۔ حضورِ اکرمﷺ اس طرح ہیں جس طرح تم آپﷺ کو دیکھنے کی خواہش مند ہو۔یہ سن کر اضطراب اور بے چینی کے عالم میں انہوں نے کہا کہ مجھے دکھائو۔ حضور اکرم ﷺ کہاں ہیں؟ جب اس خاتون نے رسول اللہ ﷺ کا دیدار کر لیا اور حضورِ اکرمﷺ کو بخیریت پایا تو اچانک اس کے منہ سے یہ جملے نکلے کہ ’’یارسول اللہﷺ‘‘ اگر آپﷺ سلامت ہیں، تو آپﷺ کی سلامتی کے بعد بڑی سے بڑی مصیبت اور آزمائش میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔‘‘(السیرۃ الحلبیہ)

آپ ﷺ پوری انسانیت کے نجات دہندہ اور محسنِ اعظم ہیں۔ اس بات کا تقاضا ہے کہ پوری انسانیت بلاتفریق مذہب و ملّت آپﷺ کے ادب واحترام کو ملحوظ رکھے۔ جب کہ امت مسلمہ کے دین و ایمان کی بنیاد ہی سرکارِ دو عالم ﷺکی محبت اور آپﷺ کی غلامی اختیار کرنے میں مضمر ہے۔ سرکارِ دوعالمﷺ سے عقیدت و محبت کا اظہار اور آپﷺ کی اطاعت و اتباع، ایمان کا لازمی اور بنیادی تقاضا ہے۔

تازہ ترین