• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک برس اورتمام ہوا۔ قومی زندگی کے اعمال نامے میں ایک سال کا مزید اضافہ ہو گیا۔ اجتماعی حیات کے بہت سے شعبے کام یابیوں اور ناکامیوں سے عبارت رہے۔تاہم، زندگی کے اہم ترین شعبے’’شعبۂ تعلیم‘‘کی مجموعی تصویر کشی کچھ زیادہ اچھی نہیں۔حالاں کہ اگر تعلیم کی اہمیت پر ایک نگاہ اس زاویے سے ڈالیں کہ اللہ نے اپنے دین کو، اپنے محبوب ترین بندے کے ذریعے جب لوگوں تک پہنچانے کا ارادہ کیا، تو’’ کُن فیکون‘‘ نہیں، بلکہ ’’اقرا‘‘ کہا۔ یعنی کتابِ الہٰی کا آغاز ہی علم سے ہوتا ہے، تو علم کی اہمیت مسلّمہ ہوجاتی ہے۔

پاکستانی نوجوان اور خاص طور پر بچّوں کی ایک بڑی تعداد بدقسمتی سے تعلیم سے محرومی کے معاملے میں خطّے کے دیگر مُمالک سے بہت آگے نظر آتی ہے۔ وفاقی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق مُلک کے ڈھائی کروڑ بچّے ایسے ہیں، جو اسکول نہیں جاتے۔ وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود نے اس سلسلے میں وفاقی اور صوبائی ماہرینِ تعلیم کا ایک اجلاس بھی طلب کیا تھا، جس میں اس بات کا عہد کیا گیا کہ حکومت اُن ڈھائی کروڑ بچّوں کو جو اسکول سے دُور ہیں، اسکول بھیجنے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔ ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ ایک بین الاقوامی این جی او ہے، جو مختلف مُمالک میں تعلیمی، سماجی اور سیاسی میدانوں میں کام کرکے اپنی رپورٹ مرتّب کرتی ہے۔ اس این جی او نے پاکستان میں تعلیم کے سلسلے میں گزشتہ دِنوں اپنی ایک رپورٹ جاری کی، جس کے مطابق ’’اسکول میں داخلوں سے محروم بچّوں کی تعداد لگ بھگ سوا دو کروڑ ہے، جس کی اکثریت بچّیوں پر مشتمل ہے۔‘‘رپورٹ کے مطابق’’ پرائمری سطح کی بتیس فی صد بچّیاں اسکول نہیں جاتیں،جب کہ لڑکوں میں یہ شرح اکیس فی صد ہے۔‘‘ این جی او کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان اپنی جی ڈی پی کا تین فی صد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کرتا ہے،جسے کم از کم شرح کے مطابق بھی چار سے چھے فی صد ہونا چاہیے۔ یہ سارے اعداد و شمار اس بات کی عکّاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ پاکستان کو تعلیم کے میدان میں جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سوا دو کروڑ سے ڈھائی کروڑ بچّوں کی تعلیم سے محرومی صرف اُن بچّوں اور اُن کے والدین ہی کی محرومی نہیں، بلکہ یہ مُلک و قوم کی بھی بہت بڑی محرومی ہے۔

سال2018ء میں حکومت نے بجٹ میں تعلیم کی مَد میں111.23بلین روپے مختص کیے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن یا HEC ایک طاقت وَر اور بااثر ادارہ ہونے کے ساتھ مُلکی جامعات کے نظام کو بہتر بنانے میں کوشاں ہے۔تاہم، اس کے بڑھتے ہوئے اثر و رُسوخ سے بہت سے لوگ نالاں بھی ہیں۔ حکومت اس ادارے کو بہت اہمیت دیتی ہے اور اس کے لیے بجٹ میں مخصوص رقم رکھی جاتی ہے۔ چناں چہ گزشتہ برسوں کی طرح2018ء میں بھی ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔2017ء میں اس کے لیے35.7 بلین روپے مختص کیے گئے تھے، جو گزشتہ برس بڑھا کر 46.7 بلین روپے کر دیے گئے۔ بجٹ دستاویز کے مطابق مجموعی مختص کردہ رقم میں سے40,218ملین روپے جاری اسکیموں کے لیے ،جب کہ 6,462ملین روپے نئی اسکیموں کے لیے مختص کیے گئے۔ اسی طرح تعلیمی معاملات اور خدمات کی مَد میں بھی لگ بھگ سات بلین روپے کا اضافہ کیا گیا۔ 2017ء کے بجٹ میں اس عنوان سے پہلے0,516 9ملین روپے مختص کیے گئے، جس پر نظر ثانی کرتے ہوئے اُسے90,818 ملین روپے کر دیا گیا۔ پھر2018ءکے بجٹ میں یہ رقم مزید بڑھا کر 97,420ملین روپے کر دی گئی۔ نیز، اعلیٰ ثانوی تعلیم کی مَد میں 2017ء کی مختص کردہ 68,252 ملین روپے کی رقم میں تقریباً تین ملین کا اضافہ کرتے ہوئے اُسے 71,824 ملین روپے تک پہنچا دیا گیا۔پنجاب حکومت نے سال2018ء کے لیے2,026.51 بلینز روپے کا بجٹ پیش کیا، جس میں تعلیم کی مَد میں مختص کی گئی رقم 373 بلین روپے تھی۔ یوں تعلیم کے میدان میں مختص کی گئی رقم شرحِ فی صد میں اٹھارہ اعشاریہ پانچ بنتی ہے۔یہ شرح 2017ء کی شرح سے اضافے کی حد تک کچھ زیادہ نہیں ہے۔2017ء میں تعلیم کے لیے 345بلین روپے مختص کیے گئے تھے ،جو بجٹ کا 17.51 فی صد تھا۔ صوبائی حکومت نے اسکول کی سطح کی تعلیمی اہمیت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس مَد میں 25 بلین روپے مختص کرنے کا اعلان کیا،جس میں ’’ہائر ایجوکیشن سیکٹر‘‘ کے لیے مختص کیے گئے5 بلین روپے بھی شامل تھے۔ سندھ حکومت نے سال2018-19 ءکے لیے1,144.5 بلین روپے کا بجٹ پیش کیا۔ تعلیم کے لیے سندھ حکومت نے گزشتہ بجٹ کے 178.7 بلین روپے کو 211بلین روپے تک بڑھا دیا۔ سندھ حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ پہلے سے قائم شدہ 4,560 اسکولوں کی بہتری اور توسیع کا کام بھی کرے گی، جس سے صوبے میں ساڑھے پانچ لاکھ طلبہ کا اضافہ ہو جائے گا۔ صوبائی حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ سندھ کے29اضلاع میں2632بنیادی سے اعلیٰ ثانوی اسکول قائم کرے گی۔ ان اعلانات کے علاوہ بھی سندھ حکومت نے تعلیم کے میدان میں بہتری کے بہت سے منصوبوں کا اعلان کیا۔خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت نے سال 2018-19 ء کے لیے 648بلین روپے کا بجٹ پیش کیا۔ اس ذیل میں تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی رقم 167 بلین روپے رکھی گئی۔بنیادی اور ثانوی تعلیم کے لیے 146.11 بلین روپے اور 18.8بلین روپے اعلیٰ تعلیم کی مَد میں مختص کیے گئے۔ ’’ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ مین پاور‘‘ کی مَد میں 2.42 بلین روپے رکھے گئے۔ صوبائی حکومت کے مطابق خیبر پختونخوا وہ صوبہ ہے، جو تعلیم پر سب سے زیادہ رقم خرچ کرتا ہے اور جس کی شرح مجموعی بجٹ کا ستائیس فی صد قرار پاتی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق تعلیم کی مَد میں صوبہ پنجاب مجموعی بجٹ کا سترہ فی صد، سندھ انیس فی صد اور بلوچستان چودہ فی صد رقم خرچ کرتا ہے۔بلوچستان کی صوبائی حکومت نے مالی سال 2018-19 ء کے لیے352 بلین روپے کا بجٹ پیش کیا۔ تعلیم کوخصوصی اہمیت دیتے ہوئے صوبائی حکومت نے پنج سالہ ’’بلوچستان ایجوکیشن سیکٹر پلان‘‘ کا اعلان کیا،جس کے تحت تعلیم برائے اطفال کے لیے ایک سو پرائمری اسکولوں کا قیام اور اتنی ہی تعداد میں قائم شدہ اسکولوں کو مڈل تک ترقّی دینے کا منصوبہ پیش کیا گیا۔صوبائی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق 43.9 بلین روپے’’ڈیپارٹمنٹ اسکولز‘‘کے سلسلے میں غیر ترقیاتی بجٹ کی مَد میں مختص کیے گئے، جو 2017ء کے مقابلے میں پچیس فی صد زائد تھے۔ اسی طرح ’’ڈیپارٹمنٹ کالجز‘‘ کے سلسلے میں غیر ترقیاتی بجٹ کی مَد میں 55 بلین روپے مختص کیے گئے۔ نصابی کتب کی اشاعت اور تقسیم کی مَد میں بلوچستان ٹیکسٹ بُک بورڈ کے لیے 52 ملین روپے کی رقم مختص کی گئی۔ کوئٹہ کالج ڈائریکٹوریٹ کے قیام کے لیے 40 ملین روپے اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ’’نیشنل یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘(NUST )کے قیام کے لیے 1.2 بلین روپے مختص کرنے کا اعلان بھی صوبائی بجٹ میں شامل تھا۔

2018ء کے اختتام پر ایک نظر اس پر بھی ڈالتے ہیں کہ ہماری تعلیمی درس گاہوں کی ایشیا کی تعلیمی درس گاہوں میں کیا درجہ بندی رہی۔ "QS Asia Universities Ranking-2019"کے ایک سروے میں ایشیا کی ایک سو بہترین جامعات کا انتخاب کیا گیا۔ اس انتخاب میں سنگاپور کی ’’نیشنل یونی ورسٹی آف سنگاپور‘‘ نے پہلی پوزیشن حاصل کی۔ ’’یونی ورسٹی آف ہانگ کانگ‘‘دوسرے نمبر پر آئی۔ تیسرا نمبر سنگاپور کی ’’ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونی ورسٹی‘‘ نے حاصل کیا۔ چوتھی، پانچویں اور چھٹی پوزیشنز چین کی مختلف جامعات نے حاصل کیں۔ ساتویں پوزیشن کی حق دار ’’دی ہانگ کانگ یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ ٹھہری۔ جنوبی کوریا کی KAIST یعنی’’کوریا ایڈوانسڈ انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ نے آٹھویں پوزیشن حاصل کی۔ ’’دی چائینیز یونی ورسٹی آف ہانگ کانگ‘‘ اور ’’سیئول نیشنل یونی ورسٹی ،ساؤتھ کوریا‘‘ نے بالترتیب نویں اور دسویں پوزیشنز حاصل کیں۔ اس درجہ بندی کی بنیاد چھے عوامل تھے۔ ادارے کی ساکھ،یونی ورسٹی اونر کی ساکھ، فیکلٹی میں زیرِ تعلیم طلبہ کا تناسب، ہر فیکلٹی میں ریسرچ کا معیار اور اُس سے حاصل ہونے والے نتائج و اثرات، انٹرنیشنل فیکلٹی کا تناسب اور غیر مُلکی طلبہ کا تناسب۔ یوں اس کڑی جانچ کے معیارات سے گزرنے کے بعد اوّل ،دوم، سوم اور آخر تک کی فہرست مرتّب کی گئی۔ ویسے تو جاری کردہ فہرست میں ایشیا کی پانچ سو بہترین جامعات شامل کی گئیں، تاہم انتخاب کی اس سخت چھلنی میں سے بھی ایک سو کو انتہائی بہترین کی فہرست میں شمار کیا گیا۔ پاکستان کی جن جامعات کا انتخاب کیا گیا ہے، فہرست میں اُن کے نام کچھ یوں ہیں۔’’دی نیشنل یونی ورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی(NUST )اسلام آباد،کو87 واں نمبر دیا گیا ہے۔’’لاہور یونی ورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز‘‘(LUMS ) 95 نمبر پر رہی، جب کہ ’’قائدِ اعظم یونی ورسٹی‘‘کا نمبر اس فہرست میں 109 رہا اور مُلک کی سب سے بڑی یونی ورسٹی، جامعہ کراچی کو 251-260 کے بنائے گئے گروپ میں شامل کیا گیا۔ STEM ایک اصطلاح ہے، جس کو ’’سائنس، ٹیکنالوجی انجینئرنگ اینڈ میتھمیٹکس‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ انتہائی قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اس وقت بین الاقوامی سطح پر متذکرہ شعبوں میں پاکستان کہیں موجود نظر نہیں آتا۔ پاکستان کے پاس ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی اور ڈاکٹر عبدالسلام جیسی قابل ِ فخر شخصیات موجود رہی ہیں اور خاص طور پر آخر الذکر ہستی کہ جس نے طبیعات میںنوبل انعام حاصل کر کے اقوامِ عالم میں پاکستان کا بھرم قائم کیا،مگر افسوس، اتنے نام وَر افراد رکھنے کے باوجود آج پاکستان تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کی دُنیا میں اجنبی دکھائی دیتا ہے۔

یک ساں تعلیمی پالیسی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔اگر یک ساں نظامِ تعلیم ہوگا، تو مُلک میں ایسی صورت دیکھنے میں نہیں آئے گی کہ کسی حصّے (اسلام آباد چھیانوے فی صد)میں شرحِ خواندگی انتہائی بُلند اور کسی حصّے(قبائلی علاقے ساڑھے نو فی صد)میں انتہائی پست نظر آئے۔آج یک ساں نظامِ تعلیم نہ ہونے کے باعث غریب کے بچّے کے لیے اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک خواب بن گیا ہے۔ داخلہ فیس،امتحانی فیس، کتابوں کی خریداری، اسٹیشنری، تعلیمی اداروں میں آنے جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کے مصارف، بعض اداروں میں یونی فارم کے اخراجات، غرض اعلیٰ تعلیم کا حُصول ایک غریب گھرانے کے لیے جُوئے شِیر لانے کے مترادف ہے۔ اس سلسلے میں پنجاب کی صوبائی حکومت نے سب سے پہلے اعلان کیا کہ وہ ایک جامع منصوبے پر تیزی سے کام کر رہی ہے، جس کے تحت پورے صوبے کے لیے یک ساں تعلیمی پالیسی کا جلد از جلد نفاذ کیا جائے گا اور پنجاب حکومت کے اس اعلان کے محض ایک ہفتے کے اندر وفاقی وزیر برائے تعلیم ،شفقت محمود نے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’پی ٹی آئی کی حکومت پورے مُلک میں یک ساں نظامِ تعلیم رائج کرنے کے بارے میں سنجیدگی سے غورو فکر کر رہی ہے۔‘‘ معاملے کی نزاکت اور اہمیت کے پیشِ نظر حکومت نے اگلے قدم کے طور پر اس مقصد کے لیے شعبۂ تعلیم سے وابستہ اعلیٰ ذہن رکھنے والوں کی خدمات بھی حاصل کر لیں۔شنید ہے کہ حکومت کو جو سفارشات روانہ کی گئی تھیں، اُن میں کالج کی سطح کے نصاب میں اصلاحات،تحقیق کو فروغ دینا، تحقیق کے معیار کو بہتر بنانا اور اُس کے نتیجے میں سامنے آنے والے نتائج سے بہرہ مند ہونا، تحقیق کو تجارت سے ہم آہنگ کرنا اورتعلیم کے جدید طریقوں کو متعارف کروانا جیسے اہم اُمور شامل تھے۔ وزیراعظم عمران خان نے National Curriculum Council کے قیام کا باضابطہ اعلان کیا، جو اس بات کا مظہر ہے کہ حکومت شعبۂ تعلیم کو اہمیت دے رہی ہے۔ وزیراعظم نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ تعلیمی مسائل اور مشکلات پر قابو پانے اور مُلک میں یک ساں نظامِ تعلیم رائج کرنے کے سلسلے میں National Education Policy Framework کا ڈھانچا ترتیب دیا جا رہا ہے۔ تاہم ،حکومت کو اس امر پر خصوصی توجّہ دینی چاہیے کہ غریب آدمی کا بچّہ بھی بغیر کسی دشواری کے اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کر سکے۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ نظامِ تعلیم کو بہت سے عوارض لاحق ہیں،جن میں بدعنوانی(خاص طور پر سرکاری اداروں میں)، جعلی تقررّیاں(سرکاری اداروں میں)،جعلی اسناد(سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں)، اعلیٰ انتظامی عہدوں کے لیے سیاسی مداخلت (سرکاری اداروں میں) اور اس جیسے کتنے ہی اور بھی امراض شامل ہیں، جو فوری علاج کے متقاضی ہیں۔ تعلیم اور نصاب کی تمام تر ذمےّ داری کسی ایک وفاقی یا اُس کے متعلقہ صوبائی اداروں تک محدود کر دینا ہی سارے مسائل کا حل نہیں، اس کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ہر صوبے کے ماہرین کا اپنے اپنے صوبوں میں ماہانہ بنیاد پر اجلاس طلب کرے،جہاں سفارشات کو آخری شکل دے کر نافذ کرنے کا عمل انجام دیا جائے۔ اسی کے ساتھ سہ ماہی بنیاد پر تمام صوبوں کے ماہرین کو وفاقی حکومت کے ماہرینِ تعلیم کے ساتھ بیٹھ کر پیش آنے والی رکاوٹوں کو دُور کرنے کے سلسلے میں حکمتِ عملی مرتّب کرنے پر غور کرنا چاہیے۔

تازہ ترین