• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عید کی خوشیاں مبارک تحریر: قاری تصورالحق مدنی ، برمنگھم

ہم مسلمانوں کے ذہن میں پہلی بات تو یہ رہنی چاہئے کہ عیدین کو بطور خوشی کے منانے کی اجازت خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مرحمت فرمائی ہے تاہم مسلمانان برطانیہ و یورپ و امریکہ کی خصوصاً اور دیگر ممالک میں رہنے والوں کی خوشیاں اس وقت ماند پڑ جاتی ہیں جب سب لوگ ایک ساتھ عیدیں نہیں مناپاتے اور اگر ایسا نہیں بھی ہو تب بھی عیدین میں وہ حقیقی خوشیاں دکھائی نہیں دیتیں کیونکہ تمام دنیا کے مسلمان دبائو، پریشانی اور مختلف مصیبتوں کا شکار ہیں تاہم ان سلسلوں کے باوجود ایک پہلو پھر بھی نمایاں طور پر ایسا ہے جسکی بنا پر ان دنوں میں خوشیوں اور مسرتوں کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔ امتحانات کے نتائج میں کامیابیاں پانے والے طلباء اور دیگر مختلف نمایاں کارکردگی دکھانے والے لوگ اگر خوشیوں کے منانے کا حق رکھتے ہیں تو ملت اسلامیہ کے افراد کو بھی حکم خداوندی کو کسی بھی درجہ میں ادا کرنے پر خوشیوں کا ملنا چاہئے۔ مسلمان یوں تو تمام اسلامی مہینوں کا احترام کرتے ہیں مگر رمضان المبارک کے احترام اور استقبال میں غیرمعمولی سرگرمیاں پیش کرتے ہیں۔ مسلمان یقیناً اس سے بے خبر نہیں کہ وہ تمام اسلامی احکام پر عمل کے پابند ہیں تاہم بیت اللہ کا حج، سال کے اختتام پر مال میں زکوٰۃ، دن میں پانچ اوقات میں نماز اور رمضان المبارک کے روزے ان کے ملی اور دینی شعار ہیں، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد زکوٰۃ کی ادائیگی میں بڑا اہتمام رکھتی ہے اور پھر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نمازوں کی ادائیگی میں کافی فعال اور متحرک نظرآتی ہے لیکن حج اور رمضان المبارک کے اعمال کے حوالہ سے بالکل جدا ذوق اور شوق دیکھنے کو ملتا ہے۔ قرانی تعلیمات کے مطابق جب بھی مسلمان کوئی ایک نیکی کرتا ہے تو اسے کم از کم دس نیکیوں کا اجر اور بدلہ خداوند کریم کی طرف سے ملتا ہے اور برائی پر صرف ایک برائی نامہ اعمال میں درج ہوتی ہے لیکن حج اور رمضان میں ملنے والا بدلہ اور انعام الگ ہی ہے۔ حج میں فسق، جھگڑے اور بے ہودگی سے محفوظ رہنے والا حاجی گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے اس کی ماں نے ابھی جنم دیا ہو اور سب دنیا کو معلوم ہے کہ نیا پیدا ہونے والا بچہ بچی گناہوں سے پاک ہوتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کےمطابق سبھی کو معلوم ہے کہ قیامت میں رمضان اور قرآن بندوں کیلئے سفارشی ہوں گے اور یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما رکھا ہے کہ جو مسلمان بھی ایمان اور ثواب کی نیت کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے گا، رات کو نماز تراویح پڑھے گا اور شب قدر میں قیام کرے گاوہ اپنے اللہ سے گناہوں کی مغفرت پائے گا بلکہ عید کے دن اللہ تعالیٰ فرشتوں سے پوچھتے ہیں کہ جو لوگ اپنی مزدوری پوری کرلیں تو انہیں کیا ملنا چاہئے۔ چنانچہ فرشتوں کی طرف سے تو سفارش ہوتی ہے کہ انہیں پورا پورا حق ملنا چاہئے تاہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمان عالی جاری ہوتا ہے کہ میرے بندوں اور بندیوں نے اپنا حق ادا کیا ہے لہذا وہ عیدگاہوں سے ایسے واپس ہوں کہ وہ اپنے گناہوں میں مغفرت پاتے ہوئے ہی فقط نہیں بلکہ رب تعالیٰ نے ان کے گناہوں کو نیکیوں میں بھی تبدیل کردیا ہے۔ میں نے پہلے بھی ذکر کیا ہے کہ مسلمان جو بھی نیک عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا پورا پورا بدلہ دیتا ہے۔ مگر رمضان کے روزوں کا بدلہ بہت ہی منفرد انداز میں عطا فرماتا ہے۔ روزہ کا بدلہ ایک تو ہر روز افطار کے وقت ملتا ہے کہ بندوں کی منہ سے پیدا ہونے والی بدبو کو خوشبو میں بدل دیا جاتا ہے اور دوسرا افطار کے وقت کی دعا کو شرف قبولیت عطا ہوتا ہے۔ مگراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ روزے دار کا بدلہ میں خود ہوں کہ وہ مجھے سے لے اور راضی ہوجائے آخر روزہ کا اتنا بڑا بدلہ اور اتنا عظیم بدلہ کیوں ہے۔ اس مذکور بات کیلئے کسی بڑے فلسفہ کی ضرورت نہیں بلکہ سیدھی سادھی بات یہ ہے کہ تمام دیگر عبادات میں کوئی اور مقصد کارفرما ہوسکتا ہے مگر روزہ میں صرف رضائے الہیٰ مضمر ہے۔ روزہ کی حالت میں تمام مطلوبہ اور متعلقہ احکام پر عمل میں جو جذبہ خوف خدا دکھایا جاتا ہے وہی درحقیقت اتنے بڑے انعام کا سبب ہے۔ مسلمانوں کی زندگیوں میں اگر رمضان کے علاوہ بھی یہ جذبہ پیدا ہوجائے تو کوئی ان کا ثانی نہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جو ہمیں اب بھی تمام تر حالات میں عید کی خوشیوں کی اجازت دیتا ہے۔ تمام مسلمانوں کو عید مبارک۔
تازہ ترین