• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قاسم یعقوب

ایک وقت تھا جب شاعری اور شاعری میں بھی صرف غزل کو ادب سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب شاعری کے ساتھ فکشن اور دیگر اصناف نے بھی شاعری جیسا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ ۲۰۱۸ کا سال اس حوالے سے خوش آئند رہا کہ اس سال بھی شعری مجموعے شائع ہوئے اور ان کی تقاریب اور محافلِ پذیرائی میں شاعری سننے اور پڑھنے کو دیکھی گئی۔

اختر عثمان کی طویل نظم ’تراش‘ بھی اسی سال شائع ہوئی۔تراش کو جدید اور کلاسیکی حوالوں سے اہم قرار دایا جا رہا ہے۔ تراش میں اختر عثمان نے نئے تجربے بھی کئے ہیں۔ ’تراش ‘کاموضوع عہدِ حاضر کے مسائل کو بھی اپنی گرفت میں لیتا ہے۔سعید احمد نے بھی ایک طویل نظم لکھی مگر وہ اس سال شائع نہ سکی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ غزل کے مقابلے میں نظم کا رجحان غالب ہے۔

اس سال اُردو غزل کے جو مجموعے شائع ہوئے ان میں میاں آفتاب کی غزلوں کا مجموعہ ’’مختلف‘‘ بھی ہے۔ یہ اپنے نام کے اعتبار سے واقعی مختلف ہے۔ گو یہ نام افتخار نسیم کے شعری مجموعے ’مختلف‘ کے نام پہ ہی رکھا گیا ہے مگرمیاں آفتاب کی غزلوں میں انفرادیت کا رنگ غالب ہے۔میاں آفتاب کا تعلق جھنگ سے ہے ، جھنگ کا لوکیل ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔وہ پیشے کے اعتبار سے بیوروکریٹ ہیں مگر ان کی گزلوں میں قدیم اور جدید کے امتجاز کا کلاسیکی معاصر رنگ کا غلبہ ہے۔

کشور ناہید کی شاعری کے تازہ مجموعے کا نام ’’شیریں سخنی سے پرے‘‘ ہے ۔ اس سال ان کی منتخب شاعری کے انگریزی تراجم کا ایک مجموعہ بھی شائع ہوا ہے ۔ لاہور سے چھپنے والے کشور ناہید کے تازہ مجموعے میں نظموں کے علاوہ ان کی غزلیں بھی شامل ہیں ۔ اپنی نظموں میں وہ پاکستان کے پسے ہوئے طبقے سے جڑی ہوئی نظر آتی ہیں ۔ ان کی ہر نظم کسی نہ کسی انسانی سانحے کی یاد دلادیتی ہے تاہم غزل میں وہ اس صنف کی روایت کا پاس کرتے نظر آتی ہیں ۔ اس مجموعے میں شامل غزل سے دو اشعار:

معلوم نہیں کچھ بھی، معلوم سبھی کچھ ہے

طائوس بیابانی کیا مجھ سے چھپاتا ہے

جب آنکھ ذرا جھپکے ،باتوں میں لگالینا

یہ شوق تماشا بھی کیا حشر اٹھاتا ہے

’’مزامیر‘‘ کے نام سے غلام حسین ساجد کا کلیات بھی شائع ہُوا۔ اس کتاب میں ان کے چھ غزلیہ شاعری کے مجموعے شامل کر لیے گئے ہیں۔ نظموں کو شامل نہیں کیا گیا۔نظموں کا کلیات الگ سے شائع کیا جا رہا ہے۔ اس انتخاب میں شامل ہونے والے مجموعوں کے نام یہ ہیں ’’موسم‘‘،’’عناصر‘‘،’’کتاب صبح‘‘،’’آئندہ‘‘، ’’ معاملہ‘‘ اور’’روداد‘‘۔ غلام حسین ساجد ایک کہنی مشق شاعر ہیں ان کی شاعری میں عصری سماجی اور تہذیبی رچائو نظر آتا ہے۔وہ زبان کے بے جا توڑ پھوڑ کے قائل نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ’مزامیر‘ کی غزلوں میں کلاسیکی اور جمالیاتی رنگ کا آمیزش ہے۔اس کتاب میں شامل مجموعے’’کتاب صبح سے ایک غزل کے دو اشعار:

نگار خانہ دنیا نہیں پسند مجھے

کیا ہے اور کسی چیز نے کمند مجھے

بہت عزیز مجھے میرا فقر ہے کہ یہی

مرے حضور میں رکھتا ہے سربلند مجھے

ایک اور ’انتخاب‘ہم دو زمانوں میں پیدا ہوئے‘ شائع ہوا یہ انتخاب معروف نظم نگار شاعرہ یاسمین حمید کا ہے۔اس میں یاسمین حمید کی غزلوں اور نظموں کے تمام مجموعوں سے انتخاب کیا گیا ہے۔ جسے اکادمی بازیافت نے کراچی سے شائع کیا۔یاسمین حمید کئی دہائیوں سے لکھ رہی ہیں۔ اس انتخاب کی اشاعت سے ان کی کتابوں عدم دستیابی کی شکایت بھی دور ہوگئی۔یاسمین حمید کی شاعری کے حوالے سے ممتاز مفتی نے کہا تھا کہ ان کا کلام یوں انفرادیت سے بھرا ہے جیسے موتیا خوشبو سے بھرا ہوتا ہے۔ یاسمین حمید اپنی تخلیقی واردات کے حوالے سے لکھتی ہیں’’شعر میں واقعات کا بیان نہیں، انہیں محسوس کرنے کا انداز تخلیق کار کی شناخت بنتا ہے۔ انفرادیت مفہوم سے زیادہ شعر کی فضا میں بولتی ہے۔پس آئینہ، فنا بھی ایک سراب، بے ثمر پیڑوں کی خواہش، آدھا دن اور آدھی رات، حصار بے درودیوار کے علاوہ مختلف جرائد سے لے کر رضی مجتبیٰ نے یہ انتخاب مرتب کیا ہے۔ اسی انتخاب میں شامل’’پس آئینہ‘‘ کے دو اشعار:

سلاخیں توڑ کر بھی کیا ملے گا

سزا کا فیصلہ تو ہو گیا ہے

ترے لشکر کا اک انصاف پرور

ہماری صف میں شامل ہو گیا ہے

حال ہی میں لسانی تشکیلات کے اہم بنیاد گزار ، معروف نظم نگار فہیم جوزی کا کلیات ’میں کوئی اور‘ بھی شائع ہوا۔ یہ ان کی نظموں کا مجموعہ ہے جسے خوبصورت گیٹ اپ سے شائع کیا گیاہے۔ ان کی کتابوں کی عدم دستابی کا مسئلہ بھی عام تھا جسے ان کے کلیات نے دور کر دیا ہے۔ فہیم کی نظمیں چار دہائیوں کے مجموعی مزاج کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔ان میں زبان کے مختلف تجربات کا بھی احساس ملتا ہے۔

’’وارفتگی‘‘ ناز بٹ کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے اور ’’وصال یار‘‘ یسری وصال کی شاعری کا پہلا مجموعہ ، دونوں خوب صورت گیٹ اپ کے ساتھ لاہور سے شائع ہوئے ہیں ۔ امجد اسلام امجد اپنے تعارفی مضمون میں شاعر ہ کے طارے میں لکھتے ہیں کہ ’’ناز بٹ کی نظموں میں عروضی آہنگ کی روانی جذبے کی شدت کے ساتھ آمیز ہو کر بہت لطف دیتی ہے۔‘‘ اسی کتاب سے غزل کا ایک شعر:

تیرے غم سے کیا دنیا کے غموں کا چارہ

یعنی اک خار سے سب خار نکالے میں نے

اقتدار جاوید کی نظموں کا تازہ مجموعہ ’’عین سر پہ ستارہ‘‘ گزشتہ سال دسمبر کی آخری تاریخوں میں شائع ہو کر اس سال پڑھنے والوں تک پہنچ پایا ہے ۔ اس سے پہلے اقتدار جاوید کی شائع ہونے والی کتب میں ’’متن در متن‘‘،’’میں سانس توڑتا ہوں‘‘، ’’ناموجود‘‘، ’’ایک اور دنیا‘‘شامل ہیں ۔ یہ سب شاعری کے مجموعے ہیں سوائے’’ متن در متن‘‘ کے جوعربی شاعری کے تراجم پر مشتمل ہے۔ اقتدار جاوید اپنی نظم کے مرکز میں موجود ہوتے ہیں لیکن اور کے چاروں طرف لہروں کی صورت موضوعات کا دائرہ بنتا اور پھیلتا چلا جاتا ہے ۔ ان کی ایک نظم سے اقتباس:

’’اک ابھرتا ہوا

کیسا ماہتاب ہے

تیرے شاعر کے شفاف لفظوں کی صورت

افق کے سیہ رنگ سینے سے

باہر نکلنے کو

مہتاب بے تاب ہے!!‘‘

اس برس شائع ہونے والے نظم کے اہم مجموعوں میں افتخار بخاری کی کتاب’’ درد کہاں جاتے ہیں مائے‘‘ کا شمارہوتا ہے ۔ نظموں کے اس مجموعے کے حوالے سے معروف نظم نگار شاعر محمد یامین نے لکھا ہے کہ ’’افتخار بخاری کی نظمیں پڑھتے ہوئے جو خیال سب سے پہلے ذہن میں جھماکا کرتا ہے وہ ہے الفاظ کا ایک زندہ وجود کی طرح نمو کرنا ، بڑھنا اور پھلنا پھولنا‘‘۔ اس مجموعے میں شامل نظم’’درد ایک پرندہ ہے‘‘:

میں یہی سمجھتا تھا

درد اک پرندہ ہے

گاہے گاہے جو دل کے

آس پاس آتا ہے

اس کے چہچہانے سے

اس کے گنگنانے سے

میری نظمیں بنتی ہیں

میں نے ٹھیک سمجھا تھا

درد اک پرندہ ہے

اس نے تو مرے دل میں

گھونسلا بنا ڈالا

نوید صادق کی شاعری کے مجموعے کا نام ’’مسافت ‘‘ ہے جو قدرے تاخیر سے شائع ہوا ہے۔ انور شعور نے لکھا ہے کہ معاصر شعرا پر مضامین لکھنے اور ان کے کلام کا انتخاب کرنے میں نوید صادق کا نام خاصا معروف ہے لیکن خود اپنی شاعری کی ترتیب و تدوین میں وہ تساہل اور تاخیر سے کام لیتے رہے ہیں ‘‘ تاہم بہ قول خورشید رضوی نوید صادق کو خود اپنے آپ سے آگے نکلنے کی دُھن ہے’’جو میرے بس میں نہیں ہے، وہ کرنا چاہتا ہوں‘‘سلسلہ فن ان کی نگاہ میں کیا ہے ، یہ انہی سے سنیے:

تم راکھ سمیٹنے کی سوچو

میں آگ سے کھیلنے چلا ہوں

فخر زمان کی منتخب اردو غزلیات کا مجموعہ ’’وقت کو تھام لو‘‘ کے نام سے لاہور سے شائع ہوا ہے۔ فخر زماں کی شاعری کے انتخاب پر طویل مقدمہ ظفر اقبال نے لکھا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں ’’ان غزلوں میں طرز و اظہار کی ہمواری اتنی زیادہ دستیاب نہیں ہوتی جتنا ایک کھردرے اور اس لحاظ سے نئے پن کا احساس ہوتا ہے۔ ‘‘اس کتاب سے ایک شعر:

تم سے ملتا ہوں تو اس سوچ میں پڑ جاتا ہوں

وقت کے پائوں میں زنجیر میں ڈالوں کیسے

قیوم طاہراسی کی دہائی میں سامنے آنے والی نسل کے نمایاں غزل گو شاعر ہیں، ان کی غزلیات کا نیا مجموعہ ’’سِلوٹ‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے جسے ادبی حلقوں میں توجہ سے پڑھا جارہا ہے ۔ قیوم طاہر کی اسی کتاب کی ایک غزل سے دو اشعار:

عصر ہو جائے تو پھر دھوپ ٹھہرتی کب ہے

اب فقط لمحوں کو گِن ، سال ، مہینے سے نکل

اپنی آواز کی خوشبوکو ترس جائے گا

ایک پنجرے میں بدلتے ہوئے کمرے سے نکل

’’ہوا کو راز داں سمجھا‘‘قدیر جاوید کی شاعری کا مجموعہ ہے اور’’ معجزہ ‘‘ شاہدہ لطیف کا جو بالترتیب راولپنڈی اور اسلام آباد سے شائع ہوئے ہیںسے شائع ہوا ہے۔ شاہدہ لطیف کی غزل کا ایک شعر:

محبت میں دکھائے معجزہ وہ

جنوں میں اس قدر سچا اگر ہے

افسانہ نگار شفیق انجم کی کتاب ’’سنکیانگ میں محبت‘‘ایک طویل نظم ہے جو ان محسوسات اور خیالات پر مبنی ہے جن کا تجربہ شاعر کو اپنے قیام چین کے دوران ہوا۔ کئی اعتبارسے شفیق انجم کے یہ تجربات غیر روایتی ہیں۔

امجد اسلام امجد کا نیا شعری مجموعہ ’زندگی کے میلے میں‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔امجد اسلام امجد اپنی نظموں میں روانوی اور نوجوان جذبوں کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ ’زندگی کے میلے میں‘ ان کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے جس میں ان کے شعری سفر کے ایک اور پڑائو کو دیکھا جا سکتا ہے۔

کلیات مبارک شاہ‘ بھی اسی سال شائع ہوا۔ یہ کتاب مبارک شاہ کے تمام شعری مجموعوں پہ مشتمل ہے۔ مبارک شاہ اُردو غزل کی آواز تصور کئے جاتے ہیں۔ ان کی کتابیں ناپید تھیں۔ اس کتاب کی اشاعت سے طالب علموں اور عام لوگوں کے لیے بھی ان کی شاعری خصوصاً نظموں کو پڑھنے کا موقع میسر آیا ہے۔

شعری حوالے سے اس سال نمایاں کام نظم میں سامنے آیا۔ گوکہ غزلیہ مجموعوں میں بھی جاندار اضافے دیکھنے کو ملتے ہیں مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ نظم کی دنیا زیادہ مضبوط رہی۔ البتہ نثری نظم کمزور صنف ثابت ہوئی۔ کوئی اہم کتاب اس سال نثری نظم کے حوالے سے شائع نہ ہو سکی۔

تازہ ترین