• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی سیاست کے اعتبار سے 2018ء کو ’’متوازن سال‘‘ کہا جائے، تو بے جا نہ ہو گا۔ گزشتہ برس دُنیا بَھر کی نظریں امریکی فیصلوں، اقدامات پر مرکوز رہیں، جن کے اثرات شمالی کوریا سے مشرقِ وسطیٰ تک دکھائی دیے، جب کہ قوم پرستی کے اثرات گہرے اور عالم گیریت کے کم زورہوئے۔ 2018ء میں امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے رہنما، کِم جونگ اُن کے درمیان سنگا پور میں ہونے والی ملاقات میں پیانگ یانگ نے اپنا جوہری پروگرام ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔چُوں کہ اس سے قبل امریکا کے حریف اور شمالی کوریا کے حلیف، چین سمیت جنوب مشرقی ایشیا کے دیگر ممالک کو اعتمادمیں لیا گیا تھا، لہٰذا اتنی اہم پیش رفت ممکن ہوئی۔ اس فیصلے کے نتیجے میں شمالی کوریا کو دُنیا میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ دوسری جانب ٹرمپ انتظامیہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے دست بردار ہو گئی اور امریکا نے ایران پر سخت ترین اقتصادی پابندیاں عاید کر دیں، جن میں ایرانی تیل کے لین دَین کی پابندی بھی شامل ہے۔ تاہم، مذکورہ نیوکلیئر ڈِیل برقرار ہے، کیوں کہ معاہدے میں شامل باقی 5ممالک نے اس پر قائم رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خیال رہے کہ جولائی 2015ء میں ایران اور 1+5ممالک نے ایک جوہری معاہدے پر دست خط کیے تھے، جس کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام پر 15برس کے لیے پابندیاں قبول کی تھیں اور اس کے بدلے اس پر عاید اقتصادی پابندیوں کو نرم کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ برس 10مئی کو اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا کہ امریکا جوہری معاہدے سے دست بردار ہو رہا ہے اور اب ایران پر دوبارہ سخت پابندیاں عاید کی جائیں گی۔ اس موقعے پر ایرانی صدر، حَسن روحانی نے ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ معاہدہ ایران اور باقی 5ممالک کے درمیان ہے۔ یورپی ممالک سمیت چین اور رُوس اس معاہدے کے حامی ہیں، جب کہ سعودی عرب، متّحدہ عرب امارات اور اسرائیل نے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا۔ واضح رہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ اس ڈِیل کے باعث ایران اور عرب ممالک میں خلیج بڑھی۔ شام کی خانہ جنگی میں رُوسی مداخلت سے شامی صدر، بشار الاسد ہاری ہوئی بازی جیتنے میں کام یاب ہوئے۔ نیز، یمن میں خانہ جنگی کو تقویّت ملی۔ تاہم، نیوکلیئر ڈِیل سے امریکا کی علیحدگی نے بھی بہت سے اندیشوں کو جنم دیا اور امریکا اور اس کے یورپی اتحادیوں اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی کسی نئے تصادم کا خدشہ پیدا ہوا۔ ان تمام خدشات سے قطعِ نظر ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے سے ایرانی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتّب ہوئے اور وہ شدید مشکلات سے دوچار ہو گئی۔

گزشتہ برس شام میں صدر، بشار الاسد کو کئی محاذوں پر کام یابی ملی اور وہ حتمی فتح کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ دراصل، بشار حکومت کی فتح بعض عالمی و علاقائی طاقتوں کی جیت اور بعض کی شکست ہے۔ اس عرصے میں بشار حکومت کو اپنے حلیفوں، ایران اور رُوس کی بھرپور عسکری، مالی، سیاسی اور سفارتی مدد حاصل رہی اور انہیں عراق اور افغانستان کی طرح بڑے پیمانے پر رائے عامّہ کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ شامی اپوزیشن کے خلاف ایران کی حمایت یافتہ جنگ جُو تنظیموں سمیت لبنان کی حزبُ اللہ نے بشار الاسد کا بھرپور ساتھ دیا۔ دوسری جانب امریکا اور اس کے یورپی اتحادی، عرب ممالک اور تُرکی دکھاوے کی حد تک یا نیم دِلی سے شامی اپوزیشن کی پُشت پناہی کرتے رہے اور انہوں نے اسے عسکری اور نہ ہی سیاسی و سفارتی طور پر معاونت فراہم کی۔ چُوں کہ ایران سے جوہری معاہدے کے بعد اوباما کے دورِ صدارت ہی میں امریکا نے داعش کو اپنی جنگی کارروائیوں کا ہدف بنا لیا تھا، لہٰذا شام میں رُوس کو کُھل کر کھیلنے کا موقع ملا۔

اُدھر افغانستان میں پارلیمانی انتخابات کا اہم مرحلہ مکمل ہوا۔ گرچہ اسے افغان حکومت کی کام یابی قرار دیا گیا، لیکن مُلک میں پے در پے رونما ہونے والے پُر تشدّد واقعات اس کے لیے چیلنج بنے رہے۔ حالاں کہ عید الفطر کے موقعے پر ہونے والی جنگ بندی نے مُلک میں قیامِ امن کی امیدیں جگا دی تھیں، لیکن یہ زیادہ عرصے قائم نہ رہیں اور افغان عوام کی طالبان جنگ جُوئوں کے ساتھ سیلفیز بنوانے کے کچھ عرصے بعد ہی مُلک میں حملے شروع ہو گئے۔ امریکا سال بَھر افغان طالبان سے مذاکرات کی خواہش کا ذکر کرتا رہا، لیکن طالبان کے سامنے جُھکنے پر آمادہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افغان امن عمل میں چین اور رُوس سمیت دیگر علاقائی ممالک بھی فریق بن گئے۔ تاہم، مسئلہ افغانستان کے حل کے لیے پاکستان کی اہمیت برقرار رہی اور اسلام آباد نے بارہا مستحکم افغانستان کی حمایت کی۔ رمضان کے آخری عشرے میں تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ، مُلاّ فضل اللہ کی افغانستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے کی خبر سامنے آئی۔ افغان طالبان حسبِ روایت افغانستان سے غیر مُلکی افواج کے انخلا کا مطالبہ کرتے رہے، لیکن یہاں یہ پریشان کُن سوال جنم لیتا ہے کہ اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والا خلا کون پُر کرے گا اور کیا غیر مُلکی افواج کے انخلا کے بعد 1990ء کے عشرے میں ہونے والی خانہ جنگی کی یاد تازہ ہو جائے گی، جس میں افغانستان اور سوویت یونین کے درمیان ہونے والی جنگ سے زیادہ اموات ہوئی تھیں۔

25جولائی 2018ء کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے، جن میں عمران خان کی جماعت، پاکستان تحریکِ انصاف نے برتری حاصل کی۔ تاہم، دو تہائی اکثریت نہ ملنے کی وجہ سے اسے اتحادی حکومت بنانا پڑی۔ اپنی وکٹری اسپیچ میں عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ مُلک کو مدینہ کی طرز کی فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہیں اور خارجہ پالیسی اُن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان، بھارت سمیت تمام ممالک سے اچّھے تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔ بعد ازاں، نومبر کے آخر میں کرتار پورسرحد کُھلنے اور دونوں جانب راہ داری کا سنگِ بنیاد رکھنے کی صورت میں پاک، بھارت تعلقات میں ایک اہم پیش رفت ہوئی۔ وزیرِ اعظم بننے کے بعد مُلک کو مالی مشکلات سے نکالنے کے لیے عمران خان نے سعودی عرب، متّحدہ عرب امارات اور چین کے دورے کیے۔ گرچہ حکومت کے مطابق، سعودی عرب اور چین نے پاکستان کو امداد فراہم کی اور قرضوں کے حصول کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات بھی جاری رہے، لیکن تاحال مُلک اقتصادی بُحران کا شکار ہے۔ اسی طرح خارجہ پالیسی کے میدان میں کرتاپور راہ داری کی تعمیر ایک اچّھا قدم ہے، لیکن اس عرصے میں پاک، امریکا تعلقات میں مزید ابتری آئی، جو مستقبل میں حکومت کے لیے ایک کڑا امتحان ہو گا۔

پیوٹن اور رُوس ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن گئے اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 20برس سے عہدۂ صدارت پر متمکن پیوٹن نے ایک بار پھر رُوس کو دُنیا کی ایک بڑی طاقت کے طور پر منوا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ برس جب وہ متواتر دوسری بار صدارتی انتخابات میں فتح یاب ہوئے، تو کسی کو بھی حیرت نہ ہوئی اور رُوس کے حلیف و حریف ممالک نے خود کو اس بات پر ذہنی طور پر آمادہ کر لیا کہ مستقبل میں اس کی حکمتِ عملی میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی۔ پیوٹن کی زیرِ قیادت رُوس ایک عالمی طاقت کے رُوپ میں سامنے آیا اور آج یہ ایک بار پھر دُنیا کے ہر خطّے ہی میں فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران رُوس نے یوکرین کے محاذ پر فیصلہ کُن کردار ادا کرتے ہوئے یورپ و امریکا کو پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ شام میں مداخلت اور اپنی فوجی طاقت کے جارحانہ استعمال سے بشار الاسد کی کام یابی کی راہ ہم وار کر کے مشرقِ وسطیٰ میں اپنے قدم جمائے اور گزشتہ برس افغانستان میں ایک اہم علاقائی کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا۔ ہر چند کہ رُوس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اس حد تک مہارت حاصل کر لی ہے کہ امریکا کے صدارتی انتخابات میں اس کی مداخلت کا ذکر عام ہے، لیکن اس کی معیشت تاحال کم زور ہے۔ تاہم، اپنے تیل و گیس کے لامحدود ذخائر نے اسے ایک اہم عالمی اقتصادی قوّت کا رُتبہ دیا اور امریکا کے بعد یہ دوسری بڑی فوجی طاقت بھی ہے اور اس کا سہرا بھی پیوٹن ہی کے سَر جاتا ہے۔

گزشتہ برس تُرکی میں ہونے والے قبل از وقت انتخابات میں صدر، رجب طیب اردوان کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی نے کام یابی حاصل کی اور وہ براہِ راست عوامی رائے دہی کے نتیجے میں دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ گرچہ اردوان کی ماضی کی انتخابی کام یابیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اُن کی یہ جیت حیرت کا باعث نہیں بنی، لیکن ان انتخابات کی انفرادیت یہ تھی کہ ان کے ذریعے تُرک صدر نے مُلک کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں بدلنے کا اختیار بھی حاصل کر لیا۔ تُرکی میں ہونے والے انتخابات میں کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ مغربی ممالک نے ان میں غیر معمولی دِل چسپی لی کہ وہ صدارتی نظام کے ذریعے اردوان کے ہاتھ مزید مضبوط کرنے کے مخالف تھے۔ سیاسی نظام کی تبدیلی کے ساتھ ہی گزشتہ برس تُرکی کو کئی بُحرانوں سے بھی گزرنا پڑا، جن کے سبب اس کی معیشت کم زور ہوئی۔ اس عرصے میں تُرکی کی خارجہ پالیسی میں تبدیلیاں واقع ہوئیں اور اس نے امریکا سے دُوری اور رُوس سے قُربت اختیار کی۔

یورپ میں قوم پرستی کی لہر نے طوفان کی شکل اختیار کر لی اور اٹلی میں ہونے والے عام انتخابات میں ایک قوم پرست لیڈر، سلووینی وزیرِ اعظم کے عُہدے تک پہنچ گئے۔ان انتخابات میں دائیں بازو کی جماعت، فائیو اسٹار موومنٹ سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھری، لیکن واضح اکثریت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے اسے ایک کم زور اتحادی حکومت بنانا پڑی۔ مذکورہ جماعت کے منشور میں اٹلی کی یورپی یونین سے علیحدگی یا اس اتحاد کو زیادہ سے زیادہ کم زور کرنے جیسا اہم نکتہ بھی شامل ہے۔ نئے اطالوی وزیرِ اعظم نے تارکینِ وطن کو آسانیاں فراہم کرنے کے معاملے پر یورپی یونین کی شدید مخالفت کی اور مہاجرین کے قافلوں کو اپنے مُلک کی حدود سے گزرنے سے بھی روکا۔ علاوہ ازیں، انہوں نے بجٹ کے معاملے میں اپنی شرائط بھی یورپی یونین کے سامنے پیش کیں۔ یاد رہے کہ عالمی اقتصادی بُحران کے سبب اٹلی کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ دوسری جانب لاطینی امریکا کے ایک اہم مُلک، برازیل میں بھی ایک قوم پرست رہنما، بولسو نارو صدر منتخب ہوئے۔ انہوں نے انتخابات میں مُلک پر 16برس تک حُکم رانی کرنے والی جماعت کو، جس میں سابق صدور، جیلیما روزیف اور ڈی سلوا جیسے مقبول رہنما شامل تھے، شکست دی۔ انتخابی مُہم کے دوران مغربی میڈیا بولسو نارو کو امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ، فلپائنی صدر، دوارتو اور نئے اطالوی وزیرِ اعظم، سلووینی کی طرح دائیں بازو کے ایک عوامیت پسند رہنما کے طور پر پیش کرتا رہا۔ انہوں نے اپنی انتخابی مُہم میں سابق حُکم رانوں پر کرپشن کے الزامات عاید کیے اور تبدیلی کا نعرہ لگایا۔ خیال رہے کہ سابق صدور، جیلیما روزیف، مائیکل ٹیمر اور ڈی سلوا کو کرپشن کے الزامات پر اقتدار سے ہٹایا گیا تھا، جس سے بولسو نارو کو تقویّت ملی۔ برازیلین صدر جرائم کے خاتمے کے لیے ماورائے عدالت اقدامات کے حامی ہیں اور دِل چسپ بات یہ ہے کہ پُر تشدد واقعات سے عاجز برازیلین عوام بھی ان کی باتوں پر کان دھر رہے ہیں۔

گزشتہ برس جرمن چانسلر، اینگلا مِرکل نے میدانِ سیاست کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ دسمبر میں ہونے والے پارٹی انتخابات میں صدارت اور نہ ہی مستقبل میں چانسلر شپ کے عُہدے کی امیدوار ہوں گی۔ خیال رہے کہ 2017ء میں ہونے والے وفاقی انتخابات کے بعد سے ان کی جماعت، کرسچین ڈیموکریٹک یونین آف جرمنی کی مقبولیت میں مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی اور اس کا ووٹ بینک بھی سمٹتا جا رہا تھا۔ نیز، ان کی جماعت کو دائیں بازو کی جماعتوں سے بھی شدید مزاحمت کا سامنا رہا، جو جرمن چانسلر کی تارکینِ وطن سے متعلق بنائی گئی فراخ دلانہ پالیسی کی شدید مخالف ہیں اور یہ مخالفت اس حد تک بڑھ گئی کہ اتحادی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیرِ داخلہ نے بھی علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران شام، لیبیا، افغانستان اور مشرقِ وسطی کے جنگ زدہ علاقوں میں بے گھر ہونے والے باشندوں کی ایک بڑی تعداد سمندر کے راستے جرمنی پہنچی تھی، جنہیں مِرکل نے خوش آمدید کہا۔ اینگلا مِرکل کی میدانِ سیاست سے علیحدگی کے باعث یورپی سیاست کا ایک اہم باب ختم ہو جائے گا۔ اُن کی کفایت شعاری کی پالیسی نے جرمنی کو استحکام فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نیز، بریگزٹ ریفرنڈم کی کام یابی کے بعد انہوں نے یورپی یونین کو بھی سہارا دیا۔

2018ء میں برطانیہ کے لیے بریگزٹ یعنی یورپ سے علیحدگی کا عمل اس کی پائوں کی زنجیر بن گیا اور برطانوی وزیرِ اعظم، تھریسامے کو، جو اپنے پیش رو، ڈیوڈ کیمرون کی طرح اس کی مخالف تھیں، خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ برس کے آخر میں یورپی یونین اور برطانیہ کے درمیان ہونے والی بریگزٹ ڈِیل کے تحت برطانیہ کی یورپی اتحاد سے علیحدگی کا عمل مارچ 2019ء میں شروع اور مارچ 2020ء میں تکمیل کو پہنچے گا۔ اس عبوری دَور میں افرادی قوّت، مالیاتی امور اور سرحدی معاملات کو حتمی شکل دی جائے گی۔ اس معاہدے کے لیے برطانیہ اور یورپی یونین نے اپنے خصوصی نمایندے مقرّر کیے تھے، جو طویل مذاکرات کے بعد نومبر کے آخری ہفتے میں ایک معاہدے پر متفق ہوئے۔ تاہم، یہ معاہدہ تھریسا مے کے لیے یوں چیلنج بن گیا کہ اس کے نتیجے میں ان کی اپنی جماعت، کنزرویٹیو پارٹی ہی میں بغاوت پھیل گئی اور کئی وزراء کابینہ سے مستعفی ہو گئے۔ گزشتہ برس ماضی کی نسبت شدّت پسندوں کی کارروائیوں اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی، جسے اقوامِ عالم کی ایک بڑی کام یابی قرار دیا جا سکتا ہے۔

تازہ ترین