• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عدل کریں تے تھر تھر کمبن
اُچیاں شاناں والے
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس منصور علی شاہ نے حلف اٹھانے کے دو گھنٹے بعد ہی پنجاب کے 30جج او ایس ڈی بنا دیئے، اور ایک تقریب کے دوران فرمایا سب ٹھیک ہو جائیں ورنہ کان سے پکڑ کر باہر نکال دیا جائے گا۔ عدالتوں میں کیمرے لگیں گے ہم سب کچھ کرتے ہیں لیکن کبھی بجلی کی ننگی تار کو ہاتھ نہیں لگاتے، عدلیہ کے کانوں کو نئے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے پکڑ لیا ہے ، پہلی بار کوئی ایسا چیف جسٹس سر یر آ رائے منصب عدلیہ ہوا ہے، کہ آتے ہی 20کے تو کان پکڑ کر او ایس ڈی بنا دیا، اور باقیوں کو کان پکڑ کر نکال باہر کرنے کی وعید دے دی، بشرطیکہ وہ کوئی ہینکی پھینکی کرتے ہوئے کیمروں کی زد میں آ جائیں، عدل ایک ایسا لفظ ہے کہ اگر اس کے معانی نافذ ہو جائیں تو بقول میاں محمد بخش
عدل کریں تے تھر تھر کمبن اچیاں شاناں والے
کرم کریں تے بخشے جان میں جئے منہ کالے
لیکن میاں صاحب کا یہ دوسرا مصرع تو چیف جسٹس کی کسی تقریر میں موجود ہی نہیں، بس انہوں نے بے اعتدالیاں کرنے والے ججوں کو بیک بین ردو گوش نکال باہر کرنے کی بات کی ہے، اگر لوئر عدلیہ درست ہو جائے تو پاکستان میں بہت کچھ ٹھیک ہو سکتا ہے۔
٭٭٭٭
پر طبیعت ادھر نہیں آتی!
بلاول زرداری بھٹو نے کہا ہے:جواب دو سندھ حکومت جواب دو بلاول نے صوبائی وزیر داخلہ کو آگے کر دیا۔ بلاول جہاں سیاست نہ کرنی ہو ناں ناں کر کے پھر وہاں سیاست کر جاتے ہیں، بہر صورت وہ مرغ نو آموز اور کسی کے مرغ دست آموز اب اتالیق ان کو اتنا سکھا دے کہ سندھ حکومت کو سیدھا کرنے کی کریں،امجد صابری کی تعزیت کو سیاست کے لئے استعمال کرنا گناہ کبیرہ ہے، اس لئے اس پر سیاست ہرگز نہ کی جائے مگر کراچی میں ہر روز کوئی غیر مشہور و مقبول عام شہری گولی کا نشانہ بنتا ہے، کتنے بڑے ان چھوٹوں کی تعزیت کرنے جاتے ہیں، پھر وہی غالبؔ والی بات ہوئی کہ
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
ہم بلاول بھٹو زرداری پر ہرگز تنقید غیر مفید کے قائل نہیں، کہ ہمیں وہ اپنے نانا جان کے باوصف بہت عزیز ہیں، بلکہ وہ تو ان کی جوانی ہیں، اعلیٰ تعلیم یافتہ جذبہ و شوق سے معمور اور سیاست ان کی گھٹی میں، بس یہ ہے نہیں ہے سیاست دوراں ابھی تک ان کی مٹھی میں وہ بڑے باپ کے اکلوتے بیٹے ہیں، اپنے والد گرامی کا صرف احترام کریں، سیاست اپنے نانا جان شہید کی کریں۔
٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ پنجاب کے کرنے کا کام
وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے: پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن، سیرت اسٹڈیز کو علم و دانش کا گہوارہ ہونا چاہئے۔ قرآن عظیم آج روئے زمین پر علم کی سب سے بڑی دستاویز ہے جس کا نازل کرنے والا خود اللہ ذوالجلال والاکرام ہے، اور جس کے شارح اس کے حبیب محمد رسول اللہ ﷺ ہیں، دونوں ہمارے لئے حجت ہیں، یعنی قرآن و سنت علم و دانش کا گہوارہ بنانے کے لئے اس ادارے کو نقد عالموں اور دانشوروں سے آراستہ کرنا ہو گا۔ دانشور یا عالم کبھی اپنے منہ سے خود کو عالم و دانشور نہیں کہتا، یہ پہچان رکھنے والی نگاہوں کا کام ہے کہ قرآن و سنت کے ماہرین کو تلاش کریں اور ادارے کو کماحقہ فعال بنائیں، اگر غور کیا جائے تو آج تک سیرت پر اردو زبان میں کوئی دائرہ المعارف سطح کا علمی و تحقیقی کام کر دیا، مثلاً مجھ جیسے نا اہل کے پاس سیرت طیبہ کے ایسے گوشے، ایسے اقوال اور ایسے افکار موجود ہیں کہ جو سنے وہ کہے کہ یہ اس نے پہلی بار سنے، آخر یہ پہلے کیوں ان تک نہیں پہنچائے گئے، زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس سے متعلق شارع علیہ السلام کی رائے فکر اور حکمت موجود نہ ہو، مگر شیبر چشم کو دانش کی کرسی پر بٹھا کر عقل کل علیہ السلام کی بابت لکھنے کو کہا جائے تو کیا اسے سیرت مطہرہ کے سارے زاویئے نظر آ پائیں گے؟ وزیر اعلیٰ پنجاب اگر کسی ذہن رسا کا ہاتھ تھام کر قرآن و سیرت کے اس عظیم ادارے کے لئے عظیم افراد کا انتخاب کرنے نکلیں تو اس ملک اس شہر میں بیشتر گوہر نایاب پا لیں گے، نایاب لوگوں کے وسیلے نایاب لوگوں کی تلاش چھوڑ دیں۔

٭٭٭٭
کیا پارلیمنٹ کو اسلام کی خبر نہیں؟
سینیٹ کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل خواتین پر تشدد میں اضافہ کی ذمہ دار، تحلیل کیا جائے، پارلیمنٹ اور ایوان بالا کے ہوتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کا وجود ثبوت ہے کہ مذکورہ ہر دو ایوانوں کے فاضل ارکان مسلمان ہیں اور نہ اسلا م کا علم جانتے ہیں، اس لحاظ سے یہ ایک متوازی ادارہ اسلامی نظریاتی کونسل محض قومی خزانے کا ضیاع ہے، ہم اس کے آغاز سے حیرت میں تھے کہ جس میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت پارلیمنٹ موجود ہو اور اس میں علماء دین بھی اپنی نشستوں پر جلوہ افروز ہوں وہاں ایک الگ سی ڈیڑھ انچ کی مسجد کھڑی کرنا مسجد پر مسجد تعمیر کرنے کے مترادف ہے، جب پارلیمنٹ ہی نے اسلامی نظریاتی کونسل کی آراء کو عملی شکل اور منظوری دینا ہے، تو خود اسلامی نظریاتی کونسل کو بھاری تنخواہوں پر رکھنے کی کیا ضرورت ہے، یا تو پارلیمنٹ تسلیم کرے کہ وہ دینی معلومات کے لحاظ سے خالی الذہن ہے اور اس کی نشستوں پر بیٹھنے والے علماء کرام بھی علم دین سے بے بہرہ ہیں، اگر ایسا نہیں تو سینیٹ کمیٹی کی تجویز کو عملی جامہ پہنا دیا جائے تاکہ کہا جا سکے کہ پارلیمنٹ ایک بالادست اور مکمل ادارہ ہے جو قوم کو درپیش دینی دنیوی تمام مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ ملک لاالٰہ الا اللہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے، اس کا ہر فرد امام بھی ہونا چاہئے اور مقتدی بھی، اس لئے ایک غیر ضروری زائد از ضرورت ادارہ قائم رکھنے کی اور ملکی دولت ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
٭٭٭٭
تازہ ترین