• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک امریکہ تعلقات ہمیشہ اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں۔ اب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے حالیہ دورہ پاکستان سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہتر ہوتے ہیں یا نہیں اس کا اندازہ ہمیں آنے والے دنوں میں ہوجائے گا؟ جنوری 2018میں امریکہ نے پاکستان کیلئے اتحادی سپورٹ فنڈ کے 30کروڑ ڈالر روک لئے تھے۔ اُس وقت سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ ہوئے۔ اب 25جولائی2018کے الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی نئی حکومت کے قیام کے بعد یہ کوششیں کی جارہی ہیں کہ امریکہ کیساتھ تعلقات برابری کی سطح پراستوار کئے جائیں۔ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو نے اپنے دورہ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان اور وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے ساتھ اپنے وفد کے ہمراہ ملاقاتیں کیں۔ وزیراعظم عمران خان کے ساتھ ملاقات میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر اعلیٰ حکام بھی شامل تھے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ پاکستان نے امریکی وفد کو واضح انداز میں باور کرا دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کیا جائے اور کولیشن سپورٹ فنڈ کی روکی جانے والی رقم کو بحال کیا جائے۔ امریکہ نے اتحادی سپورٹ فنڈ میں پاکستان کو ابھی 9بلین ڈالر ادا کرنے ہیں اور یہ بیرونی امداد نہیں ہے بلکہ یہ امریکہ کی جانب سے واجب الادا رقم ہے۔ پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا بھی کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہ رقم پاکستان اپنے وسائل سے خرچ کرچکا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ پاک امریکہ تعلقات میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کا دورہ پاکستان بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس امریکی دورے سے پہلے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے تین بار وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی اور انہیں اس حوالے سے پاکستان کی عسکری قیادت کے موقف سے آگاہ کیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ سابق ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کے دور میں نائن الیون کے خود ساختہ واقعہ کے بعد پاکستان امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی بنا۔ پاکستان کو دہشت گردی کی اس نام نہاد جنگ میں گزشتہ17سالوں میں شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ ہمارے 70ہزار سول اور فوجی جوان اس امریکی جنگ میں شہید ہوچکے ہیں اور 125ارب ڈالر کا ہمیں معاشی نقصان بھی ہوا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود امریکہ ہم سے خوش نہیں ہوا بلکہ اُس کا ڈومور کا مطالبہ جاری رہا۔ اب بھی امریکہ کا مطالبہ ہے کہ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے اور دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے۔ اگر امریکی موقف کا جائزہ لیا جائے تو یہ درست نہیں ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکہ کی لگائی ہوئی آگ و خون کی جنگ کو بڑی مشکل سے پاکستان نے واپس افغانستان میں دھکیلا ہے۔ اب افغان حکومت وہاں حالات پر قابو نہیں کرپا رہی تو اس میں پاکستان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے امریکہ پاکستان پر دبائو تو ڈال رہا ہے لیکن اسے افغان طالبان کے جائز مطالبات کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اس کیلئے امریکہ کو لچک کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہٹ دھرمی اور دھمکیوں سے معاملات حل نہیں کئے جاسکتے۔ افغان طالبان کا موقف ہے کہ امریکہ کی بچی کھچی10ہزار فوج بھی افغانستان سے نکل جائے اور وہاں اقتدار حقیقی اسٹیک ہولڈرز کے سپرد کیا جانا چاہئے تب ہی افغانستان میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ معروف امریکی صحافی ووڈورڈ نے بھی اپنی حالیہ کتاب میں انکشاف کیا ہے کہ جولائی2017میں قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا جرنیلوں اور دیگر مشیروں سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ افغان جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی ہے۔ جرنیلوں کو مخاطب کرکے صدر ٹرمپ کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان میں جنگ ہار رہا ہے۔ ہمیں افغانستان میں کتنا عرصہ مزید رہنا ہوگا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم لوگ وہاں کیا کر رہے ہو اور کتنی اموات ہوں گی؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی صدر افغانستان میں اپنی ناکامی کا ادراک کرچکے ہیں۔ امریکہ 17برس بعد افغان طالبان سے مذاکرات پر سنجیدہ نظر آرہا ہے مگر اُسے اب مستقل مزاجی کے ساتھ افغانستان میں قیام امن کیلئے راستہ نکالنا ہوگا۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ وہاں امریکی فوج سے شہری علاقوں پر بمباری کرائے اور دوسری طرف طالبان سے مذاکرات کی بات کرے۔ ایسے حالات میں افغان طالبان مذاکرات پر کبھی تیار نہیں ہوں گے۔ پاکستان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ پاکستانی حکومت طالبان حقانی گروپ پر زیادہ اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ یہ افغانستان کا اندرونی معاملہ ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کو انتہاپسندی کی روش ترک کرنی چاہئے۔ جب وہ برسراقتدار آئے تھے تو کہا جارہا تھا کہ وہ ایک اعتدال پسند انسان ہیں اور ان کے حکومت سنبھالنے سے حالات بہتر ہوں گے لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اشرف غنی سابق صدر حامد کرزئی کے نقش قدم پر چلتے رہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ افغانستان کے حالات دن بدن بگڑتے ہی چلے گئے۔ امریکہ کو افغانستان اور عراق کی جنگیں خاصی مہنگی پڑی ہیں۔ افغان جنگ میں امریکہ کی ناکامی کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات شدید خراب ہوئے۔ ایبٹ آباد آپریشن سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کی خرابی کا آغاز ہوا۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان میں امن کیلئے اپنا رول ادا کیا اور طالبان کو مذاکرات پر آمادہ کیا مگر امریکہ نے پاکستان سے بے وفائی کی۔ پاکستان کی کولیشن سپورٹ فنڈ کی رقم روک لی گئی اور بھارت کی طرف مسلسل امریکہ کا جھکائو ہوتا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کی سول اور عسکری قیادت پاک امریکہ تعلقات اور خطے کی صورتحال کے حوالے سے ایک پیج پر دکھائی دے رہی ہے۔ پاکستانی قیادت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے قومی مفاد کے تحت فیصلے کئے جائیں گے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک بار پھر ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ امریکہ کبھی کسی کا دوست نہیں ہوسکتا۔ پاکستان چونکہ سی پیک کے ذریعے چین سے جڑ چکا ہے اب وہ امریکی مفادات کی تکمیل نہیں کرے گا۔ پاکستان نے امریکہ کے سامنے اپنا موقف بھرپور انداز میں پیش کیا ہے۔ اب تحریک انصاف کی نئی حکومت کو ملکی خارجہ اور معاشی پالیسیوں کو ازسرنو مرتب کرنا چاہئے۔ امریکہ کو بھی اس بات کو تسلیم کرلینا چاہئے کہ پاکستان کے اپنے قومی مفادات ہیں اور جنوبی ایشیا میں ہونے والی تبدیلیوں میں پاکستانی حکومت امریکہ کی زیر تابع نہیں ہوسکتی۔ اگر امریکہ کو افغان سرزمین میں قیام امن کیلئے پاکستان کی ضرورت ہے تو اُسے تحکمانہ طرزعمل سے گریز کرنا ہوگا۔ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جو افغانستان میں امن کیلئے مرکزی کردار ادا کرسکتا ہے اور امریکہ کی افغان جنگ سے جان چھڑوا سکتاہے لیکن اس کیلئے امریکہ کو پاکستان کی لازوال اور بے مثال قربانیوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔

تازہ ترین