• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خاتمُ الانبیاء، سرورِ کونین حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی ولادت با سعادت

 امام الانبیاء ، سیّد المرسلین، حضرت محمدمصطفیٰﷺ کی ولادت باسعادت ،آپ ﷺ کی تشریف آوری اور آپﷺ کی بعثت تاریخِ عالم کا عظیم واقعہ اور ایک بے مثال انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔بلاشبہ آپ ﷺ کی بعثت اور نبوت و رسالت امت پر اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے۔ارشادِ ربانی ہے:’’اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجا‘‘رسول اﷲ ﷺنے فرمایا،میں نبی تھا اور آدمؑ ابھی جسد اور روح میں تھے ۔یعنی ان کی روح ان کے جسم میں داخل نہیں ہوئی تھی، اُس وقت بھی میں نبی تھا۔ حضور ﷺ مبدأ کائنات ہیں۔آپ ﷺمخزن کائنات ہیں۔منشاء کائنات اور مقصود کائنات ہیں۔ایک حدیث میں آیا ہے۔اے پیارے حبیبﷺ تو نہ ہوتا تومیں دنیا کو نہ بناتا۔ایک حدیثِ قدسی میںفرمایا گیا:اے میرے نبی ،اگر آپ ﷺکو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا میں آسمانو ں کوبھی پیدانہ کرتا۔ نبی کریم ﷺ کے اول ہونے کا مضمون قرآن اس طرح بیان کرتا ہے:اے حبیبﷺ ہم نے آپﷺ کو نہیں بھیجا، مگر سارے عالموں کے لیے رحمت بناکر۔پھر آپ ﷺ سے ہی کہلوایا گیا کہ ’’تم فرمائو اللہ ہی کے فضل اور اُسی کی رحمت پر چاہیے کہ خوشی کریں ،وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے‘‘۔

اللہ عزّوجل کی عظیم ترین رحمت، فضل اور نعمت نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ ہے، کیوںکہ آپﷺ کو مبعوث فرما کر خالق کائنات نے خود مومنین پر اس احسان عظیم کو جتایا ہے۔ سورۂ والضحیٰ میں ہے ’’اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو‘‘ آنحضرت ﷺ کی ولادت باسعادت اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ارشادِ ربانی ہے:بے شک، رسول کریم ﷺکی پیروی بہتر ہے،اس کے لیے جو اللہ اورآخرت پریقین رکھتاہواور اللہ کوبہت یاد کرے، اس میں مسلمانوں کوہدایت ہے کہ اگر دین ودنیاکی کامیابی چاہتے ہوتو رسول اللہ ﷺ کی زندگی کواپنی زندگی کے لیے نمونہ بنالواور ان کی پیروی کرو، ہرمسلمان کو حکم دیاگیا ہے ۔مسلمانوں میں بعض بادشاہ ہوںگے، بعض حاکم، بعض مال دار، بعض غریب، بعض گھر والے، بعض تارک الدنیا اب ہر شخص چاہتا ہے کہ میری زندگی حضور علیہ السلام کی زندگی کے تابع ہو۔

رسولِ اکرمﷺ کی ولادت باسعادت کا مہینہ ربیع الاول مقدس ماہ مبارک ہے، جس میںسیّد المرسلین احمد مجتبیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اس دنیا میں جلوہ افروز ہوئے۔اس ماہ میں دو ایسے واقعات اسلامی تاریخ کا حصہ بنے جو ہمیشہ کے لیے تاریخ عالم میں ثبت ہوگئے۔ان میںایک محسنِ انسانیت، خاتم الانبیاء والمرسلین حضرت محمد ﷺ کی ولادت باسعادت کا واقعہ اور دوسرا آپﷺ کا وصال ہے۔ آپﷺ کی اس دنیا میں تشریف آوری تاریخ انسانیت کا سب سے عظیم اور سب سے مقدس واقعہ ہے ۔نبی کریمﷺ کا روئے زمین پر تشریف لانا ہی تخلیق کائنات کے مقصد کی تکمیل ہے۔یہ زمین و آسمان اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب ﷺ کی خاطر ہی پیدا فرمائے۔

بعثتِ محمدیﷺ کائنات کی سب سے عظیم نعمت ہے جو خالق کائنات نے اپنی مخلوقات پر فرمائی یعنی ہر نبی سے یہ عہد لیا گیا کہ اس کی زندگی میں باوجود ان کی نبوت کی موجودگی کے اگر آنے والے نبیﷺ تشریف لے آئیں تو پھر کسی نبی کی نبوت نہیں چل سکتی،بلکہ اس نبی کو بھی سرور عالم ﷺ کی نبوت و رسالت پر ایمان لاتے ہوئے ان کی تائید و نصرت کرنا ہو گی۔جب انبیائے کرامؑ کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو پھر ان کی امتوں کا کیا وصف ہونا چاہیے؟ظاہر ہے کہ ان کے لیے تو بدرجۂ اولیٰ لازم ہے کہ وہ سرور کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم پر ایمان لائیں اور انبیاءؑ کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیے گئے عہد کی پاس داری کرتے ہوئے منشائے ربّانی کے مطابق آقاﷺ کی اطاعت و فرماںبرداری اختیار کریں،چوںکہ ہادی عالم ﷺ کی بعثت مبارکہ کے بعد تمام شریعتیں منسوخ ہوگئیں۔ قیامت تک کے لیے دستورحیات،صرف اور صرف شریعتِ مصطفویؐ قرار پائی ہے۔جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’(اے محمد ﷺ) کہہ دیجیے کہ لوگو، میں تم سب (یعنی پوری انسانیت) کی طرف اللہ کا بھیجا ہوا ہوں (یعنی اس کا رسول ہوں) (وہ) جو آسمانوں اور زمین کا بادشاہ ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگانی بخشتا اور وہی موت سے ہمکنار کرتا ہے،تو اللہ پر اور اس کے رسول نبی امیﷺ پر جو اللہ اور اس کے تمام کلام (یعنی تمام سابقہ کتب و صحائف) پر ایمان رکھتے ہیں، ایمان لائو اور ان کی پیروی کرو،تاکہ تم ہدایت پا جائو۔(سورۃ الا عراف)

یہ اللہ تعالیٰ کا انسانیت پر احسان عظیم ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو کسی خاص خطے، قوم یا زبان والوں کا نبی بنا کر نہیں،بلکہ آپﷺ پوری انسانیت کے لیے پیغمبر رشد و ہدایت کے مقام عظمت و رفعت پر فائز کر کے مبعوث فرمائے گئے۔

نبیﷺ کی شفقت، محبت، ہمدردی، صبر و تحمل، برداشت، بردباری، حلیمی بھری خیرخواہانہ جدوجہد جو صعوبتوں اور مشکلات کے درمیان رہی، ان کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ انسان جن کی تاریخ مؤرخین نے انتہائی بھیانک لکھی تھی، اُن کی تاریخ نبیﷺ کی 23 سالہ مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں انتہائی تابناک بن گئی۔نبیﷺ کی اس 23 سالہ مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں دنیا کے اندر ایک عظیم انقلاب آیا جو لوگ دوسروں کے لہو کے پیاسے تھے، وہ آج دوسروں کے لیے اپنا خون بہانے پر تیار ہوگئے، جو اپنا وزن طاقتور کے پلڑے میں ڈال دیا کرتے تھے، آج اُن کا وزن پِسے ہوئے لوگوں کے حق میں استعمال ہونے لگا، جو دوسروں کے دانے چھین لیا کرتے تھے، آج خود ضرورت ہونے کے باوجوددوسروں کو ترجیح دینے لگے، اس انقلاب عظیم کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو نبیﷺ کے پاس اس جدوجہد کے لیے نہ مالی وسائل تھے، نہ خاندانی پشت پناہی تھی،نہ افراد کی عددی کثرت تھی، تن تنہا آپﷺ کی ذات تھی او رآپ نے اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں ان چیزوں کے حوالے سے کسی قسم کا شکوہ بھی نہیں فرمایا اوراپنے خیرخواہانہ جذبے اور اخلاق کریمہ کو مایوس ہوئے بغیر بروئے کار لاتے ہوئے ایک عظیم انقلاب برپا کردیا جس میں اشرافیہ کو بھی اور پسے ہوئے معاشرے کو بھی یکساں مواقع ملے، جس کے بعد اس شکوے اور اس عذر کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہی کہ اصلاح معاشرہ کا کام کرنے والے یوں کہیں کہ ہمارے پاس مالی وسائل نہیں ہیں یا کوئی یہ عذر پیش کرے کہ کثرت مال کی وجہ سے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکا یا پسا ہوا معاشرہ یوں شکوہ کرے کہ مال کی قلت ہماری کامیابی میں رکاوٹ بنی۔یہ تو خالصتًا دل پر محنت تھی جسے اللہ تعالیٰ نے محنت کرنے والے کو بھی اور اشرافیہ کو بھی اور پسے ہوئے معاشرے کے ہر فرد کو بھی عطا فرما رکھا ہے اور اس دل کی محنت کے نتیجے میں جب دلوں کا فساد ختم ہوا تو جسم سے نکلنے والے اعمال بھی صالح بن گئے اور اس کے اثرات معاشرے میں بھی مثبت انداز سے ظاہر ہوئے۔ یوں پوری دنیا کی کایا ہی پلٹ گئی۔ یہ آپﷺ کی فتح و کامیابی کا عظیم اور تاریخ ساز کارنامہ ہے۔

تازہ ترین