• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

عوامی مسائل کا حل: صوبے کی انتظامی مشینری کو فری ہینڈ دیا جائے

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی دوتہائی حکومت صوبے کی تاریخ کی مضبوط ترین حکومت ہے جس کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں البتہ پارٹی کے اندر ہی گروپ بندیوں نے حکومتی امور کو متاثر کررکھا ہے ۔سوات سے منتخب رکن اسمبلی محمود خان صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں لیکن یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ صوبے میں کئی افراد حکومت چلا رہے ہیں۔وفاق سے سیاسی اور افسر شاہی کی مداخلت ٗگورنر کی پسند نا پسند اور صوبائی وزراء کی من مانیوں کی کہانیاں زبان ذدعام ہیں۔صوبےمیں موجود بیوروکریٹس بھی تذبذب کا شکار ہیں کہ وہ کس کی بات کو مانیں اور کس کو انکار کریں ۔ چند روز قبل چھٹی کے روز اچانک چیف سیکرٹری اور آئی جی کے تبادلے کے احکامات جاری کردئیے گئے حالانکہ عمران خان بیوروکریسی میں عدم مداخلت اور انھیں اختیار دینے کے حامی ہیں اور صرف ایک روز قبل ہی سرکاری افسروں کو یقین دھانی کے بعد اگلے ہی روز یو ٹرن لے لیا گیا ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ وزیر اعلی کو بھی معاملات سے بے خبر رکھا گیا تبادلوں کے حوالے سے تین ناموں کی کوئی سمری گئی اور نہ ہی کسی نے پوچھنا گوارا کیا حالانکہ عمران خان کئی مرتبہ خیبرپختونخوا پولیس اور اس کے سابق سربراہ صلاح الدین محسو د کی مثالیں دیتے رہے ہیں۔ صوبے میں اصل حکمرانی کے حوالے سے کئی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آخر صوبے کا اصل حکمران کون ہے اس امر میں کوئی شک نہیں کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا حکم حرف آخر ہوتا ہے کیونکہ وہ پارٹی کے سربراہ ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں صورت حال یکسر مختلف ہے۔عمران خان کی جانب سے کسی قسم کی مداخلت نظر نہیں آرہی البتہ ان کے رفقاء کی جانب سے پچھلے دور حکومت کے مقابلے میں اس مرتبہ زیادہ سرگرمی نظر آرہی ہے۔پرویز خٹک تجربہ کار اور زیر ک سیاستدان تھے لہذا وہ کسی کو بے جا مداخلت کی اجازت نہیں دیتے تھے اور معاملات کوخوش اسلوبی سے چلالیتے تھے البتہ بعض معاملات پر مداخلت کو تسلیم بھی کرلیتے تھےلیکن محمود خان پرویز خٹک کے مقابلے میں ناتجربہ کار اور انتہائی سادہ مزاج واقع ہوئے ہیں ۔وزیراعلیٰ محمود خان اپنی کرسی بچانے میں فکر میں رہتے ہیں ۔گورنر شاہ فرمان کا شمار عمران خان کے دیرینہ اور قریبی رفقا ءمیں ہوتا ہے لہٰذا وفاق اور صوبائی بیورو کریٹس ان کی بات پر خصوصی توجہ دیتے ہیں اس لئے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ گورنر شاہ فرمان صوبے کے ڈیفیٹکو وزیراعلیٰ ہیں۔اسی بنا پر بعض حلقے صوبے میں چیف سیکرٹری اور آئی جی کے تبادلوں میں بھی ان کے عمل دخل کو خارج از امکان قرار نہیںدیتے ۔قبائلی علاقہ جات کے صوبے میں انضمام کے بعد گورنر کا عہدہ دیگر صوبوں کے گورنرز کی طرح صرف علامتی طور پر رہ گیا ہے جبکہ شاہ فرمان اس صورت حال سے زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے لہذا اب انکی کوشش ہے کہ انضمام شدہ علاقوں میں ان کا اثرورسوخ کسی نہ کسی طور موجود رہے ۔گورنر شاہ فرمان اس تاثر کو مسترد کرتے ہیں کہ وہ اختیارات کی جنگ لڑ رہے ہیں کیونکہ وزیراعلیٰ ہی صوبے کے انتظامی سربراہ ہیں لہٰذا وہ ہی فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ انھیں اختیارات سے دلچسپی نہیں البتہ وہ قبائلی عوام کو پریشان نہیں دیکھ سکتے کیونکہ قبائل نے دہشتگردی کی جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں ۔حکومت قبائلی رسم ورواج کے مطابق تمام معاملات کو حل کرنے میں دلچسپی رکھتی جس سے انھیں دقت نہ اٹھانا پڑے۔ گورنر نے اس تاثر کو بھی مسترد کیا کہ چیف سیکرٹری یا آئی جی کے تبادلوں میں ان کا کوئی ہاتھ تھا اور نہ ہی وہ کوئی پولیس کے متوازی نظام نافذ کرنا چاہتے ہیں ۔دوسری جانب صوبائی وزرا شہرام خا ن اور عاطف خان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ بھی وزیر اعلی محمود خان کو خاطر میں نہیں لاتے دونوں کی براہ راست پہنچ عمران خان تک ہےعاطف خان کو وزات اعلی نہ ملنے کا بھی ملال ہے اسی بنا پر وزیراعلیٰ اور بعض وزرا کے اختلافات کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔صوبائی کابینہ کے بعض وزرا اور مشیروں کے درمیان نوک جھونک اور چپقلش کوملکی سیاست کا ایک جز قرار دیا جاتا ہے لیکن بعض اوقات وزر اءآپے سے باہر ہو جاتے ہیںجس سے کابینہ میں اختلاف کا شائبہ ملتا ہے ۔صوبے میں وفاق سے بھی پارٹی رہنمائوں اور بیوروکریٹس کی مداخلت کا معاملہ بھی چل رہا ہے سابق بیورو کریٹ اور وزیراعظم کے مشیر ارباب شہزاد کا صوبے کی بیورکریسی میں میں عمل دخل بہت زیادہ ہے تاہم وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری بھی الزامات کی زد میںرہتے ہیں ۔ بعض افسروں کا موقف ہے کہ بیورو کریٹس کو کام نہیں کرنے دیا جا رہا ہے صوبے میں افسروں کی گروپ بندی بھی خطر ناک حد تک بڑھ چکی ہے جس سے انتظامی معاملات متاثر ہو رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبے میں انتظامی مشینری کو فری ہینڈ دیا جائے اور عوامی مسائل کے حل کے لئے ترجیحی بنیادوں پر کام کیا جائے ۔قبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد صوبے کے چیلنجز کافی بڑھ چکے ہیں لہذا اس موقع پر حکومت اور بیوروکریسی کے اندر گروپ بندی صوبے کے لئے نقصان دہ ہوگی ۔پولیس اور عدالتی نظام کو انضمام شدہ قبائلی علاقوں میں نافذ کرکے ہی قبائل کی محرومیوں کو دورکیا جاسکتا ہےقبائلی عوام ایک طویل جدوجہد اور تاریکی کے بعد چالیس ایف سی ار سے نجات ملی ہے لہدا اب انھیں کسی بھی متوازی نظام اوراختیارات کی جنگ میں جھونکنا درست امر نہیں ہوگا ۔ ملک او رصوبے کے دیگر علاقو ں کی طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ملکی قوانین کا اطلاق ہونا چاہیے تاکہ قبائل بھی سکھ کا سانس لیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین