• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہِ کی جنرل اسمبلی نے 20نومبر 1989کو 54دفعات پر مشتمل معاہدہ برائے حقوق اطفال (UNCRC)منظور کیا تھا، پاکستان 1990ء میں اس معاہدے پر توثیقی دستخط کرکے ان اِکسٹھ ملکوں میں شامل ہو گیا، جو قبل ازیں اس معاہدے پر دستخط کر چکے تھے۔ اس معاہدے کی ہر دفعہ بچوں کے انسانی اور قانونی حق کی ضمانت دیتی ہے اور رکن ممالک کو پابند بناتی ہے کہ وہ بچوں کے حقوق کے ضمن میں تمام قانونی، انتظامی اور آئینی اقدامات کو بروئے کار لائیں گے۔ اس معاہدے کی پہلی دفعہ کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر ہر فرد کو بچہ تصور کیاجائے گا۔ دوسری دفعہ میں کہا گیا ہے کہ ان کے والدین یا سرپرست کے رنگ و نسل، عقیدے، مذہب، زبان، ملک، قوم، سیاسی رائے یا کسی معذوری کی وجہ سے ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں برتا جائے گا۔ اس معاہدے کی دیگر دفعات میں بچوں کی بقاء، سلامتی، نشو و نما، شناخت، اظہارِ خیال کی آزادی، انجمن سازی، جنسی استحصال سے بچائو، اغواء، فروخت اور اسمگلنگ سمیت دیگر اہم معاملات کا بھی احاطہ کیا گیا ہے۔ اس طرح بچوں کے حقوق کے حوالے سے یہ ایک مکمل، جامع اور عالم گیر دستاویز ہے، لیکن ساتھ ہی یہ معاہدہ اس حقیقت کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ دنیا بھر میں انسان بچوں کے معاملے میں مجرمانہ حد تک لاپروائی اور غفلت کا مرتکب ہو رہا ہے، ورنہ ایسے کسی معاہدے کی ضرورت ہی کیا تھی؟

اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف (یونائیٹڈ نیشنز انٹرنیشنل چلڈرنز فنڈ) کے زیرِ اہتمام ہر سال 20 نومبر کو عالمی یومِ اطفال منانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ادارے کا ماننا ہے کہ یہ دن دنیا بھر کے بچوں کی یک جہتی کا دن تو ہے، لیکن ساتھ ہی اس کے تحت ہر برس بچّوں کے کسی نہ کسی اہم مسئلے پر توجّہ دلانا بھی مقصود ہے تاکہ بات صرف ایک یوم منانے ہی تک محدود نہ رہے بلکہ بچّوں کے حقوق سے متعلق شعور و آگہی میں بھی اٗضافہ ہو۔ اس برس کے لیے جس تھیم کا اجراء کیا گیا ہے۔ اُس کے مطابق ’’ہمارا یہ آج (بچّے) ہی دراصل ہمارے کل کے محافظ ہیں‘‘۔ تو اپنے مستقبل کے تحفّظ کے لیے بے حد ضروری ہے کہ اپنے آج کی تعمیر بہترین خطوط پر کی جائے۔ دراصل دُنیا بھر میں بچوں کا استحصال اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ خود والدین تک اس میں شامل ہو گئے ہیں۔ بہ ظاہر یہ بات عجیب محسوس ہو گی، لیکن آپ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں اور اپنے رویوں کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینے کی کوشش کریں تو پتا چلے گا کہ ہم بچوں کی پرورش، تربیت اور تحفظ کے معاملے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ بیش تر صورتوں میں والدین کا رویہ بچوں کے ساتھ دشمنوں جیسا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مناسب تربیت کے بغیر بارہ تیرہ سال کے بچے کو موٹر سائیکل یا گاڑی کی چابی تھما دینا یا یہ خیال نہ کرنا کہ وہ والدین سے نظر بچا کر موٹر سائیکل لے کر باہر نہ جائے، غیر دانستہ طور پر دشمنی ہی تو ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہم اس کے علاوہ مزید کن حوالوں سے خود کو بچوں کا دوست ثابت نہیں کرتے۔

بدسلوکی ،بے جا سختی یا کھلی چُھوٹ

اکثر والدین خیال کرتے ہیں کہ بچوں کی تربیت، تعلیم یا تہذیب سکھانے کے لیے بچوں پر سختی اور ڈانٹ ڈپٹ ہی واحد راستہ ہے، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ جس طرح ایک بالغ فرد عزت و احترام کا متمنی ہوتا ہے، اس طرح بچے بھی عزتِ نفس کے معاملے میں خاصے حساس ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک ہی گھر کے بچوں کی نفسیات اور رویئے ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں، ضروری نہیں کہ سارے بچے ایک جیسی طبیعت یا فطرت کے مالک ہوں مگر دیکھا یہ گیا کہ والدین اپنے تمام بچوں کو ایک جیسا سمجھتے ہیں اور اس بات پر غور ہی نہیں کرتے کی کہ کس بچے کا مزاج کس قسم کا ہے۔ وہ سب بچوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کے قائل ہوتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان سارے بچوں میں کوئی ایک بہت ہی حساس ہو یا اس کا مزاج دوسروں سے مجموعی طور پر مختلف ہو اس قسم کے بچے خصوصاً اور دوسرے عموماً اپنے ساتھ، والدین کے سخت برتائو کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں اور صرف حساس طبیعت ہی نہیں عام بچوں کی بھی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ بڑوں جیسا برتائو کیا جائے، ان کی تعظیم کی جائے، اُن کی باتوں کو غور سے سنا جائے، لیکن عمومی طور پر والدین کا رویہ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہوتا۔ بری طرح ڈانٹ ڈپٹ، طعنے دینا، نالائق، بدتمیز، اُجڈ، گنوار جیسے القابات سے نوازنا تو ایک عام سی بات ہے۔ دراصل بیش تر والدین اولاد کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ انہیں اولاد کے ساتھ ہر طرح کے سلوک کی مکمل آزادی ہے۔ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک تحقیقی رپورٹ پڑھنے کا موقع ملا، جس میں بچوں سے والدین کی بدسلوکی، بدکلامی، بے رُخی، لاپروائی، ہم دردانہ رویئے کے فقدان اور مار پیٹ کے حوالے سے مختلف سوالات کئے گئے تھے تو زیادہ تر بچوں نے اپنے والدین کے سخت رویوں ہی کی شکایت کی تھی۔

اس حوالے سے محققین کا کہنا ہے کہ والدین کی بدسلوکی سے بچوں کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وہ نفسیاتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جو والدین، اپنے بچوں کے ساتھ بدکلامی، بدسلوکی، گالم گلوچ، ڈانٹ ڈپٹ یا بے جا مار پیٹ کرتے ہیں، اس کے اثرات ویسے ہی ہوتے ہیں، جیسے محاذِ جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں پر دیکھے گئے ہیں۔ یہ فوجی پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر (PTSD) یعنی ذہنی دبائو کے باعث اضطراب، بے چینی، جارحیت پسندی اور مجرمانہ رویوں کے حامل ہو جاتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق باپ کا سخت گیر انداز اور ماں کی بدکلامی ، طعنے اور کوسنے بچوں پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں۔ گرچہ کم پڑھے لکھے اور زیادہ تعلیم یافتہ دونوں ہی طرح کے والدین بچوں پر نفسیاتی تشدد کے مرتکب ہوتے ہیں، لیکن کم تعلیم یافتہ اور کم آمدنی والے والدین اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ بدسلوکی سے پیش آتے ہیں۔ ان رویوں کے نتیجے میں بچے، خصوصاً کم عمر لڑکیاں گھر سے باہر پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں اور بعض اوقات محبت و شفقت کی تلاش میں وہ غلط افراد کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، والدین کی ایک قسم ایسی بھی ہے، جو اپنے بچوں کی مارپیٹ تو کجا، روکنے ٹوکنے کی بھی قائل نہیں۔ یہ اپنے بچوں کی غلط حرکات کا کوئی نوٹس نہیں لیتے، نہ ہی اُن کی اخلاقی تربیت کرتے ہیں ان کے نزدیک بچوں کی حیثیت گویا دیوی، دیوتا جیسی ہوتی ہے۔ ان والدین کو اولاد بھی آگے چل کر خود سر، اکھّڑ نکلتی ہے وہ مجرم بن جاتے ہیں یا جرم کا نشانہ۔

والدین کا بے جا لاڈو پیار ان کی شخصیت مسخ کرنے کا سبب تو بنتا ہی ہے، لیکن اپنے اس شخصی بگاڑ کی وجہ سے وہ معاشرے کے لیے بھی خطرہ بن جاتے ہیں، البتہ ایسے گھرانے، جہاں بچوں کے ساتھ اچھا برتائو کیا جاتا ہے، اُن کی عزتِ نفس کا خیال رکھا جاتا ہے، تو اُن کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے اور یہی بچے آگے جا کر معاشرے کا کارآمد فرد بنتے ہیں۔ دوسروں کی عزت کرتے ہیں اور اپنی عزت بھی کروانا جانتے ہیں۔ ا یک ماہرِ نفسیات کا کہنا ہے کہ بچوں کی تربیت دو طرح سے ہو سکتی ہے، محبت اور شفقت سے یا پھر غصے رُعب یا خوف سے، جو بچے اپنے والدین سے محبت اور احترام پاتے ہیں، وہ دوسروں کو بھی وہی لوٹاتے ہیں، لیکن والدین سے خوف زدہ رہنے والے بچے زندگی بھر مختلف نفسیاتی مسائل ہی سے دوچار رہتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں۔

یہاں ایک اہم سوال یہ بھی اُٹھتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیسا بنانا چاہتے ہیں۔ بالکل اپنے جیسا یا خود سے مختلف۔ تو یاد رکھیئے آپ کے بچے کٹھ پتلی یا روبوٹ نہیں، عموماً ایسا ہوتا ہے کہ جب والدین اپنے بچوں پر اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش کرتے ہیں تو نتیجتاً وہ سرکش اور باغی ہو جاتے ہیں۔ بچوں کی تربیت کے ضمن میں پیار محبت سے سکھانے کا عمل زیادہ بہتر اور مثبت ہے۔ سختی، مار پیٹ، تربیت کے ضمن میں غیر مؤثر طریق ِ کار ہے، جس کے نتائج عموماً منفی ہی نکلتے ہیں۔

بچوں کی صحت سے غفلت

پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں، جہاں صحتِ عامہ کی سہولتوں کا فقدان ہے، اکثر والدین بھی اپنے بچوں کی صحت کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے، خصوصاً بچوں کی سماعت، بصارت اور بولنے کی صلاحیتوں کے ضمن میں پڑھے لکھے والدین بھی یہ مغالطے میں مبتلا رہتے ہیں۔ حالانکہ یہ بہت ضروری ہے کہ بچے کی سننے، دیکھنے اور بولنے کی صلاحیتوں کو ابتدائی عمر ہی سے پرکھ لیا جائے۔ عام طور پر بچے ایک سال کی عمر سے آسان ہدایات کو سمجھنے لگتے ہیں اور اپنا پہلا لفظ بولتے ہیں دو سال کی عمر میں بچے تقریباً 650الفاظ سمجھتے ہیں اور بیس سے تیس الفاظ بول سکتے ہیں۔ نیز، دو یا تین الفاظ پر مشتمل فقرے بولنے کے بھی قابل ہو جاتے ہیں۔ تین سال کی عمر میں بچے تقریباً دو ہزار الفاظ سمجھتے ہیں اور ایک ہزار الفاظ بولنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ اگر بچے کی نشوو نما توقع کے مطابق ہو رہی ہو ، اور بچہ والدین کی ہدایات یا اشارے بہ خوبی سمجھ کر جوابی ردّ عمل ظاہر کر رہا ہو، تو فکر کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ بچے نے ابھی تک بولنا شروع نہیں کیا۔ لیکن جب بڑھتی ہوئی عمر کے ساتھ بچہ بولنا نہ سیکھے، تو والدین کو چاہئے کہ وہ بچے کا طبی معائنہ کروائیں، کیوں کہ بچے کا بولنا زندگی کے اہم ترین مراحل میں سے ایک ہے۔

اگر خدانخواستہ بچہ سننے یا بولنے کی صلاحیت سے محروم ہے، تو بولنے کی بجائے اظہار کا کوئی دوسرا طریقہ سکھایا جائے۔ اظہار کے ان طریقوں کے لیے ایک اصطلاح ASKاستعمال ہوتی ہے، جس میں ہاتھوں کے اشارے، فوٹو گرافی اور تصویری علامات وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم، بچے کے نہ بولنے کے دیگر اسباب، خصوصاً ذہنی بیماریاں بھی ہو سکتی ہیں۔ اسی طرح اکثر بچوں میں دیگر جسمانی بیماریاں بھی ہوتی ہیں، لیکن ان کے والدین ان بیماریوں کی تشخیص سے لاعلم رہتے ہیں، جو آگے چل کر صحت کے شدید مسائل پیدا کر دیتی ہیں۔

آج کل کے بچوں میں بینائی کے مسائل بھی زیادہ ہیں۔ جب آپ کا بچہ اسکول جانا شروع کرے تو احتیاطاً اس کی آنکھوں کا معائنہ ضرور کروا لیا جائے۔ عام طور پر بڑی عمر تک پہنچ جانے کے باوجود والدین اور خود بچے کو اپنی کمزور بینائی کا علم نہیں ہو پاتا۔ اچھے اسکولوں میں تو بچوں کی آنکھوں کے ماہانہ یا سالانہ معائنے کا انتظام ہوتا ہے، لیکن زیادہ اسکولوں میں یہ سہولت دستیاب نہیں ہے۔

اس طرز پر اسکول جانے والے بچوں کا سماعتی جائزہ بھی ضروری ہے۔ بسا اوقات بچوں کی سماعت درست ہوتی ہے، لیکن کان میں میل کچیل کی وجہ سے سننے میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ تاہم، بہتر طریقہ یہی ہے کہ اسکول میں داخلے سے قبل سماعت کا ٹیسٹ کروایا جائے اس ٹیسٹ میں ایک چھوٹا ایئر فون بچے کے کان میں میں رکھ دیا جاتا ہے تاکہ کان کے اندر گونج کا پتا چل سکے۔ ایک اور ٹیسٹ میں بچے کے دماغ کی لہروں کو ناپا جاتا ہے۔ یہ سارے ٹیسٹ محفوظ ہیں اور ان سے بچوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔ اگربچہ سماعت کی کمزوری میں مبتلا ہے تو ایک اچھے آلٰہ سماعت کی مدد سے اُس کی سماعت بہتر بنائی جا سکتی ہے۔

لاتعلقی اور گریز کا رویّہ

ہم میں سے اکثر والدین اپنے بچوں کے ساتھ دُوری اور بے رُخی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہیں نہ بچوں کی مصروفیات کا علم ہوتا ہے، نہ ہی وہ یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے مشاغل کیا ہیں، ان کے دوست کون ہیں اور وہ اپنا زیادہ وقت کن دوستوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ ایسے والدین اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ ’’دوستانہ روّیہ بچوں کی تربیت کے لیے بہت مناسب ہے، اور وہ اپنے بچوں کے آئیڈیل والدین ہیں، حالاں کہ ایسا ہر گز نہیں ہے جو والدین اپنے بچوں کی سر گرمیوں پر نظر نہیں رکھتے، اُن کے دوستوں کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کرتے کہ وہ کس قماش کے ہیں، ان کے میل جول کی نوعیت کیا ہے، آگے چل کر بعض اوقات ان کو گہرے صدمات کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 2015ء میں پنجاب کے شہر قصور میں پیش آنے والا انتہائی غیر اخلاقی اسکینڈل آپ کو یاد ہی ہو گا۔ تقریباً تین سو بچوں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ انہیں ایک منظم گروہ نے زیادتی کا نشانہ بنایا ان کی ویڈیوز بنائیں۔ زیادتی کا نشانہ بننے والے بچوں میں کچھ کی عمر چھے سال بھی تھی۔ ملزمان نے ان بچوں کو ڈرا دھمکا کر یا نشہ آور انجکشن لگا کر انہیں بلیک میل کیا۔ یہ بچے خوف کے مارے ان کا ہر مطالبہ پورا کرتے رہے۔ کچھ بچے گھروں سے رقم اور زیورات چرا کر بھی انہیں دیتے رہے، یہ سب اس وجہ سے ہوا کہ والدین نے اپنے بچوں کی حرکات و سکنات اور دیگر سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھی۔ ہر بچے کی زندگی میں، خواہ وہ لڑکا ہو یا لڑکی، دورِ بلوغت ایک انتہائی ہیجانی دور ہوتا ہے۔ ماہرین ِ نفسیات کے مطابق اس دور کی ابتداء لڑکیوں میں گیارہ بارہ سال سے اور لڑکوں میں تیرہ چودہ سال کی عمر سے ہوتی ہے۔ اس دور میں بچوں کو بھرپور توجہ اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اکثر والدین اپنی اولاد کے اس ہیجانی دور کو سمجھ نہیں پاتے۔ بالغ ہوتے بچوں کو چھوٹا یا غیر اہم سمجھ کر نامناسب طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔ باہرکی دُنیا کیسی ہے اور اس دنیا میں ان کے بچوں کے ساتھ غیروں کا برتائو کیا ہے، وہ جاننے اور سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ جس گھر کا ماحول دوستانہ ہو اور بچوں کو اپنے مسائل ، بڑوں کے ساتھ بیان کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ ہوتی ہو اور والدین کا رویہ حوصلہ افزا ہو، تو وہاں عموماً والدین اور بچوں کے درمیان خلیج نہیں پائی جاتی۔

بلوغت میں قدم رکھنے والے بچوں کو یہ احساس دلانا ضروری ہو تا ہے کہ وہ والدین کا ’’مان‘‘ہیں۔ والدین کا اثاثہ ہیں۔ والدین کا بھروسا ہیں۔ لہٰذا وہ اُن کا اعتماد ٹوٹنے نہ دیں۔ اس طرح والدین کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کے نفسیاتی رجحانات سے آگاہ رہیں۔ بہانے بہانے سے ان کی کاپیوں اور کتابوں کو چیک کیا جائے، ان کے باہر آنے جانے پر نظر رکھی جائے۔ خصوصاً جن کے بچے مخلوط تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں، والدین ان کے دوستوں اور ہم جماعتوں کے بارے میں ان کے احساسات کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ کراچی کے ایک اسکول میں نویں جماعت کی ایک طالبہ اور طالب علم کے قتل اور خودکشی کا واقعہ آپ بھولے تو نہ ہوں گے، اگر آپ اپنے بچوں کی جذباتی کیفیات سے لاعلم ہیں، تو آگے چل کر یہ بات سنگین مسائل کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

اخلاقی اقدار اور آدابِ معاشرت

ایک دور تھا، جب بچوں کی اخلاقی تربیت پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا تھا۔ انہیں تہذیب اور آدابِ معاشرت سے روشناس کروایا جاتا۔ ننگے سر رہنا، کھانا، فضول بولنا، پسند نہیں کیا جاتا، بچوں کو سب سے پہلے سلام یا آداب کرنا سکھایا جاتا۔ سونے اور بیدار ہونے کے وقت کی دعائیں سکھائی جاتیں۔ اُن کے لیے لازم ہوتا کہ ہاتھ دھو کر دسترخوان پر دو زانو بیٹھیں۔ اگر کوئی بچہ کھانے کے دوران ’’چَپ چَپ‘‘ کی آوازیں نکالتا، تو بڑے بوڑھے اُسے ٹوکتے تھے۔ پلیٹ کو اچھی طرح صاف کرنے کی تاکید کرتے۔ کھانا شروع کرنے سے قبل بسم اللہ اور کھانے کے بعد ’’الحمد للہ ‘‘ کہنا ضروری تھی۔ مگر آج یہ سب باتیں فرسودہ سمجھ کر بھلا دی گئی ہیں۔ جن والدین کی یہ ذمّے داری ہے، وہ خود ان باتوں سے بے پہرہ ہیں۔ دسترخوان پر کھانے کی کوئی تمیز نہیں۔ اُٹھنے بیٹھنے کے آداب کا پتا نہیں۔ پہلے زمانے میں لیٹنے کے بھی آداب تھے، بچوں کو اُوندھے لیٹنے سے منع کیا جاتا تھا۔ بیٹیاں اور بہنیں سر ڈھانپے بغیر بڑوں کے سامنے نہیں آسکتی تھیں۔ بڑوں کے سامنے بچے اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتے تھے، مگر آج کے گھرانوں میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ والدین بے بس ہیں اور اولاد خود سر، اخلاقی اقدار اور آداب کی کہیں کوئی گنجائش نہیں بچی۔ سو، بچوں کو تہذیب و تمیز نہ سکھانے والے والدین کی کثرت ہے۔

کم سنی کی شادی

پاکستان میں مسلم فیملی لاء آرڈی نینس کے مطابق شادی کے لیے لڑکی کی کم از کم عمر سولہ برس اور لڑکے کی اٹھارہ سال مقرر ہے، لیکن بہت سے والدین اپنی اولاد، خصوصاً لڑکیوں کے ساتھ یہ ظلم کرتے ہیں کہ انہیں کم عمری ہی میں بیاہ دیا جاتاہے۔ اس طرح ایک لڑکی، جس کے ابھی کھیلنے کودنے کے دن تھے، اس کا بچپن اُس سے چھین لیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے پس ماندہ اور قبائلی علاقوں میں یہ رواج عام ہے کہ رقم کے عوض کم سن بچیوں کی شادیاں دُگنی عمر کے مردوں سے کردی جاتی ہیں۔

کم سنی کی شادی کے نقصانات بیان کرنے کے لیے تو ایک پورا دفتر درکار ہوگا، لیکن مختصراً اس کا سب سے بڑا نقصان معاشرتی برائیوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ بین الاقوامی معاہدے کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر فرد ’’بچہ‘‘ شمار ہوتا ہے، لہٰذا کم عمری کی شادی نہ صرف بچوں کا استحصال ہے بلکہ یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے زمرے میں بھی آتا ہے، لہٰذا والدین اپنی کم عمر بیٹی کی شادی کر کے نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ دوسرے ان کا یہ عمل اپنی اولاد کے ساتھ کھلی دشمنی کے مترادف ہے۔

نو عمر محنت کش

جس طرح ایک بچی کی کم عمری میں شادی کر کے اُس سے کی معصومیت اوربچپن چھین لیا جاتا ہے، اسی طرح کچھ والدین حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے کم سن بچوں کو محنت مزدوری کے جہنم میں بھی دھکیل دیتے ہیں۔ پاکستان میں بڑے پیمانے پر چائلڈ لیبر موجود ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان، چائلڈ لیبر کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں تیسرے نمبر پر آتا ہے۔ عالمی ادارہ محنت کے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں تقریباً دو کروڑ بچے کسی نہ کسی صورت معاشی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔

چائلڈ لیبر، انسان کے استحصال کی ایک بدترین شکل ہے اور یقیناً اس کے ذمّے دار والدین ہی ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں سے بڑی تعداد میں کم سن بچے محنت مزدوری کے لیے شہروں میں بھیجے جاتے ہیں اور کسی دکان میں، ٹھیلے پر، ہوٹل میں کام کرنے والا یہ کم سن بچہ سستے ترین مزدور کی حیثیت رکھتا ہے، جو صرف اپنے والدین کی وجہ سے حالات کی بھٹی کا ایندھن بن جاتا ہے۔

چائلڈ لیبر کی ایک شکل گھریلو ملازمین کی بھی ہے۔ جو انتہائی قلیل تنخواہ پر گھروں میں کام کاج کرتے ہیں۔ گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے والوں میں نو عمر لڑکیاں زیادہ ہیں، جن کے والدین چند ہزار روپے ماہوار کے عوض انہیں امراء کے گھروں میں چھوڑ دیتے ہیں۔ جہاں یہ بچیاں محنت و مشقت کے باوجود، مالکان کے ظلم و ستم بھی برداشت کرتی ہیں۔ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی سماجی تنظیموں کے مطابق ان محنت کش بچوں کو جنسی اور جسمانی تشدد اور بدکلامی و بدسلوکی کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے اور بدقسمتی سے گھریلو ملازمین کے طور پر کام کرنے والے کم سن بچوں کے قانونی اور سماجی تحفظ کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

پولیو مہم، بروقت ویکسی نیشن

پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لیے وقفے وقفے سے مہم چلائی جاتی ہے، لیکن ہر بار اس کا آغاز کسی جنگی مہم کی طرح کرنا پڑتا ہے۔ پولیو ورکرز، بندوقوں کے سائے میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں، انتظامیہ کے تمام حفاظتی اقدام کے باوجود پولیو ورکرز کی زندگیاں، خطرات میں گھری رہتی ہیں۔ پورے ملک میں اب تک متعدد لیڈی پولیو ورکرز، سفاک قاتلوں کا نشانہ بنائی جا چکی ہیں۔ ڈھائی تین سو روپے یومیہ پر کام کرنے والی ان بے چاری مظلوم خواتین کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ اپنی قوم کے بچوں کو معذوری سے بچانے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ ایک طرف یہ رویہ تھا تو دوسری طرف یہ رویہ ہے کہ بہت سے ناخواندہ والدین بھی اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلا کر ان سے دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں۔ پوری دنیا سے پولیو ختم ہو چکا ہے، لیکن پاکستان میں آج بھی اس کے نئے کیس سامنے آرہے ہیں یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ کچھ والدین، اس پروپیگنڈے کے تحت اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلاتے کہ اس کے ذریعے مسلمان دشمن قوتیں، مسلمانوں کی نسل کشی کرنا چاہتی ہیں، حالاں کہ یہ بالکل بے بنیاد پروپیگنڈا ہے لیکن جہالت اور پس ماندگی کی زندگی گزارنے والے والدین خود اپنی اولاد ہی کے دشمن بن کر ان کا مستقبل دائو پر لگا رہے ہیں۔

روڈ سیفٹی کی تعلیم

ماہر ین کے مطابق بچوں کو اوّائل عمری سے سڑک پر چلنے یا سڑک استعمال کرنے کی تعلیم دینی چاہئے۔ سڑک کس طرح عبور کی جاتی ہے۔ ٹریفک سگنل اور ٹریفک کے دیگر نشانات کا مطلب کیا ہے سڑک پر چلنے کے دوران کن قواعد کا خیال رکھنا چاہئے، حادثات سے کس طرح بچا جائے، بڑے شہروں میں خاص طور پر اس کی تعلیم کا آغاز پری پرائمری ہی سے ہو جانا چاہئے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نصاب میں خصوصاً اُردو ذریعہ تعلیم میں اس قسم کے اسباق موجود نہیں ہیں۔ اس صورت میں یہ والدین کی ذمّے داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ٹریفک کے قواعد سے آگاہ کریں۔ لیکن بیش تر والدین نے اس اہم ترین معاملے کی جانب سے بھی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کراچی میں حادثات کی شرح میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، حادثے کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تعداد نوجوان موٹر سائیکل سواروں کی ہوتی ہے۔ پہلی بات یہی ہے کہ والدین نو عمر بچوں کو ٹریفک کے قوانین اور احتیاطی تدابیر سے روشناس کروائے بغیر گاڑی کی چابی دے دیتے ہیں۔ ایسے نو عمر بچوں کے پاس خصوصاً ڈرائیونگ لائسنس تک نہیں ہوتا، نہ ہی انہیں ٹریفک کے ازدحام میں گاڑی چلانے کا معقول تجربہ ہوتا ہے بہتر طریقہ یہ ہے کہ والدین خصوصاً باپ، پوری ذمے داری کے ساتھ اپنی اولاد کو ٹریفک کے قواعد سکھائیں، خصوصاً چھوٹے بچوں کو سڑک عبور کرنے کا صحیح طریقہ ضرور بتائیں۔ سڑک عبور کرتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھنا یا بے دھیانی سے سڑک عبور کرنا انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ بچوں میں ٹریفک کا شعور پیدا کرنے کا صحیح طریقہ ’’دیکھو، پھر دیکھو‘‘ ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ چھوٹے بچوں کو تنہا سڑک عبور کرنے نہ دی جائے اور خود والدین کو بھی چاہئے کہ سڑک عبور کرتے ہوئے چھوٹے بچوں کا ہاتھ مضبوطی سے تھام کر رکھیں۔ اکثر خواتین کو دیکھا گیا ہے کہ اپنے بچوں کا ہاتھ تھامے بغیر سڑک عبور کرتی ہیں یا بچے سڑک کے درمیان پہنچ کر اپنا ہاتھ چھڑوا لیتے ہیں۔ یہ دونوں ہی باتیں خطرناک ہیں اور حادثات کا سبب بنتی ہیں، لہٰذا بچوں کو سکھایا جائے کہ وہ سڑک پر بدحواس نہ ہوں اور مکمل احتیاط کے ساتھ سڑک عبور کریں۔ 

تازہ ترین