• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’قحط کا خطرہ ہے۔ ڈیموں کے لیے ڈالر دیں۔ پرانے قرضے واپس کرنے مشکل ہیں۔ نئے قرضے کوئی نہیں دے گا۔ نئے ڈیم نہ بنے تو آئندہ سالوں میں پینے کے لیے پانی ہوگا۔ ہماری زمینیں بنجر ہوجائیں گی۔ آزادی کے وقت ہر پاکستانی کے حصے میں 5600 کیوبک میٹرز پانی آتا تھا، آج ایک ہزار رہ گیا ہے۔ کسی بھی ملک میں 120 دن کا پانی ذخیرہ ہونا چاہیے۔‘‘ یہ الفاظ پاکستان کے وزیراعظم جناب عمران خان صاحب کے ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے قوم سے خطاب سے اخذ کیے گئے ہیں۔ قارئین! پاکستان میں گزشتہ 15 سالوں میں پانی کی کمی نے ملک کو شدید خطرات سے دوچار کر دیا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 180 ممالک کی فہرست میں 36 ویں نمبر پر ہے جہاں پانی کی کمی کی وجہ سے حکومت، معیشت اور عوام تینوں شدید دبائومیں ہیں۔پاکستان میں 60سال پہلے فی فرد 50 لاکھ لیٹر

پانی دستیاب تھا آج یہ مقدار 10لاکھ لیٹر رہ گئی ہے۔1980ء میں فی کس دستیاب پانی تین ہزار کیوبک سے کم ہوکر 1200 کیوبک میٹر رہ گیا۔ ماہرین کہتے ہیں اگر پانی کی مسلسل کمی اسی طرح جاری رہی تو آئندہ 10برسوں میں پانی کی دستیابی فی کس 500 کیوبک میٹر رہ جائے گی۔یہ المیہ بھی اپنی جگہ موجود کہ زیر زمین پانی کی سطح بتدریج کم ہو رہی ہے۔ اس سطح میں ہر گزرتے سال کے ساتھ 2 میٹر کمی واقع ہو رہی ہے۔اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو اگلے دس برسوں میں پاکستان کے متعدد شہروں میں پانی کی سطح اتنی نیچے چلی جائے گی کہ پانی ملنا ناممکن ہو جائے گا۔اس وقت پاکستان کے تین بڑے شہر خاص طور پر فالٹ لائن پر ہیں۔ پہلے نمبر پر کراچی، دوسرے نمبر پر لاہور اور تیسرے نمبر کوئٹہ۔ کراچی پاکستان کی شہ رگ ہے۔ پورے ملک کی معیشت اس شہر پر کھڑی ہے۔ اڑھائی تین کروڑ لوگوں کا یہ شہر پانی کی بوند بوند کو ترس رہا ہے۔ آپ انتظامی غفلت اور بے حسی کا اندازا اس امر سے لگا لیجئے کہ کراچی ساحل سمندر پر واقع ہے مگر اس کے باوجود پانی کو ترس رہا ہے۔ ہر سال کراچی کے باسی اربوں روپے کا پانی خریدتے ہیں۔ سی پی آر ڈبلیو آر کی رپورٹ بتاتی ہے 2025ء تک ملک بھر میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول تک پہنچنے کا خدشہ ہے۔ جس تیزی سے یہ بحران بڑھ رہا ہے خدشات ہیں ہمارے لہلہاتے کھیت چٹیل میدان ہو جائیں گے۔ہم زرعی ملک ہیں اور آپ سوچیں جب کھیتوں سے غلہ اگنا بند ہوجائے گا تو پھر 22کروڑ عوام کا کیا حال ہوگا۔ قحط سے اللہ محفوظ رکھے لیکن بحیثیت حکمران، بحیثیت قوم ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں۔ ہم اگر اپنی حالت خود بدلنے کے لیے پرعزم نہیں ہوں گے تو قدرت ہم بے حسوں کو کیونکر نوازے گی ۔ اس مسئلے کو ایک مثال سے سمجھیں۔ کیپ ٹائون جنوبی افریقہ کا دولت مند شہر ہے۔ یہ ملک کا دارالحکومت بھی ہے۔ اس کے ساحل پر بھی وسیع و عریض سمندر ہے۔ یہ 45 لاکھ کا شہر ہے مگر یہ شہر بھی امیر اور غریب دوطبقات میں منقسم ہے۔ امیر لوگوں کی زندگی پرکشش اور پر آسائش تھی مگر نچلا طبقہ پسا ہوا تھا۔ شہر کے 80فیصد پانی پر بڑوں کا قبضہ تھا۔ 80فیصد غریب عوام صرف 20فیصد پانی استعمال کر پاتے تھے اور پھر اس شہر کو خشک سالی نے آن گھیرا۔ آبی قلت نے شہریوں کی زندگی اجیرن کر دی۔ چشمے، ندی، نالے اورجھیلیں خشک ہونے لگیں۔ قدرت نے سب سے بڑی نعمت واپس لینا شروع کر دی۔ کیپ ٹائون کو پانی فراہم کرنے والے 6بڑے ذخیرے جوہڑ بن گئے۔ ملک میں واٹر ایمرجنسی لگا دی گئی۔ انتظامیہ حرکت میں آئی، نچلے طبقے کو پانی فراہمی کے لیے آبی مراکز قائم کر دئیے گئے۔سوئمنگ پول، باغبانی اور گاڑیوں کی دھلائی جرم بن گیا۔ بڑے بڑے ہوٹلز اور ریستوران میں برتنوں کی ڈش واشنگ میں ضائع ہونے والے پانی کو بچانے کے لیے ڈسپوزبل برتنوں کا استعمال لازم ٹھہر گیا۔ سمندر کے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لیے منصوبہ سازی میں تیزی آ گئی۔ آلودہ پانی کو صاف کرنے کے لیے جدید طریقے متعارف کرا دئیے گئے اور پورے شہر میں پانی ضائع کرنے والے کو جرمانہ اور سزا بھگتنا ہوگی۔ یہ وہ فوری اقدامات ہیں جن سے کیپ ٹائون قحط سالی سے بچ گیا ہے۔ ابھی بھی شہر کو اور اس کی آبادی کو بحال رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کی ضرورت ہے لیکن حکومت نے فوری اقدامات سے زندگی کو بحال کر دیا ہے ۔ اب آپ اس کے مقابلے میں اپنی حکومتوں اور ان کی پالیسیوں کو دیکھ لیجئے۔ کالا باغ ڈیم 1984ء سے فائلوں میں زیرتعمیر ہے مگر عملی طور پر 34سال گزر گئے اور ایک فٹ پانی ذخیرہ نہ کیا جا سکا۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے بارشوں میں 60فیصد کمی واقع ہو چکی ہے۔ بارشیں کم ہونے سے زمین کا درجہ حرارت بڑھ گیا ہے۔ اس درجہ حرارت کے بڑھنے سے گلیشیئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں جس کی وجہ سے ہماری زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں یا پھر ڈیم اور جھیلیں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے ہمارے یہاں ہر سال مون سون میں سیلاب آتا ہے۔ اس سیلاب سے لاکھوں لوگوں بے گھر ہوجاتے ہیں۔ کئی کئی لاکھ ایکڑ زمین سیلابی پانی کی نذرہو جاتی ہے لیکن ہمارا کوئی محکمہ، کوئی حکومت اور کوئی ادارہ اس پانی کو ذخیرہ کرنے کا آج تک عملی قدم نہ اٹھا سکا۔ یہ طوفان امڈتا ہے تو شہر کے شہر اور دیہات کے دیہات کو اپنے ساتھ بہا کر سمندر میں گر جاتا ہے اور ہم سالہا سال اس تباہی کی بحالی میں لگا دیتے ہیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا۔ ہمیں فوری اور ہنگامی طورپر اس بحران سے نمٹنے کا حل ڈھونڈا ہوگا۔ پاکستان میں جس تیزی سے پانی کم ہو رہا ہے اس سے یہ خدشات بڑھ گئے ہیں کہ پانی کی یہ قلت ایٹمی جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ہمارا وہ ازلی دشمن جو ہمہ وقت ہمیں زیر کرنے پر تلا ہے۔ یقین کیجئے اسے اب ہم پر حملہ کرنے، جنگ مسلط کرنے کی ضرورت ہی نہیں، بھارت عالمی معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہمارے پانی پر قابض ہو چکا ہے۔ ہمارے دریائے راوی، چناب اور ستلج خشک ہو چکے ہیں اور ہم ابھی تک ازلی دشمن کے ان ناپاک منصوبوں کا توڑ کرنے سے ہچکچا رہے ہیں۔ ہمیں فوری طو رپر ڈیمز بنانا ہوں گے۔ بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنا ہوگا، پانی کی ری سائیکلنگ کا پروگرام لانچ کرنا ہوگا اور کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے سمندر کے کھارے پانی کو میٹھا کرنے کے منصوبے شروع کرنا ہوں گے۔ اگر ہم نے پانچ سات سال مزید اسی غفلت میں گزار دئیے تو خدانخواستہ اس سرسبز پاکستان کوریگستان بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ اندریں حالات پاکستان کی عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار صاحب نے اس کا ادراک کیا اور ہنگامی بنیادوں پر دو نئے ڈیموں دیامر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا فوری نہ صرف اعلان کیا، بلکہ عملی اقدامات کرتے ہوئے فنڈز کے لیے اکائونٹ بھی قائم کردیے۔ چیف جسٹس کی پکار پر پاکستان کی مسلح افواج اور پاکستانی عوام نے لبیک کہا، چنانچہ پاکستان کی تینوں مسلح افواج نے نئے ڈیموں کی تعمیر کے لیے دو دو دن کی تنخواہ دینے کا اعلان کیا۔ اسی طرح پاکستانی عوام نے بھی دل کھول کر نئے ڈیموں کی تعمیر کے لیے چیف جسٹس کے قائم کردہ اکائونٹ میں عطیات دیے۔ اس اکائونٹ میں اب تک یعنی صرف دو ماہ میں 1 ارب 80 کروڑ روپے عوام نے جمع کروائے ہیں۔ کوئٹہ کے ایک معصوم بچے نے 10 ہزار کا چیک دے کر مثال قائم کی ہے۔ اب پاکستان کے نئے وزیراعظم جناب عمران خان صاحب نے بھی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ڈیموں کی تعمیر کے لیے فنڈز دیں۔ انہوں نے اوور سیز پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ کم از کم ایک ہزار ڈالر دیں۔‘‘ جناب وزیراعظم کے اعلان کے بعد پوری قوم نے دل کھول کر بڑی بڑی رقوم دینے لگی ہے۔ ایک چینل کے مالک نے ایک لاکھ ڈالر، بحریہ ٹائون کے مالک نے پانچ کروڑ روپے، کئی اراکین قومی اسمبلی نے ایک ایک ماہ کی تنخواہ دینے کا عہد کیا ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے۔ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے۔ تاریخ شاہد ہے جب بھی کسی نے ملک و قوم کے لیے نجات دہندہ بن کر کسی بھی قسم کی اپیل کی تو قوم نے اسے مایوس نہیں کیا۔ اس مرتبہ بھی قوم مایوس نہیں کرے گی۔ ویل ڈن وزیراعظم صاحب! آپ قدم بڑھائیں، پوری قوم آپ کے ساتھ ہے۔

تازہ ترین