• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

رات کو عمران خان صاحب کی تقریر سننے کے بعد صبح بڑی خوش و خرم میرے جوتے کا تلا اکھڑ گیا تھا، سوچا تھا مائی کو دے دوں گی ، نیا خرید لوں گی، فوراً سر میں نقارہ بجا ’’سادگی‘‘۔ گھر سے نکل کر موچی کے پاس گئی۔ جوتا سینے کو دیا، موچی سے چونکہ کوئی بیس، پچیس سال سے واقفیت تھی، مجھے دیکھ کر ہنس کر بولا، باجی اب اس کے تلے میں جان نہیں ہے۔ میں نے، تم نے سنا نہیں ’سادگی‘‘ اختیار کرو۔ فوراً پلٹ کے بولا، باجی میری ساری عمر ان ہی تین کپڑوں اور کبھی سبزی اور کبھی اچار کھاتے گزری ہے۔ میرے خان صاحب میرے لئے کوئی جھونپڑی دیں گے۔ کسی ہوٹل میں بھی لگوا دیں گے کیونکہ وہاں سے پیسے زیادہ مل جاتے ہیں۔ میں نے ہنس کر کہا۔ ’’ اچھے دن آنے والے ہیں‘‘۔ بھوک لگی تھی، آگ میں دبے بھٹے والے پٹھان کے پاس گئی۔ وہ سو روپے کا بھٹا دیتا تھا۔ میں نے بھٹہ لیا، پوچھا۔’’ اس پہ لیموں اور نمک مرچ کیوں نہیں لگا ہے۔‘‘ بولا ’’قیمت بڑھ جاتی، سادگی میں آپ خالی بھٹہ کھا لیں۔ میری کتاب پھٹی ہوئی تھی، فٹ پاتھ پہ بیٹھے جلد ساز کے پاس گئی۔ اس کے پاس بھی میرا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی ’’میڈم‘‘ تبدیلی ہمارے لئے کیا لائے گی۔ ’’دیکھو صبر کرو، کسی نے پہلی دفعہ کہا ہے۔ میڈم! بھٹو صاحب نے تو ہمیں پانچ مرلے زمین دی تھی جو بیچ کر پھر جھونپڑا ڈال کر اور بیٹی کا بیاہ کر کے بیٹھے ہیں۔ بھئی دیکھو یہ تو بے ایمانی ہے۔ اب پھر پلاٹ یا گھر ملا تو پھر تم بیچ کر یہی کام کرتے رہو گے۔ نہیں میڈم! ایک بیٹا تھا وہ اپنی مرضی سے کہیں باہر چلا گیا ہے۔ بس ہم دو بڈھے ہیں، چھت چاہیے، صبر کرو۔ یہ کہہ کر میں مڑی تو بلڈنگ میں صفائی کرنے والا ملا، سلام کر کے بولا ’’باجی خان صاحب ہمارے لئے کیا کریں گے۔ ہماری کچی آبادیوں کی طرف کوئی بھی نہیں دیکھتا۔ البتہ الیکشن کے وقت ہمیں دس ہزار روپے دے کر ہمارے شناختی کارڈ لے جاتے ہیں۔ میں جھلا گئی، تم لوگ ووٹ بیچتے ہو، تمہارے ساتھ ایسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔ گھبرا کر پلٹی، گوشت والے کو پیسے دینے تھے۔ اس نے جتنے پیسے مانگے، سن کر سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ ہنس کر بولا، آپ کو تو گزشتہ برس سے معلو م ہے کہ قربانی کے بعد گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ آپ نے تو آنا ہی مہینے بھر بعد ہوتا ہے۔ اس لئے میں آپ سے عیدی کی طرح زیادہ لے رہا ہوں۔ دیکھیں نا ابھی تبدیلی آنی ہے۔

میں ہنستی ہوئی گاڑی میں بیٹھی اور سوچنے لگی کہ اس دفعہ کی کابینہ میں زیادہ تر خواتین و حضرات میرے پرانے دوست ہیں۔ اس دفعہ کسی پر زور ڈال کر، ایک پیٹرول پمپ اپنے نام کروا لوں گی۔ اب پنشن میں گزارا نہیں ہوتا۔ آواز آئی، پھر تمہارے خلاف ہارون رشید یا کلاسرا مضمون لکھے گا تو ساری عمر کی نیکی کمائی ہوئی خاک میں مل جائے گی۔ پیچھے کی گاڑی نے ہارن دے کر میری توجہ مبذول کرائی۔ میں نے گاڑی کو سائیڈ پہ کرتے ہوئے پھر کابینہ اور ان کے محکموں پر نظر ڈالی۔ نواز شریف کے زمانے میں 57 وزیر اور 17 مشیر تھے۔ پتہ نہیں کس ڈر سے کلچر کی وزارت ختم کر کے، عجب اول جلول نام رکھ کر اپنے زمانے کے بقراط کو سربراہ بنا دیا گیا تھا۔ اب تو کلچر وزارت کو واپس اس کا مقام دیں اور ان اداروں کے سربراہ ایسے حوصلہ مند لوگوں کو لگایا جائے جو کسی کی دھونس میں نہ آئیں۔ ویسے سادگی کے نقشے میں، پریذیڈنٹ ہائوس میں، اپنی عزیز بشریٰ بی بی کو حور کی طرح دیکھا۔ ان کی بہت مہنگے ڈائمنڈ کی انگوٹھی کپڑوں سے میچ کر رہی تھی۔ ویسے وزیر اعظم نے بھی چھوٹی انگلی میں جو انگوٹھی پہنی ہے، میری ایک دوست بتا رہی تھی کہ وہ خوش قسمتی کا نگ ہے۔ ماشااللہ اس سے زیادہ خوش قسمتی کیا ہوگی کہ اس وقت دنیا بھر کے سربراہ، ہمارے وزیر اعظم کے مداح ہیں۔ اب بس کوئی تخت سلیمان اٹھا کر لے آئے، ہمارے مالی مسائل حل ہو جائیں، تو پھر خلق خدا راج کرے۔

وزیر اعظم کی تقریر سننے کے بعد، ہر طرف سے ایک اہم سوال تھا کیا وزیر اعظم کو اندرون ملک اور بیرون ملک تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر یاد نہیں رہی کہ وہ ہمارے بنیادی زمینی مسائل کو پہلے توجہ کے لائق سمجھتے ہیں۔ علاوہ ازیں گزشتہ 5 سالوں سے ہماری کوئی خارجی پالیسی ہی نہیں۔ یہ بھی اچھا تھا کہ ہمارے نئے وزیر خارجہ نے بریفنگ دیتے ہوئے، افسروںکو بیچ میں بولنے سے منع کیا۔ اس طرح کا رویہ اچھا تھا۔ توقع ہے کہ ہماری دوست شیریں ہیومن رائٹس منسٹری کو بھی ٹھیک کریں گی کہ جب سےیہ منسٹری بنی ہے۔ خیر کی خبر نہیں آئی۔

آخر میں ہمارے فرما نبردار عزیز فواد چوہدری نے بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال دیا ہے۔ گزشتہ تین دن سے مسلسل وزیر اعظم کا نام، منصوبے اور نجانے کیا کیا بتایا جا رہا تھا۔ مجھے بھٹو صاحب کا زمانہ یاد آیا۔ جب انہوں نے عہدہ سنبھالا تو ہماری منسٹری نے اتنے ڈھول پیٹے کہ بھٹو صاحب نے خود منع کیا۔ ویسے لطف کی بات یہ ہے کہ کوئی دو ہفتے کے بعد پھر ہماری میٹنگ ہوئی تو بھٹو صاحب نے شکایت کی، پتہ نہیں چلتا کس کی حکومت ہے، کہیں میرا نام ہی نہیں آرہا۔ اس حوالے کے علاوہ فواد چوہدری کو یاد کرائوں کہ پی ٹی وی ادیبوں کے مذاکرے، مشاعرے، غزلوں اور کلاسیکی موسیقی اور رقص کے پروگرام پیش کرتا تھا۔ اگر ضیاء الحق کے زمانے میں ففٹی ففٹی جیسا پروگرام چل گیا تو اس زمانے میں مزاج کا پھکڑا اڑایا جا رہا ہے۔ پرانے زمانے کی نوٹنکی جس میں بے ہودہ گفتگو اور اداکاری ہوتی ہےٹرانسجینڈر لوگ تو آئی ڈی کارڈ اور نوکریاں حاصل کر رہے ہیں۔ یہ کون سی مخلوق ہے جو سارے چینلز پر چھائی ہوئی ہے۔ اسلم اظہر کے بعد، نہ اچھے ڈرامے ہوئے، نہ کوئی ادبی پروگرام، اب سوال کرو تو جواب ملتا ہے۔ اول ریٹنگ دوسرے کمرشل پروگرام نہیں ملتے۔ ملک کو بیچ کر آخر قرضوں کے سوا، آپ نے اور کیا کمایا تھا۔

تازہ ترین