• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں عوام دشمن طاقتور اسٹیٹس کو کے مقابل عمران خان نے تبدیلی کا جو نعرہ بلند کیا تھا، وہ صرف نعرہ ثابت نہیں ہوا بلکہ اس کٹھن ہدف کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے جس عزم و عمل کا مظاہرہ کیا، وہ پوری ترقی پذیردنیا کے لئے ایک مثال بن گیا ہے۔ جناب عمران خان کی 22سالہ جدوجہد فقط اقتدار کے حصول کی روایتی کوشش سے کہیں زیادہ، بہت غالب اور جڑ پکڑے نظام بد کو شکست دینا تھی۔ یوں تو خان صاحب کو وزیراعظم بنے ابھی تین ہفتے ہی ہوئے ہیں جو ان کے اقتدار کا آغاز ہے۔ بلاشبہ اس میں بھی تبدیلی تو کتنے ہی لحاظ سے آگئی ہے، جس کا ابتدا میں ہی حقیقت پسندانہ جائزہ بھی شروع ہو جانا چاہئے، تبھی ان کی حکمرانی کی سمت بھی درست رہے گی اور اپوزیشن، میڈیا، اور جملہ رائے ساز بھی اپنا مطلوب کردار ادا کر پائیں گے۔

یہ باور کرانا ضروری ہے کہ گزشتہ دونوں منتخب حکومتیں خصوصاً تیسری نواز حکومت نے حکمرانی کا وسیع تجربہ ہونے کے باوجود، اپنی حکومت اوراس کے انداز پر ہونے والی تنقید اور اس کی درست سمت کرنے کے لئے غلطیوں کی نشاندہی اور پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید کو کھلے دل سے تسلیم کرنے یا اس پر غور کرنے کی زحمت تو ایک طرف، آغاز سے ہی اسے ’’ترقی دشمنی‘‘ سے تعبیر کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ ناقدین کو اپنا روایتی سیاسی مخالف ہی سمجھتے رہے۔ انتہائی مفید اور تعمیری تنقید کو بھی اقتدا رکے غیر آئینی مرکز، ’’شریف خاندان‘‘ نے محدود ذہن سے روایتی نااہل چاپلوسوں کو ہی اپنا حقیقی معاون جان کر تعمیری تنقید کو کوئی اہمیت نہ دی۔ ہر دو مقتدر ’’شریفوں‘‘ کے اس رویے کی تشکیل میں ان کی اپنی طمع کے علاو ہ خاندان کی نئی نسل میں خود کو ہی مستقبل میں اقتدار کے وارث ہونے کا مکمل یقین بھی بڑا ذریعہ تھا، جس کی بڑھ چڑھ کر تصدیق و توثیق، ’’شریفوں‘‘ کا اپنا تشکیل دیا گیا وہ دربار تھا جو قومی سوچ، مطلوب معاونت و مشاورت کے لئے مکمل نااہل اور حد درجہ اللے تللوں کے مقابل سچ کو بھی بادشاہ کے سامنے کہنے کی جرات سے عاری تھا۔ تاہم کچھ گھاگ ایسے دیکھے گئے جنہوں نے نظر آتے ڈیزاسٹر کی نشاندہی انتباہ کے طور کرنے کے بجائے لو پروفائل میں اپنی ’’ذاتی رائے‘‘ کی آڑ میں غلطیوں کی نشاندہی کسی طور ریکارڈ کرا کر فوراً ہی درباری انداز کی طرف آگئے۔ تاہم سینیٹر ظفر شاہ اور سینیٹر بیگ جیسے حق گو پارٹی میں رہتے ہوئے سچ کی شمع پکڑے رہے، لیکن پارٹی میں کم تر ہوگئے۔ نتیجہ، تیسری مرتبہ ادائیگی کفارہ اور اصلاح کے لئے ملا اقتدار پہلے سے زیادہ بڑی دھماچوکڑی مچاتا، اڈیالہ پر ختم ہوا۔

یہ سب کچھ فقط پاکستان کی سیاسی تاریخ کا عبرتناک باب نہیں۔ پاکستان کے آنے والے ہر حکمران کے لئے وہ سبق ہے جسے حصول اقتدار کی کوششوں کے لازمے کے طور پر پڑھنا بھی ہوگا اور اقتدار ملنے پر اس سے فائدہ بھی اٹھانا ہوگا۔

وزیراعظم عمران خان کے اقتدار میں آنے کا کیس بہت مختلف اور غیر روایتی ہے۔ وہ طبعاً اور ایام جوانی سے غیر ضروری اور عذاب بن جانے والی دولت کی طمع سے آزاد ہیں۔ عمران کی سوچ سچی عوامی نہ ہوتی اور وہ روایتی حکمرانوں کی طرح چمک دمک کے احساس کمتری میں مبتلا ہوتے، ان میں کنبہ پروری کا عنصر ہوتا اور اگر اقتدار بھی اولاد میں بانٹنے کی ذہنیت کے حامل ہوتے تو بائیس کیا چوالیس سال کی جدوجہد میں بھی وہ پاکستانی طرز کے (ٹوٹتے) طاقتور اسٹیٹس کو کو پچھاڑ کر اقتدار حاصل نہ کرسکتے۔

وزیراعظم عمران خان کی دیانت ان کے اقتدار کی سچی اور بلاغرض جدوجہد کی طرح ہی مصدقہ اور مخالفین میں بھی تسلیم شدہ ہے۔ عوام ہی ان کی طاقت کا سرچشمہ نہیں ہیں۔ وگرنہ عوام کو تو خود عمران صاحب نے ہی 22سال میں بمشکل جگایا، لیکن اب تو واقعی جگا دیا، وہ مطلوب تبدیلی برپا کرنے کے لئے واقعی ان کے اقتدار کا سرچشمہ بن سکتے ہیں۔ لیکن کیا عوام الناس کی فقط تائید و حمایت ان کا بڑھتا شعور، احتساب کے لازمے کے ساتھ حقیقی جمہوریت کا نتیجہ خیز نظر آتا احتسابی عمل نئی قیادت کی نیت و اخلاص ہی سے وہ مطلوب تبدیلی برپا ہو جائے گی جو عمران خان کے خواب سے قومی یقین میں تبدیل ہو چکی ہے؟

امر واقع یہ ہے کہ جناب عمران خان کی منفرد و مطلوب قیادت میں تحریک انصاف نے جو انتخابی کامیابی حاصل کی ہے، وہ ملک میں پرامن سماجی سیاسی و جمہوری انقلاب برپا کرنے کے لئے ناکافی ہے۔ سب سے بڑی پارٹی کے غیر منظم اور اندرونی بکھرے نظام کی ہے، جن سے ہونے والے نقصانات اور کوتاہیوں کو صرف جناب عمران خان کی دیانت دارانہ و فقیری طرز کی شخصیت قابو کرتی رہی، ایسا نقصان بھی بے حد ہوا جس کا سبب اسٹیٹس کو کا غلبہ اور بے پناہ طاقت تھی۔ جسے پارٹی قیادت اپنی بے لچک چلی آتی کمٹمنٹس میں لچک پیدا کرتی ’’لوہے کو لوہا ہی کاٹ سکتا ہے‘‘ کی حکمت اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی، اس کے باعث پارٹی کا بڑا اثاثہ مایوس ہو کر قیادت سے اختلاف کرتے ہوئے پچھلی صفوں میں چلا گیا، لیکن ’’اسٹیٹس کو‘‘ کے مخالف اور محدود درجے پر خان صاحب کا حامی ہی رہا، پارٹی اقتدار ملنے پر اس اثاثے سے محروم ہو چکی تھی۔ سو، یہ کمی کھل کر سامنے آگئی، کہ نہ تو پارٹی کے تبدیلی کے ایجنڈے کا ہوم ورک ہوا، کوئی شیڈو کیبنٹ موجود نہ تھی۔ پنجاب کا وزیراعلیٰ اپوزیشن لیڈر، خیبرپختونخوا کی انتظامیہ، وفاقی کابینہ کی تشکیل کے جس تکلیف دہ عمل سے جناب وزیراعظم گزرے ہیں وہ پھر بھی ایٹ لارج بمطابق نہیں ہوئی۔

اس پس منظر کے باوجود ہماری نئی ، عوام دوست اور حقیقی معنوں میں دیانت دار اور مخلص قیادت کے پلس (جو اب شہرہ آفاق ہورہے ہیں) کے باعث پہلی عمران حکومت کا آغاز آئیڈیل حد تک اطمینان بخش ہے۔ ایسے کہ:

1۔ پاکستان تنہائی کا طعنہ سہتے سہتے ہمسایوں اور اہم ترین ممالک کے لئے، دو طرفہ تعلقات کے حوالے سے ناگزیر ہوتا معلوم دے رہا ہے، ایسا ہوا میں نہیں عملی سفارتی اقدامات سے ہورہا ہے۔

2۔ قطع نظر اس کے کہ ابھی تک حکمران پارٹی کے ہاتھ میں اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے لئے کوئی پالیسی ڈاکومنٹ نہیں ہے۔ جلدی جلدی کابینہ کے اجلاس تو ہونا شروع ہوگئے اور اجلاس برائے اجلاس ہی نہیں۔ ان میں اقتصادی بحران سے نکلنے، پانی کی قلت اور انرجی بحران کے حل، کڑے احتساب کے عملی اقدامات، چائلڈ لیبر کے خاتمے، یکساں نظام تعلیم متعارف کرانے، ملک کی لٹی دولت بیرون ملک سے واپس لانے، نیا بلدیاتی نظام متعارف کرانے اور انصاف کی جلد اور سستی فراہمی کے لئے عدالتی اصلاحات لانے جیسے انقلابی فیصلے بھی ہوگئے، اور ٹاسک فورس کی شکل میں اقدامات بھی ہوگئے۔

3۔ عشروں سے پیدا ہوا اور الیکشن 18تک تشویشناک حد تک بڑھتا سول، ملٹری تعلقات میں تلخی یا خلا کا مسئلہ جسے نواز حکومت نے دانستہ پیدا کیا اوراپنے تیسرے دور میں تشویش ناک حد تک بڑھا دیا، وزیراعظم عمران خان کی کسی بڑی شعوری کوشش یا مخصوص اقدامات کے بجائے، فقط ان کی قومی سوچ، قلندرانہ مزاج، ریاستی اداروں کے باہمی ربط کے شعور اور افواج پاکستان سے محبت سے چند روز میں ہی، اتنی خوش اسلوبی سے حل ہوگیا کہ ناصرف پوری قوم اس پر اب انتہائی مطمئن ہے بلکہ پوری دنیا کو ایک واضح پیغام گیا ہے کہ پاکستان کی منتخب حکومت اور افواج کا گہرا اور آئینی ربط قائم ہونے سے، سول، ملٹری سیٹ اپ کے ایک پیج پر نہ ہونے کے تاثر کو پیدا کر کے اسے یقین میں تبدیل کرنے کا وہ پروپیگنڈہ جو بیرونی دشمن تو برسوں سے کررہے تھے اور جس میں خود ہماری غیر ذمہ دار حکومت (تک) بھی شامل ہوگئی۔ وزیراعظم عمران خان کے جی ایچ کیو کے دو وزٹ سے ہی مکمل زائل ہوگیا۔

4۔ پاکستانی حکومتی کلچر جو عوام کے لئے تو حد درجہ مایوسی اور بیرون ملک شرمندگی کا باعث تھا جناب عمران خان کے حلف اٹھاتے ہی نہیں، اٹھانے پر ہی تبدیل ہونا شروع ہوگیا۔ اس میں مطلوب تبدیلی ہوتی نظر آرہی ہے۔ تین ہفتے کی یہ کمائی شاندار اور اطمینان بخش سب سے بڑھ کر پروپیپل ہے۔

اس کامیاب آغاز کے باوجود وزیراعظم عمران خان ہرگز یہ نہ بھولیں کہ قوم اور ملک بلاشبہ ان کی شخصیت کے مثبت پہلوئوں کی بڑی بینی فشری بن گئی اور بنے گی، لیکن یہ ہی سب کچھ نہیں انہیں پارٹی کو مستحکم، منظم اور اہل بنانا ہوگا اور پارٹی سے باہر بطور وزیراعظم قومی ترقی کا sustainableدھارا تشکیل دینے کے لئے زیادہ سے زیادہ Participatory approachہر حالت میں اختیار کرنا پڑے گی۔ وما علینا الالبلاغ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین