• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سندھ میں بدامنی پھیلانے والوں کیخلاف سختی کرنے کا فیصلہ

سندھ میں ایک بار پھر بدامنی کی وجہ سے بے چینی پھیل رہی ہے گزشتہ دو ماہ سے سیاسی کارکن ٹارگٹ کلنگ میں مارے جارہے ہیں جس پر سیاسی جماعتوں نے شدیداحتجاج کیا ہے ۔ رواں مہینے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ٹارگٹیڈکیا گیا بعدازاں ایم کیو ایم کے یوسی دفتر پرفائرنگ کی گئی جس میں ایم کیو ایم کے دوکارکن شکیل انصاری اور علی رضاعابدی جاں بحق ہوگئے ایم کیو ایم نے اس واقعہ پر شدیداحتجاج کرتے ہوئے کراچی پریس کلب پر احتجاجی مظاہرہ کیا مظاہرے میں شکیل انصاری اور علی رضاعابدی سمیت تمام دہشت گردی کانشانہ بننے والے کارکنان کے قاتلوں کی گرفتاری ، ظالموں جواب دو خون کا حساب دو، دہشت گردی نامنظور، ایم کیو ایم کے کارکنان کے قاتل کب گرفتار ہوں گے؟ ایم کیو ایم کے دفاتر پر سیکیورٹی فراہم کی جائے، ایم کیو ایم کے کارکنوں کو تحفظ دیا جائے کہ نعرے بینرپر درج تھے، اس موقع پر سینئرڈپٹی کنوینرایم کیو ایم پاکستان عامر خان نے کہاکہ 18 ویں ترمیم کی بات ہوتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ہم رکاوٹ بنیں گے، اگر بلدیاتی اختیارات نہ ملے ، روزگار نہیں ملا، لوکل پولیس سمیت ہمارے دیگر مطالبات نہ مانے تو پھر ہم مجبور ہوں گے وفاق سے صوبے کا مطالبہ کرنے میں اور ہمیں صوبہ لینا آتا ہے اور لے کر دکھائیں گے۔عامرخان نے مزید کہاکہ کراچی کا امن تب بحال ہوگا جب مقامی پولیس بھرتی کی جائے گی، سندھ کے دیگر علاقوں سے آنے والے پولیس اہلکار رشوتیں دے کر تعیناتی لیتے ہیں، عامرخان نے کہاکہ مشرقی پاکستان بنانے میں بھی پی پی پی کا کردار تھا، فیصل سبزواری نے کہاکہ ہم بڑے دکھ کے ساتھ احتجاج کررہے ہیں کہ نیوکراچی یوسی 6 میں رکن قومی اسمبلی اسامہ قادری اور خواجہ اظہارالحسن کے رابطہ دفتر پر مسلح دہشت گردی کرتے ہوئے شکیل انصاری کوشہید کردیا گیا ، ہمارے ساتھی علی رضاعابدی کو چند ماہ قبل اور اس سے قبل محفل میلاد پر کریکر حملے کئے گئے، حق پرست رکن سندھ اسمبلی رعناگلزار نے کہاکہ ہمارے ساتھ مسلح دہشت گردی ختم کرائی جائے، اس موقع پر ایم کیو ایم پاکستان کے ڈپٹی کنوینرکنورنویدجمیل، ڈپٹی کنوینرومیئرکراچی وسیم اختر، فیصل سبزواری، خواجہ اظہارالحسن، ارشدحسن، خالد سلطان، محفوظ یار خان اور حق پرست رکن سندھ اسمبلی رعناانصار موجودتھے۔جبکہ ایم کیوایم کے عارضی مرکز پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے کہاکہ اگر کراچی کی عوام کی محرومیوں کو دور نہ کیا گیا تو پھر لوگ صوبہ مانگیں گے انہوں نے براہ راست پی پی پی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ بھٹو کا کوٹہ سسٹم ختم ہونے کے بعد بھی پی پی پی کی حکومت اپنے متعصبانہ رویے سے باز نہیں آرہی ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے لہجے میں تلخیاں بڑھتی جارہی ہیں گرچہ وہ وفاق میں حکومت کے اتحادی ہے تاہم مرکز اور صوبائی حکومت دونوں سے انہیں یکساں شکایات ہے۔ حکومت قائم ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے تاہم وفاق نے ایم کیو ایم سے کئے گئے وعدے ایفاء نہیں کئے ایم کیو ایم کو ان کے دفاتر واپس نہیں کئے گئے، مبینہ جھوٹے مقدمات ختم نہیں ہوئے قائمہ کمیٹیوں میں ان کی منشاء کے مطابق نمائندگی نہیں ملی۔ جبکہ کراچی کے حوالے سے ایم کیو ایم دونوں حکومتوں سے تحفظا ت کا اظہار کرتی چلی آرہی ہے ملازمتوں میں سندھ کے شہری علاقوں کو مکمل طور پر نظرانداز کرکے میئر کے اختیارات سمیت شہری علاقوں میں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے نظرانداز کئے جانے کے سبب ایم کیو ایم پی پی پی حکومت سے شدید تحفظات رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے متنبہ کیا ہے کہ اگر محرومیوں کا ازالہ نا کیا گیا تو پھر لوگ صوبہ مانگیں گے ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے علیحدہ صوبہ سے متعلق بیان پر پی پی پی اور سندھ کے قوم پرستوں کا ردعمل سامنے نہیں آیا تاہم ایم کیو ایم کے رہنماؤں کے اس بیان کے بعد صوبے میں کیا صورتحال بنتی ہے یہ آنے والے دنوں میں ظاہرہوگا کہاجارہا ہے کہ یہ بیان عوام کی حمایت کے حصول کے لیے دیا گیا ہے کیونکہ سندھ کے شہری علاقوں کی اکثریت علیحدہ صوبے کی حامی ہے دوسری جانب ارشادرانجھانی نامی شخص کو مسلم لیگ(ن) کے یوسی چیئرمین رحیم شاہ نے مبینہ طور پر سیلف ڈیفنس میں قتل کردیاگولیاں مارنے کے بعد رحیم شاہ نے ارشادرانجھانی کو طبی امداد کے لیے اسپتال لے جانے سے روکا جہاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ارشادرانجھانی جاں بحق ہوگئے رحیم شاہ کا موقف ہے کہ ارشاد انہیں لوٹنا چاہتا تھا مبینہ طور پر ارشادکی لاش کے پاس سے پستول بھی برآمد ہوئی ہے تاہم اس واقعے کے بعدسندھ قوم پرستوں نے رحیم شاہ کے انفرادی فعل کو پشتونوں کے خلاف استعمال کیا جس کے ردعمل میں لاڑکانہ میں تین پشتونوں کو قتل کردیا گیا ارشادرانجھانی کے قتل کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے سندھ اسمبلی میں جذباتی تقریر کی تاہم بعد ازاں معاملے کی نزاکت کے بعد ٹنڈوباگو میں انہوں نے کہاکہ ہم اس معاملے پر کسی کو سیاست نہیں کرنے دیں گے لاڑکانہ میں تین پشتونوں کے قتل کے بعد پشتوں میں اشتعال پھیل گیا تھا تاہم اے این پی سندھ کے صدرشاہی سید اورصوبائی وزیر بلدیات سعیدغنی کی بروقت موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئےقوم پرست جماعتوں سمیت پشتون تنظیموں سے رابطے نے معاملے کو لسانی فسادات میں تبدیل ہونے سے روک دیا ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس واقعے کے بعد وزیراعلیٰ سندھ، قوم پرست تنظیمیں پختون رہنماؤں سے رابطے کرتی کیونکہ تین بے گناہ افراد کے قتل کے بعد پختونوں میں اشتعال پایا جاتا تھا تاہم حکومت کے رابطوں کے بجائے شاہی سید نے آگے بڑھتے ہوئے لسانی فسادات روکنے کی خاطر پہلے وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ سے رابطہ کیا بعدازاں انہوں نے ایازلطیف پلیجو اور جلال محمودشاہ سے ملاقاتیں کی جس کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے کہاکہ لاڑکانہ میں تین مزدوروں کی ٹارگٹ کلنگ کاواقعہ سندھ کے امن کو خراب کرنے کی سازش ہے ہم اس کی مذمت کرتے ہے جو صوبے کا امن خراب کرے گا اور مظلوموں کا خون بہائے گا وہ میرا دشمن ہوگا اور ہر دشمن کے ساتھ آئینی ہاتھوں سے نمٹوں گا وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی شاہ اور شاہی سید کے بروقت رابطوں نے لسانی فسادات بھڑکانے والوں کی سازش ناکام بنادی ادھر سندھ اسمبلی کا غیرمعمولی اجلاس 40 روز کے قریب جاری ہے اجلاس میں کوئی خاص قانون سازی نہیں ہوئی تاہم 9 جنوری سے جاری اجلاس سے متعلق یہ کہاجارہا ہے کہ جب ایجنڈے پرکوئی خاص بزنس نہیںتواجلاس کی غیرمعمولی طوالت کیوں ؟کیا سندھ حکومت کو کسی کی گرفتاری کا خدشہ تھا یا پھر امن وامان کی مخدوش صورتحال کے سبب وہ سمجھتی تھی کہ کچھ عرصہ کے لیے سندھ اسمبلی کو معطل کیا جاسکتا ہے وجہ چاہے کچھ بھی ہو اجلاس کاطویل ہونا حیران کن ہے اجلاس میں سوائے بدنظمی، شورشرابے، دشنام طرازی کے اور کچھ نہیں ہوا البتہ اجلاس کے دوران اپوزیشن تقسیم نظرآئی تاہم تحریک انصاف کے رکن ارسلان تاج نے گزشتہ 9 سال میں ایک ہزار ارب روپے بے ضابطگیوں سے متعلق تحریک التوء جمع کرادی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین