• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جس طرح Rear view mirrorکے بغیر گاڑی نہیں چلائی جا سکتی اسی طرح ماضی کے آئینے میں جھانک کر دیکھے بغیر مستقبل کی راہیں متعین نہیں کی جا سکتیں۔مگر بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں یا تو عقب بیں آئینہ دیکھنے کی زحمت گوارہ نہیں کی جاتی یا پھر اس میں دکھائی دینے والے مناظر کو اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ مسلمانوں کاحال ناگفتہ بہ ہے تو کیا ہوا، ماضی بہت تابناک ہوا کرتا تھااور وقت نے یاوری کی تو مستقبل بھی روشن ہو گا۔میں خود رجائیت پسند شخص ہوں ،مایوسی کے سمندر میں امید کے جزیرے بسانے پر یقین رکھتا ہوںمگر جب مبالغہ آرائی کے فن میں مہارت رکھنے والوں کو بار بار شاندار ماضی کی تکرار کرتے دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ جھوٹی شان و شوکت کے خمار میں کھوئے رہنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنی تاریخ کے ریئر ویو مرر کو صاف کرکے اپنے کردار کو حقائق کی کسوٹی پر پر کھا جائے۔8ویں صدی سے 13ویں صدی پر محیط وہ 500سالہ ماضی جسے ہم اپنے سنہری دور کے طور پر یاد کرتے ہیں،کیا وہ واقعی مسلمانوں کی تاریخ کا سنہری دور تھا؟یقینا اس دور میں بو علی سینا جیسے ماہرین طب پیدا ہوئے،جابر بن حیان جیسے کیمیا دانوں نے نئی تاریخ رقم کی،ابن الہیشم جیسے ماہرین بصریات کا ظہور ہوا،عمر خیام جیسے ریاضی دان،خوارزمی جیسے منجم ،یعقوب الکندی جیسے مہندس،فرغانی جیسے ماہرین فلکیات و نجوم ،ابن رشد جیسے فلسفی اور البیرونی جیسے ستاروں نے اکناف عالم کو اپنے علم کی روشنی سے منور کیا ۔آج جب کوئی ہمیں کام چوری اور کاہلی کا طعنہ دیتا ہے تو ہم اپنے دفاع میں ان عظیم سائنسدانوں کا حوالہ دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ بو علی سینا نے جدید طب کی بنیاد رکھی۔’’قانون فی الطب‘‘ اور ’’الشفائـ‘‘ جیسی ان کی تصنیفات کو میڈیکل سائنس میں وہی حیثیت حاصل ہے جو عیسائیت میں بائبل کا درجہ ہے۔جب کسی سے بحث ہوتی ہے تو اسے لاجواب کرنے کیلئے کیمسٹری کے جد امجد جابر بن حیان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ہم عمر خیام کے سائنسی کارناموں پر فخر کرتے ہیں اور چھاتی چوڑی کر کے بتاتے ہیں کہ جیومیٹری اور الجبرا متعارف کروانے کا کریڈٹ عمر خیام کو جاتا ہے۔ہم البیرونی کا لیونارڈو ڈاونچی سے موازنہ کرتے ہیں اور خم ٹھونک کر اس کے کارہائے نمایاں بیان کرتے ہیں۔ایک ایسا شخص جو بیک وقت جراح اور طبیب بھی تھا اور شاعر اور ادیب بھی۔جس نے طبعیات و کیمیا جیسے علوم کو بھی نئی جہت بخشی اور ظرافت و لسانیات کے میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔جن اسلاف کے کارناموں پر ہم فخر کرتے ہیں ،کیا کبھی کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ ان کے افکار و نظریات کیا تھے؟کیا کسی نے یہ معلوم کرنے کی تگ و دو کی کہ جن کے کارناموں پر آج ہم پھولے نہیں سماتے ،ان پر زندگی کی راہیں کیسے مسدود کر دی گئیں؟اس دور کے اہل ایمان ہونے کا دعویٰ کر نے والوں ان نابغوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا؟ازبک ماہر طب بو علی سینا جسے مغرب نے "Father of modern medicine"قرار دیا ،زندگی بھر اپنے افکار و نظریات کے باعث راندہ درگاہ رہے ،یہاں تک کہ اس دور کے علماء نے انہیں مرتد اور واجب القتل تک قرار دے ڈالا۔جابر بن حیان کا شمار بو علی سینا کے لائق ترین شاگردوں میں ہوتا ہے جنہوں نے کیمسٹری کی بیشمار گتھیاں سلجھائیں،ان کی کتاب زیست کاہر ورق تذلیل و تحقیر سے عبارت ہے۔جابر بن حیان کو کئی بار جیل کی ہوا کھانا پڑی، چوراہوں میں باندھ کر سرعام کوڑے برسائے جاتے، یہاں تک کہ ان مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے دماغی توازن کھو بیٹھا۔لبنانی نژاد فرانسیسی مصنف امین معلوف ـ’’سمرقندـ‘‘ میں جابر بن حیان کی حالت زار عمر خیام کے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں:’’ایک دراز قد بوڑھا زمین پر چت پڑا تھا۔اسکے سینے اور ٹانگوں کی چوڑی چکلی ہڈیاں صاف نظر آ رہی تھیں ۔اس کے ننگے سانولے سر پر چند سفید بال نظر آ رہے تھے۔اس کی خوف واشتعال سے نکلنے والی چیخیں اب قدرے تھم چکی تھیں اور وہ لمبی لمبی سسکیاں بھر رہا تھا۔وہ عمر خیام کو التجائیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔اس بدقسمت شخص کے گرد درجن بھر صاحب ایمان ہونے کا دعویٰ کرنے والے کھڑے تھے جن کے ہاتھوں میں نوکدار لاٹھیاں تھیں۔ان میں سے ایک نے عمر خیام کے چہرے پر خوفناک تاثرات ابھرتے دیکھ کر تسلی دی کہ پریشان مت ہو ،یہ تو لنگڑا جابر ہے‘‘جابر بن حیان کو پٹنے سے بچانے کی کوشش میں عمر خیام خود بھی اس مشتعل ہجوم کے ہتھے چڑھ گیا اور اسے قاضی القضاء کی عدالت میں پیش کیا گیا۔سمرقند میں کیمیا گری ناقابل تلافی جرم تھا کیونکہ اس دور کے ایک بہت بڑے مفسر نے کیمسٹری کو شیطانی اور جادوئی علم قرار دیتے ہوئے اس کی تعلیم کو حرام اور غیر شرعی قرار دے ڈالا تھا۔جس عمر خیام کو ہم مسلمانوں کے ماتھے کا جھومر سمجھتے ہیں،اس کی رباعیات پڑھ کر دیکھ لیں ،آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔الرازی جیسا ماہر طبعیات جس نے 184کتابیں لکھیں ،جس نے کیروسین سمیت بیشمار کیمیکل دریافت کئے ،جس نے پہلی مرتبہ یہ انکشاف کیا کہ بخار کسی بھی بیماری کے خلاف لڑنے کیلئے فطری مدافعانہ نظام کا مظہر ہے۔اس کی کتابیں جلا دی گئیں ،اسے گستاخ اور مرتد قرار دیا گیا کیونکہ اس نے ’’مخارق الانبیاء ‘‘ اور ’’حیل المتنبین‘‘جیسی کتابیں تحریر کیں۔آپ بھی جب مسلمانوں کے سنہری دور کا تذکرہ کرتے ہوئے الرازی کا حوالہ دیں تو اس کی کتابوں کی ورق گردانی ضرور کر لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں کا متحمل ہو سکتا ہے یا نہیں۔اندلس کے عظیم فلسفی ابن رشد نے تنگ نظری کے کنویں میں عقل و خرد کے پتھر پھینکنا شروع کئے تو بھونچال آ گیا اور اس کے ہم عقیدہ مولوی ہی نہیں ،عیسائیت اور یہودیت کے پرچارک مُلا بھی اس پر پل پڑے۔خلیفہ ء وقت یعقوب المنصور نے ناخلف اور گستاخ قرار دیتے ہوئے ابن رشد کی کتابیں جلانے کا حکم دیدیا اورقرطبہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
مرزا مقبول بیگ بدخشانی کی کتاب جو ہمارے ہاں اردو ترجمہ کے بعد ’’ادب نامہ ایران ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔اس میں البیرونی سے سلطان محمود غزنوی کے ’’حسن سلوک ‘‘ کا تذکرہ موجود ہے۔خوارزم کی فتح کے بعد غزنوی نے اسے ایک دن اپنے باغیچے میں طلب کیا اور کہا،تم بڑے پھنے خان بنے پھرتے ہو ،ذرا بتائو ،آج ہم کس دروازے سے باہر جائیں گے ؟اگر جواب درست نہ ہوا تو تمہاری گردن مار دی جائے گی۔البیرونی نے کاغذ پر جواب لکھ کر تہہ کیا اور ایک درباری کے حوالے کر دیا۔سلطان ہنسنے لگا اور کہا ،آج میں نے تمہاری جھوٹی علمیت کا بھانڈا پھوڑ ڈالا ۔تم نے جو بھی جواب لکھا ہو گا غلط ہو گا کیونکہ ہم آج کسی دروازے کے بجائے دیوار توڑ کر باہر جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔البیرونی نے کہا ،حضور ! پہلے جواب تو ملاحظہ فرما لیں۔پرچی کھولی گئی تو اس پر یہی لکھا تھا کہ آج بادشاہ سلامت دیوار توڑنے کا حکم دیں گے اور نئے راستے سے باہر جائیں گے۔یہ جان کر محمود غزنوی آگ بگولہ ہو گئے اور حکم دیا کہ اس بد بخت کو محل کی چھت سے نیچے پھینک دیا جائے۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ البیرونی کس طرح موت کے منہ سے بچ نکلا لیکن یہ ہے اس تابناک ماضی کی حقیقت جس کے پرچار اور خمار نے ہمارا حال بد حال اور مستقبل مخدوش کر رکھا ہے۔
تازہ ترین