• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احوال کچھ ریفرنڈم کا تحریر:صائمہ ہارون…بر منگھم

برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر برمنگھم جہاں ہر مذہب، کلچر اور رنگ نسل کے لوگ آباد ہیں۔ ملٹی کلچرل سوسائٹی کی ایک اعلیٰ مثال پچھلے کچھ مہینوں سے برمنگھم میں یورپی یونین میں رہنے یا نہ رہنے کے حوالے سے سرگرمیاں اپنے بامِ عروج پر تھیں۔ ہر روز مختلف طرح کے ایونٹس منعقد کئے جارہے تھے۔ جس میں سب سے زیادہ زور بس کمپین پر رہا۔ لبیر پارٹی کے کئی لیڈر بس کمپین کے سلسلے میں برمنگھم آئے اور عوام کو اپنا حامی بنانے کے لئے بھرپور کوشش جاری رکھی۔دوسری جانب یورپی یونین سے علیحدگی کے حامی بھی جگہ جگہ سٹالز لگانے کے علاوہ دوڑ ناکنگ کے ذریعے لوگوں کو اپنا ہم نوا بنانے میں مصروفِ عمل رہے ۔ کئی مہینے پہ سرگرمیاں جارہی ہیں۔ خاص طور پر جون کے مہینے میں گہما گہمی بڑھ چکی تھی۔سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوچکا تھا۔ اس مہم کے سلسلے میں نہ صرف لیبر پارٹی بلکہ کنزرویٹو پارٹی کے رہنمائوں نے خاص طور پر برمنگھم کادورہ کیا۔ جن میں وزیراعظم ڈیوڈ کمیرون کے علاوہ لیبر لیڈر جرمی کوربن سابق لیبر سربراہ ایڈ ملی بینڈ، ڈیوڈ ملی بینڈ، گورڈن برائون، کے علاوہ کئی ایم پیز برمنگھم آئے اور عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کی کوشش کی۔ ریفرنڈم سے چند روز قبل آنے والی سروے رپورٹس کے مطابق مقابلہ برابری کا تھا۔ حتیٰ کہ 23جون سے ایک روز قبل آنے والی رپورٹ کے مطابق 45 فیصد یورپی یونین میں رہنے کے حق میں اور 44فیصد اس کے خلاف ہیں اور 11فیصد ایسے تھے جو کسی حتمی فیصلے تک نہ پہنچے تھے۔ توقع یہی کی جارہی تھی کہ مقابلہ انتہائی سخت ہوگا اور یہ اونٹ کسی بھی کروٹ بیٹھ سکتا ہے۔22جون تک عوام کو اپنے حق میں قائل کرنے کی کوشش جاری رہی۔ آخر وہ دن آن پہنچا جس کے لئے اتنے عرصے سے تگ و دو کی جارہی تھی۔ صبح سات بجے پولنگ سٹیشن پر خاصا رش تھا خاص طور پر مسلم اکثریتی علاقوں میں باوجود رمضان خوب گہما گہمی رہی۔ جوق در جوق لوگ ووٹ ڈالنے آتے رہے۔ ووٹوں کی گنتی کے لئے برطانیہ بھر میں 382 کاونٹنگ سنٹرز قائم کئے گئے تھے اور ملک کو 12 ریجن میںتقسیم کیا گیا تھا۔ جس میں برمنگھم بھی ایک تھی۔ برمنگھم میں 460 پولنگ سٹیشن قائم کئے گئے تھے۔ ووٹرز کاٹرن آئوٹ بھی لوکل الیکشن کی نسبت بہت زیادہ رہا۔ ایک بہت دلچسپ بات یہ تھی روایتی طور پر پولنگ کارڈ پر پنسل سے نشان لگایا جاتا ہے لیکن دھاندلی کے خدشے کے پیش نظر لوگ گھروں سے پین ساتھ لے کر آئے تاکہ پولنگ کارڈ پرنشان لگا سکیں، پولنگ کا وقت ختم ہوا اور وہ لمحات آن پہنچے جس کا سب کو انتظار تھا۔ ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع ہوا۔ دلوں کی ڈھرکنیں بڑھنے لگیں۔ تجسس اور چہروں پر بے چینی بہت واضح تھی۔ ووٹوں کی گنتی کے بعد زرلٹ آنا شروع ہوئے تو کایا ہی پلٹ چکی تھی۔ ایک کے بعد ایک شہر کارزلٹ آنا شروع ہوا اور جو مقابلہ برابر کا سمجھا جارہا تھا۔ وہ یک طرفہ ہوگیا۔ ویسٹ مڈلینڈ کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں کے نتایج کے مطابق عوام نے اپنا فیصلہ یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں دے دیا مہینوں سے سجائی گئی سیاست کی بساط کا نتیجہ یورپ سے نکلنے کی صورت میں سامنے آگیا۔
یورپی یونین میں رہنے کے حامیوں کے مطابق نتیجہ ان کی توقعات کے برعکس تھا کیونکہ پورے مڈلینڈ اور خصوصاً برمنگھم میں اتنی بڑی شکست ناقابل یقین بات ہے۔جب کہ دوسری جانب یورپی یونین سے علیحدگی کے حامیوں کی خوشی قابل دید تھی۔ انہوں نے کہا کہ جس مقصد کے حصول کے لئے وہ مہم چلائے ہوئے تھے وہ پورا ہوگیا ہے اور برطانیہ کی ترقی اور خوشحالی یورپی یونین سے علیحدگی میں ہی ہے۔نتائج آنے کے بعد وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا اور اور اکتوبر میں پارٹی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے گی۔ نہ صرف برمنگھم بلکہ پورے برطانیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے۔ تاہم سکاوٹ لینڈ میں نتائج برعکس ہیں سکاٹش عوام نے یورپی یونین کے ساتھ رہناترجیح دیا ہے۔ جس کے بعد سکاٹش نیشنل پارٹی کی سربراہ نکولا سٹرجن کا کہنا ہے کہ وہ سکاٹش عوام کے فیصلے کا احترام کرتی ہیں اور اب کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا جس کے مطابق عوام کے فیصلے پر عمل درآمد ہوسکے ۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ سکاٹ لینڈ میں دوسرا ریفرنڈم کروایا جاسکتا ہے۔ تاکہ عوام اس بات کا فیصلہ کریں کہ آیا وہ برطانیہ کا حصہ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ریفرنڈم کے نتائج کے بعد پوری دنیا کی سٹاک مارکیٹ بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پونڈ کی قیمت کم ہوگی ہے حتیٰ کہ سٹاک مارکیٹ میں مندی نظر آرہی ہے۔ اب آنے والے دنوں میں دیکھنا یہ ہوگا کہ پوری یونین سے علیحدگی کے کتنے اچھے یا بُرے نتائج مرتب ہوں گے ملک کی معاشی حالت بہتر ہوگی یا بدتر؟ برطانیہ کا یورپ کے ساتھ رہنا بہتر تھا یا الگ ہونا یہ فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا۔
تازہ ترین