• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حسین عباس

کسی قوم کا مستقبل اس کے نوجوان خصوصاً بچے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی قوم اپنے نظام تعلیم و تربیت میں بچوں کی تربیت کو مناسب مقام دینے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے مستقبل کے محفوظ و مامون ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔ پاکستانی قوم اس لحاظ سے خوش نصیب ہے کہ ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال جن کی شاعری عالمی معیار اور آفاقی افکار کی حامل ہے، بچوں کے لیے تعلیمات سے بھی خالی نہیں۔ یہاں یہ امر حیران کن ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت اول روز سے ہی علامہ کی فکر کا موضوع رہی۔ علامہ نے نہ صرف نظم بلکہ نثر میں بھی بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے بہت کچھ لکھا۔ بانگ درا میں علامہ اقبال کی سات نظمیں اور مخزن 1902ء کے شمارے میں ان کا شائع ہونے والا مضمون بچوں کی تعلیم و تربیت علامہ اقبال کی بچوں اور نئی نسل سے وابستگی اور ان کی تربیت کے حوالے سے ان کے شدت احساس کے مظہر ہیں۔

کردار سازی کا سلسلہ اسی وقت مؤثر اور قابل عمل ہو سکتا ہے جب اساتذہ کرام کے ذاتی کردار کے لیے قابل مثال ہو۔ استاد کا انفرادی طرز عمل، کردار اور رویہ اس کے سینکڑوں لیکچرز پر حاوی ہوتا ہے۔ ابتدائی تعلیم میں اساتذہ کرام کا تلفظ طالب علم کی زندگی کا ساتھی بن جاتا ہے۔ کمرہ جماعت کو کردار سازی میں ڈھالنے کے لیے مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہے۔ بچے ہمارا مستقبل ہیں ان کے ناپختہ ذہنوں کو غلط روش اور بداخلاقی کے رحجانات سے بچانے کے لیے بڑوں کو پہلے خود اعلیٰ اخلاق کا نمونہ بننا ہو گا۔ اپنی غیر ضروری خواہشات کی تکمیل کے لیے کرپشن، رشوت اور غلط انداز سے دولت سمیٹنے کی تمنا ختم کرنا ہو گی کیونکہ رزق حلال سے پروان چڑھنے والی اولاد کبھی اخلاق سے عاری نہیں ہو سکتی۔ جو لوگ راتوں رات امیر ہونے کے خواب دیکھتے ہیں وہ عملی زندگی میں غریب تصور کیے جاتے ہیں کیوں کہ ناجائز ذرائع سے حاصل کردہ مال و زر اعلیٰ اخلاقی اقدار کے لیے سم قاتل ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی احتسابی عدالت ہمارا ضمیر ہے۔ ضمیر کبھی جھوٹ نہیں بولتا۔ اس ضمیر کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے بچوں کا خاص خیال رکھنا والدین کا اولین فریضہ ہے۔

بچوں کی نفسیات اور بچوں کی رہنمائی کے لیے کچھ لکھنا آسان کام نہیں۔ علامہ محمد اقبال بھی یقیناً بچگانہ ماحول سے پروان چڑھے۔ ان کی خوش بختی ہے کہ ان کے ماحول، والدین، اساتذہ کرام اور عزیز و اقارب نے ان کی اخلاقی تربیت میں نمایاں کردار ادا کیا۔ زندگی کے ابتدائی دنوں میں ہی انہوں نے علم و نور کا راستہ اختیار کیا۔ ان کی ابتدائی تعلیم سنہرے دور کی رہین منت ہے۔ سید میر حسن ایسے زیرک استاد نے انہیں اردو، عربی، فارسی اور علوم اسلامیہ سے وابستہ کتب کی ورق گردانی کا موقع فراہم کیا۔ 9نومبر 1877ء سے 1893ء تک صرف 15 سال کی عمر میں اقبال کے تخلیقی ذہن نے شعر و سخن کا راستہ ڈھونڈ لیا۔

اپنے مضمون میں بچوں کی تعلیم و تربیت میں علامہ لکھتے ہیں:

’’پڑھے ہوئے شاگرد کو پڑھانا ایک آسان کام ہے مگر انجان بچوں کی تعلیم ایک ایسا دشوار امر ہے کہ ہمارے ملک کے معلّم اس کی دقتوں سے ابھی پورے طور پر آشنا نہیں۔ ہمارا پرانا طریقۂ تعلیم چونکہ بچوں کے قوائے عقلیہ و واہمہ کے مدارج نمو کو ملحوظ نہیں رکھتا اس واسطے اس کا نتیجہ ان کے حق میں نہایت مضر ثابت ہوتا ہے۔ ان کے قوائے ذہنیہ برباد ہو جاتے ہیں اور ان کے چہروں پر ذکاوت کی وہ چمک نظر نہیں آتی جو اس بے فکری کی زندگی کے ساتھ مختص ہے۔ بڑی عمر میں یہ تعلیمی نقص اور بھی وضاحت سے دکھائی دیتا ہے۔ روزمرہ کے معاملات کا سمجھنا اور ان کی پیچیدگیوں کو سلجھانا جو ایک عملی طبیعت کے آدمی کے لیے نہایت ضروری اوصاف ہیں ان میں سرے سے ہی پیدا نہیں ہوتے۔ ان کی زندگی ناکامیوں کا ایک افسوسناک سلسلہ ہوتی ہے اور سوسائٹی کے لیے ان کا وجود محض معطّل ہو جاتا ہے۔

سچ پوچھئے تو تمام قومی عروج کی جڑ بچوں کی تعلیم ہے۔ اگر طریق تعلیم عملی اصولوں پر مبنی ہو تو تھوڑے ہی عرصہ میں تمام تمدنی شکایات کافور ہو جائیں اور دنیوی زندگی ایک ایسا دلفریب نظارہ معلوم ہو کہ اس کے ظاہری حسن کو مطعون کرنے والے فلسفی بھی اس کی خوبیوں کے ثنا خواں بن جائیں۔ انسان کا سب سے پہلا فرض یہ ہے کہ دنیا کے لیے اس کا وجود زینت کا باعث ہو اور جیسا کہ ایک یونانی شاعر کہتا ہے اس کے ہر فعل میں ایک قسم کی روشنی ہو جس کی کرنیں اوروں پر پڑ کے ان کو دیانت داری اور صلح کاری کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا سبق دیں۔ اس کی ہمدردی کا دائرہ دن بدن وسیع ہونا چاہیے تاکہ اس کے قلب میں وہ وسعت پیدا ہو جو روح کے آئینہ سے تعصبات اور توہمات کے زنگ کو دور کر کے اس مجلا و مصفّا کر دیتی ہے۔ صدہا انسان ایسے ہیں جو دنیا میں زندگی بسر کرتے ہیں مگر اپنے اخلاقی تعلقات سے محض جاہل ہوتے ہیں۔ ان کی زندگی ابہام کی زندگی ہے کیونکہ ان کا ہر فعل خود غرضی اور بے جا خودداری کے اصولوں پر مبنی ہوتا ہے۔ ان کے تاثرات کا دائرہ زیادہ سے زیادہ اپنے خاندان کے افراد تک محدود ہوتا ہے اور وہ اس مبارک تعلق سے غافل ہوتے ہیں جو بحیثیت انسان ہونے کے ان کو باقی افراد بنی نوع سے ہے۔ حقیقی انسانیت یہ ہے کہ انسان کو اپنے فرائض سے پوری پوری آگاہی ہو اور وہ اپنے آپ کو اس عظیم الشان درخت کی ایک شاخ محسوس کرے جس کی جڑ تو زمین میں ہے مگر اس کی شاخیں آسمان کے دامن کو چھوتی ہیں۔ اس قسم کا کامل انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ ہر انسانی بچے کی تربیت میں یہ غرض ملحوظ رکھی جائے کیونکہ یہ کمال اخلاق تعلیم و تربیت ہی کی وساطت سے حاصل ہو سکتا ہے۔ جو لوگ بچوں کی تعلیم و تربیت کے صحیح اور علمی اصول کو مدنظر نہیں رکھتے وہ اپنی نادانی سے سوسائٹی کے حقوق پر ایک ظالمانہ دست درازی کرتے ہیں جس کا نتیجہ تمام افراد سوسائٹی کے لیے انتہا درجہ کا مضر ہوتا ہے۔‘‘

بچوں کی بچپن سے ہی کسی نہج پر ذہنی، فکری اور عملی تربیت کرنی چاہیے۔ اس کے لیے علامہ اقبال کی بانگ درامیں نظم ’’بچے کی دعا‘‘ ایک مکمل پروٹوکول کی حیثیت رکھتی ہے۔ اب سے چند سال پہلے تک یہ نظم ٹیلی ویژن اور ریڈیو پاکستان کے مختلف پروگراموں میں پڑھی جاتی تھی اور تعلیمی اداروں میں بھی یومیہ سرگرمیوں کا آغاز اس دعا سے ہی ہوتا تھا۔ ’’بچے کی دعا‘‘ میں اللہ کریم سے جو التجائیں بچوں کی زبانی پیش کی گئی ہیں، وہ اقبال کی اسلام اور انسان دوستی کا اظہار ہیں۔ یہ دعا بچوں، جوانوں حتیٰ کہ ہر پاکستانی کو یاد کرنی چاہیے۔ اس نظم کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ بچے علم حاصل کر کے باعمل انسان بنیں۔ اپنے ملک، غریبوں اور کمزوروں کی مدد کریں۔ نیکی کا راستہ اختیار کریں، بے حیائی اور برائی سے بچیں۔ اقبال نے بچوں کی زبانی سکون قلب، خدمت خلق اور تعلیمات قرآن پر عمل پیرا ہونے کی دعا مانگی ہے۔ حقوق العباد ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ خدمت خلق ایسا جذبہ ہے جس سے معاشرہ پروان چڑھتا ہے۔ انسانیت کو استحکام حاصل ہوتا ہے۔ ہمیں اپنی ذات سے بالاتر ہو کر دوسروں کے کام آنا چاہیے۔ اعلیٰ اخلاقی اوصاف اسی صورت میں ظاہر ہو سکتے ہیں جب ہم دکھی انسانیت کی خدمت کریں گے۔ یہ کام گفتار سے نہیں کردار سے حاصل ہوتا ہے۔

بانگ درا میں شامل بچوں کے لیے دوسری نظمیں بھی تعلیم و تربیت کا سامان لیے ہوئے ہیں۔ ’’عہد طفلی‘‘ میں بچوں کو ماحول کو سمجھنے اور تسخیر کائنات کی طرف بچوں کو راغب کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ ’’ایک مکڑا اور مکھی‘‘ دھوکہ بازی، خوشامد اور چاپلوسی کی مذمت بیان کرتی ہے۔ اس نظم میں بچوں کے علاوہ بڑوں کے لیے بھی پیغام موجود ہے۔ ’’ایک پہاڑ اور گلہری‘‘ بچوں کو یہ درس دیتی ہے کہ دنیا میں کوئی چیز بھی نکمی اور بے کار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کو خوبیوں سے نوازا ہے۔ پستی غرور و تکبر میں ہے نہ کہ ظاہری شکل و صورت یا مرتبوں میں۔ ’’ایک گائے اور بکری‘‘ یہ درس دیتی ہے کہ احسان کا بدلہ احسان سے دینا چاہیے اور ایسے لوگ ہی اعلیٰ اخلاق کا پیکر ہوتے ہیں۔ ’’ہمدردی‘‘ میں ایک بلبل اور جگنو کے مکالمے کے ذریعے بچوں میں ہمدردی کے جذبات اور احساسات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’’پرندے کی فریاد‘‘ میں پرندے کی زبان سے قید کی زندگی کے احساسات کو بیان کیا گیا ہے۔ اور آزادی کی اہمیت کا اجاگر کیا گیا ہے۔ اس نظم کے ذریعے بچوں میں پرندوں اور بے زبان جانوروں سے محبت اور ہمدردی کا جذبہ بھی پیدا کیا گیا ہے۔ ’’جگنو‘‘ بچوں کو یہ درس دیتی ہے کہ ہم ایک دوسرے سے محبت کریں اور دوسروں کے لیے فیض، نفع بخشی اور راحت رسانی کا سرچشمہ بنیں۔

تازہ ترین