• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وہ سیالکوٹ کا مقام تھا جہاں پاکستان نے بھارت کی جانب سے کئےجانے والے شدید ترین اور اچانک حملے کا جواب دینا شروع کیا ، بھارت سیالکوٹ کی سرحد پر پانچ سو سے زائد ٹینکوں کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا ،منصوبہ یہ تھا کہ لاہور کے ساتھ ساتھ سیالکوٹ پر بھاری حملہ کرکے پاکستانی فوج پر شدید دبائو ڈالا جائے اور نہ صرف لاہور بلکہ سیالکوٹ پر بھی قبضہ کیا جاسکے لیکن شاید بھارت کو اندازہ نہیں تھاکہ پاکستان کی مٹھی بھر فوج شہادت کا جذبہ لئےاپنے وطن کی حفاظت کے لیے سینے پر دشمن کے حملے کو روکنے کے لیے پوری طرح تیار تھی ، سیالکوٹ کے جموں بارڈر پر پاکستان کی پیدل فوج وطن کے دفاع پر مامور تھی لیکن بھارت کی جانب سے جدید ترین ٹینکوں اور خطرناک ہتھیاروں سے ہونے والے اچانک حملے سے نمٹنے کے لیے پاکستان پوری طرح تیار نہ تھا ، یہی وجہ تھی کہ فرنٹ لائن پر لڑنے والے پاک فوج کے پیدل دستے شدید دبائو میں تھے اور وہ پیچھے سے بار بار کور فائر مانگ رہے تھے لیکن پیچھے موجود پاکستانی آرٹلری یونٹ چاہنے کے باوجود بھی توپوں کا منہ کھولنے سے کترا رہی تھی وجہ یہ تھی کہ پاکستانی توپوں کی رینج اتنی زیادہ نہیں تھی کہ وہ براہ راست بھارتی فوج کو نشانہ بناسکتی اور خدشہ تھا کہ کہیں اپنی ہی فوج توپخانے کا نشانہ نہ بن جائے لیکن جب بھارتی دبائو بڑھا اور بھارت تیزی سے پاکستانی سرحدوں کے قریب پہنچا تو اللہ کا نام لیکر پاکستانی جوانوں نے اپنی توپوں کا رخ بھارت کی جانب کرکے اللہ کا نام لیکر شیلنگ شروع کی اور پھر معجزے ہونا شروع ہوئے ،وائر لیس پر اگلے مورچے پر موجود پاک فوج کے جوانوں کے زبردست اور پر جوش نعرے سنائی دیئے جو بتارہے تھے کہ پاک فوج کی شیلنگ ٹھیک ٹھیک بھارتی ٹینکوں اور فوجیوں کو نشانہ بنارہی ہے اور بھارت کو سخت جانی نقصان پہنچ رہا ہے اس بات کا بالکل امکان نہیں تھا کہ پاکستانی توپخانہ بھارتی ٹینکوں تک پہنچ سکے گا، لیکن اللہ تعالیٰ نے پاکستانی عوام اور پاکستانی فوج پر خصوصی مہربانی کررکھی تھی جس کے باعث پاکستانی توپ کا گولہ اپنی حد سے بھی کئی کلومیٹر آگے تک دشمن کو نشانہ بنارہا تھا ، پینسٹھ کی جنگ میں سینکڑوں ایسے معجزات ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان پر پینسٹھ کی جنگ میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر مہربانی فرمائی تھی ، اس وقت کے اخبارات گواہ ہیں اور معروف دانشوروں کی کتابیں بھری پڑی ہیں کہ کیسے کیسے معجزے رونما ہوئے ، معروف دانشور ممتاز مفتی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ پینسٹھ کی جنگ کے دوران خانہ کعبہ اور مسجد نبویﷺ میں اللہ کے نیک بندوں کو نبی اکرمﷺ کی زیارت نصیب ہوئی جس میں آپ ﷺ شہداء بدر کے ساتھ جنگی لباس میں پاکستان کی جانب جارہے ہیں کہ پاکستان پر دشمن کا حملہ ہوا ہے اس کا دفاع کرنا ہے ،سبحان اللہ ، اسی طرح پاکستان ائرفورس نے دشمن کا حملہ آور طیارہ مار گرایا جبکہ اس کے پائلٹ کو گرفتار کرلیا گیا اس سے پوچھ گچھ شروع ہوئی تو اس نے بتایا اسے دریائے راوی کے پل کو تباہ کرنے کا ٹاسک دیا گیا تھا پاک فوج کے تفتیش کاروں نے پوچھا کہ تم تو کافی دیر تک پاکستان کے اندر منڈلاتے رہے ہو تو کیوں تم نے راوی پل کو نشانہ نہیں بنایا تو بھارتی پائلٹ نے جواب دیا کہ مجھے راوی پر ایک پل دکھایا گیا تھا لیکن مجھے راوی پر چھ پل نظر آرہے تھے اور میں فیصلہ نہیں کرپارہا تھا کہ کون سے پل کو گرانا ہے اسی اثنا میں پاکستان ائیرفورس کے شاہینوں نے میرے جہاز کو نشانہ بناڈالا۔ اس جنگ میں پاک فوج نے شجاعت کی ایسی داستانیں رقم کیں جن کی نظیرملنا بھی مشکل ہے۔ اسی حوالے سے ایک واقعہ فوجی داستانوں میں محفوظ ہے کہ پینسٹھ کی جنگ کے دوران بھارتی فوج لاہور پر حملہ آور تھی اسی دورا ن وائر لیس پر بھارتی کمانڈر کا ایک جملہ سنا گیا جس میں وہ اپنی فوج سے کہہ رہا تھا کہ لاہور اب صرف چار کلومیٹر دور ہے دیکھو سامنے لاہور نظر آرہا ہے آگے بڑھو اور قبضہ کرلو ۔ ادھر پاکستانی فوجی آفیسر جو لاہور کے بارڈر پر بھارتی افواج پر حملہ آور تھے انھوں نے جب وائر لیس پر بھارتی کمانڈر کا یہ جھوٹ سنا تو فوری طور پر اپنے مورچے سے باہر نکلے اور قریب ہی موجود ایک کتبہ جس پر تحریر تھا کہ لاہور چودہ میل دور ہے انھوں نے یہ کتبہ نکالا اور اسے لیکر دو سو میٹر مزید بھارتی علاقے میں گئے اور اپنے خون سے اس پر نقطہ لگاکر لکھا کہ لاہور چودہ اعشاریہ دو میل دور ہے اور اسے بھارتی علاقے میں لگا کر واپس اپنے مورچے میں پہنچے ، غرض پوری فوج اور پوری قوم اپنے وطن کا ایک چپہ بھی بھارت کے حوالے نہیں کرنا چاہتی تھی ۔اسی جنگ کے دوران بہت سے پاکستانی فوجی شہید اور بڑی تعداد میں زخمی بھی ہوئے اور ہر زخمی کی یہ ہی خواہش تھی کہ وہ جلد از جلد ٹھیک ہوکر واپس محاذ پر جائے اور شہادت حاصل کرے ۔اسی حوالے سے ایک واقعہ جنگی ڈائر ی میں تحریر ہے کہ لاہور محاذ پر زخمی ہونے والے ایک آفیسر کو سی ایم ایچ اسپتال لے جایا جاتا ہے اور وہ دیکھتے ہیں کہ اسپتال میں عملے کی کمی کے باعث نرسیں شہید فوجیوں کی لاشیں وصول کررہی ہیں وہ آفیسر مرہم پٹی کے بعد محاذ پر پہنچتے ہیں اور وائر لیس پر پیغام دیتے ہیں کہ جوانوں اس وقت ہماری بہنیں اسپتالوں میں شہید جوانوں کی لاشیں وصول کر رہی ہیں کو ئی بھی پیٹھ پر گولی کھا کر نہ جائے سینے پر گولی کھاکر جائے تاکہ ہماری بہنیں بھی فخر کرسکیں کہ ہمارے بھائیوں نے وطن کی خاطر سینے پر گولی کھائی ہے۔کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف سماجی شخصیت اشفاق احمد نے پینسٹھ کی جنگ کے حوالے سے اپنی یادداشتوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایاکہ جنگ کے دنوں میں کراچی میں بھی رات کے وقت بھارتی فضائی حملوں کے سبب بلیک آئوٹ کیا جاتا تھا اور کئی دفعہ دشمن کےجہازوں نے حملہ کرنے کی کوشش بھی کی سائر ن بھی بجے لیکن ایک بھی حملہ کامیاب نہ ہوسکا ۔ اسکی وجوہات میں پاکستان کا ایک قوم ہونا ، اللہ کی مدد اور تائید حاصل ہونا اور حکمرانوں کا ملک سے مخلص ہونا بھی ہے ۔پینسٹھ کی جنگ میں پاکستان نے بھارت کے تمام خواب چکنا چور کردیئے اور جتنا نقصان بھارت کو اس جنگ میں پہنچا بھارت نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا ۔اس سترہ روزہ جنگ میں پاکستان کو واضح کامیابی حاصل ہوئی اور چھ ستمبر کا دن رہتی دنیا تک پاکستان کے لیے یوم دفاع کے طور پر یادگار رہے گا لیکن ہمیں پینسٹھ کے بعد ہونے والے شہداء کو نہیں بھولنا چاہیے جنھوں نے اکہتر کی جنگ میں جام شہادت نوش کیا جنھوں نے کارگل کی جنگ میں اپنی جان نچھاور کرکے پاکستان کی حفاظت کی ،ہمیں وزیرستان کی جنگ میں شہید ہونے والے اپنے بہادر جوانوں کو نہیں بھولنا چاہیے ،غرض دفاع وطن کے لیے سن اڑتالیس ہو یا پینسٹھ ،اکہتر ہو یا وزیر ستان آپریشن پاک فوج ہو یا رینجرز غرض ملک کی خاطر جان لٹانے والے شہداء ہی ہماری قوم کا اثاثہ ہیں اس یوم دفاع کے موقع پر ہمیں سب کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے ، اللہ پاکستان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ، آمین

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین