• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکساس میں پاکستان کی قونصل جنرل، عائشہ فاروقی سے گفتگو

 بات چیت :شازیہ آصف،اسلام آباد

امریکا کی سب سے بڑی ریاست، ٹیکساس میں پاکستان کی قونصل جنرل کے طور پر خدمات انجام دینے والی عائشہ فاروقی گزشتہ 23برس سے وزارتِ خارجہ سے منسلک ہیں۔وہ اس سے قبل پیرس، لندن، قاہرہ اور تُرکی کے قونصل خانوں اوردفترِ خارجہ کے مختلف ڈیسکس کے علاوہ کئی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ رابطہ افسرکے طور پر اوراقوامِ متّحدہ اور بھارت میں بھی خدمات سر ا نجام دے چُکی ہیں۔ گزشتہ دنوں امریکامیں قیام کے دوران ہماری ان سے خصوصی نشست ہوئی، جس میں سینئر خاتون سفارت کار نے اپنے ڈپلومیٹک کیریئر اور ذاتی زندگی کے علاوہ امورِ خارجہ کو درپیش چیلنجز سمیت دیگر معاملات پر سوالات کے جوابات دیے۔ یہ گفتگو نذرِ قارئین ہے۔
ٹیکساس میں پاکستان کی قونصل جنرل، عائشہ فاروقی سے گفتگو
بات چیت کرتے ہوئے

س :آپ گزشتہ دو دہائیوں سے زاید عرصے سے وزارتِ خارجہ سے وابستہ ہیں۔ یہ سفر کیسا رہا؟

ج: مَیں گزشتہ 23برس سے فارن سروس سے منسلک ہوں اور میرا کیریئر کافی متنوّع ہے۔ ٹیکساس میں یہ میری چَھٹی بیرونِ مُلک تعیّناتی ہے، جب کہ اس سے قبل مَیںپیرس، لندن، قاہرہ اور تُرکی کے پاکستانی قونصل خانوں میں خدمات سر انجام دے چُکی ہوں۔ علاوہ ازیں، دفترِ خارجہ میں بھی مختلف ڈیسکس پرفرائض انجام دیے۔ مَیں نے ڈائریکٹر، انڈیا ڈیسک کے طور پر ڈھائی برس اور امریکن ڈیسک پر ذمّے داریاں نبھانے کے علاوہ کئی بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ رابطہ افسر کے طور پر بھی کام کیا، جب کہ اقوامِ متّحدہ میں بھی خدمات انجام دیں۔ امریکا میں قونصل جنرل کے طور پر امور کی انجام دہی خاصا کٹھن کام ہے، کیوں کہ پاک، امریکا تعلقات ہمیشہ ہی اتار چڑھائو کا شکار رہتے ہیں۔ قونصل جنرل کے طور پر مُجھے پاکستانی کمیونٹی کے علاوہ امریکا کے منتخب عوامی نمایندوں سے بھی رابطہ قائم رکھنا پڑتا ہے اور ان ملاقاتوں کا بنیادی مقصد اُن کے سامنے پاکستان کا اصولی مؤقف پیش کرنا اور دو طرفہ تعلقات کو بہتر اور خوش گوار بنانا ہوتا ہے۔ ایک سفارت کار کے طور پر مَیں پاکستانی کمیونٹی کی خدمت کو اوّلیت دیتی ہوں۔ پاکستانی کمیونٹی سے ملاقات کے دوران مُجھے یہ جان کر بے حد مسرّت ہوتی ہے کہ یہ بڑے احسن انداز سے امریکی معاشرے میں رچی بسی ہوئی ہے اور یہاں عشروں سے مقیم پاکستانی باشندوں کے دِلوں سے اپنے وطن کی محبّت کم نہیں ہوئی۔ یہ دُور رہ کر بھی اپنے مُلک سے دُور نہیں ہوئے اور پاکستان ان کے سینوں میں بستا ہے۔ گرچہ امریکی نژاد پاکستانیوں کی نئی پَود کی اپنے آبائی وطن سے اُنسیت گہری نہیں، لیکن پاکستان کے لیے سبھی نیک تمنّائیں اورنیک جذبات رکھتے ہیں اور اپنے وطن کی خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔

س: ایک کیریئر ڈپلومیٹ کے طور پر آپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان پر کیسے قابو پایا؟

ج: ہر شعبے ہی کے اپنے مسائل اور مشکلات ہوتی ہیں اور عزم و حوصلے اور نیک نیّتی کے ساتھ ان پر قابو پانا ہی اصل کمال ہے۔ سو، مَیں نے بھی ہمّت اور مضبوط قوتِ ارادی سے اپنی راہ میں آنے والی مشکلات پر قابو پایا اور قدم قدم پر اللہ نے میری رہنمائی فرمائی۔

س: دُنیا بَھر میں موجود پاکستانی سفارت کار اور سفارتی مِشنز پاکستانی کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور مُلک کی امیج بلڈنگ میں سے کِسے فوقیت دیتے ہیں؟

ج: اس سوال کا جواب تھوڑا مشکل ہے، لیکن سادہ الفاظ میں، مَیں یہ بتانا چاہوں گی کہ جب بہ طور قونصل جنرل یہاں تعیّنات ہوئی، تو پہلے ہی دن سے دل و دماغ میں یہ احساس جاگزیں تھا کہ مُجھے یہ مقام و منصب پاکستان کی وجہ سے ملا ہے اور مُجھے ہمیشہ اپنے مُلک کے مفاد کو مقدّم رکھنا ہے۔ اس حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ سناتی ہوں۔ کچھ عرصہ قبل لندن میں تعیّناتی کے دوران، کسی معاملے پر میری اپنی ہم شیرہ سے تکرار ہو گئی، تو انہوں نے کہا کہ ’’تم اس وقت سفارت کار نہیں، بلکہ ایک بہن کی حیثیت سے بات کرو۔‘‘ تو مَیں نے جواب دیا کہ’’ ایک سفارت کار ہمہ وقت سفارت کار ہی ہوتا ہے۔‘‘ مَیں چاہے اپنے بچّوں کے ساتھ شاپنگ کر رہی ہوں یا ریستوران میں کھانا کھا رہی ہوں، پاکستان کے نمایندے کے طور پر اپنی ذمّے داریوں اور وقار کو ملحوظِ خاطر رکھنا نہیں بھولتی۔ مَیں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے پاکستان کی حُرمت پر کوئی حرف آئے۔ بعض حالات و واقعات میں غصّہ بھی آتا ہے، لیکن اسے قابو میں رکھنا ہی ایک ڈپلومیٹ کا اصل فن ہے۔

س: سفارت کاروں کی جانب سے اپنے عُہدے کے غلط استعمال کی خبریں بھی سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایک ڈپلومیٹ کو اس قسم کی صورتِ حال سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟

ج: بیرونِ مُلک ذمّے داریاں انجام دیتے ہوئے ایک سفارت کار کو خاصا محتاط رہنا پڑتا ہے، کیوں کہ اس کی ذرا سی لاپروائی یا غفلت سے اقوامِ عالم میں پاکستان کی سبکی ہوتی ہے۔ مَیں ہمیشہ پاکستانی کمیونٹی سے یہ کہتی ہوں کہ صرف مَیں ہی نہیں، بلکہ وہ سب بھی پاکستان کے سفیر ہیں اور اُن کی شناخت صرف پاکستان ہے۔ گو کہ ہمیشہ یہ بات پیشِ نظر رکھنا خاصا مشکل ہوتا ہے، لیکن ایک سفارت کار کی حیثیت سے یہ بہت ضروری ہے۔

س: کیا آپ کے خاندان کا کوئی دوسرا فرد بھی سول سروس سے تعلق رکھتا ہے؟

ج: مَیں اپنی والدہ سے بعض اوقات ازراہِ تفنّن کہتی ہوں کہ’’I am the only black sheep of the family‘‘ میرا تعلق کراچی سے ہے اور میرے خاندان کے زیادہ تر افراد تجارت اور صنعت کاری سے وابستہ ہیں، البتہ میرے والد کے ایک کزن، سلمان فاروقی سینئر ترین بیوروکریٹ رہے ہیں۔ میرے سول سروس میں آنے کا قصہ کچھ یوں ہے کہ 1991ء میں جب مَیں نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کا فیصلہ کیا، تو اس وقت کراچی کے حالات اس قدر خراب تھے کہ میرا یونی ورسٹی جانا دشوار تھا۔ لہٰذا، مَیں نے قائد اعظم یونی ورسٹی، اسلام آباد میں داخلہ لے لیا اور پھر یہیں سے مجھے سی ایس ایس کا شوق ہوا۔سو، ماسٹرز کے بعد کراچی واپس آکر سی ایس ایس کی تیاری شروع کر دی۔ والدین نے میرے فیصلے کی مخالفت کی کہ ’’اتنا پڑھ لکھ کر کیا کرو گی، بس اب اور نہیں پڑھنا۔‘‘ دراصل، مشرقی مائیں اپنی بیٹیوں کے معاملے میں خاصی محتاط ہوتی ہیں، لہٰذا امّی نے فوراً فیصلہ صادر کیا کہ ’’ اگر تم نے سی ایس ایس کر بھی لیا، تو ہم تمہیں کہیں نہیں جانے دیں گے اور فارن سروس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔‘‘ جب سی ایس ایس کا نتیجہ آیا، تو مَیں سندھ بَھر میں پہلے نمبر پر آئی اور فارن سروس گروپ میں پورے پاکستان میں ٹاپ کیا ۔ پھر جب مُجھے ہر طرف سے تہنیتی پیغامات ملنا شروع ہوئے، تو والدین بھی اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو گئے۔ اس موقعے پر امّی نے کہا کہ ’’ مُجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ ملازمت تمہاری قسمت میں لکھی ہے۔‘‘ اور پھر انہوں نے مُجھے فارن سروس میں ملازمت کی اجازت دے دی۔

س: آپ اس وقت امریکا کی سب سے بڑی ریاست، ٹیکساس میں قونصل جنرل جیسے اہم عُہدے پر فائز ہیں۔ کیا آپ کے دل میں کبھی اس مقام تک پہنچنے کی خواہش پیدا ہوئی تھی؟

ج: آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ خواہش تو دُور کی بات، مَیں نے امریکا میں تعیّناتی کے بارے میں کبھی سوچا تک نہ تھا۔ دراصل، سفارت کاروں کی تعیّناتی خواہش پر نہیں ہوتی اور نہ ہی کسی سفارت کار کو اپنی اگلی پوسٹنگ کے بارے میں علم ہوتا ہے۔

س: فارن سروس میں کس عُہدے تک پہنچنا چاہتی ہیں؟

ج: کسی بھی مُلک میں بہ طور سفیر تعیّناتی کو ڈپلومیٹک کیریئر کی معراج سمجھا جاتا ہے اور یہ ہر افسر کی تمنّا بھی ہوتی ہے۔ اگر حکومتِ پاکستان نے مُجھے اس قابل سمجھا، تو یہ میرے لیے بڑے فخر کی بات ہو گی اور میری خواہش ہے کہ مَیں بھارت میں پاکستانی سفیر کی حیثیت سے یادگار خدمات انجام دوں۔

س :اس خواہش کا سبب کیا ہے؟

ج : دراصل، مَیں 2010ءسے 2012ءتک تقریباًڈھائی برس فارن آفس میں ڈائریکٹر، انڈین ڈیسک رہی ہوں اور اسی عرصے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کمپوزٹ ڈائیلاگ یا جامع مذاکرات کا سلسلہ شروع ہواتھا، جسے بعدازاں بعض سیاسی وجوہ کی بناء پر روک دیا گیا۔ اس دوران مُجھے چار مرتبہ نئی دہلی جا کر وہاں پاکستان کی خارجہ پالیسی اور بیانیہ پیش کرنے کا موقع ملا۔ یہ بڑا کٹھن مرحلہ تھا، لیکن مَیں نے اپنے سینئرز کے ساتھ مل کر نہایت جانفشانی سے کام کیا اور ہم نہ صرف بھارت سے اپنا مؤقف منوانے میں کام یاب ہو گئے، بلکہ بھارت جامع مذاکرات پر بھی آمادہ ہو گیا۔ گرچہ پاک، بھارت تعلقات میں پائی جانے والی کشیدگی کے باعث بھارت میں تعیّناتی کو مستحسن نہیں سمجھا جاتا، لیکن مَیں بھارت میں بہ طور سفیر اپنی پوسٹنگ کو خواہش سے زیادہ مِشن قرار دوں گی، کیوں کہ مَیں اس بات پر یقین رکھتی ہوں کہ اگر بھارت میں تعیّنات کوئی پاکستانی سفیر تین سال تک روزانہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے پر زور دے اور بعض اہم بھارتی حُکّام کو اپنی سفارت کاری کے ذریعے پاکستان سے مذاکرات پر آمادہ کر لے، تو پاکستان اور پاکستانی عوام کی اس سے بڑی خدمت کوئی اور نہیں ہو سکتی۔

س :ایک کام یاب سفارت کار کو کون کون سی خوبیوں سے متصف ہونا چاہیے؟

ج: محنت، لگن اور اِخلاص کے علاوہ یہ شعبہ قربانی بھی مانگتا ہے۔ علاوہ ازیں، اگر کسی مُلک کے داخلی حالات اچّھے ہیں اور مقامی سطح پر خارجہ پالیسی پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے، تو پھر بیرونِ مُلک موجود اس کا سفیر خود کو اتنا ہی مضبوط اور پُر اعتماد گردانتا ہے، لیکن اگر کسی مُلک کے داخلی حالات غیر مستحکم ، خارجہ پالیسی بے ترتیب اور استعداد کم ہو، تو سفارت کار کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دَور ہے اور کوئی بھی مُلک آنکھ بند کر کے آپ کی باتوں پر یقین نہیں کر سکتا۔مُلک کی داخلی صورتِ حال بیرونِ مُلک موجود سفارت کاروں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور کام یاب سفارت کاری کے لیے کسی بھی مُلک کی داخلی اور خارجی پالیسیز میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔

س :اندرونِ مُلک پایا جانے والا سیاسی عدم استحکام خارجہ پالیسی بالخصوص سفارت کاری پر کس قدر اثرانداز ہوتا ہے؟

ج :کسی بھی مُلک میں پائے جانے والے سیاسی عدم استحکام سے سفارت کاروں کی استعدادِ کار متاثر ہوتی ہے اور انہیں بیرونِ مُلک اپنا مؤقف پیش کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چُوں کہ مَیں خود یہ صورتِ حال بُھگت چُکی ہوں، اس لیے مُجھے اس کی اہمیت کا بہ خوبی اندازہ ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 2000ء میں میری پہلی پوسٹنگ فرانس میں ہوئی اور اس سے چند ماہ قبل یعنی 12اکتوبر 1999ء کو مُلک میں مارشل لا لگ چُکا تھا۔ اُس وقت کے چیف ایگزیکٹیو، جنرل پرویز مشرف کو پیرس آنا تھا اور ہمیں فرانسیسی قیادت اور حُکّام سے اُن کی ملاقاتیں طے کرنا تھیں، لیکن جب ہم نے اُن سے رابطہ کیا، تو پتا چلا کہ یہاں ایک فوجی آمر کو کسی صُورت خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ اس صورتِ حال میں ہمارے لیے میٹنگز طے کرنا بہت مشکل ہو گیا۔ گرچہ ہم نے خاصی تگ و دو کے بعد فرانسیسی حُکّام کو پرویز مشرف سے ملاقات پر قائل کر لیا، لیکن انہوں نے خاطر خواہ گرم جوشی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بعد ازاں، نائن الیون کے بعد جنرل مشرف دوبارہ فرانس آئے، تو ایک مرتبہ پھر ہمیں اسی قسم کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ بالا حالات میں ایک سفارت کار کے لیے اپنے پیشہ ورانہ امور کی انجام دہی کتنی مشکل ہو جاتی ہے ۔

س :ناساز گار حالات میں ایک سفارت کار کی ذاتی صلاحیتیں کس قدر معاون ثابت ہوتی ہیں؟

ج :میرا ماننا ہے کہ کوئی بھی سفارت کار اپنے مُلک کا مارکیٹنگ ایجنٹ اور بیرونِ مُلک اپنے مُلک کی خارجہ پالیسی فروخت کرنے کا ذمّے دار ہوتا ہے۔ یہ پالیسی جتنی پُرکشش اور مستحکم ہو گی، مارکیٹنگ ایجنٹ یا سفارت کار اتنے ہی اعتماد اور جوش کے ساتھ اسے بیچے گا اور اگر وہ ذاتی صفات سے آراستہ ہے، تو یہ پالیسی جلد ہی لوگوں کے دل و دماغ میں گھر کر جائے گی، لیکن اگر پراڈکٹ یعنی پالیسی ہی اچّھی نہ ہو، تو سفارت کار کی ذاتی صلاحیتوں کے باوجود بھی یہ نہیں چل پاتی۔

س :اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں۔ نیز، کیا بچّوں میں سے کوئی فارن سروس میں آنے کا خواہش مند ہے اور اگر کوئی اس شعبے کا انتخاب کرے، تو آپ کا کیا ردِ عمل ہو گا؟

ج :میری دو بیٹیاں ہیں اور دونوں میں سے کوئی دفترِخارجہ آنے کی خواہش مند نہیں۔ گرچہ میری خواہش تھی کہ میری ایک بیٹی فارن سروس میں آئے، لیکن دونوں کی دِل چسپیاںالگ ہیں ۔ بڑی بیٹی لندن کی ایک یونی ورسٹی میں ڈیجیٹل آرٹ کی تعلیم حاصل کر رہی ہے، جب کہ چھوٹی ابھی ہائی اسکول میں ہے اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

س :آپ اپنی پیشہ ورانہ اور گھریلو زندگی میں توازن کیسے برقرار رکھتی ہیں ؟

ج :ایک سرکاری عُہدے دار بالخصوص سفارت کار کو اپنی پیشہ ورانہ اور گھریلو زندگی میں توازن برقرار رکھنا تقریباً ناممکن لگتا ہے ، خصوصاً پاک، امریکا تعلقات کے تناظر میں تو میرا کام کافی وقت اور توجّہ کا متقاضی ہے، لیکن مَیں نے ہمیشہ اپنی پیشہ ورانہ اور گھریلو زندگی میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ہے اور اس ضمن میں بعض اوقات خاصی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

س :آپ خود کو کام یاب فیملی وومن سمجھتی ہیں یا کام یاب سفارت کار؟ نیز، دیگر مشاغل کے حوالے سے بھی بتائیں؟

ج :اپنی کام یابی یا ناکامی کا فیصلہ تو مَیں خود نہیں کر سکتی ۔ جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے، تو مُجھے کتابیں پڑھنے اور لکھنے کا بہت شوق ہے اور پاکستان کےحوالے سے ذاتی مشاہدات پر مبنی میری ایک کتاب عنقریب شایع بھی ہونے والی ہے۔ مَیں نے ہمیشہ ہی پاکستان کی بہتری اور اس کا نام و مقام بلند کرنے کی کوشش کی ہے اور کتاب میں بھی ان کاوشوں کا تفصیلاً ذکر ہے۔

س :دفترِ خارجہ میں خدمات ادا کرنے کی خواہش مند طالبات کو کیا مشورہ دینا پسند کریں گی؟

ج :فارن سروس ایک ایسا شعبہ ہے، جو آپ کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔ ایک کیریئر آفیسر کے طور پر ہر تین برس بعد آپ کا تبادلہ ہوتا ہے اور آپ کو ایک نئے مقام پر نئے سرے سے اپنے مِشن کا آغاز کرنا پڑتا ہے، جو ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، لیکن یہ بھی یاد رہے کہ دیارِ غیر میں اپنے پیارے مُلک، پاکستان اور اپنے ہم وطنوں کی نمایندگی سے بڑا کوئی اعزاز بھی نہیں۔ مَیں اس اعتبار سے خود کو بہت خوش نصیب سمجھتی ہوں کہ مُجھے مختلف ممالک میں پاکستان کی نمایندگی اور پاکستان کا مؤقف پیش کرنے کا موقع ملا ۔ مَیں پاکستان ہی کی بہ دولت اس مقام تک پہنچی ہوں، جس پر مَیں اپنے رب کی شُکر گزار ہوں۔ بہر کیف، لڑکیوں کو اس شُعبے کی جانب ضرور آنا چاہیے اور اسے کیریئر کے طور پر اپنانا چاہیے، کیوں کہ بیرونِ مُلک پاکستان کی خدمت کرنا کوئی معمولی کام نہیں۔ 

تازہ ترین