• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

آزمائش میں گھری شریف فیملی کی مشکلات کم ہونے لگیں؟

خضر حیات گوندل، لاہور

لاہورمیں ایک مرتبہ پھر سیاسی سرگرمیوں میں تیزی آنے کا امکان ہے ۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی آشیانہ ہائوسنگ سکیم سمیت دو نیب ریفرنسز میں ضمانت پر رہائی سب سے بڑی وجہ بن سکتی ہے ۔میاں شہباز شریف کی انتظامی صلا حیتوں سے انکار بہت مشکل ہے اور وہ اس حوالے سے اپنی تیز رفتاری پر بجا طور پرفخر بھی کرتے ہیں۔جب کہ ان کی پوری سیاسی زندگی اپنے بڑے بھائی اور مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف کے زیرِ اثر چلی آرہی ہے۔مگر اب صورتِ حال کچھ اس طرح کی ہے میاں نواز شریف نیب عدالت سے دوسری مرتبہ سزا کے بعد قید ہیں اور ان کی صحت کے مسائل بھی بڑھتے جارہے ہیںجو یقینا فکر مندی کی بات ہے ۔میاں نواز شریف نیب ریفرنس میں احتساب عدالت سے سزا کے بعد قید ہیں اور اب صحت کے مسائل کے باعث قید کے دوران تیسری مرتبہ جیل میں ہیں۔تادم تحریر وہ اپنے علاج کے لیے جناح ہسپتال لاہور میں زیرِ علاج ہیں اور میڈیکل بورڈ نے تمام میڈیکل رپورٹس اور ٹیسٹوں کی بنیاد پر مرتب کردہ اپنی رپورٹ محکمہ داخلہ پنجاب کو ارسال کردی ہے۔ جس کے بعد اب اس پر مزید علاج کے حوالے سے فیصلہ کیا جائے گا۔میاں نواز شریف کی صحت گرتی دکھائی دیتی ہے ۔ میاں شہباز شریف اور سابق وزیراعظم میا ںنواز شریف کی صاجزادی مریم نواز سمیت شریف فیملی کے لیے یہ ایک انتہائی مشکل وقت ہے۔لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ سیاسی خاندانوں میں یہ کوئی انوکھی یا ان ہونی بات نہیں ہے۔دنیا میں ایسی کئی مثالیں ہیں ۔ اس مشکل وقت میں میاں شہباز شریف کااصل امتحان یہ کہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کا حوصلہ برقرار رکھنا ہے۔مصائب میں گھرے ہوئے شریف فیملی کو سنبھالنا ہے اور ہر حوالے سے انہیں سپورٹ کرنا ہے تو دوسری طرف میاں شہباز شریف کو خود بھی کمر کی دیرینہ تکلیف ہے۔سیاسی میدان میں بھی میاں شہباز شریف اب اکیلے ہیں ان کے ساتھ اگرچہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما موجود ہیں ،مگر میاں شہباز شریف کے اپنے صاحب زادے حمزہ شہباز جو صوبائی اسمبلی پنجاب میں قائد حزب اختلاف بھی ہیںعدالت کی اجازت سے برطانیہ گئے ہوئے ہیں حمزہ شہباز شریف کے سر پر بھی نیب کی تلوار لٹک رہی ہے اورنیب کیسز میں پھنسے ہوئے ہیں ۔ ایسے میں مسلم لیگ (ن) کی سیاست کے مرکزی مہرے بھی زیادہ مئوثر ثابت نہیں ہو رہے۔مریم اورنگ زیب اس ساری مشکل میں بہتر کردار ادا کر رہی ہیں۔میاں نواز شریف کی گرفتاری پر بھی مسلم لیگ (ن)کا لاہور میں ردعمل بڑا کمزور مانا جاتا ہے بلکہ بعض لوگ تو اسے نہ ہونے کے برابرقرار دیتے ہیں ۔اس چلتی ہو ئی بحث میں یہ ذکر نہ کرنا کہ میاں نواز شریف کوٹ لکھپت جیل میں قید تھے تو مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے ان سے اظہارِ یک جہتی کے لیے جیل کے باہر ایک احتجاجی کیمپ لگا یا جس میں شرکاء کی تعداد شرمناک حد تک کم تھی اور یہ لگتا ہی نہیں تھا کہ اس لاہور میں جہاں قومی اسمبلی کی (14) نشستوں میں سے گیارہ اور صوبائی اسمبلی کی(30) نشستوں میں سے (21) مسلم لیگ کے پاس ہیں اور 1985 سے مسلم لیگ (ن) لاہور میں بلا شرکت غیرے ایک حقیقی جمہوری قوت چلی آرہی ہے۔ مگر میاں نواز شریف سے اظہار یک جہتی کے لیے دو درجن سے بھی کم لوگ جیل کے باہر بیٹھے ہوتھے اور ان میں بھی جذبے کا فقدان تھا ۔میاں شہباز شریف کے کندھوں پر اب انتہائی مشکل ذمہ دار ی آرہی ہے کہ وہ مسلم لیگ(ن)کے کارکنوں کو حوصلہ دیں اور رہنمائوںکو ایک نیا جذبہ بھی دیںاس کے لیے دن رات محنت کرنا ہوگی اور میاں شہباز شریف کوا پنے مزاج کے برعکس اپنے لہجے کو دھیما رکھنا ہو گا اور اپنے اردگرد اکھٹے ہونے والے خوشآمدیوں سے بچنا ہو گا۔مسلم لیگ (ن) کو ایک مرتبہ پھر سے بنیادی سطح سے منظم کر نے کی ضرورت ہے ۔ تاکہ اس کے وجود کو ماضی کے مطابق بر قرار رکھا جائے ۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو پارٹی کو سنبھالنے کے لئے اپنی مشکلات سے بطریق احسن نمٹنا ہو گا ۔ عام سیاسی کارکن شہباز شریف کی ضمانت کے بعد سے مختلف تبصرے کر تے دکھائی دیتے ہیں جن میں ڈیل اور ڈھیل کا بھی تذکرہ ہے ۔ ایسے میں پارٹی کو منظم کر نا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ لاہور میں پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما خورشیدشاہ اورچوہدری نوید اکھٹے شہباز شریف کے گھر گئے اور انہیںان کی رہائی پر مبارک باد دی مگر اس موقع پر ان دونوں رہنمائوں کے درمیان جو بات چیت ہوئی وہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کی طرف جانے کا اشارہ بھی ہو سکتاہے ۔ خورشید شاہ بڑے منجھے ہوئے سیاست دان ہیں اورپانچ سال تک قائد احزبِ اختلاف رہ چکے ہیںسیاسی پنڈت اس ملا قات کو انتہائی اہمیت دے رہے ہیں ۔ہو سکتا ہے وہ میاں شہباز شریف کے لیے اپنی اعلی قیادت کو کوئی پیغام بھی لائے ہوںاور واپسی پر خالی ہاتھ نہ گئے ہوںاپوزیشن کو حکومت پر تنقید کے لیے ایک اہم اور بڑا موقع خود حکومت نے اس طرح دیا ہے کہ سعودی ولی عہد کے اعزاز میں منقعدہ تقریب میں قائد حزبِ اختلاف اور دیگر اہم شخصیات کو مدعو نہیں کیا گیا جس سے یقینا کوئی اچھا پیغام نہیں گیا ۔اگرچہ سعودی ولی عہد کی پاکستان ٓمد کو بہت اہمیت دی جارہی ہے مگر اصل صورتِ حال اور اس دورے کی افادیت کا درست اندازہ آنے والے وقت میں ہی ہو پائے گا ۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی میں شریف فیملی اورسعودی شاہی خاندان میں انتہائی قریبی تعلقات رہے ہیںجس کا اظہار سعودی ولی عہد نے ایک موقع پر بھی کیا ہے۔اگر سعودی ولی عہد کے اعزاز میں منعقدہ تقریب مین قائد حزب اختلاف میں شہباز شریف بھی موجود ہوتے تو پھر اس کا بہت اچھا اثر ہوتا۔ پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں تبدیلی سرکار کی حکومت بننے کے بعد سے شروع ہونے والا ٹرنزیشن پیریڈ ختم ہی نہیں ہو رہا اور حکومت بنے چھ ماہ گزرنے کو ہیں۔بیورو کریسی اور پی ٹی آئی حکومت کے درمیان ہم آہنگی کے فقدان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی سرکاری محکموں کے سیکریڑی اور سربراہان کئی دفعہ تبدیل کیے جا چکے ہیںجس سے ان میں پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کا فقدان ہے۔اس سلسلے میں فریقین کو اب ایک دوسرے پر اعتماد کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔

تازہ ترین
تازہ ترین