• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قیامِ پاکستان سے دو سال قبل کراچی میں ’’ ڈاؤ میڈیکل کالج‘‘ قائم کیا گیا، مگر کچھ عرصے بعد ایک اور میڈیکل کالج کی اشد ضرورت محسوس کی گئی تاکہ ڈاکٹرز کی تعداد بھی آبادی میں اضافے کے تناسب سے بڑھتی رہے۔ سو 7 اپریل 1973 ء کو ’’سندھ میڈیکل کالج‘‘ کی بنیاد رکھی گئی اور پہلے سال دوسو طلبہ کو ایم بی بی ایس میں داخلے دیے گئے۔ اس بیچ(Batch)کی کلاسز، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر( جناح اسپتال) کے پیڈیاٹرک وارڈ میں ہونے لگیں ، جو 1865 ء میں آرمی بیرک کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کالج میں ابتدائی طور پر صرف تین شعبے، اناٹومی، فزیالوجی اور بائیو کیمسٹری تھے۔ بعدازاں پیتھالوجی، فارموکولوجی، فرانزک میڈیسن اور کمیونٹی میڈیسن کے شعبے قائم ہوئے۔ نیز، میوزیم، لیبارٹریز اور ایڈمنسٹریشن بلاک بھی تعمیر کیے گئے۔2003 ء تک یہاں کے گریجویٹس کو’’ جامعہ کراچی‘‘ اسناد جاری کرتی تھی، مگر پھر اس کا’’ ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز‘‘ سے الحاق کردیا گیا۔2010ء میں یہ’’ جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر‘‘ کا حصّہ بنا اور دو برس بعد، 2جون 2012 ء کو اسے ’’ جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی (JSMU)‘‘ کے نام سے ایک الگ شناخت مل گئی۔ پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمّد طارق رفیع بانی وائس چانسلر مقرّر ہوئے۔جناح اسپتال کے برابر، رفیقی شہید روڈ پر واقع یہ یونی ورسٹی، ہائیر ایجوکیشن کمیشن سمیت تمام متعلقہ اداروں سے تصدیق شدہ ہے، تاہم اب بھی اسے کئی قانونی مسائل کا سامنا ہے، جن کے بارے میں پرو وائس چانسلر، پروفیسر لبنیٰ بیگ کا کہنا ہے کہ’’ ابھی بعض قانونی معاملات عدالتوں میں زیرِ سماعت ہیں، تاہم ہمارے پاس حکمِ امتناعی ہے، جس کی وجہ سے طلبہ کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔‘‘جے ایس ایم یو تین اسپتالوں، جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر(جناح اسپتال)، انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ(بچّوں کا اسپتال) اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیو ویسکیولر سینٹر( شعبہ امراضِ قلب) سے منسلک ہے۔ اس یونی ورسٹی کے دو درجن کے قریب انتظامی اور اکیڈمک شعبہ جات ہیں، جب کہ 10 میڈیکل کالجز کا اس سے الحاق ہے۔ یہاں ہر برس کے آخری ہفتوں میں اینٹری ٹیسٹ کی بنیاد پر داخلے ہوتے ہیں۔جگہ کی قلّت کے باعث یہ یونی ورسٹی پہلی نظر میں چھوٹی سی لگتی ہے، مگر اس اَمر میں کوئی شبہ نہیں کہ اس نے مختصر مدّت میں بڑا نام کمایا ہے اور ترقّی کا سفر مسلسل جاری ہے۔ یہی سبب ہے کہ اس وقت کئی ہزار طلبہ اس سے وابستہ ہیں اور طلبہ کی تعداد کے لحاظ سے اسے سندھ کی سب سے بڑی یونی ورسٹی ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی
طلبہ انتہائی انہماک اور دل چسپی سے لیکچر سن رہے ہیں

اگر انسٹی ٹیوٹس کی بات کی جائے، تو نومبر 2014 ء میں قائم ہونے والے ’ ’سندھ انسٹی ٹیوٹ آف اورل ہیلتھ سائنسز‘‘ کو اس یونی ورسٹی کا ایک اہم کارنامہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ ایک قدیم اور تاریخی عمارت میں قائم ہے، مگر اسے انتہائی خُوب صورتی سے جدیدیت سے ہم آہنگ کیا گیا ہے۔ عمارت میں مختلف لیبارٹریز، لیکچرہال، آڈیٹوریم اور میوزیم وغیرہ بنائے گئے ہیں۔ ادارےکے سربراہ، پروفیسر ایس ایم کیفی اقبال نے بتایا ’’ اس شعبے کے قیام کا مقصد طلبہ کو عالمی معیار کی ڈینٹل ایجوکیشن کے ساتھ، عوام کوارزاں نرخوں پر ڈینٹل ہیلتھ سروسز بھی فراہم کرنا تھا۔‘‘ ’’تو کیا عوام کو سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں؟‘‘ ہمارے اس سوال پر اُنھوں نے بتایا ’’جی ہاں، ہم 12 مارچ 2016ء سے عوام کو او پی ڈی کی سہولت فراہم کر رہے ہیں، جس میں دانتوں کی تمام بیماریوں کا علاج کیا جاتا ہے۔پھر یہ کہ ہماری فیسز مارکیٹ کے مقابلے میں انتہائی کم ہیں۔ رواں برس ایگزیکٹیو ڈینٹل کلینک بھی قائم کیا گیا ہے، جہاں ارزاں نرخوں پر دانتوں سے متعلق اعلیٰ معیار کی تمام طبّی سہولتیں، پیری اوڈونٹولوجی،پروستھوڈونٹکس، میکسلو فیشل سرجری اور آپریٹیو ڈینٹسٹری ایک ہی جگہ فراہم کی جا رہی ہیں۔‘‘ شعبے کے تعلیمی پروگرامز سے متعلق اُن کا کہنا تھا’’ ہم بیچلر آف ڈینٹل سرجری( بی ڈی ایس) کے نام سے چار سالہ ڈگری پروگرام آفر کرتے ہیں، جب کہ ماسٹرز اور پی ایچ ڈی پروگرامز بھی بہت جلد شروع کرنے والے ہیں۔‘‘ جے ایس ایم یو کا ایک اہم حصّہ’’ انسٹی ٹیوٹ آف فارماسیوٹیکل سائنسز‘‘ بھی ہے۔ جنوری 2014 ء میں قائم ہونے والے اس انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ڈاکٹر آف فارمیسی( Pharm.D) کا نام سے پانچ سالہ ماسٹرز ڈگری پروگرام متعارف کروایا گیا، جس کے پانچ بیچز میں داخلے ہو چکے ہیں اور پانچ سو کے لگ بھگ طلبہ اس پروگرام سے استفادہ کر رہے ہیں۔اس شعبے کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کا نصاب اور طریقۂ تدریس جدید علمی رجحانات کے مطابق ہے۔یہاں جے ایس ایم یو کے 26 دسمبر 2013 ء میں قائم ہونے والے ’’APPNA Institute of Public Health‘‘ کا ذکر بھی ضروری ہے، جو اپنے تعلیمی پروگرامز اور خدمات میں خاصی وسعت کا حامل ہے۔ اس شعبے کی دو منزلہ عمارت پانچ لیکچر ہالز، ڈیجیٹل لائبریری سمیت کئی دفاتر پر مشتمل ہے۔ یہاں سے ماسٹرز آف سائنس اِن پبلک ہیلتھ( ایم ایس پی ایچ) کے دو سالہ پروگرام کا 2014 ء میں آغاز ہوا، جس کے چار بیچز مکمل ہو چُکے ہیں۔اس انسٹی ٹیوٹ سے ماسٹرز اِن ہیلتھ پروفیشنز ایجوکیشن( ایم ایچ پی ای) کے دو سالہ پروگرام میں بھی داخلہ لیا جا سکتا ہے، جب کہ ایم ای ڈی اور ایمرجینسی میڈیکل ٹیکنیشز میں ایک سالہ سرٹیفیکیٹ کورسز بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اس انسٹی ٹیوٹ نے تدریسی سرگرمیوں سے ہٹ کر بھی عوام کی صحت کے حوالے سے کئی کام یاب پروجیکٹس مکمل کیے ہیں، جن کے لیے اسے مختلف این جی اوز کا بھی تعاون حاصل رہا۔ نیز، ’’ انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اینڈ بزنس مینجمنٹ اینڈ سوشل سائنسز‘‘ بھی اس یونی ورسٹی کا ایک انتہائی اہم شعبہ ہے، جہاں سے ہاسپٹل ہیلتھ کیئر مینجمنٹ میں ایم بی اے کرنے کے علاوہ، ای ایم بی اے اور بی بی اے ہیلتھ کئیر سروسز،فارما مینجمنٹ، ایچ آر ایم اور مارکیٹنگ میں کیا جا سکتا ہے۔

کوئی بھی یونی ورسٹی تحقیقی سرگرمیوں کے بغیر صفر ہے، بلکہ اُسے یونی ورسٹی کا نام ہی نہیں دیا جا سکتا۔ جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی اس لحاظ سے قابلِ تعریف ہے کہ اس کا شعبۂ تحقیق کوئی روایتی شعبہ نہیں، بلکہ اپنے کام سے زندہ اور نہایت فعال ہونے کا ثبوت دیتا رہتا ہے۔پھر یہ کہ یونی ورسٹی سنڈیکیٹ نے تحقیقی کاموں کے لیے اچھا خاصا بجٹ بھی مختص کر رکھا ہے۔ مارچ 2015 ء میں اس شعبے کی جانب سے ایک ششماہی تحقیقی جریدے کا اجرا کیا گیا، جس کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں شایع ہونے والے مضامین کے Abstracts( خلاصے) قومی زبان، اُردو میں بھی لکھے جاتے ہیں۔نیز، یونی ورسٹی میں تحقیقی امور کی نگرانی اور معیار میں نکھار کے لیے خصوصی بورڈ بھی قائم کیا گیا ہے۔ جہاں تحقیق کی بات ہو، وہاں کُتب خانوں کا بھی ذکر لازم ہے، سو، جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی میں چار شعبہ جاتی اور ایک مرکزی کُتب خانہ ہے، جن میں ہزاروں کی تعداد میں کُتب موجود ہیں۔ سینٹرل لائبریری کی انچارج، شہلا ناز نے بتایا’’ چوں کہ یہ کُتب خانہ 1973 ء سے قائم ہے، اس لیے اس میں آٹھ ہزار کے قریب تو اولڈ ایڈیشنز کُتب ہیں، پھر میڈیکل ٹیکسٹ بُکس کے تازہ ایڈیشنز بھی تقریباً ایک ہزار کے قریب ہیں، ریفرنس بُکس بھی بڑی تعداد میں ہیں، یوں ہمارے پاس مجموعی طور پر 13 ہزار کُتب ہیں، جب کہ ای بُکس علیٰحدہ ہیں۔‘‘ اُنھوں نے مزید بتایا کہ’’ اس وقت شعبہ جاتی کُتب خانوں پر زیادہ توجّہ دی جا رہی ہے اور ہم طلبہ کے استفادے کے لیے بڑی تعداد میں کُتب خرید رہے ہیں۔ چوں کہ میڈیکل بُکس بہت زیادہ وزنی اور مہنگی ہوتی ہیں، تو جب طلبہ اُنھیں گھر لے جاتے ہیں، تو اُن کُتب کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے، اس لیے طلبہ یونی ورسٹی کے اوقات ہی میں ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ البتہ، اب ہم اس طرح کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں کہ طلبہ کو پورے سیمیسٹر کے لیے کُتب دی جا سکیں۔ طلبہ کو ایچ ای سی کی ڈیجیٹل لائبریری تک بھی رسائی دی گئی ہے، جس کے ذریعے وہ ہزاروں کُتب اور رسائل کا آن لائن مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ‘‘نیز، یونی ورسٹی کا ڈیپارٹمنٹ آف میڈیکل ایجوکیشن اس لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس کی بنیادی ذمّے داری تدریسی اور اکیڈمک کیرئیر کو بہتر بنانا ہے۔ یہ عالمی سطح پر بدلتے رجحان کے تناظر میں نصاب میں اصلاحات تجویز کرتا ہے اور فیکلٹی ارکان کو بھی علمی طور پر اَپ ڈیٹ رکھتا ہے۔ اسی کا ایک ذیلی شعبہ’’ کیو بینک‘‘ کے نام سے ہے، جو مختلف امتحانات کے لیے سوال نامے تیار کرتا ہے۔اس شعبے کے تحت اساتذہ کی علمی استعداد میں اضافے کے لیے ورکشاپس اور سیمینارز بھی ہوتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں، پروفیشنل ڈیویلپمنٹ سینٹر اور کوالٹی ان ہینسمینٹ سیل کا بھی یونی ورسٹی کے اہم شعبوں میں شمار ہوتا ہے۔ جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کا ایک قابلِ تحسین اقدام ڈائیگنوسٹک لیبارٹری کا قیام ہے، جو عوام کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔ چوبیس گھنٹے کُھلی رہنے والی اس لیب کے سپروائزر، محمّد سمیع خان کا کہنا ہے کہ’’ہماری لیب میں آغا خان لیبارٹری کے معیار کے آلات ہیں، جب کہ تمام ٹیسٹس کے ریٹس سب سے سستی سمجھی جانے والی، ڈاؤ لیب سے بھی بیس فی صد تک کم ہیں۔ ہمارے ہاں ہر طرح کے ٹیسٹ ہوتے ہیں، روٹین کے بھی اور خاص نوعیت کے بھی۔ بہت سے لوگوں نے ہم سے ٹیسٹ کروائے، پھر آغا خان گئے، تو دونوں کی رپورٹس یک ساں نکلیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے بہت سے ڈاکٹر صرف آغا خان یا لیاقت نیشنل وغیرہ کی رپورٹس تسلیم کرتے تھے، مگر اب وہ ہماری لیبارٹری کی رپورٹس بھی قبول کرتے ہیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے بتایا’’ یومیہ اسّی سے ایک سو کے درمیان لوگ آتے ہیں، جن میں جناح اسپتال اور کارڈیو تک کے مریض شامل ہیں، کیوں کہ کارڈیو کے بعض ٹیسٹس، جو وہاں خاصے مہنگے ہیں، ہم انتہائی کم قیمت پر کرتے ہیں۔ ہم نے سِول اسپتال میں بھی کلیکشن پوائنٹ بنایا ہے، جب کہ طارق روڈ اور گلشن اقبال میں بھی کلیکشن پوائنٹس بنا رہے ہیں۔‘‘

جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی
یونی ورسٹی میں طلبہ کی عملی تربیت کے لیے مختلف میوزیم بھی بنائے گئے ہیں

ادارے کے دورے سے قبل ہمارا خیال تھا کہ عموماً میڈیکل یونی ورسٹی کے طلبہ خردبین پر آنکھیں ٹِکائے، گلے میں اسٹیتھو اسکوپ اور ہاتھوں میں مختلف آلات پکڑے ہی دکھائی دیتے ہوں گے، مگر وہاں جا کے اندازہ ہوا کہ یہ طلبہ تو کھیلتے کودتے بھی ہیں۔’’ ہمارے ہاں طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کے لیے کوئی درجن بھر سوسائٹیز قائم ہیں۔ ہم خصوصی ہفتوں کا انعقاد کرتے ہیں، جن کے دوران مختلف کھیلوں، تقاریر، بیت بازی وغیرہ کے مقابلے ہوتے ہیں۔ پھر یہ کہ ہمارے طلبہ مُلکی سطح کے کئی مقابلے بھی جیت چُکے ہیں‘‘، ڈائریکٹر اسٹوڈنٹ کاؤنسل، ڈاکٹر غزالہ عثمان نے کچھ تفصیل بتائی۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ جے ایس ایم یو کے طلبہ اپنی تعلیم کے ساتھ، عوامی فلاح وبہبود کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔‘‘ کاؤنسل کے تحت مختلف رسائل نکالے جاتے ہیں۔ یونی ورسٹی میں طلبہ کے لیے صاف ستھرا کیفے ٹیریا ہے، تو ضروری اشیا کی خریداری کے لیے دُکانیں بھی۔ نیز، طلبہ کو وائی فائی کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔ جب کہ طلبہ اور عملے کے لیے بائیومیٹرک حاضری سسٹم نافذ ہے، جس سے مارکنگ میں شفاّفیت لائی گئی ہے۔ پھر یہ کہ خواتین کی آسانی کے لیے یونی ورسٹی میں ایک ڈے کیئر سینٹر موجود ہے، جہاں ادارے میں ملازمت کرنے والی خواتین اپنے تین سال کی عُمر تک کے بچّوں کو داخل کروا سکتی ہیں۔ یونی ورسٹی کی پرو وائس چانسلر، پروفیسر لبنیٰ بیگ سے ہماری بات چیت ہوئی، تو اُنھوں نے ادارے سے متعلق بتایا کہ’’ہماری یونی ورسٹی دیگر کے مقابلے میں خاصی’’ ینگ‘‘ ہے کہ اسے قائم ہوئے ابھی چھے برس ہی ہوئے ہیں، مگر اس نے مشکل حالات کے باوجود اتنی کم مدّت میں وہ ترقّی کی، جو کوئی اور یونی ورسٹی نہ کر سکی۔ سندھ میڈیکل کالج میں ساڑھے سولہ سو کے قریب طلبہ تھے اور آج یونی ورسٹی میں چھے ہزار سے زیادہ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، یوں یونی ورسٹی کی گروتھ خاصی تیز ہے۔ تحقیق کے میدان میں بھی ہم نے ریکارڈ ریسرچ پیپرز تیار کیے۔ ایک اہم بات یہ کہ وی سی صاحب ہر معاملے میں میرٹ کو فوقیت دیتے ہیں، خاص طور پر بھرتیوں میں انھوں نے کبھی مداخلت نہیں کی کہ فلاں امیدوار کو فلاں وزیر یا بااثر شخص کی سفارش پر بھرتی کر لیا جائے۔ جب یونی ورسٹی کا آغاز ہوا، تو فیکلٹی ارکان میں ایک بھی پی ایچ ڈی نہیں تھا اور اب 20 سے 25 پی ایچ ڈیز ہمارے ساتھ منسلک ہیں۔ اسی طرح کے اقدامات کی بہ دولت یہ یونی ورسٹی اب پبلک سیکٹر کی نہیں، پرائیویٹ سیکٹر کی لگتی ہے۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے بتایا’’ مُلک کو اس وقت فیملی میڈیسن کی بہت ضرورت ہے۔ پبلک سیکٹر کی یونی ورسٹیز میں اس طرح کا کوئی شعبہ نہیں، مگر ہم جلد ہی فیملی میڈیسن کا شعبہ بھی شروع کر رہے ہیں۔ پھر مُلک میں نرسز کی بھی بہت کمی ہے، تو ہم نے نرسنگ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کی بھی تیاریاں کر لی ہیں۔ اسی طرح کالج آف فزیو تھراپی بھی قائم کیا جا رہا ہے۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ’’ ہم عوام میں بھی کام کر رہے ہیں۔’’ ایمبولینس کو راستہ دیں‘‘، یہ ہمارا ہی پروجیکٹ تھا، جس میں ہمیں انٹرنیشنل ریڈ کراس اور دیگر اداروں کی معاونت حاصل رہی۔ یہ منصوبہ انتہائی کام یاب رہا۔ نیز، ہیلتھ ورکرز پر تشدّد کے خلاف سب سے پہلے کام بھی ہم ہی نے شروع کیا۔ اس حوالے سے ڈاکٹرز، نرسز، ایمبولینس ڈرائیورز وغیرہ کو بھی خود حفاظتی کی تربیت دی گئی۔ پنجاب میں ریسکیو وَن وَن ٹو ٹو ہمارے یونی ورسٹی ماہرین کو بلا کر تربیت دلوا رہا ہے۔ ہم میڈیا پرسنز کو بھی تربیت دیں گے کہ اُنھیں بھی رپورٹنگ کے دوران تشدّد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کراچی میں ایمبولینس کو راستہ نہ دینے پر سزا کا کوئی قانون نہیں تھا، تو ہم نے کابینہ سے قانون بھی منظور کروالیا ہے۔ تو میرے خیال میں کسی اور یونی ورسٹی نے اس طرح کے کام کبھی نہیں کیے۔‘‘

خوش نصیب ہیں کہ پاکستان کی بہترین یونی ورسٹی ہماری مادرِ علمی ہے، سینئر طلبہ کا اظہارِ خیال

ہم نے رپورٹ کی تیاری کے دَوران جے ایس ایم یو کے بعض طلبہ سے بھی ملاقات کی، کیوں کہ ’’ اصل بات‘‘ تو اُنہی کے پاس ہوتی ہے۔ علی نظامی فائنل ائیر کے ایک ہونہار طالبِ علم ہونے کے ساتھ، اسٹوڈنٹ کاؤنسل کے اکیڈمک ہیڈ بھی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ’’ چوں کہ میڈیکل ایجوکیشن کا نصاب بہت پیچیدہ اور گویا دماغ کی دہی بنانے کی’’ ٹیبلٹ‘‘ ہے، اس لیے میڈیکل کے طلبہ بہت دباؤ میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، لیکن ہم اس حوالے سے خوش نصیب ہیں کہ ہم پاکستان کی بہترین جامعہ کے طالبِ علم ہیں اور ہم پر دیگر میڈیکل کالجز کی طرح بے جا پابندیاں عاید نہیں کی جاتیں۔ فیکلٹی کا رویّہ مثالی ہے، تو طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ جس سے احساس ہوتا ہے کہ ڈاکٹرز صرف پڑھنے کے لیے نہیں، بلکہ اور کاموں کے لیے بھی ہیں۔ پھر یہ کہ ہمیں پاکستان کے بڑے اسپتالوں میں سے ایک، جناح اسپتال میں عملی تربیت کی سہولت حاصل ہے، جو کسی اور کالج کو میّسر نہیں۔ عموماً طلبہ کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کا ڈاؤ یونی ورسٹی میں داخلہ ہو، میری بھی یہی خواہش تھی، مگر یہاں آکر پتا چلا کہ یہ یونی ورسٹی تو سب سے بہتر ہے۔ نیز، ہمارے اساتذہ بہت اچھے ہیں، لہٰذا اگر کوئی طالبِ علم لیکچرز چھوڑ کر محض کتابوں ہی پر اکتفا کر رہا ہے، تو مَیں سمجھتا ہوں، وہ خود پر ظلم کر رہا ہے۔‘‘ اُنھوں نے توجّہ دلائی کہ’’ یونی ورسٹی میں کئی مقامات پر تعمیراتی کام جا ری ہے اور یہ کام ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، اس سے طلبہ کو بہت کوفت ہوتی ہے۔ نیز، سیکوریٹی کے نام پر یونی ورسٹی اور اسپتال کے بیچ جو ایک دیوار کھڑی ہے، وہ بھی ہمارے سخت شیڈول میں مزید مشقّت کا سبب بنتی ہے۔ طلبہ کو یونی ورسٹی سے اسپتال جانے کے لیے بہت لمبا چکر کاٹنا پڑتا ہے۔ پھر یہ کہ امتحانات کے شیڈول کو بھی کافی بہتر کرنے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس کی وجہ سے بعض اوقات طلبہ کو خاصی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘ جویریہ خان تھرڈ ائیر کی طالبہ ہیں اور وہ بھی یونی ورسٹی میں ہونے والی غیر نصابی سرگرمیوں کی زبردست حامی ہیں۔ ان کا کہنا ہے،’’ ہماری یونی ورسٹی کی ایک انفرادیت یہاں کی اسٹوڈنٹ کاؤنسل ہے، جو عموماً سرکاری یونی ورسٹیز میں نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ سے طلبہ کو پڑھائی کے علاوہ، اپنے ٹیلنٹ کو نکھارنے اور عوام کے سامنے لانے کے مواقع ملتے ہیں۔ اسی کاؤنسل کی وجہ سے طلبہ ڈاکٹر بننے کے ساتھ قومی سطح کے چمپئینز بھی بن رہے ہیں۔ ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ ہمارے اساتذہ بہت کوالیفائیڈ اور اپنے شعبوں کے ماہر ہیں۔ وہ صرف طلبہ کی نصاب کی تکمیل ہی میں معاونت نہیں کرتے، بلکہ اُنھیں عملی میدان کے لیے بھی تیار کر رہے ہیں۔‘‘ البتہ اُنھوں نے اس ضمن میں ایک اہم مسئلے کی نشان دہی بھی کی کہ’’ کچھ جونیئر اساتذہ ایسے بھی ہیں، جن کی ہمارے خیال میں کلاسز نہیں ہونی چاہئیں۔ ان کی بجائے کچھ تجربہ کار، سینئر اساتذہ کے لیکچرز رکھے جائیں تو طلبہ کو سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو۔‘‘ ارفع سعد ایم بی بی ایس فائنل ائیر میں ہیں اور اپنی مادرِ علمی کو اپنا دوسرا گھر تصوّر کرتی ہیں۔ وہ حجاب کے ساتھ یونی ورسٹی جاتی ہیں، اس ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ’’ یہاں کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ تعلیمی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے دَوران کبھی بھی باحجاب ہونے کی بنیاد پر کسی تفریق کا نشانہ نہیں بنایا گیا، بلکہ سینئر ترین پروفیسرز سے لے کر نچلے عملے تک، سب نے عزّت و احترام سے نوازا۔‘‘ اُنھوں نے اپنے ابتدائی دنوں کے حوالے سے بتایا’’ ہمیں میڈیکل ایجوکیشن کی سنجیدگی کے پیشِ نظر لگتا تھا کہ شاید ہم دیگر طلبہ کی طرح نہیں ہو سکتے، جو پڑھنے کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصّہ لیتے ہیں، مگر ایسا بالکل بھی نہیں، ہم بھی سارا دن سنجیدہ رہنے کی بجائے دوسروں کی طرح ہنستے، بولتے ہیں۔‘‘ ارفع کا مسائل کے حوالے سے کہنا ہے’’ یونی ورسٹی میں جگہ کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ شاید اسی لیے گرلز کامن روم چھوٹا سا بنایا گیا ہے، جس کی وجہ سے طالبات کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پھر پانی کی کمی بھی مستقل دردِ سر ہے، جب دو سے تین ائیر کے طلبہ یونی ورسٹی میں موجود ہوں تو اکثر پانی ختم ہوجاتا ہے۔ پھر ایک اہم مسئلہ یونی ورسٹی سے جناح اسپتال تک جانے کا بھی ہے۔ ایک دَور میں دونوں کے درمیان ایک راستہ ہوا کرتا تھا، جو طلبہ کی آمد ورفت کے لیے استعمال ہوتا تھا، لیکن اب وہ ایک عرصے سے بند کردیا گیا ہے، گورنر سندھ نے اسے کھلوانے کا وعدہ بھی کیا تھا، مگر تاحال اس پر عمل درآمد نہیں ہوا۔‘‘ فورتھ ائیر کی طالبہ، حرا نثار نے یونی ورسٹی کے معاملات پر کُھل کر اظہارِ خیال کیا۔ اُن کا کہنا تھا’’ مَیں اسکول دَور ہی سے غیر نصابی سرگرمیوں میں متحرّک رہی ہوں اور اچھا ہوا کہ مجھے ایک ایسی یونی ورسٹی میں داخلہ ملا، جہاں اسٹوڈنٹ کاؤنسل اور لٹریری، پرفارمنگ آرٹ، اسپورٹس سمیت مختلف سوسائیٹیز قائم ہیں، جن کے تحت طرح طرح کے ایونٹس ہوتے رہتے ہیں اور ان تمام غیر نصابی سرگرمیوں کو خود طلبہ ہی ترتیب دیتے ہیں۔ دیگر میڈیکل کالجز میں غیر نصابی سرگرمیوں کا اس قدر رجحان نہیں ہے، حالاں کہ ان اداروں میں بھی فزیکل ہیلتھ کو پروموٹ کرنا چاہیے۔‘‘ تعمیراتی کاموں سے حرا سخت عاجز ہیں، کہتی ہیں’’ یہ تعمیر کا کام نہ جانے کب ختم ہوگا، روز کہیں نہ کہیں کُھدائی ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک تو یونی ورسٹی کا رقبہ ویسے ہی کم ہے۔ گراؤنڈز چھوٹے چھوٹے ہیں۔ طلبہ کے لیے کوئی ایسی پروپر جگہ نہیں، جہاں بیٹھ کر گروپ اسٹڈی کی جا سکے، جب کہ میڈیکل ایجوکیشن کے لیے گروپ اسٹڈی لازم ہے۔ اُس پر ان تعمیراتی سرگرمیوں نے ہمیں مزید مشکل میں ڈال دیا ہے۔ گراؤنڈز تعمیراتی کاموں کے سبب مزید سکڑ گئے ہیں۔ اب ہمارے پاس کھیلنے کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اسپورٹس ویک کے لیے بھی باہر کوئی اسپورٹس کلب بُک کروانا پڑتا ہے۔ ہمیں کھیلوں کے لیے فوری طور پر ایک جمنازیم چاہیے۔‘‘حرا کے طریقۂ تدریس پر بھی کچھ تحٖفّظات ہیں۔ مثلاً’’ لیکچرز ڈیلیور کرنے کے طریقۂ کار میں بھی بہتری آنی چاہیے۔ 

جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی، کراچی
جے ایس ایم یو کے زیرِ انتظام عوامی خدمت میں مصروف لیبارٹری

کچھ ٹیچرز جدید دَور میں بھی پرانے انداز ہی سے پڑھا رہے ہیں۔ کلاسز میں آتے ہیں اور کچھ سلائیڈز پڑھا کر چلے جاتے ہیں، تو اگر سلائیڈز ہی ریڈ کرنی یا کتابیں ہی پڑھنی ہیں، تو وہ ہم گھر بیٹھ کر بھی کر سکتے ہیں، پھر کلاسز لینے کا کیا فائدہ۔ ان ٹیچرز کو چاہیے کہ وہ لیکچرز کو دِل چسپ بنائیں، ان میں طلبہ کو شامل کریں، تصاویر اور ویڈیوز سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں یعنی ویژیول مواد زیادہ ہو۔‘‘ فائنل ائیر کی طالبہ، شیریں یونی ورسٹی کے فلاحی کاموں سے بے حد خوش ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ’’ ہم فلاح و بہبود کے کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔ پچھلے دنوں دو طلبہ کو فیس کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا تھا، تو سب طلبہ نے مل جل کر یہ مسئلہ حل کیا اور یہاں کے طلبہ اس طرح کے کافی کام کرتے رہتے ہیں۔‘‘ دیگر طلبہ کی طرح اُنھوں نے بھی تعمیراتی کام کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا’’ یقیناً یہ ضروری ہیں، مگر طلبہ کو صحت مند ماحول فراہم کرنا بھی تو انتظامیہ کی ذمّے داری ہے، مَیں سمجھتی ہوں کہ طلبہ کو تعمیراتی کاموں کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جانے چاہئیں اور پھر یہ کہ عموماً ہمیں سیمیسٹر امتحانات کی تیاریوں کے لیے قلیل وقت دیا جاتا ہے۔پیپرز کے درمیان گیپ بہت کم ہوتا ہے۔ ایک تو ہم ویسے ہی صوبے بھر کی یونی ورسٹیز سے آگے جا رہے ہیں، پھر ہمیں پیپرز کی تیاری کے لیے کم وقت دیا جانا غلط ہے۔اس کے لیے اکثر ہمیں احتجاج بھی کرنا پڑتا ہے۔ چوں کہ وی سی صاحب بہت اچھے ہیں، تو وہ ہماری بات مان لیتے ہیں، لیکن اگر پہلے ہی منصوبہ بندی کے تحت امتحانات کی تاریخ کا اعلان کیا جائے، تو اس طرح کی بدنظمی نہ ہو۔ کیفے ٹیریا اچھا تو ہے، مگر اتنا بہتر نہیں۔ نیز، لائبریری کی الماریوں میں سجی بہت سی کُتب بھی ہمیں پڑھنے کے لیے نہیں دی جاتیں، جو کافی زیادتی کی بات ہے۔‘‘ڈاکٹر کرن عزیزی، ایس ایم سی کی گریجویٹ ہیں۔ ان دنوں آغا خان یونی ورسٹی اسپتال سے بہ طور انسٹرکٹر ایمرجینسی میڈیسن منسلک ہیں۔ یوں بہ طورِ طالبِ علم اور فیلڈ ڈاکٹر اُن کی رائے کی خاص اہمیت ہے۔ اُنھوں نے ہمارے ایک سوال کے جواب میں کہا’’ جے ایس ایم یو کے اساتذہ عام طور پر طلبہ سے بہت تعاون کرتے ہیں، جس سے سیکھنے کے عمل کو تقویت ملتی ہے۔ پھر یہ کہ اس یونی ورسٹی کے طلبہ کو جناح اور اس سے ملحقہ دیگر اسپتالوں کی صورت میں عملی تربیت کے جو مواقع حاصل ہیں، مَیں سمجھتی ہوں کہ یہ اُن کے لیے بہت بڑا ایڈوانٹیج ہے۔نیز، ایک دَور میں یونی ورسٹی میں سیاسی مداخلت بہت زیادہ تھی ،مگر انتظامیہ اس پر قابو پانے میں کام یاب رہی ہے، جس سے اب طلبہ کو ایک اچھا تعلیمی ماحول ملا ہے۔‘‘ اُن کا کہنا تھا کہ’’ میڈیسن بہ ذاتِ خود ایک ہارڈ پروفیشن ہے، اس لیے اگر طلبہ اور اساتذہ میں ذہنی ہم آہنگی نہ ہو، تو طلبہ کو خاصی مشکلات پیش آ سکتی ہیں، سو، میرے خیال میں طلبہ اور اساتذہ کے درمیان تدریس سے ہٹ کر بھی اگر اچھی ذہنی ہم آہنگی ہو، تو ایسے بہت سے مسائل کے حل میں مدد مل سکتی ہے، جو میڈیکل کے طلبہ کے لیے پریشان کُن ہوتے ہیں۔‘‘ اُنھوں نے تجویز دی کہ’’ موجودہ حالات کے تناظر میں’’ ڈاکٹرز کی اخلاقیات‘‘ کے حوالے سے نصاب کو اَپ ڈیٹ کیا جانا چاہے اور اسے محض رسمی مضمون کے طور پر نہ پڑھایا جائے، بلکہ اس پر پوری توجّہ مرکوز رکھی جائے، کیوں کہ ڈاکٹرز کی جانب سے طے کردہ اخلاقی معیارات کی پابندی نہ کرنے سے بہت سے مسائل جنم لیتے ہیں۔‘‘ ایک سوال پر اُنھوں نے رائے دی کہ’’ اگر دو سو میں سے صرف ایک سو یا کچھ کم و بیش طلبہ ایم بی بی ایس کے بعد مطلوبہ مہارت پیش نہ کر پائیں، تو یہ طلبہ اور اساتذہ دونوں کے لیے افسوس ناک ہے، لیکن اگر بیش تر بچّے تعلیم کی تکمیل کے بعد کوئی اچھا کردار ادا کر رہے ہیں، تو اس کا مطلب ہے کہ اساتذہ نے بھی اپنا کردار ادا کیا ہے۔‘‘

150 روپے سے یونی ورسٹی کا آغاز کیا

جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی نے ایک کالج سے قابلِ تقلید یونی ورسٹی تک کا جو سفر طے کیا، اس کا سہرا بانی وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر سیّد محمّد طارق رفیع کے سر ہے کہ وہی اس ادارے کے معمار ہیں۔ وہ نہ صرف یہ کہ شان دار تعلیمی اور تدریسی ریکارڈ رکھتے ہیں، بلکہ اَن تھک محنت کے بھی عادی ہیں، جس کا ثبوت اس عظیم الشّان یونی ورسٹی کی صورت سب کے سامنے ہے۔ ہم نے اُن سے تفصیلی بات چیت کی تاکہ ادارے کی ترقّی کا راز جان سکیں۔

اپنے کیرئیر سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر طارق رفیع نے بتایا،’’ مَیں نے 1992 ء میں ایم بی بی ایس کیا۔ پھر ایف آر سی ایس پارٹ وَن اور ایف سی پی ایس پارٹ وَن کے امتحانات دیے اور پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے جناح اسپتال سے بہ طور میڈیکل افسر منسلک ہوگیا۔ ابتدا میں جنرل سرجری میں پوسٹ گریجویٹ کے طور پر کام کیا، پھر دو سال بعد ای این ٹی میں آگیا۔ اس عرصے میں ایف سی پی ایس بھی کرلیا اور اسسٹنٹ پروفیسر کے عُہدے پر ترقّی مل گئی۔ بعدازاں، پروفیسر بنا اور 14 برس تک بہ طور پروفیسر کام کرتا رہا۔35 سے زاید طلبہ نے میری نگرانی میں پوسٹ گریجویشن کی، جب کہ ایک سو سے زاید نے مختلف ڈپلوماز کیے۔ نیز، مَیں اکیڈمک کاؤنسل سمیت مختلف کمیٹیز کا چئیرمین، پاکستان ای این ٹی سوسائٹی اور سارک ای این ٹی سوسائٹی کا بھی صدر رہا اور اس حیثیت سے کراچی میں ایک عالمی معیار کی سارک کانفرنس بھی کروائی۔ گزشتہ کئی برسوں سے کالج آف فزیشن کا ممتحن، پیپر سیٹر ہوں اور دو برس قبل تک وہاں کی ای این ٹی فیکلٹی کا ڈین بھی تھا۔ 2012 ء میں سندھ میڈیکل کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ حاصل ہوا، تو مجھے پہلا وائس چانسلر مقرّر کیا گیا اور تاحال اسی عُہدے پر کام کر رہا ہوں۔ میرے تیس سے زائد تحقیقی مضامین غیر مُلکی جرائد میں شائع ہوچُکے ہیں۔‘‘ کالج سے یونی ورسٹی تک کے سفر کی تفصیل بتاتے ہوئے اُنھوں نے کہا،’’ یوں سمجھیے کہ ہم نے صفر سے کام کا آغاز کیا۔ کالج کو یونی ورسٹی میں بدلنا کوئی آسان کام نہیں تھا، اس کے لیے ہم نے سخت محنت کی۔یہاں کوئی ادارہ نہیں تھا، ایڈمیشن آفس تھا، نہ کوئی انتظامیہ۔ ایچ آر ڈیپارٹمنٹ تھا، نہ ہی شعبۂ امتحانات۔ اس وقت تمام شعبے ڈاؤ میڈیکل یونی ورسٹی کے پاس تھے، جس کا یہ کالج حصّہ تھا، لہٰذا سب سے بڑا اور فوری مسئلہ ڈیپارٹمنٹس کے قیام کا تھا۔ ایگزامینیشن، ایڈمیشن، فنانس، ایچ آر، ایڈمنسٹریشن، آڈٹ ڈیپارٹمنٹس کے بغیر کسی یونی ورسٹی کا تصوّر ہی نہیں کیا جا سکتا۔ ان تمام شعبوں کا نہ صرف قیام عمل میں لانا تھا بلکہ اُنھیں مستحکم بھی کرنا تھا اور الحمدللہ، ہم نے مختصر عرصے میں یہ کام بڑی خُوبی سے سرانجام دیا۔ پھر یہ کہ مالی لحاظ سے بھی حالت انتہائی پتلی تھی۔ اکاؤنٹ میں محض ڈیڑھ سو روپے تھے، مگر یہ مسئلہ بھی ہم نے بہ تدریج حل کرلیا۔ 

آج کراچی کے تمام پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجز کے طلبہ ہماری یونی ورسٹی سے اِن رولڈ ہیں اور ہمیں یہ بتاتے ہوئے خوشی اور فخر محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت انرولمنٹ کے لحاظ سے ہماری یونی ورسٹی، سندھ کی سب سے بڑی میڈیکل یونی ورسٹی ہے۔ انتظامی لحاظ سے تو اس وقت یونی ورسٹی میں14 شعبے قائم ہیں، جب کہ اکیڈمک سائیڈ پر چار نئے شعبے بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ہماری اپنی یونی ورسٹی کے ڈھائی ہزار طلبہ ہیں، جب کہ ڈیڑھ ہزار طلبہ مزید ہیں، جو ہم سے منسلک مختلف شعبوں میں پڑھ رہے ہیں۔جہاں تک بات ملازمین کی ہے، تو ہمارے پاس مجموعی طور پر 700 کے قریب ملازمین ہیں، جن میں سے تقریباً آدھے فیکلٹی ارکان ہیں۔‘‘

’’ صوبے میں اور بھی کئی میڈیکل یونی ورسٹیز ہیں، اُن میں آپ اپنی یونی ورسٹی کو کہاں دیکھتے ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر طارق کا کہنا تھا’’ نجی شعبے میں تو بہت سی میڈیکل یونی ورسٹیز ہیں، مگر سرکاری سطح پر کراچی میں ہمارے علاوہ صرف ایک، ڈاؤ میڈیکل یونی ورسٹی ہے، جس کا پہلے ہم بھی حصّہ تھے۔ ڈاؤ یونی ورسٹی، پاکستان بننے سے پہلے ڈاؤ میڈیکل کالج کی صُورت موجود تھی، تو ظاہر ہے اس کا ستّر سال سے بھی زیادہ کا تجربہ ہے، لیکن ہماری بھرپور کوشش ہے کہ ہم اس سے آگے نکل جائیں۔ ویسے یونی ورسٹیز میں اس طرح کا تعمیری مقابلہ ہونا بھی چاہیے۔ الحمد للہ، ہم صرف چھے برسوں میں ڈاؤ کے قریب پہنچ گئے ہیں، بلکہ اس کے برابر برابر چل رہے ہیں۔ ہمارے طلبہ کی کام یابی کا تناسب بہت اچھا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگلے دس برسوں میں جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی، پاکستان کی نمبروَن یونی ورسٹی ہوگی۔‘‘ میڈیکل تعلیم کے معیار، مختلف خدشات اور اعتراضات کے ضمن میں اُن کا خیال ہے کہ’’ پاکستان میں طب کی تعلیم کے معیار کے حوالے سے دو باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ گزشتہ کچھ برسوں میں نجی میڈیکل کالجز بہت بڑی تعداد میں کُھل گئے ہیں، جن کی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت مُلک میں کُل تین میڈیکل کالجز تھے اور آج 167 ہیں۔ یعنی پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے، جہاں آبادی کے تناسب سے میڈیکل کالجز کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ تمام پرائیویٹ میڈیکل کالجز کا معیارِ تعلیم خراب ہے، لیکن ایک بڑی تعداد ایسی ضرور ہے، جہاں عالمی معیار کی تعلیم نہیں دی جا رہی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ نئے نئے کالجز کُھلنے کی وجہ سے اچھے پڑھانے والے نہیں مل رہے۔ اس ضمن میں پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کاؤنسل اپنا کردار ادا کر رہی ہے، مگر اسے مزید متحرّک ہونے کی ضرورت ہے۔‘‘’’ بہت سی یونی ورسٹیز مالی بحران سے گزر رہی ہیں، تو کیا جے ایس ایم یو کی فیسز میں بھی اضافہ ہونے جا رہا ہے؟‘‘ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے کہا،’’ الحمدللہ، ہماری یونی ورسٹی مُلک کی ان چند یونی ورسٹیز میں سے ایک ہے کہ جس پر کوئی قرضہ نہیں۔ جہاں تک فیسز کی بات ہے، تو یاد رکھیں، ساری دنیا میں، سوائے جرمنی یا اسکینڈے نیوین مُمالک کے ، ہائیر ایجوکیشن کو ہر شخص کا حق نہیں سمجھا جاتا، بلکہ اس کا تعلق صلاحیت اور استعداد سے ہے۔ہاں، بنیادی تعلیم سب کا حق ہے، یہی وجہ ہے کہ ساری دنیا میں بارہویں تک تعلیم مفت ہے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔ امریکا اور یورپ میں بھی ایسا ہی ہے، البتہ وہاں طلبہ کو آسان شرائط پر قرض مل جاتا ہے، جو وہ پڑھنے کے بعد نوکری ملنے پر واپس کر دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک تو ڈراپ آؤٹ بہت زیادہ ہے۔ بارہویں کے بعد بہت کم بچّے آگے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ عموماً گھریلو حالات کی وجہ سے نوکریاں ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔ بہرحال، بیش تر سرکاری اداروں کی فیسز اب بھی قابلِ برداشت حد تک ہی ہیں۔ مَیں اپنی یونی ورسٹی کی مثال دیتا ہوں، ہمارے ہاں پورے سال کی فیس 30 ہزار روپے ہے، جب کہ پرائیویٹ کالجز میں ساڑھے 9 لاکھ روپے تک دینے پڑتے ہیں۔کئی طلبہ تیس ہزار بھی نہیں دے پاتے، تو ہم نے اُن کے لیے سالانہ دو کروڑ روپے اسکالرشپ کی مد میں رکھے ہیں۔ ہم داخلے کے وقت تو کسی سے اس کی مالی حالت نہیں پوچھتے، لیکن میرٹ پر داخلے کے بعد اگر کسی طالبِ علم کو کوئی مالی مسئلہ ہوتا ہے، تو ہم اُسے تعلیم نہیں چھوڑنے دیتے۔ حالاں کہ حکومتی گرانٹ کبھی بھی اتنی نہیں ہوتی کہ وہ یونی ورسٹیز کے اخراجات پورے کرسکے۔ خود ہمیں جو گرانٹ ملتی ہے، وہ تمام اخراجات پورے نہیں کرپاتی۔ اگر سرکاری یونی ورسٹیز کو مناسب گرانٹ ملے، تو فیسز کبھی نہ بڑھائی جائیں۔‘‘ طلبہ کی غیر نصابی سرگرمیوں اور ہاسٹل کی سہولت سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ’’ ہم غیر نصابی سرگرمیوں پر بہت زور دیتے ہیں اور ہمارے ہاں اس مقصد کے لیے خصوصی ویکس منائے جاتے ہیں۔ کچھ دن قبل ہمارے طلبہ نے بین الصوبائی تقریری مقابلہ جیتا ہے۔ نیز، ہم اپنے طلبہ کو کمیونٹی میں بھیجتے ہیں۔ وہ کینسر اسپتالوں، یتیم خانوں میں جاتے ہیں، مختلف پس ماندہ بستیوں میں میڈیکل اور ڈینٹل کیمپس لگاتے ہیں کہ ہمارا مقصد یہی ہے کہ ہم اپنے علم اور تجربےسے عام افراد کو بھی فائدہ پہنچائیں اور ہمارے طلبہ اچھے ڈاکٹرز کے ساتھ، اچھے انسان بھی ہوں۔ جہاں تک ہاسٹلز کی بات ہے، تو ہمارے ہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ ہاسٹلز ہیں، مگر ان میں رہائش کی سہولت صرف کراچی سے باہر کے بچّوں کو دی جاتی ہے۔‘‘

ہمیں سروے کے دَوران یونی ورسٹی میں ہر طرف لڑکیاں ہی لڑکیاں دِکھائی دے رہی تھیں۔ اسی حوالے سے جب ہم نے ڈاکٹر طارق رفیع سے سوال کیا کہ’’ شعبۂ طب میں لڑکوں کی کم تعداد کی کیا وجہ ہے؟‘‘ تو ان کا کہنا تھا،’’ آپ نے بہت اہم ایشو سے متعلق سوال کیا۔ اس مسئلے نے شعبۂ طب اور گورنمنٹ پالیسی میکرز تک کو پریشان کر رکھا ہے۔ ہماری یونی ورسٹی ہی کو دیکھ لیں، یہاں لڑکیوں کی تعداد 87 فی صد، جب کہ لڑکے صرف 13 فی صد ہیں۔ دراصل، پہلے میڈیکل کالجز میں لڑکیوں کے لیے نشستیں مخصوص ہوتی تھیں۔ مثلاً اگر 200 کی کلاس ہے، تو اس میں 60 لڑکیاں ہوں گی۔ پھر کچھ لڑکیاں سپریم کورٹ چلی گئیں، جہاں سے فیصلہ ہوا کہ داخلے اوپن میرٹ پر ہوں گے اور لڑکیوں کے لیے کوئی الگ سے کوٹا مخصوص نہیں ہوگا۔ چوں کہ لڑکے کھیل کود اور دیگر سرگرمیوں میں زیادہ دل چسپی لیتے ہیں اور لڑکیاں خُوب محنت سے پڑھتی ہیں، تو نمبرز بھی اُن ہی کے زیادہ آتے ہیں۔ یوں صرف میڈیکل ہی نہیں، دیگر پروفیشنل اداروں میں بھی لڑکیوں کو لڑکوں کی نسبت زیادہ داخلے ملتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ لڑکوں کا میڈیکل کی طرف رجحان بھی کم ہوا ہے، وہ دیگر شعبوں کی طرف زیادہ جا رہے ہیں۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میڈیکل میں اب وہ کشش نہیں رہی، جو کسی زمانے میں ہوتی تھی۔ پھر یہ کہ ڈاکٹر بننا ایک بہت مشکل، محنت طلب اور طویل پراسس ہے، لڑکیاں اپنی مسقل مزاجی اور محنت کی عادت کی وجہ سے یہ معرکہ سر کر لیتی ہیں، لیکن لڑکوں کے لیے اب شاید اتنی محنت کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ اس صورتِ حال کا بڑا نقصان تو یہ ہوا کہ جو لڑکیاں ڈاکٹر بن جاتی ہیں، اُن میں سے ایک بڑی تعداد شادی بیاہ یا دیگر سماجی معاملات کی وجہ سے گھر بیٹھ جاتی ہیں، جس سے حکومت کی کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری ضایع ہو جاتی ہے۔ اگر آج تھر یا اندورنِ سندھ ڈاکٹرز نہیں مل رہے، تو وجہ یہی ہے کہ میل ڈاکٹر ہیں نہیں اور لڑکیاں وہاں جا کر ڈیوٹی دینے پر آمادہ نہیں۔ شادیاں ہو جاتی ہیں ، والدین اکیلے بھیجنے پر تیار نہیں ہوتے یا اور بھی کئی مسائل ہیں۔ اب اس کا حل صرف یہی ہے کہ بوائز میڈیکل کالجز قائم کیے جائیں۔ اس سلسلے میں جام شورو میں بلاول بوائز میڈیکل کالج قائم ہوگیا ہے اور ہم بھی کراچی میں لڑکوں کے میڈیکل کالج کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔‘‘ اینٹری ٹیسٹ سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر طارق کا کہنا تھا کہ’’ یہ طریقۂ کار ترقّی یافتہ ممالک میں تو بہت پہلے سے رائج ہے۔ امریکا میں بھی طلبہ کو کئی طرح کے ٹیسٹس پاس کرنے پڑتے ہیں۔ پاکستان میں کچھ عرصہ قبل ہی یہ نظام نافذ ہوا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مُلک کے تمام تعلیمی بورڈز یک ساں معیار کے نہیں، پھر نظامِ تعلیم بھی ایک جیسا نہیں۔ اولیول، آغا خان، سرکاری، پرائیویٹ… جب اتنے سسٹمز سے بچّے امتحان پاس کر کے آتے ہیں، تو اُن کے معیارات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ کچھ بہت اچھے بورڈ سے آتے ہیں، جہاں سختی سے مارکنگ ہوتی ہے، تو اُن کے نمبرز کم ہوتے ہیں۔ پھر کچھ بچّے ایسے بورڈز سے ایف ایس سی کر کے آتے ہیں، جہاں ہر بچّے کے 98، 99 فی صد نمبرز ہوتے ہیں، حالاں کہ بچہ اتنا قابل نہیں ہوتا۔ سو اس مسئلے کا حل صرف یہ تھا کہ ایک اور ٹیسٹ لیا جائے تاکہ اُن بورڈز کے بچّے، جہاں سخت امتحان ہوتا ہے، داخلے سے محروم نہ رہ جائیں۔‘‘ جے ایس ایم یو سے منسلک اسپتالوں کے معیار سے متعلق ڈاکٹر طارق نے بتایا،’’ہمارے ساتھ تین ٹیچنگ اسپتال ہیں، جناح اسپتال، بچّوں کا اسپتال(NICH) اور کارڈیو۔ یہ تینوں پاکستان کے بہترین ٹیچنگ اسپتال ہیں۔ ہمارے طلبہ کو یہ ایڈوانٹیج حاصل ہے کہ ان اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور ورائٹی آف کیسز بھی۔ یہاں آنے والوں میں بیماریوں کی اقسام اتنی زیادہ اور مختلف ہیں، جو شاید پاکستان میں اور کہیں دیکھنے کو نہیں ملتیں، تو اس سے ہمارے طلبہ کو دوسروں کی نسبت زیادہ سیکھنے کا موقع مل رہا ہے، لہٰذا ہم تو اپنے طلبہ کی عملی تربیت سے مطمئن ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ اسپتالوں کا معیار گرتا جا رہا ہے۔ صفائی ستھرائی اور عملے کی حاضریوں وغیرہ کا بُرا حال ہے، تو اس سے بہت خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ دنیا میں جن مُمالک نے ترقّی کی ہے، اُنھوں نے انسانوں پر پیسا لگایا۔ اپنے ہاں صحت اور تعلیم کو اہمیت دی۔ باقی شعبوں میں بھی سرمایہ کاری کی اہمیت ہے، مگر جس ملک نے ہیلتھ اور ایجوکیشن کو نظرانداز کیا، وہ پیچھے رہ گیا۔ لہٰذا مَیں سمجھتا ہوں کہ فی الوقت ہمیں ہیلتھ اور تعلیم میں سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔‘‘

تازہ ترین