• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہماری محنت رنگ لائی ،پراپرٹی کی آڑ میں کالا دھن سفید کرنا اب مشکل ہوگا

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں میزبان نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ کراچی میں کئی ماہ کی دعاؤں کے بعد ابرِکرم برسا، مگر چند گھنٹوں کی اس بارش نے کراچی کی انتظامی حقیقت کھول کر رکھ دی، تمام شہری ادارے بارش کے پانی میں ڈوب گئے، شہری اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے کراچی کے شہریوں کی خوشی چند لمحوں کی مہمان ثابت ہوئی، تھوڑی دیر کی بارش سے ہی سڑکوں پر پانی جمع ہوگیا اور شہری کئی گھنٹوں تک سڑکوں پر محصور رہے، چند گھنٹوں کی بارش نے چند اداروں کی نہیں پوری انتظامیہ کے دعوؤں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے، بارش کے بعد ایسی افراتفری پاکستان کے کسی شہر میں نہیں دکھائی دیتی جیسی کراچی میں دکھائی دی، کوئی ادارہ بھی شہریوں کی توقعات پر پورا نہیں اترسکا ہے، نجکاری کو آٹھ سال گزر گئے لیکن کراچی الیکٹرک کا نظام آج بھی بارش کا چھینٹا برداشت نہیں کرسکتا ہے،پہلی بارش پر ہی کے الیکٹرک کے سیکڑوں فیڈر ٹرپ ہوگئے جس کے نتیجے میں کراچی کے اکثر علاقے تاریکی میں ڈوب گئے،یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے کہ کراچی میں بجلی کا بریک ڈاؤن ہوا ہو، اس سے پہلے بھی روشنیوں کا شہر کئی مرتبہ اندھیروں میں ڈوب چکا ہے جو بتاتا ہے کہ کے الیکٹرک کا سسٹم بارش برداشت کرنے کا اہل نہیں ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ کے الیکٹرک نے جولائی 2013ء سے مارچ 2014ء کے درمیان 5.53ارب روپے ، جولائی 2014ء سے مارچ 2015ء تک 10.77ارب روپے جبکہ جولائی 2015ء سے مارچ 2016ء تک 15.27ارب روپے منافع کمایا، کے الیکٹرک ایک پرائیویٹ کمپنی ہے جسے منافع کمانے کا پورا حق ہے مگر شہریوں کو مشکلات سے بچانے کیلئے انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری بھی کے الیکٹرک کا فرض ہے۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ شہر کے مسائل کا حل بلدیاتی نظام سے جوڑا جاتا ہے لیکن کراچی کے میئر سے بہت سا اختیار لے لیا گیا ہے، کراچی کے منتخب میئر کے پاس صرف محکمہ شہری دفاع، فائر بریگیڈ، گلیوں کی صفائی، قومی دنوں میں شہر سجانا، سلاٹر ہاؤس، پبلک ٹوائلٹ کی نگرانی، تجاوزات کا خاتمہ اور کتا مار مہم کے اختیارات ہوں گے، باقی سالڈ ویسٹ مینجمنٹ، ماس ٹرانسپورٹ، ماسٹر پلان، تعلیم، لوکل ٹیکس، صحت جیسے اہم ترین شعبے سندھ حکومت کے ماتحت ہوں گے جن پر میئر کا اختیار نہیں ہوگا۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ ہمارے پروگرام ”آج شا ہز یب خانزادہ کے ساتھ‘ کی محنت رنگ لے آئی، پراپرٹی کی آڑ میں کالا دھن سفید کرنا اب مشکل ہوگا، انکم ٹیکس آرڈیننس میں اہم ترمیم کے بعد میں جائیداد کی قیمت کا تعین اب مارکیٹ ریٹ پر ہوگا، ہم بار بار اپنے پروگرام میں یہ مسئلہ اٹھاتے رہے ہیں کہ اگر حکومت نے یہ کام نہیں کیا تو گھر خریدنے کی عام آدمی کی خواہش پوری نہیں ہوسکے گی کیونکہ سٹے بازوں اور کالا دھن صاف کرنے والوں نے پراپرٹی مارکیٹ کو کہیں سے کہیں پہنچادیا ہے، اس کالے کاروبار کو سامنے لانے اور اس کی روک تھام کیلئے ہمارے پروگرام کی کاوشیں رنگ لے آئی ہیں، اب ملک بھر میں جائیداد کی قیمتوں کا تعین مارکیٹ ریٹ پر ہوگا، ٹیکس چوری کرنا اور اپنا کالا دھن پراپرٹی مارکیٹ میں لاکر سفید کرنے کا عمل ناممکن ہونے جارہا ہے، پاکستان میں بلیک اکانومی پر کریک ڈاؤن ہونے جارہا ہے، انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء سیکشن 68میں فنانس ایکٹ 2016ء کے ذریعے ترمیم کردی گئی ہے جو یکم جولائی سے نافذ ہوگا،اب پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو جائیداد کے نرخ کے تعین کیلئے اسٹیٹ بینک کے مقرر طریقہ کار سے گزرنا ہوگا، اسٹیٹ بینک کا عملہ جائیداد کے مارکیٹ ریٹ مقرر کرے گا، ایف بی آر کا ان لینڈ ریونیو محکمہ ریفر کرے گا، اس ترمیم سے ٹیکس نیٹ سے باہر کالے پیسے پر بھی ٹیکس دینا ہوگا، چوری شدہ ٹیکس بھی قابل ادائیگی ٹیکس ہوگا اور ٹیکس چور کو 100فیصد تک جرمانہ اور دو سال قید کی سزا بھی ہوگی۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ افغان مہاجرین کی واپسی کے معاملہ پر وفاقی اور خیبرپختونخوا کے درمیان تنازع جنم لے رہا ہے، خیبرپختونخوا حکومت نے وفاق کو خط لکھ دیا ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجیں یا پنجاب لے جائیں، صوبائی حکومت نے مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن بھی شروع کردیا ہے، بلوچستان کے وزیر داخلہ سرفراز بگٹی پہلے ہی اس حوالے سے سخت بیان دے چکے ہیں کہ اگر افغان مہاجرین عزت سے نہ گئے تو انہیں دھکے دے کر باہر نکال دیں گے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ داعش کے اعلان خلافت کو دو سال ہوگئے ہیں، ترکی میں اس سال کا آٹھواں دھماکا ہوا جس میں دنیا کے گیارہویں مصروف ترین اتاترک ایئرپورٹ کو نشانہ بنایا گیا، ترکی کو جہاں داعش سے خطرہ ہے وہاں اس کے اندرونی مسائل بھی اسے پریشان کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے نامزد میئر وسیم اختر نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت نے بلدیاتی اداروں کے اختیارات پر قبضہ کیا ہوا ہے، بلدیاتی اداروں کے اصل اختیارات ان لوگوں کے پاس ہیں جنہیں کراچی کے لوگوں نے منتخب نہیں کیا ہے، ہم ایک مہینے سے حکومت کی توجہ ممکنہ تیز بارش کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کررہے ہیں، حکومت نے بارش ہونے کے بعد نالوں کی صفائی شروع کی ہے، اگر بارہ گھنٹے بارش ہوگئی تو کراچی ڈوب جائے گا،ابھی بھی دن رات کام کریں گے تو کراچی بچے گا۔ انہوں نے کہا کہ گجرنالے کی توسیع کا منصوبہ پچھلے تین سال سے عملدرآمد کا منتظر ہے، گجر نالے کیلئے ایک ارب 250کروڑ روپے جاری ہوئے لیکن کوئی کام نہیں ہوا، پچھلے چھ سال میں سندھ حکومت نے کراچی شہر کیلئے کوئی بڑا منصوبہ شروع نہیں کیا ہے، کورنگی کراسنگ برج پر صرف دس فیصد کام ہوا ہے جسے 16جون کو مکمل ہوجانا چاہئے تھا، پچھلے چھ سال میں کراچی کے دس ایڈمنسٹریٹرز تبدیل کیے جاچکے ہیں۔ وسیم اختر نے کہا کہ پیپلز پارٹی نے اسمبلی میں اکثریت کی بناء پر مرضی کی ترامیم لاکر من پسند شعبے بلدیاتی اداروں سے لے لیے ہیں، مقامی حکومتوں کو آئین کے مطابق اختیارات ملنے چاہئیں، موجودہ اختیارات کے ساتھ میئر شہر کیلئے کچھ نہیں کرسکتا ہے، سندھ حکومت کو صرف کرپشن کرنا آتی ہے، ایم کیو ایم نے ہمیشہ مقامی حکومتوں کیلئے آواز اٹھائی ہے، اگر سندھ حکومت نے اختیارات نہیں دیئے تو عدالت میں جائیں گے،پھر بھی نہیں ملے تو سڑکوں پر آکر اختیارات لیں گے۔ ڈائریکٹر کمیونیکیشن کے الیکٹرک سعدیہ دادا نے کہا کہ منگل کو بارش کے دوران کراچی کے 1400فیڈرز میں سے صرف 300فیڈرز ٹرپ ہوئے تھے ، زیادہ تر فیڈرز کو رات گئے بحال کردیا گیا تھا، علاقوں کی سطح پر بجلی کے مسائل حل کرنے کیلئے بھی کے الیکٹرک کی ٹیمیں سرگرم ہیں، کراچی کے بہت سے اپنے چیلنجز ہیں، کراچی بغیر منصوبہ بندی کے آباد شہر ہے، یہاں بہت سے علاقوں تک رسائی بہت مشکل ہے۔  وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے ریونیو ہارون اختر نے کہا کہ ہم نے فیئرمارکیٹ ریٹ کو ڈی سی ریٹ سے الگ کردیا ہے اور اس کی ایویلیویشن کیلئے ایف بی آر سے اختیار لے کر تھرڈ پارٹی کو دیدیا ہے، یہ تھرڈ پارٹی اسٹیٹ بینک کا نامزد کردہ پینل ہوگا، کیپٹل گین ٹیکس کا اطلاق زرعی پراپرٹی پر نہیں ہوگا،اب پراپرٹی کے کاروبار میں موجود اربوں کھربوں روپے کا کالا دھن ڈاکومنٹ ہوجائے گا، اس کے بعد وہ پیسہ جہاں بھی جائے گا اور جو پیسہ کمائے گا اس پر ٹیکس لگے گا،بے نامی اکاؤنٹس کیلئے بھی جلد قانون آجائے گا۔  وزیرمملکت سیفران عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ افغان مہا جر ین کو واپس بھیجنے میں کوئی دو رائے نہیں ہے، افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کے حوالے سے مرکز اور صوبوں کی پالیسی ایک ہے، افغان مہاجرین پاکستانی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہیں، ان کی وجہ سے بے شمار مسائل پیدا ہوچکے ہیں، افغان مہاجرین کو راتوں رات واپس نہیں بھیجا جاسکتا ہے، افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کیلئے طاقت بھی استعمال کرنا پڑسکتی ہے، افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کیلئے عالمی وعدے سے بھی نکلنا ہوگا، جمعرات کو دفتر خارجہ میں اجلاس میں معا ملا ت طے کیے جائیں گے،افغان حکو مت مہاجرین کی واپسی کیلئے کوئی اقدام نہیں کررہی ہے، عید کے بعد افغان وزیر مہاجرین کے مسئلے پر بات کر نے آرہے ہیں۔ 
تازہ ترین