• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’کلچر زراعت کا تقاضا کرتا ہے، جب کہ تہذیب شہر کا۔ ایک پہلو سے تہذیب ،شائستگی کا لباس ہے اور شائستگی وہ نفاست ہے، جو شہر میں بسنے والوں نے صرف شہر ہی میں ممکن سمجھی ،کیوں کہ دولت اور ذَہانت، جو دیہی علاقوں میں پیدا ہوتی ہے، شہر میں جمع ہو جاتی ہے۔ شہروں میں ایجادات اور صنعتیں سہولتوں، تعیشات اور فراغت کو بہت بڑھا دیتی ہیں۔ تاجر ، صنعت کار ملتے ہیں، اشیاء ، خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں، توتجارت کے اِن مقامات پر ذہن ایک دوسرے کے اثرات قبول کرتے ہیں، ذہانت تیز ہوکر تخلیقی قوّت میں ڈھل جاتی ہے۔یعنی تہذیب کسانوں کے جھونپڑوں سے شروع ہوتی ہے، لیکن اس کی افزائش شہروں میں ہوتی ہے۔‘‘(حوالہ ’’انسانی تہذیب کا ارتقاء‘‘، ول ڈیورانٹ)۔ول ڈیورانٹ کےاس اقتباس پر غور کیا جائے، تو اندازہ ہوگا کہ اگر شہر کی ترقّی ،گائوں، دیہات کی قیمت پر کی جائے ، تو دیہات ، توپَس ماندگی کا شکار ہوںگے، شہروں کی تہذیب و ترقّی بھی تنزّلی کا شکار ہو گی ۔ اِس وقت دُنیابھر ،خاص طور پر پاکستان میں یہی کچھ ہو رہا ہے، مَوسموں کی تبدیلیاں انسانی بداعمالیوںہی کا نتیجہ ہیں۔ صنعتی ترقّی میں تحفظ کا عُنصر نہ ہونے کی وجہ سے، دنیا آلودگی کا شکار ہے۔ عصرِ حاضر میںدُنیا کے اکثر ممالک کیمیکلائزڈ ہو چکے ہیںاور اس رجحان کوبدلنا بہت ضروری ہے،جس کا وعدہ ،پیرس معاہدے میںبھی کیا گیا ہے۔ زراعت کی صورت ِحال کا جائزہ لینے کے لیے،عالمی صورت ِحال سے پاکستان تک کے معروضی حالات کو بیان کرنا وقت کا تقاضا ہے۔ اِس وقت دنیا کی آبادی 7ارب8کروڑ ہے، جس میں ہر لمحہ اِضافہ ہو رہا ہے۔ 3ارب سے زائد افراد، خط ِغربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اقوام ِمتحدہ کی نائب سیکرٹری جنرل، اَمینہ جے محمّد کے مطابق برّ ِاعظم افریقا میں13ملین افراد فاقہ کَشی سے دوچار ہیں۔ غربت کے عالمی معیار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ غریب، تَنگ دَست اور نادار افراد ،جنوب ایشیائی ممالک ( بہ شمول بھارت، پاکستان اور بنگلا دیش )میں بستے ہیں۔ عالمی سَطح پر تخفیف ِغربت کی متعدد اور مسلسل کوششوں کے باوجود اب تک کمی کے کوئی ٹھوس شواہد نظر نہیں آتے، اس کی بڑی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، جس کے تَلے5فی صدافراد کے پاس آدھی دنیا سے زائد دولت ہے۔ بھوک و افلاس نے مزید کئی ریاستوں اور اُن کے شہریوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ عالمی ادارۂ خوراک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں روزانہ ہزاروں بچّے بھوک، بیماری اور غِذائی قِلّت کے باعث موت کا شکار ہو رہے ہیں۔ خُشک سالی، بارشوں میں بے قاعدگی ، سیلابوں اور خانہ جنگیوں کے باعث خوراک کے عالمی ذخائر میں کمی واقع ہو رہی ہے ،جس سے اقوام ِمتحدہ کی جانب سے تخفیفِ غربت کے اہداف اور غذائی تحفّظ کو یقینی بنانے کی کوششوں کو دھچکا پہنچا ہے۔ اِس عالمی پس ِمنظر میں ،جہاں موسم کی تبدیلی نے بنی نَوع انسان کے لیے نئے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں، اس تناظر میں زراعت اور اس کی ترقّی کا تجزیہ کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ پاکستان میں پانی کی مَعیشت (واٹر اِکانومی) کو قابلِ توجّہ ہی نہیں سمجھا گیا ،جس کے نتیجے میں ،آج پاکستان کے جُنوبی علاقوں میں پانی کی قلّت اور قحط سالی کا خوف ناک خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔

اِس حوالے سےتجزیئے کا آغاز،پانی کی قِلّت اور اَوسط پانی کی دست یابی کا موازنہ کرکے کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایک کیوبک میٹر پانی کا0.13کلوگرام، زرعی پیداوار میں صَرف ہوتا ہے۔اِس کا موازنہ بھارت سے کریں ،تو وہاںزرعی پیداوار 0.39ہوتی ہے، جو پاکستان سے تین گُنازیادہ ہے۔ چین میں0.28اور امریکا میں 1.56 کلوگرام زرعی پیداوار حاصل کی جاتی ہے۔ کینیڈا، امریکا سے بھی زیادہ فی کَس پیداوار حاصل کرتا ہے ۔ یاد رہے،زیادہ پیداوار حاصل کرنے والے ممالک، جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے آب پاشی کا نظام چلاتے ہیں۔ پاکستان میں90فی صدپانی ،زرعی شعبے میں صَرف ہوتا ہے، جب کہ کاشت کار جدید طریقہ ہائے کار سے نابَلد ہیں۔ ظاہر ہے، جب پانی زندگی ہے ،تو اسِ کی قلّت یا زیاں موت ، لہٰذا روشن مستقبل کے خواب کی تعبیر مشکل ہی نظر آرہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کے کاشت کار 50فی صد پانی بچا سکتے ہیں، لیکن کوئی پرانی ڈَگر سے ہٹنا نہیں چاہتا۔ یہ بھی ان کی سوچ سے ماورا ہے کہ اگرایک لیٹر پانی سے ایک کلو چاول حاصل کیے جاتے ہیں ،تو ایک لیٹر پانی سے ایک ٹن گلاب کے پھول بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ہم ٹھہرے لکیر کے فقیر، کَم پانی میں اُگنےوالی، متبادل فصلوں کے بارے میں، کاشت کاروں اور حکومتوں کا سوچنا محال نظر آتا ہے۔ اِس کی مثال ، زرعی یونیورسٹی ،ٹنڈوجام کے ایک ماہِر کی زبانی دی جا سکتی ہے کہ ’’ اگر ایک ایکڑ اراضی پر گندم اُگائی جائے، تو اِس پر25ہزار روپے کے اخراجات آتے ہیں ،جس میں لیبر، بونا،کاٹنا، بیج کی قیمت، کھاداورکرم کُش ادویہ شامل ہیں،جب کہ اگر آب پاشی کو جدید خطوط پر استوار کیاجائے،تو زمین کو ہَم وار کرکے محض جدید آلات استعمال کرنا ہوں گےاوراس پر فی ایکڑ1000روپے تک خرچ ہوں گے۔‘‘اسی حوالے سےایک جدید ماہرِ آب پاشی، ظفر محمود کا کہنا ہے کہ ’’حیرت کی بات ہے ،فی ایکڑ اوسط پانی کی قیمت55روپے ادا کرنا پڑتی ہے، اگر پانی کی بچت کو عمل میں لائیں اور 1000روپے فی ایکڑ سے زیادہ پانی کی بچت کریں، تو طویل مدت میں مجموعی طور پر پانی کے اخراجات میں کمی آئے گی اور قِلّت کا بھی ازالہ ہوجائے گا۔ ‘‘ایک فکری مغالطہ یہ بھی ہے کہ ٹیکس نظام میں انڈسٹری اور زراعت کو مختلف انداز سےدیکھا جاتا ہے۔ ایک چھوٹی صنعت پر ہر قِسم کے محاصل لگائے جاتے ہیں، جب کہ زراعت سے بڑے زمین دار کروڑوں روپے کمالیتے ہیں ،لیکن اِن پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جاتا، بلکہ کسی شہری کو رقم سفید کروانی ہو، تو کسی بڑے زمین دار سے قرضے کا سرٹیفکیٹ لے کر ٹیکس کے محکمے کو بے وقوف بنا دیتا ہے۔ جی ڈی پی میں زراعت کا حصّہ20فی صد اور ریونیو میںصِرف ایک فی صد ہے۔ یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہمارے ہاں ،پانی کا جاہلانہ طریقے سےبے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ زرعی پیداوار میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارے کاشت کار تربیت یافتہ نہیں ہیں۔ اس کے برعکس بڑے زمین دار کاشت کاری کے جدید طریقے بھی استعمال کرتےہیں، اُن کو بروقت گودام بھی مل جاتے ہیں، زَر تلافی بھی حاصل کر لیتے ہیں، قیمت بھی اچھی وصول کرتے ہیںاور اُنہیں مِڈل مین کی ضرورت بھی نہیں پڑتی۔ سِتم ظریفی یہ بھی ہے کہ جاگیردارانہ، قبائلی اور زمین دارانہ نظام میں اراضی ،غریب کاشت کاروں سے ہتھیا لی جاتی ہے۔ اسی لیےزرعی اصلاحات سے بڑے زمین دار خوف زدہ رہتے ہیں ۔ چھوٹے کاشت کاروں کا ایک مسئلہ وَراثت بھی ہے ،جس کی وجہ سے زمین تقسیم در تقسیم ہونے سے قطعۂ اراضی سے بہت کم پیداوار حاصل ہوتی ہے ،

نتیجتاًچھوٹے کاشت کاروں کی گُزر اوقات مشکل ہو جاتی ہے۔ اگر چھوٹے کاشت کار کمیونٹی یا کوآپریٹو سسٹم کے تحت یَک جا ہوں اور حکومت دیانت داری سے ریگولیٹ کرے، تو پیداوار میںبہتر ی آ سکتی ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، فرانس اور امریکا کے کسان مشترکہ کاشت کاری کرتے اور دنیابھر میں ویلیو ایڈڈ (مکھن، پنیر) وغیرہ بھی برآمد کرتے ہیں۔اِ س وقت دُنیابھر میں کوآپریٹو سسٹم عروج پر ہے۔ بعدازاں، پیداوار کو اونر شپ کے تناسب سے تقسیم کیا جاتا ہے۔اس ضمن میںتجزیہ نگار، منصور احمد لکھتے ہیں ’’بڑے زمین داروں اور چھوٹے کاشت کاروں کے درمیان ،فصلوں کاپیداواری فرق79 سے 45فی صد تک پایا جاتا ہے، جب کہ عالمی اوسط پیداوار بہت زیادہ ہے۔ اگر پاکستان کوکم لاگتی زراعت میں خودکفیل کرناہے ،تو چھوٹے کاشت کاروں کو جدید سہولتیں فراہم کر کے، اِن کی پیداوار کو بڑے زمین داروں کی پیداوار کے برابر لانا ہو گا۔‘‘ تجزیہ نگار کے مؤقف کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، چھوٹے کاشت کاروں کی مشترکہ کاشت کو، کوآپریٹو سسٹم کے تحت لانا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ مِڈل مین ختم کرکے ، کاشت کاروں سے براہِ راست خریداری کرےاور پیداوار کو مارکیٹ میں لائے،تاکہ زائد اور اچھی پیداوار کے ساتھ ساتھ چھوٹے کاشت کاروں کو بھی فائدہ ہو۔ کاشت کاروں اور حکومت دونوں کو اس بات پر بھی غور کرنا ہو گا کہ زراعت کے شعبے میں مَردوں سے زیادہ خواتین کام کرتی ہیں، مگر اُنہیں محنتانہ نہیں ملتا ،بلکہ کہا جاتا ہے کہ عورتوں کو اپنے مَردوں کی مدد کرنی چاہیے،گویا عورت کی محنت کوسراہا جاتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی اہمیت دی جاتی ہے۔اِس سوچ کا قَلع قَمع کرکے ہی ترقّی کے راستے پر گامزن ہواجا سکتا ہے۔ چھوٹے اور بڑے زمین داروں میں بھی اگرامتیازی روِش بدل دی جائے، تو پیداوار2.5ٹن فی ایکڑکےبہ جائے بآسانی4.6ٹن فی ایکڑ ہو سکتی ہے۔ ضلع قصور میں چند ہزار ایکڑ پر جدید کاشت و آب پاشی کے ذریعے آلو کی کاشت کی گئی ،جس کے نتیجے میں20فی صد پیداوار میں اضافہ ہوا۔ تاہم، زائد پیداوار کو مارکیٹ کرنے میں کسانوں کو دشواریاں درپیش ہیں، اِس جانب صوبائی حکومتوں کو توجہ مبذول کرنی چاہیے۔ گنّے کے کاشت کاروں کے ساتھ، شوگر ملز مالکان ،کئی دَہائیوںسے،جو کچھ کر رہے ہیں اس کا تدارک ضروری ہے۔ پنجاب میںچھوٹے اور بڑے زمین داروں کے درمیان روئی کی پیداوارکا فرق30فی صد ،گنّے کا 61 فی صد ، جب کہ سندھ میں گنّے کا پیداواری فرق 70فی صد ہے۔ مکئی کی پیداوار میں بھی چھوٹے کاشت کاروں کو سہولتیں فراہم نہیں کی جاتیں، یہی وجہ ہے کہ بڑے زمین داروں کے مقابلے میں چھوٹے کاشت کاروں کو 58فی صد کم پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں93فی صد چھوٹے کاشت کار ہیں ،جن کی اکثریت، اپنی چھوٹی چھوٹی اراضیاں فروخت کر کے شہروں میں کچی بستیاں آباد کر رہی ہے، جہاں جرائم، بھوک اور بیماریاں ہی پرورش پا رہی ہیں۔ جن محکموں میں زرعی ماہرین تنخواہیں لے رہے ہیں ،وہ کسانوں کو تربیت نہیں دیتے۔البتہ، ٹیلی ویژن اور ریڈیو کے ذریعے ’’لیکچرز‘‘ دے دیتے ہیں۔

پاکستان اگر چار ارب ڈالرز کی بچت کرے، توکھانے کے تیل میں خودکفیل ہو سکتا ہے۔ لیکن دُشواری یہ ہے کہ حکم رانوں اور زمین داروں کی سوچ تبدیلی اور متبادل فصلوں کی طرف مائل نہیں۔ بڑے زمین دار گندم پر اور شوگر ملز مالکان چینی کی پیداوار ہی پر زور دیتے ہیں، تاکہ وہ برآمدات سے زرِمبادلہ کما سکیں۔ اس وقت پاکستان میں 40ملین ٹن (4کروڑ) کھانے کا تیل استعمال ہو رہا ہے۔ بہت سی مقامی کمپنیاں ، اسٹیٹ آف دی آرٹ مشینری کے ساتھ کام کر رہی ہیں ۔تاہم، حکومتوں کامقامی سطح پر دھیان نہ ہونے کی وجہ سے، صرف4لاکھ ٹن ہی تیل تیار کیا جا رہا ہے، اِسی وجہ سے30ملین ٹن تیل درآمد کیا جا تا ہے۔ درآمدی بیجوں سے0.80ملین ٹَن تیل بنایا جاتا ہے۔ کھانے کے تیل کا منظرنامہ دیئے گئے گوشوارے سے دیکھا جا سکتا ہے۔

سندھ میں جہاں گیس، کوئلے اور دیگر معدنیات کے ذخائر کےعلاوہ، کھجوروں اور کھجیّوں کی پیداوار بھی ہوتی ہے، ایسی سر زمین ،حکومت کی غفلت کی وجہ سے زائد پیداوار حاصل کرنے سے قاصر ہے، ورنہ تھر، صومالیہ نہ بنتا۔گزشتہ دنوں سندھ ایگری کلچر یونیورسٹی میں خوراک اور مویشی بانی(فوڈ اینڈ اینی ملز) کی ترقّی پر، دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا۔جس میں دنیابھر سے آئے ہوئے ماہرین ِزراعت نے کہا کہ ’’پاکستان کے چھوٹے کاشت کار، جدید طریقہ ٔہائے کار اور جدّت سے نابَلد، اُبھرتی ہوئی ٹیکنالوجی سے ناآشنا ہیں۔ اسی لیے عالمی اوسط سے بہت کم پیداوار حاصل کر پاتے ہیں۔‘‘ ظاہر ہے70برسوںمیںجو حکومتیں آئیں ، اُن کے سرکاری معیشت دان ،آئی ایم ایف، بزنس اسکولوں اور بینکوں کا نصاب پڑھے ہوئے ہیں، جنہوں نے اپنی دَھرتی کی گھاس کو سونگھا ہے اور نہ ہی تالابوں اور جوہڑوں میں بھینس کی دُم پکڑ کر تیرنا سیکھا ہے، لہٰذااُن کی سوچ جی ڈی پی سے آگےجاتی ہی نہیں ۔ پُل اور سڑکیں بھی اس لیے تعمیر کی گئیں، تاکہ ترقی یافتہ ملکوں کی بسوں، ٹرکوں اور گاڑیوں کی مزید کھپت ، ان کے بینکوں سے لیز کے ذریعے ہواور روپے کی قدر کَم ہو۔ حالاں کہ زرعی شعبے کی ترقی ہی ،حقیقی ترقی ہے۔ جہاں سے فاضل پیداوار حاصل ہو تی ہے، جو برآمدات کے لیے کارآمد ہے۔ پاکستان کی حکومتوں نے ہمیشہ ہی کپاس کی پیداوار پر زیادہ توجّہ دی، اِس کے باوجود ٹیکسٹائل انڈسٹری کو ٹھیک طور پر سنبھالا نہیں جا سکا۔ اِس مرتبہ کپاس کی فصل10.5ملین ٹَن ہوئی ،جب کہ اس کی پیداوار15ملین ٹن ہونی چاہیے تھی۔مذکورہ کانفرنس میں نیویارک سے آئے ہوئے ایک ماہرِ مویشی(لائیو اسٹاک) پروفیسر مشتاق میمن نے کہا کہ ’’زراعت کا جی ڈی پی میں 19.5 فی صد حصّہ ہے، جس میں 58 فی صد، لائیو اسٹاک پر مشتمل ہے۔انہوں نےاپنے تحقیقی مقالے میں لکھا کہ پاکستان دودھ پیدا کرنے والے ممالک میں چوتھے نمبر پر ہے، جب کہ جو دودھ بھینس سے حاصل کیا جاتا ہے، وہ اوسطاً 8لیٹراور مغرب میںیہ شرح18لیٹرہے۔ ظاہر ہے پاکستان میں زیادہ ترمویشیوں کو اچھی خوراک ملتی ہے، نہ ہی اچھا ماحول۔ اسی لیےاُن میں،مہلک ترین بیماریاں پائی جاتی ہیں جو دودھ، مکھن اور پنیر کے ذریعے انسانوں میں بھی منتقل ہو جاتی ہیں۔ زراعت کے شعبے کو اوّلین ترجیحات میں شامل اور ویلیو ایڈڈ فوڈ انڈسٹری کوبھی فروغ دیاجانا چاہیے،کیوں کہ پاکستان کی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پانی کا مسئلہ ٹیل کے علاقوں میں خشک سالی کوجنم دے رہا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ شمالی علاقوں اور اَپر پنجاب میں بارشوں اور پانی کی کمی کا کوئی خطرہ نہیں ۔تاہم، چھوٹے بڑے ڈیم بنا کر سندھ اور بلوچستان کے لیے زیادہ پانی دیا جانا چاہیے،کیوں کہ اِن دو صوبوں پرزیادہ موسمی اثرات مرتّب ہو رہے ہیں۔ اگر ہم نےقدرت کی عطا کردہ نعمتوں سے بہتر طور پر استفادہ نہیں کیا اور محض قرضوں ہی پر اکتفا کیا، تو معیشت تباہ ہوجائے گی اوراس وقت فقط زرعی ترقی ہی معیشت کو تباہی سے بچا سکتی ہے۔

تازہ ترین