• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر ڈاکٹر حسن وقار گل

 کسی بھی بچّےکی پہلی درس گاہ ماں کی گود ہوتی ہے، جہاں سے وہ شعوری و لاشعوری طور پر وہی باتیں سیکھتا ہے، جو اُس کی ماں پسند کرتی ہے اور یہی تعلیم و شعور کا پہلا زینہ ہے۔ پھر بچّہ جوں جوں بڑا ہوتا ہے، عقل و شعور میں پختگی آتی ہے، تو ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ لاشعوری طور پر اپنانے والی بہت سی باتوں کا تجزیہ کرکے، اپنی راہ خود متعیّن کرتا ہے، لیکن اُس وقت بھی اُسے کسی ایسے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، جو اُس کی نسبت زیادہ تجربہ کار اور بہتر رہنما ہو۔ اور یہ کام وہی شخص کرسکتا ہے، جو اُس کے ذہن اور مزاج کو سمجھتا ہو۔ کسی بھی طالبِ علم کے لیے درست اختیاری مضامین کا انتخاب اُس کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے، مگر بدقسمتی سےہمارے یہاں اس مرحلے کو بہت آسان سمجھ لیا گیا ہے۔ مشاہدے میں ہے کہ زیادہ تر طلبہ اپنے تعلیمی پس منظر کو پسِ پشت ڈال کر بظاہر آسان نظر آنے والے مضامین منتخب کر لیتے ہیں، تو بعض اپنے والدین کی خواہش کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ کچھ طلبہ محض اپنے پسندیدہ اساتذہ کی وجہ سے اُن کے مضامین کا انتخاب کرلیتے ہیں اور بعدازاں پچھتاتے نظر آتے ہیں۔یہاں تک کہ ذہین ہونے کے باوجود فیل ہوجاتے ہیں یا پھر بہت کم نمبرز کم حاصل کرپاتے ہیں۔ پھر اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بعض والدین اپنے بچّوں کے لیے مضامین کا انتخاب کرتے ہوئے، خاص طور پر معاشرے کے متعیّن کردہ معیارات مدِّنظر رکھتے ہیں۔ان کے نزدیک تعلیم دولت، عزّت اور شہرت کے حصول کا زینہ ہے۔ قطع نظر اس کے کہ ان کے بچّوں میں یہ مضامین پڑھنے کی اہلیت،صلاحیت اور رجحان ہے بھی یا نہیں۔بعض اوقات طلبہ خود بھی یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ ایسے مضامین پڑھیں، جو کمائی کا بہترین ذریعہ ثابت ہوں۔ یوں بہتر رہنمائی نہ ملنےکے سبب باصلاحیت نوجوانوں کا ٹیلنٹ ضایع ہوجاتا ہے۔ سیکنڈری یا ہائر سیکنڈری کلاسز کے لیے مضامین کے انتخاب کے ضمن میں اسکول اور اساتذہ بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ اکثر اساتذہ رہنمائی کی ضرورت اور اہمیت سے واقف نہیں ہوتے اور اگر واقفیت رکھتے بھی ہیں، تواس جانب توجّہ نہیں دیتے۔پھر زیادہ تر اسکولز بھی کسی ایسے ٹیسٹ کاانعقاد نہیں کرتے، جس کی مدد سے طلبہ کی قابلیت، ذہانت اور رجحان کا اندازہ لگایا جاسکے۔

اختیاری مضامین کا انتخاب دراصل ہمارا بنیادی مسئلہ ہے، جس کا بہترین حل تو ماہرینِ تعلیم ہی پیش کرسکتے ہیں، لیکن یہاں چند ایسی باتوں کی نشان دہی ضرور کی جاسکتی ہے، جو اس مسئلے کے حل میں معاون ثابت ہوں۔ اس ضمن میں سب سے پہلے تو والدین کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اُن کے بچّے کا(چاہے بیٹا ہویا بیٹی)رجحان کس مضمون کی طرف زیادہ ہے اور وہ کیا بننے کی خواہش رکھتا ہے۔ اس کے بعد بچّے سے اُس کی رائے پوچھی جائے۔ وہ جو مضمون رکھنا چاہ رہا ہے، اُس کے بارے میںوہ کیا معلومات رکھتا ہے؟ اُس سے لازماً پوچھا جائے۔اور اس بات کی ہر طرح سے تسلّی کی جائے کہ کہیں بچّہ ہم جماعت دوستوں یا پھرکسی دوسرے کی دیکھا دیکھی تو مضامین منتخب نہیں کررہا۔ بچّے سے کبھی بھی زبردستی مضامین منتخب نہ کروائیں ،لیکن اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ اُن کی سرے سے رہنمائی ہی نہ کی جائے۔ انہیں بہتر طریقے سے مضامین کے بارے میں جامع معلومات فراہم کریں اور ممکن ہو تو کسی اچھے کیرئیر کاؤنسلر سے بھی ملوائیں،لیکن فیصلہ بچّے کو خود ہی کرنے دیں۔ پتھر سے ہیرا بنانے میں استاد کا کردار نہایت اہم ہوتاہے،لہٰذا چھٹی سے آٹھویں جماعت تک کلاس ٹیچر گاہے بگاہے طلبہ کو تمام مضامین سے متعلق معلومات فراہم کرے، تاکہ اختیاری مضامین کے انتخاب تک پہنچتے پہنچتےان کے ذہن پختہ ہوسکیں۔ نیز، ہر کلاس میں مختلف رجحان رکھنے والے طلبہ کے علیٰحدہ علیٰحدہ گروپس بنا کر کسی سرگرمی کا انعقاد کر کے ان کی کارکردگی رپورٹ بھی مرتّب کی جائے، تاکہ اس کی مدد سے والدین اور کیرئیر کاؤنسلر بہتر مشورہ دے سکیں۔اختیاری مضامین کے ضمن میں والدین اور اساتذہ کو اپنی اپنی ذمّے داری ادا کرنی ہوگی، تاکہ طلبہ صرف وہی پڑھیں، جو خود ان کے اور مُلک و قوم کے لیے مفید ہو،کیوں کہ ایسے مضامین کا پڑھنا یا پڑھانا، جو مذہبی، قومی، تہذیبی، ثقافتی، ترقّی میں معاون ثابت نہ ہوسکیں، بے سود ہے۔

تازہ ترین