• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اشتیاق احمد

مرزا غالبؔ کے بعد جس اردوشاعر کی غزلوں میں علائم کی متنوع صورتیں ملتی ہیں وہ علامہ اقبال ہیں۔ زمانی حوالے سے دیکھا جائےتو غالبؔ اوراقبال میں طویل بُعد نہیں۔ مذکورہ دونوںبڑے شعراء کی تخلیقی صلاحتیں اس جدیدیت کے تحت ظہور پذیر ہوئیں جو انگریزی تہذیب و تمدن کےزیراثر نشوو نما پا رہی تھی۔ جدیدیت کے اثرات کی قبولیت کے ساتھ ساتھ یہ شعرا روایت سے کلیاً انحراف نہیں کرتے۔ دونوں شعرا میں فنی اور فکری حوالے سے مماثلتیں بھی موجود ہیں اور اختلافات بھی ہیں۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے دونوں شعرا میں مشترک خصوصیات کاذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’برجستہ اور جوش انگیز اسلوب، ارتقائے حیات کے لئے سخت کوشی اور خاراشگافی کا سبق، جذبہ و تفکر کااجتماع، جنون و آشفتگی کا ایک خاص انداز، خود کا شعور۔‘‘

مذکورہ خصوصیات کے اشتراک کے علاوہ دونوں شعرا کے ہاںقنوع علامتیں نظر آتی ہیں۔ غالبؔ کی علامتیںکسی مخصوص فکری نظام سے متعلق نہیںجبکہ اقبال کی علامتیں مخصوص تہذیبی تناظر رکھتی ہیں۔ اس مخصوص تہذیبی تناظر میں ان علامتوںکا مطالعہ متعدد معنوی امکانات کی جانب رہنمائی کرتاہے۔ یہاں دونوںشعرا معنوی امکانات کی جانب راہنمائی کرتے ہیں۔ یہاں دونوںشعرا کاموازنہ مقصود نہیںصرف یہ کہنا ہے کہ ہر بڑا شاعر جن اسالیب ِ بیان کو ملحوظ رکھتاہے ان میں علامتی طرز ِ اظہارکو نمایاں اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس علامتی اسلوب کی تفہیم شاعر کے مجموعی مقام اورمرتبے کے تعین میں معاونت کرتی ہے۔

اقبال کے ہاں رونما ہونے والے فکری تغیرات ان کے شاعرانہ اسالیب بیان کو بھی متاثر کرتے ہیں مثلاً پہلے اقبال وطنیت کے قائل تھے۔ بعد میں ان کے ہاں دینی اثرات کے تحت ہونے والی فکری تبدیلی کے زیراثر امت مسلمہ کی فوقیت کا نظریہ اولیت حاصل کرلیا۔ اب ان کی شاعرانہ علامتوں کو بھی اسی تناظرمیں دیکھا جائے گا۔ ’’بانگ درا‘‘ کی غزلوں میں علامتوں کا استعمال کم ہے۔ زیادہ غزلیں روایتی رنگ میں ہونے کی وجہ سے ابلاغ کا مسئلہ پیدا نہیں کرتیں۔ ان غزلوںمیں کردار مانوس ہیں اور ان کرداروںکی روایت سے وابستگی معافی کے متعدد سلسلوں کو متحرک نہیںکرسکتی۔ ’’بال جبریل ‘‘ میں شامل غزلوںمیں مستعمل علائم اور اقبال کے خاص فکری رجحانات کے آئینہ دارہیں۔ یہ علامتیں مختلف اقسام کی ہیں مثلاً یہ مظہر فطرت سے متعلق بھی ہیں۔ ان کا تعلق خاص تاریخی اور تہذیبی پس منظر سے بھی ہے اور ان میں تلمیحاتی علامتیں بھی ہیں۔ بعض مستعمل علامتوں کو اقبال نے نئی معنویت بھی دی ہے مثلاً ابلیس کی علامت، کلام اقبال میں روایتی معنوں سےمختلف مفاہیم رکھتی ہے اس ضمن میں نظریہ خودی کا حوالہ بھی اہم ہے۔اقبال کے ہاں غزلوں میں مخصوص علامتیں اپنے ساتھ تلازمات کا طویل سلسلہ رکھتی ہیں۔ ڈاکٹرتاثیر لکھتے ہیں:

’’(اقبال نے) غزل کی قدیم صنف میں ایک نئی روح پھونک دی ہے یہاں تک کہ گھسے پٹے استعارات میںبھی نئی توانائی پیدا کردی ہے۔ گل و بلبل، ساقی، مے خانہ، صیاد، غزال دیکھنے میں تو وہی ہیں لیکن ان میں ایک نئی معنویت پیدا ہوگئی ہے۔‘‘

علامہ اقبال کی غزلوں میں بہ تکرار مستعمل علائم یہ ہیں:

لالہ، جگنو، پروانہ، شاہین، عشق، نمرود، آدم، جبریل، ساقی،طائر لاہوتی، کلیم، عطار، رومی، رازی، غزالی، خودی، عقل، مردِ مومن، فطرت، ابلیس، انسان کامل، فقر و قلندری، مسیح ؑ، خضرؑ، موسیٰ ؑ، حسین ؑ ، اسماعیل ؑ ، بولہب، فرعون، پانی، چاند، ستارے، بلالؓ۔

بطور شاعر علامہ اقبال کاایک بڑا کمال یہ ہے کہ انہوں نے پہلی دفعہ اپنی شاعری میں بڑے بھرپور انداز میں فکر و فلسفہ کو سمویا ہے۔ اسی بنا پر انہیں فلسفی شاعر بھی کہا جاتا ہے۔ اقبال نے اپنی غزلوںمیں جن فلسفیانہ افکار کو سمویا ہے ان کے مآخذ متنوع نوعیت کے ہیں۔ اقبال نے ان افکار کو محض غزلوںمیں نظم ہی نہیںکیا بلکہ ان افکار کی پیشکش میں فنی اسالیب کو بھی ملحوظ رکھا ہے۔ ان اسالیب بیاں میں علامتی انداز کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ ان علائم کے بغیر اقبال کی شاعرانہ حیثیت کی قبولیت کابڑا حصہ مستحسن قرار نہ پاتا مثلاً ’’خودی‘‘ کا حوالہ دیکھئے۔ ’’خودی‘‘ کے جملہ مفاہیم اقبال کی نظر میں تھے۔ اقبال نے خودی کو مخصوص نظام فکر کی تشکیل میں بطور علامت استعمال کیا۔ ڈاکٹر وقار احمد رضوی کے بقول ’’اقبال نے غزل میں علائم و رموز کواپنے فلسفیانہ افکارکے ابلاغ میں نئی معنویت دی۔‘‘

اقبال کی علامتوںکی ایک خوبی اور خوبصورتی یہ ہے کہ یہ علامتیں مغربی ادب میں مستعمل علائم کے برعکس مجرد نوعیت کی نہیں ہیں۔ ایک مخصوص تہذیب سے انسلاک ان علامتوںکی تفہیم میں معاونت کرتا ہے۔ اردو غزل کی تاریخ میںشاید اقبال واحد شاعر ہے جن کی شاعرانہ علامتیں مخصوص تہذیب اور تاریخ کے کلی یاجزوی مطالعے کے ضمن میںزیادہ دور تک رہنمائی فراہم کرتی ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کے بقول ’’اقبال نے ان غزلوں میں غزل کی روایتی علامتوں اور اشاروں میں نئے مفاہیم کو سمونے کی کوشش کی ہے۔‘‘

ذیل میں علامہ اقبال کے چند ایسے اشعار درج کئے جاتے ہیں جن میں متفرق معنوی تنوعات علائم کے پیرائے میں متشکل ہوئے ہیں۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

مری مشاتگی کی کیا ضرورت حسن معنی کو

کہ فطرت خودبخود کرتی ہے لالے کی حنا بندی

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

خودی کا سرنہاں لا الہ الا اللہ

خودی ہے تیغ فشاں لا الہ الا اللہ

نہ تخت و تاج نے لشکر و سپاہ میں ہے

جو بات ہے مردِ قلندر کی بارگاہ میں ہے

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

کوئی کارواں سے ٹوٹا کوئی بدگماں حرم سے

کہ امیر کارواں میں نہیں خوئے دل نوازی

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاںنہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں

نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں

تازہ ترین