• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یوں توپاکستان میں کوئی بھی لمحہ بے کیف نہیںہوتا، لیکن گزشتہ ہفتے حقیقی معنوں میں پرلطف حماقتوں کا دستر خوان سجا رہا۔ وزیر ِ دفاع ، خواجہ آصف نے پارلیمنٹ میں مسلسل قطع کلامی کرنے پر پی ٹی آئی کی انفارمیشن سیکرٹری ، شیریں مزاری کو ’’ٹریکٹر ٹرالی‘‘ کا لقب دے ڈالا۔ اگر چہ خواجہ صاحب نے عوامی سطح پر ناروا الفاظ واپس لیتے ہوئے معذرت کرلی تھی لیکن وہ نجی گفتگو میں قطعاً نادم دکھائی نہ دئیے ۔ انسانی حقوق کی کارکن، ماروی سرمد اور جے یو آئی کے سینیٹر حافظ حمد اﷲکے درمیان ایک ٹی وی ٹاک شو میں تلخ کلامی ہوگئی۔ بات اتنی بڑھ گئی کہ حافظ حمد اﷲ نے نہ صرف انتہائی شرمناک الفاظ استعمال کیے بلکہ ماروی سرمد کو جسمانی طور پر مارنے کے لئے بھی لپکے۔ ماروی سرمد نے چیئرمین سینیٹ کے سامنے احتجاج کیا اور حافظ حمد کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کرائی، تاہم وہ اپنے قول و فعل پر قطعاً نادم نہ ہوئے اور نہ ہی اُنھوں نے اس پر معذرت کرنے کی ضرورت محسوس کی۔
وزیراعظم نواز شریف کے دل کالندن کے ہیلرے اسٹریٹ کلینک میں بائی پاس ہوا تو چند ایک ٹی وی اینکرز حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے کہ دل کی جراحت کسی ’’اسپتال ‘‘ کی بجائے محض ایک ’’کلینک ‘‘ میں کیوں ہوئی؟کچھ بقراطوں نے اپنے دل پر ہاتھ کر سوچا اور پھر دعویٰ کیا کہ آپریشن کا صرف ڈرامہ رچایا گیا ہے تاکہ پاناما لیکس کی وجہ سے آنے والے دبائو کو ٹال کر عوام کی ہمدردیاں حاصل کی جاسکیں۔ کچھ ناقدین نے وزیر ِاعظم کو منصب سے اتر جانے کی نصیحت کی۔ کچھ نے سر(اپنا) کھجلاتے ہوئے سوچا کہ اب پی ایم ایل (ن) کی قیادت شہباز شریف صاحب سنبھالیں گے یا محترمہ مریم نواز؟
سپرماڈل ، ایان علی ، جس پرغیر قانونی طور پر رقم بیرون ِ ملک لے جانے کا الزام تھا، نے وزیر ِ داخلہ ، چوہدر ی نثارعلی خان پر الزام لگایا کہ وہ اُنہیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہ دے کر سپریم کورٹ کی مبینہ طور پر توہین کے مرتکب ہورہے ہیں۔سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ ، دونوں نے ایان علی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا لیکن جن صاحب کے پاس ای سی ایل کا کنٹرول ہے ، وہ اُنہیں باہر جانے کی اجازت دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس پر سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس صاحب نے سیکرٹری داخلہ کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ اُنہیں حکم عدولی کی پاداش میں جیل بھیج دیا جائے۔ سپریم کورٹ کے جسٹس، عظمت سعید نے استفسار کیا کہ جب ٹیکس چوروں، اسمگلروں اور مختلف جرائم پیشہ افراد کو ملک سے جانے آنے کی چھوٹ ہے تو ایک فیشن ماڈل ، جس کی ضمانت لاہور ہائی کورٹ نے منظور کی ہے ، کا کیا قصور ہے ؟تاہم چوہدری نثارعلی خان صاحب کے سامنے کچھ دیگرامور کی انجام دہی مقدم ہے ۔ موصوف خارجہ امور کو گھر کی کھیتی سمجھتے ہیں۔ آج کل وہ بھارتی وزیر ِ خارجہ، سشما سوراج کی سرزنش میں مصروف ہیںکہ اُنھوں نےکیوں کہا کہ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں پایا جانے والا رخنہ پاک بھارت تعلقات کو معمول کی سطح پر لانے میں ایک رکاوٹ ہے ۔ ہم بھی اس پر چوہدری صاحب کی تائید کرتے ہیں کیونکہ سول ملٹری تعلقات پاکستان کا داخلی مسئلہ ہیں ، اس سے باقی دنیا ، خاص طور پر انڈیا ، کو کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے ۔
اس دوران وزیر ِ داخلہ نے وزیر ِ اعلیٰ سندھ،قائم علی شاہ صاحب کو بھی ہدایت کی ہے کہ پی پی پی کے اہم رہنما اور سابق صدر آصف علی زرداری کے دست راست اور راز داں ، ڈاکٹر عاصم حسین کی منظر ِ عام پر آنے والی ویڈیو کی تحقیقات کرائیں ۔ اس ہدایت کے بھی کیا کہنے، کیونکہ ڈاکٹر عاصم رینجرز کی تحویل میں ہیں، اور ان کا ریمانڈنیب نے بھی لے رکھا ہے ،اور یہ دونوں ادارے وفاق کی پشت پناہی سے سندھ میں کام کررہے ہیں۔ اور منظر عام پر آنے والی ویڈیو یقینی طور پر ان دونوں اہم اداروں میں کسی ایک کی حراست میں ریکارڈ کی گئی اور ’’اُن ‘‘ میں سے ہی کسی نے اسے باہر نکالا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل قبلہ شاہ صاحب نے ڈاکٹر عاصم کی بے گناہی پر اصرار کیا تھا تو چوہدری نثار علی خان صاحب گویا ہوئے تھے کہ اُن کے پاس اعتراف کی ویڈیو ز موجود ہیں۔
اس دوران مشیر برائے خارجہ امور، مسٹر سرتاج عزیز بھی اپنے زخموں میں خود ہی مرہم رکھنے کی کوشش میں ہیں۔ محترم کو گلہ ہے کہ کوئی اُنہیں وزیر ِخارجہ سمجھتا ہی نہیں لیکن پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا تمام الزام اُن پر عائد کردیا جاتاہے ۔مسٹر عزیز کو ایران، افغانستان، انڈیا اور عالمی طاقت، امریکہ کے ساتھ کشیدہ تعلقات بہتر بنانے کی ذمہ داری اٹھانی پڑی، لیکن وہ وضاحت کرنے کی پوزیشن میں نہیں کہ ایران پاکستان سے کیوں شدید ناراض ہوا(ایرانی صدر کے اسلام آباد کے دورے کے دوران آئی ایس پی آر کی ٹوئٹ قارئین کو یاد ہوگی)کیونکہ اگر سرتاج عزیز اس کی وضاحت کرتے ہیں تو سول ملٹری تعلقات میں مزید کشیدگی کا خدشہ ہے ۔ کم وبیش انہی وجوہ کی بنا پر وہ اس بات کی وضاحت کی پوزیشن میں نہیں ہیں کہ پاکستان طالبان کو چار رکنی گروپ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے راضی کیوں نہ کرسکا(صدر اشرف غنی نے دعویٰ کیا تھا کہ پاکستان نے 2015 کے موسم ِگرما تک طالبان کو مذکرا ت پر آمادہ کرنے کا وعدہ کیا تھا)۔
تاہم پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی کی وجہ جو مسٹر عزیز نے تلاش کی ، اُسے سن کر مجنوں بھی صحرا کی ریت چھاننے کی مصروفیت ترک کرکے کتابیں پکڑ کر اسکول کی راہ لیتا۔ فرمایا کہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر، مسٹر حسین حقانی نے تن تنہا وزیر ِاعظم نواز شریف، آرمی چیف، طارق فاطمی، واشنگٹن میں پاکستان کی سفیر اور دفتر ِ خارجہ کی امریکہ کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی انتھک کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے ۔ مبادا کسی کی یادداشت ساتھ چھوڑ جائے، مسٹر حقانی پر 2011 میں بھی میموگیٹ کے حوالے سے غداری کا الزام لگا تھا اور اُنہیں اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان سے نکال دیا تھا جس نے میمو گیٹ کے خلاف عدالت میں جانے والے نواز شریف کو 2014 میں عمران اور قادری کے دھرنوں کے ذریعے زچ کرکے رکھ دیا تھا۔ اگر مسٹر حقانی واقعی لابنگ کے اتنے ماہرہیں تو مسٹر عزیز اُنہیں غدار قرار دینے والوں کی غلطی ظاہر کرتے ہوئے اُن سے پاکستان کی دگرگوں خارجہ پالیسی کو سدھارنے اور ملک کو اپنے پائوں پر کھڑا ہونے کی خدمت کیوں نہیں لیتے ؟
حماقتوں کے اس بھرے میلے میں دانائی کی صرف ایک ہی آواز سنائی دی اور وہ عاصمہ جہانگیر کی تھی ۔ محترمہ نے سپریم کورٹ سے استدعاکی کہ آئی ایس پی آر کو ’’مانیٹر اور ریگولیٹ ‘‘ کیا جائے کیونکہ وہ مبینہ طور پر سیاست دانوں اور سویلینز کی ’’کردار کشی ‘‘ کررہا ہے ۔ تاہم دہکتی آگ میں کاغذ کے ٹکڑے کا کام کیا؟ اور پھر ہم نے عقل اور معقولیت کا دامن تھام کر کون سی ندی پار کرنی ہے ؟
تازہ ترین