• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقصود بٹ

وطن عزیز کی سیاست کے ماحول میں گرما گرمی کی کیفیت عروج پر دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن قومی مسائل و معاملات کی بجائے ایک دوسرے پر الزام تراشی اور دشنام طرازی کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ حکومت ابھی تک اقتصادی بحرانوں اور انتظامی امتحانوں کے حصار میں گھری محسوس ہورہی ہے اور اس کا سارا غصہ ماضی کے حکمرانوں پر نکال کر اپنی ’’سیاسی دکانداری‘‘ چلا رہی ہے۔ یہ بھی محسوس کیا جارہا ہے کہ حکومت گردشی قرضوں کے بوجھ کو جواز بنا کر بین الاقوامی سطح پر ملکی تشخص اور ساکھ کو نہ صرف متاثر کررہی ہے بلکہ کرپشن کی داستانوں کے حوالہ سے ملک کے امیج کو خراب کرکے ایسا منظر پیش کررہی ہے کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو تذبذب کا ماحول فراہم ہورہا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دونوں ایوانوں میں حکومتی وز راء اور اپوزیشن رہنمائوں کے درمیان ہونے والے جھگڑوں اور تلخیوں کے ماحول نے بھی کئی سوالات کو جنم دے رکھا ہے۔ حکومت کے بارے میں سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے حکومت کی عنان سنبھالتے ہوئے ’’سوروزہ پلان‘‘ پر مبنی عوام کو جو خواب دکھلائے تھے ان کی پیش رفت کے سلسلہ میں اٹھنے والے خدشات نے عوام کے لئے مشکلات کے کئی دروازے کھول دئیے ہیں۔ بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کو مہنگائی، بےروزگاری جیسے آلام سے دوچار کردیا ہے جس سے ان کے تبدیلی کے خواب چکناچور ہوگئے ہیں۔اپوزیشن کی دونوں جماعتوں نے جلد ہی محسوس کرلیا ہے کہ حکومت کی تمام پالیسیوں کو سابق صدر مشرف کے دو ر آمریت سے مماثلت دی جاسکتی ہے کیونکہ جس طریقہ سے انہوں نے احتساب کا نعرہ لگا کر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو مختلف مقدمات میں ملوث کرکے پارٹیوں کو شکست و ریخت سے دو چار کردیا تھا،اب پھر موجودہ حکومت نےاسی طرح کے احتساب کا سہارا لے کر اپوزیشن کو ایک بڑے امتحان میں مبتلا کردیا ہے۔ مسلم لیگ(ن) جیسی دوسری بڑی سیاسی جماعت کی قیادت کو جس انداز میں یکطرفہ احتساب کے ذریعے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے اس بارے میں مسلم لیگی قیات کا کہنا ہے کہ پارٹی قائد میاں نواز شریف نہ صرف ریفرنسوں کی اذیت میں مبتلا ہیں بلکہ پارٹی صدر اور اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف بھی مختلف مقدمات میں نیب کی تحویل میں ہیںاور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو مختلف الزامات کی انکوائریوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنمائوں کو بھی مقدمات میں طلب کیا جارہا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت بھی یہ محسوس کررہی ہے کہ ان کی پارٹی کے سربراہ کے علاوہ پارٹی رہنمائوں کو مختلف الزامات کے تحت گرفتار اور ہراساں کیا جارہا ہے۔ ان دونوں پارٹیوں کی قیادت کا موقف ہے کہ حکومت مختلف مقدمات میں الجھا کر اپنی سیاست کرنا چاہتی ہے۔ سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور چین جیسے دوست ممالک کے دوروں کے دوران حکومتی قیادت کی طرف سے ماضی کی حکومتوں کے بارے میں جو تفصیلات بیان کی گئی ہیں اس سے کسی بھی حوالے سے ملک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا ۔ یہ بات تو واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے کہ ان دوروں کے بعد وزیر خزانہ اسد عمر واشگاف طور پر اعتراف کررہے ہیں کہ قرضوں کی ادائیگی کے معاملات میں دوست ممالک کے تعاون سے تمام دشواریاں حل ہوگئی ہیں، تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کیا ضرورت ہے اور آئی ایم ایف کا وفد کن شرائط پر پاکستان سے مزید قرضوں کے لئے مذاکرات کے لئے آیا ہوا ہے اور وفود کی سطح پر بھی ملاقاتوں کا اہتمام ہورہا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جن شرائط پر آئی ایم ایف سے گفتگو ہونے کا امکان ہے وہ شرائط تو حکومت مختلف اقدامات کے ذریعے اس سے قبل ہی پوری کرچکی ہے۔

اس کے علاوہ یہ بھی بڑی خوشگوار حیرت کا مقام ہے کہ ارکان اسمبلی کے لئے ایوان میں ضابطہ اخلاق کی پاسداری کے سلسلہ میں حکومت کی طرف سے وزیر دفاع پرویز خٹک اور اپوزیشن کی طرف سے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے اخلاقی روایات کو برقرار رکھنے کا مشترکہ طور پر عندیہ دیا ہے جس پر تمام ارکان اسمبلی نے اتفاق کیا ہے۔ صوبائی دارالحکومت بھی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سینٹ کے لئے دونشستوں کے انتخاب کی وجہ سے حکومت اور اپوزیشن بڑے زور و شور سے جوڑ توڑ میں مصروف ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں کی حمایت کے اعلان کے بعد عددی طور پر تو دونوں فریقین کے درمیان سخت مقابلہ کا واضح امکان ہے ۔ مسلم لیگ(ن) کی طرف سے سعودمجید اور سائرہ افضل تارڑ امیدوار ہیں جبکہ حکومت اور ان کے اتحادیوں کی طرف سے ولید اقبال اور سیمی ایزدی کو امیدوار بنایا گیا ہے۔ سینیٹ کی اس انتخابی مہم کے سلسلہ میں ایک ایسی ویڈیو سامنے آئی جس نے سیاسی ماحول میں ہلچل پیدا کردی ۔ مذکورہ ویڈیو میں تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین جب چودھری برادران کی رہائش گاہ پر اپنی ہمشیرہ سیمی ایزدی اور دوسرے پارٹی امیدوار کے لئے ووٹ مانگنے گئے تو وہاں پر وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے واشگاف طور پر گورنر پنجاب چودھری سرور کی ان کے انتخابی حلقے میں مداخلت کے بارے میں اپنے شدید تحفظاف کا اظہار کیا اور جہانگیر ترین کو واضح کیا کہ گورنر پنجاب اپنی مداخلت سے وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھی صوبے میں چلنے نہیں دے رہے۔ وفاقی وزیر کے ان تحفظات پر اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے بھی وفاقی وزیر کی بھرپور تائید کی اور واضح کیا کہ اس سے قبل بھی اس طرح کی شکایات ہماری پارٹی کے لوگوں کو ہیں۔ بعدازاں اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے پریس کانفرنس کے ذریعے وضاحت کی کہ حکومتی اتحاد میں نہ کوئی اختلافات ہیں اور نہ ہی کوئی اختیارات کی جنگ ہے۔ فیملی میں اختلافات کی طرح اتحادیوں میں بھی شکوے شکایات ہوسکتے ہیں۔ اس کے بعد گورنر پنجاب نے بھی معاملہ کو اسی طریقہ سے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ چودھری برادران اور وفاقی وزیر سے کوئی اختلافات نہیں ہیں۔ یوں یہ معاملہ وزیر اعظم عمران خان کے علم میں بھی لایا گیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے بارے میں یہ تاثر جاتا ہے کہ صوبے میں ’’ہیوی ویٹ‘‘ اعلیٰ عہدے داروں کی موجودگی میں ان کے وجود کا احساس کم دکھائی دیتا ہے۔ وزیر اعظم جب بھی لاہور آتے ہیں وہ ان کے بارے میں ایسی گفتگوکرتے ہیں کہ سب کو ان کے’’ سیاسی وجود‘‘ کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ ادھر پنجاب اسمبلی کے اجلاسوں کے دوران اپوزیشن کی طرف سے بھی بھرپور احتجاج جاری رہا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ شریف فیملی پر بڑھتی ہوئی مشکلات کے باوجود میاں حمزہ شہباز شریف بڑے جرأت مندانہ انداز میں قائد حزب اختلاف کا کردار ادا کررہے ہیں اور اپنے ارکان اسمبلی سے کوآرڈی نیشن کے علاوہ مخلص کارکنوں کو بھی خصوصی ترجیح دے رہے ہیں۔ انہوں نے جس جارحانہ انداز میں حکومت کے مہنگائی اور گرانی کے اقدامات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے نیب اور حکومت کے گٹھ جوڑ کو جس زاویے سے بےنقاب کیا ہے اس کا اعتراف تو حکومتی عہدےداروں کی طرف سے کئے جانے والے شدید ردعمل سے واضح طور پر ظاہر ہورہا ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین