• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

راحت اندوری نے کہا تھا

نئے کردار آتے جا رہے ہیں

مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے

یہ اس ملک کا مقدر نہیں،لیکن اس ملک کے مقدر میں ایسے سیاستدان ضرور ہیں، جو خود کو مقدر کا سکندر تو کہتے ہیں،لیکن اس دعوے کو ثابت کرنا ان کےاپنے مقدر میں نہیں،بنابریں یہ عوام کا مقدر کیا سنواریں گے!یوں تو وزیر اعظم صاحب کل تک بقول بشیر بدر فرمارہے تھے

ہاتھ میں چاند جہاں آیا مقدر چمکا

سب بدل جائے گا قسمت کا لکھا جام اٹھا

لیکن جمعہ المبارک کو قوم سے انتباہی اظہار سے تو ایسا لگتا ہے کہ گویا وہ چند روز کی حقیقت سے ہی یہ جان گئے ہیں کہ

عشق نے منصب لکھے جس دن مری تقدیر میں

داغ کی نقدی ملی، صحرا ملا جاگیر میں

خیر جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نئی حکومت کو آئے ہوئے ابھی چند ہی روز گزرے ہیں ، اس لئے تنقید ہنوز درست نہیں ،تویہ صائب بھی ہے اور وقت کا تقاضا بھی ...لیکن اس ناٹک کے دوسرےکردار ولن یعنی نام نہاد اپوزیشن نے جس کے پاس کارکردگی ثابت کرنے کیلئے طویل دورانیہ تھا، اس قدرجلد خود کو بے نقاب کردیا ہے کہ’’پرانے بابوں‘سے اتنی جلدی یہ اُمید نہیں تھی۔ہم جیسے چھوٹے لکھاری بھی بار بار اس جانب اشارہ کرتے رہے ہیں کہ اتحاد کا موزوں وقت قبل از انتخابات تھا، لیکن اتحاد میں شامل محمودخان اچکزئی کے ماسوا ہر ایک کو کچھ نظر آرہا تھا، اس لئے وہ کسی اتحاد کے چکر میں کیوں کر پڑتے؟ہم اس بحث میں جانا نہیں چاہتے کہ اتحادی رہنما اُس وقت ایک دوسرے کو کس کس طرح کے’ مقدس‘القابات سے نواز رہے تھے ،ہاں یہ ضرور کہنا چاہتے ہیں کہ اگر ان نام نہاد تجربہ کار سیاستدانوں کو یہ ادراک ہی نہ تھا کہ کل کا نقشہ کیا ہوسکتا ہے ، تو پھر اُن سے اب رہبری کی توقع کس بنیاد پر کی جائے! جیسا کہ ہم جیسے کم علموں نے بھی لکھا کہ یہ ایک دوسرے پر اعتماد نہیں رکھتے اور یہ کہ ہر ایک کسی نہ کسی زلفِ یار کے خم میں گرفتار ہے ،آپ نے دیکھا کہ وزارتِ عظمیٰ،صوبوں میں حکومتوں کی تشکیل سے لیکر صدر مملکت کے انتخاب تک اس نام نہاد اپوزیشن نے بیچ چوراہے میں ایک دوسرے پر اعتماد و اعتبار کا جامہ کس بے دردی سے تار تار کرلیا ۔تو عوام کس بنیاد پر ان پر بھروسہ کریں؟ جب یہ ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہیں تو عوام کس منطق کے تحت ان کا ساتھ دیں؟

کہا جاتا ہے کہ اتحاد وں کا بننا تو سیاست کا حصہ ہے اور ماضی میں بھی اتحاد بنتے رہے ہیں۔یہ درست ہے ، لیکن یہ یاد رہے کہ ماضی میں بننے والے ہر اتحاد کا نصب العین ہوتا تھا،وہ اتحاد بام مراد کو پہنچا،ہائی جیک کرلیا گیا ،کودتا ہوا،یااس کے نتیجے میں مارشل لا ملک پر مسلط ہوا،اور پھر اس عفریت کے خلاف مزید اتحاد وجود میں آئے۔لیکن بہرصورت یہ اتحاداصولوں پر استوارہوتے تھے۔جیسا کہ کہا گیا کہ نتائج خواہ عین مقصد کے تحت نہیں آئے یا قطعی ہدف کے برعکس برآ مد ہوئے ، لیکن وہ اصول ،مقاصد ، نصب العین پہلے سے طے کرتے تھے ، تب کہیں جاکر کوئی اتحاد معرض وجود میں آتا۔موجودہ اتحاد کا کوئی نصب العین نہیں،صدارتی انتخابات میں اپوزیشن کےباہم مدمقابل آنے اور ہارنے کے بعد محترمہ مریم اورنگ زیب فرماتی ہیں کہ ہمار ا اتحاد تو دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف ہے۔دوسرے معنوں میں تحریک انصاف کو تو ویسے ہی صوبوں سے لیکر وفاق میں حکومتیں بنانا تھیں اور یہ کہ صدر مملکت تو ان کا ہی آنا تھا۔اگر محترمہ کی یہی مرادہے تو پھر قوم کے سامنے سارے’’ناٹک‘‘کی ضرورت ہی کیا تھی؟۔اے این پی کے بے لاگ ترجمان ایمل ولی سے جب ایک چینل میں دوران انٹرویو پوچھا گیا کہ کیا آپ عوام کو حکومت کے خلاف سڑکوں پر لے آئیں گے اور مزاحمتی تحریک کی کامیابی کے کیا امکانات ہیں؟تو اے این پی کے مخصوص انداز میں یہ بے لاگ ترجمان بے لاگ جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’ہمیں شہباز شریف پر یہ یقین نہیں کہ وہ اس سلسلے میں کوئی کردار ادا کرسکیں،ہاں نوازشریف کی رہائی پر ایسی تحریک چل سکتی ہے۔لو کرلو گل....جماعت اسلامی تو اعلانیہ کہہ چکی ہے کہ وہ سڑکوں پر آنے کے حق میں نہیں۔سبحان اللہ !سڑکوں پرآپ آنے کے حامی نہیں اور شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ بھی نہیں دیتے۔تو پھر اس اتحاد کی زینت آپ کس خا طر بنے ہیں۔یہ تو ظاہر ہے کہ مذاکرات سے تو موجودہ حکومت کو آپ پورے ملک میں تو کیا ،ایک حلقے میں بھی دوبارہ انتخابات کیلئے مجبور کرنے سےرہے۔

موجودہ اپوزیشن کے تضادات تو اب ایک داستان ہیںہی ، لیکن اس کی کامیابی کا دور دور تک امکان اس لئے نہیں ہے کہ یہ اتحاد نصب العین سے عاری شکست خوردگان کا وہ کلب ہے جس میں نشست و برخاست کے ماسوا یہ کچھ کر ہی نہیں سکتے۔جو سیاسی کارکن اپنی اپنی جماعتوں سے وابستگی کی وجہ سے یہ کہتے ہیں کہ ماضی کی طرح یہ بھی ایک جمہوری اتحاد ہےیا دھاندلی کے خلاف اتحاد ہے۔تو براہ کرم وہ اپنی یادداشت تازہ کرلیں کہ 1977کے قومی اسمبلی کے7مارچ کو ہونے والے انتخابات میں جب قومی اتحاد نے دھاندلی کا الزام لگایا، تو سب سے پہلے10مارچ کو ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔اور یہاں موجودہ اپوزیشن نے نہ صرف یہ کہ کسی بھی انتخاب کا بائیکاٹ نہیں کیا بلکہ ’’موجودہ حکومت‘‘ حکومت کے ہونے والےضمنی انتخابات میں بھی کودنے والے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے بائیکاٹ کے بعد قومی اتحاد نے وہ رنگ دکھایا کہ بھٹو صاحب جیسے ضدی سیاستدان دوبارہ انتخابات پر مجبور کردئیے گئے۔ عام طور یہ بات کہی جاتی ہے کہ جنرل ضیاالحق اس لئے میدان میں کود گئے کہ بھٹو صاحب دوبارہ انتخابات کے انعقاد پر کسی صورت راضی نہیں ہورہے تھے،یہ لغو کہانی ہے۔ یہ بات طشت از بام ہوچکی ہے کہ بھٹو صاحب اور قومی اتحاد معاہدے کے قریب تھے کہ مارشل لا لگا دیا گیا ۔پروفیسر غفور احمد مرحوم اپنی کتاب’’پھر مارشل لا آگیا‘‘ میں پوری تفصیلات قلمبند کرچکے ہیں کہ بھٹو صاحب اُن کی ٹیم اور قومی اتحاد کے رہنمائوں میں کئی روز تک مذاکرات کیلئے نشستیں ہوتی رہیں ، اس کتاب کے صفحہ 256پر مرحوم رقم طراز ہیں ’’اس رات اگر (مارشل لگانے کا)قدم نہ اُٹھایا جاتا تو غالب امکان تھا کہ5جولائی (پیپلزپارٹی کی حکومت اور قومی اتحاد)میںمعاہدہ کی تکمیل کی تاریخ ہوتی‘‘

جہاں تک دیگر اتحادوں کی تاریخ ہے جیساکہ ایوبی آمریت کے خلاف ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی کے تحت عظیم تحریک کا چلنا،اپریل 1967ء کو پانچ جماعتوں کا اتحاد ’’پاکستان جمہوری تحریک‘‘ معرض وجود میں آیا، بعد میں اس کا نام بدل کر پاکستان ڈیموکریٹک ایکشن کمیٹی رکھ دیا گیا۔ بھٹو صاحب کے دور میں جمہوریت کے نام پر فسطائی ہتھکنڈوں کے خلاف متحدہ محاذ کی جدوجہد۔ 1981ء میں جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف ایم آر ڈی کا قیام۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف کے لگائے جانے والے مارشل لا کے خلاف جمہوری جماعتوں کا اے آر ڈی کے پلیٹ فارم پر جمع ہونا۔ ان تمام اتحادوں کا نصب العین تھا، پروگرام تھا، اصول تھے۔اب ان مثالوں کو موجودہ ایسے اتحاد پر کیونکر منطبق کیا جاسکتا ہے جس کے رہنمائوں میں باہمی اعتماد تو کجا ،ایک دوسرے کے خلاف جن کی بیان بازیاں قلابازیاں اور بغض و عناد سرِبازار ہیں.... ایسے اتحاد تارعنکبوت سےبھی کمزور ثابت ہوتے ہیں۔

تازہ ترین